عالمی یوم انسانی حقوق منانے سے زیادہ احترام آدمیت کا جذبہ اہم

غزہ کے بلکتے بچوں کی چیخوں سے انسانیت شرمسار پھر بھی دنیا خاموش!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک عزیز میں اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے کی ہر دن نئی کوشش ۔ روک تھام ضروری
ہر سال کی طرح امسال بھی 10 دسمبر کو عالمی سطح سے لے کر ملکی سطح تک انسانی حقوق کے تحفظ کی گونج سنائی دی۔ حقوق انسانی کے عنوان پر کانفرنسیں اور سیمینار منعقد ہوئے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے چل رہا ہے جب اقوام متحدہ میں 1948 میں انسانی حقوق کا اعلامیہ منظور ہوا تھا۔ یہ اعلامیہ ایک ایسی دستاویز ہے جو انسانی حقوق کے تحفظ کے ضمن میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد 217 کے ذریعہ اسمبلی کے 183ویں اجلاس عام میں اسے منظور کیا گیا تھا۔ عالمی انسانی حقوق کا منشور 30 دفعات پر مشتمل ہے۔ اسی وقت یہ طے کیا گیا تھاکہ ہر سال 10 دسمبر کو "عالمی یوم انسانی حقوق” منایا جائے گا۔ اس دن کے حوالے سے گز شتہ 76 سالوں سے یوم انسانی حقوق مناتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا جاتا رہا کہ ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور کسی کے ساتھ بحیثیت انسان کوئی نا انصافی نہیں ہوگی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 10 دسمبر 1948 کو انسانی حقوق سے متعلق جس بین الاقوامی منشور (CHARTER) کا اعلان کیا گیا اس کی سب سے پہلی دفعہ یہ ہے کہ "تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں لہٰذا وقار اور حقوق کے معاملے میں سب مساوی ہیں” موجودہ عالمی اور ملکی حالات کے تناظر میں انسانی حقوق کے اس اعلامیہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ سوال ذہن میں گردش کرتا ہے کہ کیا جس عزم اور حوصلہ کے ساتھ انسانی حقوق کے اعلامیہ کی اجرائی عمل میں آئی تھی اسی جذبہ کے ساتھ اس پر عمل کیا گیا؟ کیا انسانی حقوق کے تحفظ میں حکومتوں نے اپنا انقلابی رول ادا کیا؟ کیا بحیثیت فرد کے انسان کی آزادی محفوظ ہے؟ کیا دنیا سے ناانصافی اور ظلم کا خاتمہ ہوگیا؟ ظالم حکم رانوں کی چیرہ دستیوں سے غریب عوام کو چھٹکارا مل گیا؟ اور پھر کمزور ملکوں اور قوموں کو طاقت ور ممالک کیا دبوچ نہیں رہے ہیں؟ مظلوموں پر کیا اب بھی اگ و آہن کی بارش نہیں ہو رہی ہے اور کیا دنیا خاموش تماشائی بن کر کھلی جارحیت کو نہیں دیکھ رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو انسانی حقوق کے دعوے داروں سے کیے جانے چاہئیں تاکہ انہیں یہ احساس ہو کہ محض انسانی حقوق کا نعرہ لگا دینے یا ایک مخصوص دن انسانی حقوق کی عظمت کو بیان کر دینے سے انسانی حقوق کا تحفظ نہیں ہو جاتا۔انسانی حقوق کے تحفظ اور اس کی پاسداری کے لیے ایک منظم، طویل اور جاں گسل جدوجہد ناگزیر ہے تاکہ انسانی حقوق سے استفادہ کرتے ہوئے ہر شخص اطمینان و سکون کی زندگی گزار سکے۔
آج دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کے جو روح فرسا واقعات دیکھے جا رہے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ظلم و بربریت کی آندھی اور زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اپنے اقتدار کو دائمی بنانے کی فکر میں حکومتیں خونخوار درندے بن کر انسانی حقوق پر ڈاکے ڈال رہی ہیں۔ حکومت چاہے جمہوری ہو کہ شاہی اندازِ حکم رانی، ان میں کوئی زیادہ فرق نہیں پایا جا رہا ہے۔ اسرائیل ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کرکے بھی شرم سار نہیں ہے۔ اس کی پشت پر سوار امریکہ اور دیگر ممالک بھی اس کی اندھی تائید میں ابھی بھی لگے ہوئے ہیں اور ہر طرح سے اس کی مدد کر رہے ہیں۔ امریکہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا چیمپین سمجھتا ہے۔ اس نے ظلم و جبر کی جو داستان رقم کی ہے وہ تاریخ کا ایک خونی باب ہے۔ آج پھر نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالی سے انسانیت کانپ رہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کی آخر معنویت کیا ہے۔
اقوام متحدہ جس نے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ عالمی انسانی حقوق کے منشور کو جاری کیا تھا وہ بھی غاصب طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بار بار اسرائیل سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی ظالمانہ کاروائیوں سے باز آجائے اور فلسطینیوں پر مظالم ڈھانا بند کردے۔ لیکن اسرائیل عالمی ادارہ کے سربراہ کی عاجزانہ درخواست کو رد کرتے ہوئے اپنی دہشت گردی کے سلسلہ کو اب بھی پوری قوت سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ فلسطین پر اپنے ناجائز قبضہ کو برقرار رکھتے ہوئے اب وہ شام کے علاقوں پر بھی قابض ہو رہا ہے۔ اس کے اس توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف دنیا کا کوئی ملک اپنی زبان کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اسرائیل کی اس جارحیت کے خلاف دنیا کوکیوں اکٹھا نہیں کرتا؟ نام نہاد دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر امریکہ اور اس کے حواریوں نے افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی لیکن آج اسرائیل کی دہشت گردی اور اس کی مجرمانہ کارستانیوں پر پردہ ڈالنے کی مذموم حرکتیں ان ممالک کی جانب سے کی جا رہی ہیں جو ہمیشہ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں۔ ان کے نزدیک انصاف کے الگ الگ پیمانے ہیں۔ اپنے حلیف کی جانب سے کھلی جا رحیت کا بھی ارتکاب ہو تو اس سے آنکھیں موند لی جاتی ہیں اور اس کے ظلم و جبر کا کوئی نہ کوئی جواز تلاش کرلیا جا تا ہے۔ لیکن مظلوم اور معصوم انسانوں پر ہونے والے بدترین مظالم پر بھی وہ اپنی بے ضمیری کا ثبوت دیتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت اقوام متحدہ حقوق انسانی کی تنظیمیں، جمہوریت اور آزادی کے دعوے دار لوگ غزہ کی المناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے بھی اسرائیل کی بربریت کی کھلے الفاظ میں مذمت کرنے سے شرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ دہرا پن انسانی حقوق کے تحفظ کے سارے دعوؤں کی قلعی کھول دیتا ہے۔ اسرائیل، غزہ کے نہتے عوام کو جن میں عورتیں اور بچے بھی ہیں مسلسل اپنی بمباری کا نشانہ بنا رہا ہے۔ 8 اکتوبر 2023 سے اسرائیل کی یہ ظالمانہ فوجی کارروائی جاری ہے۔ لندن کے ایک طبی جریدہ "لانسٹ” کے مطابق اسرائیل کی بمباری کے نتیجہ میں جولائی 2024 تک ایک لاکھ چھیاسی ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ اسرائیل کے اس بلا جواز قاتلانہ حملوں کے خلاف اقوام متحدہ، امریکہ اور دوسرے ممالک نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اسرائیل کی پیٹھ تھپک کر اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل اپنی جنگی کارروائیوں کو ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ تیز کرتا جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ بے شرمی اور بے غیرتی کا مظاہرہ آج کے عصری دور میں کیا ہو سکتا ہے کہ جن کی زمین ہے انہی کو وہاں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حقوق انسانی کے نام نہاد اداروں اور تنظیموں کے علاوہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی عدالت سبھی حقوق انسانی کی بدترین خلاف ورزی پرا سرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی آج تک نہیں کرسکے اور نہ آئندہ اس کی توقع ہے۔ غزہ کے معصوم اور بے گناہ بلکتے بچوں کی چیخیں بھی دنیا کے ضمیر کو نہیں جگا سکیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، جو عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے وہ بھی فلسطین کے معاملے میں صرف مذمتی قرادادوں کو منظور کرنے تک ہی محدود رہی۔ یہ تنظیم بھی مظلوم فلسطینیوں کو انصاف دلانے میں جرأت کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ جب کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دنیا کے دیگر ممالک میں انسانی حقوق کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی کھل کر مذمت کی اور رائے عامہ کو اس کے خلاف ہموار کیا۔ اسی طر ح کی ایک اور تنظیم ہیومن رائٹس واچ ہے۔ یہ تنظیم بھی دنیا میں جہاں کہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں اسے دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔ لیکن فلسطین میں ہونے والی اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف یہ تنظیم بھی اس کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار کرنے میں پس و پیش کا شکار رہی۔
ہمارے ملک میں بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے بہت کچھ دعوے حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ لیکن جہاں تک عمل آوری کی بات ہے ہمارا ملک بھی ان ممالک میں شامل ہوگیا جہاں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ کے عالمی انسانی حقوق کے منشور پر دستخط کیے ہیں اور وہ ہمیشہ بین الاقوامی فورموں میں دعویٰ کرتا رہا کہ ہندوستان میں شہریوں کے حقوق کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ 26 نومبر 1949کو جو آئین ملک کی مجلس دستور اسمبلی نے منظور کیا اور وہی منظور شدہ دستور 26 جنوری 1950 سے ملک میں نافذ العمل ہے، اس میں انسانی حقوق کو واضح انداز میں بیان کیا گیا۔ آئین میں انسانی حقوق کو بنیادی حقوق کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا۔ یہ وہ حقوق ہیں جو بلا لحاظِ مذہب، ذات، رنگ و نسل، جنس و علاقہ تمام شہریوں کو یکساں طور پر حاصل ہیں۔ دستور کے باب سوم میں دفعہ 12 تا 35 شہریوں کے بنیادی حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ ابتداء میں شہریوں کو سات بنیادی حقوق عطا کیے گئے تھے بعد میں حق جائیداد کو بنیادی حقوق کی فہرست سے حذف کر دیا گیا۔ اب چھ بنیادی حقوق کی دستور ضمانت دیتا ہے۔ ان میں حق مساوات، حق آزادی، استحصال کے خلاف حق، مذہبی آزادی کا حق، ثقافتی اور تعلیمی حقوق اور دستوری چارہ جوئی کا حق شامل ہے۔ یہ بنیادی حقوق وہ ہیں جنہیں عام حالات میں کوئی حکومت چھین نہیں سکتی۔ معمارانِ دستور نے تو شہریوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا ہے لیکن حکومتوں نے شہریوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں کا پاس و لحاظ نہیں رکھا۔ اب تو ان حقوق کو کم کرنے اور ختم کرنے کی بھی کوشش حکومتی سطح پر ہو رہی ہے۔ کتنے ہی حقوق سے ملک کے شہری عملامحروم کر دیے گئے ہیں۔ اظہار خیال کی آزادی شہریوں کا بنیادی حق ہے لیکن موجودہ حکومت نے اس پر سخت پہرے لگاد یے ہیں۔ حکومت سے سوال کرنا اب ایک جرم بن گیا ہے۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کو ملک کا غدار کہہ کر جیلوں میں بند کر دیا جا رہا ہے۔ آج کئی سماجی جہد کار صرف اس بنیاد پر پابند سلاسل کر دیے گئے کہ انہوں نے حکومت کی غلط پالیسیوں پر صدائے احتجاج بلند کی تھی۔ مظلوموں کی حمایت میں آواز اٹھانے والوں کو بھی حکومت کی ایجنسیاں ہراساں کرنے لگی ہیں۔
اقلیتوں کو ملک کے آئین نے جو دستوری حقوق کی ضمانت دی ہے اسے سلب کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔دستور کی دفعہ 29 اور 30 لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو مخصوص مراعات عطا کرتی ہیں۔ ان دفعات کے تحت اقلیتیں اپنی زبان، اپنے رسم الخط اور اپنی تہذیب و تمدن کا تحفظ کر سکتی ہیں۔ اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا اختیار دیا گیا۔ حکومت کو پابند کیا گیا کہ تعلیمی گرانٹ کے دینے میں کوئی امتیاز نہ برتے۔ حالیہ عرصہ میں اترپردیش کی حکومت نے مسلمانوں کے دینی مدارس کو یہ کہہ کر بند کردیا تھا کہ یہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں اپنے فیصلے کے ذریعہ یو پی حکومت کے اس اقدام کو کالعدم کر دیا۔ دستور نے مذہبی آزادی کے حق کو تسلیم کیا ہے لیکن اس میں بھی روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ 1991 کے مذہبی عبادت گاہوں کے قانون کے ہوتے ہوئے مساجد کو منادر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اس پر روک لگا دی ہے۔ حالات کے اس تناظر میں یوم انسانی حقوق منانے سے زیادہ اہم ہے کہ حکومتیں احترام آدمیت کے جذبہ کو فروغ دیں۔ ہر فرد، بحیثیت انسان عزت و احترام کا مستحق ہے۔ انسانی حقوق کی ایک خوش نما اور دل آویز دستاویز بنا لینے اور ہر سال اس کی یاد منانے سے انسانی حقوق کا تحفظ نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے علم بردار خود انسانی حقوق پر کاربند نہیں ہوتے۔ ظالم اور جابر حکم رانوں سے انسانی حقوق کی پاسداری کی امید رکھنا محض ایک خوش فہمی ہے۔
***

 

***

 اقلیتوں کو ملک کے آئین نے جو دستوری حقوق کی ضمانت دی ہے اسے سلب کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔دستور کی دفعہ 29 اور 30 لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو مخصوص مراعات عطا کرتی ہیں۔ ان دفعات کے تحت اقلیتیں اپنی زبان، اپنے رسم الخط اور اپنی تہذیب و تمدن کا تحفظ کر سکتی ہیں۔ اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا اختیار دیا گیا۔ حکومت کو پابند کیا گیا کہ تعلیمی گرانٹ کے دینے میں کوئی امتیاز نہ برتے۔ حالیہ عرصہ میں اترپردیش کی حکومت نے مسلمانوں کے دینی مدارس کو یہ کہہ کر بند کردیا تھا کہ یہاں دینی تعلیم دی جاتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں اپنے فیصلے کے ذریعہ یو پی حکومت کے اس اقدام کو کالعدم کر دیا۔ دستور نے مذہبی آزادی کے حق کو تسلیم کیا ہے لیکن اس میں بھی روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ 1991 کے مذہبی عبادت گاہوں کے قانون کے ہوتے ہوئے مساجد کو منادر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اس پر روک لگا دی ہے۔ حالات کے اس تناظر میں یوم انسانی حقوق منانے سے زیادہ اہم ہے کہ حکومتیں احترام آدمیت کے جذبہ کو فروغ دیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024