عالمی پیمانے پر ’حلال سیاحت ‘کا بڑھتا رجحان
اسلامی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے سیر و تفریح ممکن ہے
ابن ایاز معاذ عمری
کئی بڑے ممالک شعبہء سیاحت میں ’حلال تعطیلات ‘ کو ترجیح دے رہے ہیں
صرف’ حلال گوشت‘ ہی نہیں بلکہ زندگی کا ہر پہلو حلال اور جائز امور سے عبارت ہونا چاہئے
سیر و سیاحت ایک طبعی اور فطری چیز ہے اور شریعت اسلامی میں بھی اس کی ہمت افزائی کی گئی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا: قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ (کہہ دو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھ لو) اسی لیے ساری دنیا میں جہاں کہیں بھی متمول لوگ رہتے ہیں وہ فارغ اوقات میں منصوبہ بندی کرکے سیر و تفریح کے لیے نکلتے ہیں۔ بنا بریں دنیا بھر میں سیر و سیاحت کا شعبہ نہایت ہی متحرک و فعال اور منافع بخش ہو چکا ہے۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب کے تسلط و غلبے نے دنیا بھر کے اکثر و بیشتر تفریحی مقامات کو اختلاط مرد وزن، شراب نوشی، نیم برہنگی اور حلال و حرام کے عدم امتیاز جیسے عوامل کے سبب ایک حقیقی مسلمان کے لیے شجر ممنوعہ بنا دیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے گھر والوں کے ساتھ تفریح پر جانے کا پروگرام بنائے گا تو کسی ایسے مقام کا انتخاب کرے گا جہاں بے حیائی نہ ہو اور شراب و کباب کی محفلیں نہ ہوں۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کھانے پینے کے لیے صرف حلال غذا ہی میسر ہو، حرام کا شائبہ تک نہ ہو۔
بظاہر یہ ایسے مطالبات ہیں جو موجودہ ماحول میں نہایت دشوار نظر آتے ہیں لیکن یہ ایک خوش کن اور روح افزا خبر ہے کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے سیاحتی امور میں ایک اصطلاح ’’حلال‘‘ بکثرت استعمال ہو رہی ہے اور ان باتوں کاخیال رکھا جا رہا ہے کہ مسلمان زائرین اور سیاحوں کو کسی بھی قسم کی شرعی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
چند سال پہلے تک مسلمانوں کے لیے صرف حلال کھانے کی تخصیص ہوا کرتی تھی۔ اس سلسلے میں ملک میں ماضی قریب تک بھی اسلام دشمن عناصر کی جانب سے کئی قسم کے ہنگامے کھڑے کیے گئے اور اعتراضات و الزامات کی بوچھاڑ بھی کی گئی لیکن اب حلال کھانے کے ساتھ ساتھ حلال تعطیلات، حلال ہوٹل، حلال تفریحی مقامات اور حلال اسفار جیسی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں جو تعصب کے پجاریوں کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں۔
اب ایک اشتیاق کا پیدا ہونا فطری عمل ہے کہ آخر یہ ’’حلال تفریح اور سیر و سیاحت‘‘ ہے کیا چیز؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ’حلال سیاحت‘ ایک ایسا تفریحی عمل ہے جو اسلامی قوانین پر عمل کرنے والے مسلم سیاحوں کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ جہاں کہیں بھی اس کا انتظام ہے وہاں اختلاط مرد وزن کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ مرد و خواتین کے لیے الگ الگ حصے ہوتے ہیں جیسے مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ سوئمنگ پولس اور ’اسپا‘ کی سہولتیں وغیرہ۔ اس دوران حرام طعام، شراب یا کوئی بھی نشہ آور چیز قطعی پیش نہیں کی جاتی صرف حلال کھانا ہی دستیاب ہوتا ہے۔ ہوٹلوں کے اندر ہی الگ کمرے یا انفرادی و اجتماعی نماز کے لیے مخصوص جگہیں بھی متعین ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی سہولتیں اسلامی شرعی قوانین کے مطابق فراہم کی جاتی ہیں۔ سیاحتی ایجنسیاں بھی ٹرپ پیکیجس بناتے وقت حلال ضوابط کی مکمل پابندی کرتی ہیں۔ ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ دیگر ممالک زیادہ سے زیادہ زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایسی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں جو مسلمان سیاحوں کے مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہیں۔ حلال سیاحت کے لیے ابھی کوئی بین الاقوامی معیار قائم نہیں ہے لیکن بعید نہیں کہ یہ شعبہ بہت جلد بین الاقوامی شناخت بنالے۔
اگرچہ حلال سیاحت ہمارے ملک میں حالیہ دنوں ہی کچھ زیادہ سرخیاں بٹور رہی ہے لیکن اس کی شروعات آج سے تقریباً پندرہ سال قبل ہوچکی تھی۔ کریسنٹ ریٹنگ پہلی آن لائن ہوٹل ريفرنس سروس ہے جو خاص طور پر مسلمان سیاحوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنائی گئی تھی جس کا آغازسال 2008ء میں ہوا۔ کریسنٹ ریٹنگ کو سہولتیں اور خدمات کی حد کے لحاظ سے مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں شامل ہوٹلوں کی انتظامیہ مسلمان سیاحوں کو ہر ممکن اسلامی سہولتیں فراہم کرنے کی پابند ہوتی ہے، بشمول نمازی قالینوں کی دستیابی، سمت قبلہ کا تعین، الکحل مخالف پالیسیاں اور حلال سے تصدیق شدہ خوراک کی دستیابی وغیرہ۔ اس میں درجہ بندی کا نظام ایک سے سات تک ہے، جس میں سات سب سے اوپر ہے۔ ذرائع کے مطابق ’کریسنٹ ریٹنگ‘ نے ہی سب سے پہلے ’حلال سیاحت‘ کی اصطلاح پیش کی تھی لیکن اس کو مقبول ہونے میں پورے دو سال لگ گئے اور سال 2010ء میں یہ مسلم انفرادیت والی سیاحت پوری طرح منظر عام پر آئی تھی۔ ان کی ویب سائٹ پر باقاعدہ ایک کتاب موجود ہے جہاں اس طرح کی اصطلاحات کی تعریفیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ یعنی اگر کوئی غیر مسلم بھی جاننا چاہے تو اس کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ حلال کھانے سے کیا مراد ہے، حرام کیا ہے اور نماز کیا ہے اور جو بھی اسلامی سہولتیں دی جارہی ہیں ان کی مکمل وضاحت بھی موجود ہے۔ اس فہرست میں بہت سی دوسری اصطلاحات بھی ہیں جیسے حلال ہوائی اڈے،حلال کروز، حلال ہوٹل اور اسلامی تعطیلات وغیرہ۔
سال 2010ء کے بعد سے حلال شعبہ سیاحت برق رفتاری سے ترقیوں کی جانب گامزن ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’ماسٹر کارڈ کریسنٹ ریٹنگ گلوبل مسلم ٹریول انڈیکس 2023‘ کی شائع کرده تازه ترین رپورٹ کے مطابق ’حلال سیاحت‘ کے شعبے میں نمایاں ترقی دیکھی گئی ہے۔ اور ’حلال سیاحت‘ میں زیادہ تر مسلم ممالک ہی غالب ہیں سب سے اوپر انڈونیشیا اور ملائیشیا ہیں جہاں پر ’حلال سیاحت‘ کو بہترین طریقے سے ترقی دی گئی جسے سیاحوں نے بھی خوب سراہا ہے۔ اس فہرست میں صرف دو غیر مسلم ممالک سنگاپور (11ویں نمبر پر ) اور برطانیہ (20ویں نمبر پر) شامل ہیں۔
گلوبل مسلم ٹریول انڈیکس کے مطابق سال 2022ء میں حلال ٹریول کا کاروبار 220 بلین ڈالر ہو گیا تھا اور اسی ایک سال میں 110 ملین عالمی مسلم سیاح تمام بین الاقوامی آمد کا 12 فیصد تھے۔ یہ تعداد سال 2023ء میں 140 ملین اور 2024ء میں 160 ملین تک بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
’تھامسن رائٹرز ‘کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014ء میں دنیا بھر کے مسلمانوں نے (حج اور عمرہ کو چھوڑ کر) صرف سیاحت پر تقریباً 142 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس کے مقابلے میں چینیوں نے 2014ء میں 160 بلین ڈالر اور امریکیوں نے 143 بلین ڈالر خرچ کیے تھے۔ اس تحقیق کے مطابق مسلم ٹریول سیکٹر کو عالمی سفری اخرجات میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا اور سفر پر کل عالمی اخرجات کا 11 فیصد حصہ بنتا ہے۔
’’حلال سیاحت ‘‘چونکہ ایک کثیر منافع شعبہ کی شکل میں ابھرنے والی صنعت بن گئی ہے اسی لیے عالمی پیمانے پر کئی کمپنیاں اس میں مکمل مہارت حاصل کر چکی ہیں اور بعض دیگر کمپنیاں اسے ایک آپشن کے طور پر شامل کر رہی ہیں جو آگے مکمل توجہ اس پر مرکوز کر سکتی ہیں۔
اگر اسلامی سیاحت کے حوالے سے جزیرہ مالدیپ کا جائزہ لیا جائے تو وہ مغربی ممالک کے سیاحوں میں اپنے مخصوص ہوٹلوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن اب اس میں دنیا بھر سے حلال سیاحوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ مالدیپ کے وزیر سیاحت ڈاکٹر عبداللہ معصوم کہتے ہیں کہ ’’مالدیپ ایک مسلم ملک ہے اور ہمارے پاس پہلے سے ہی مسلم دوست سیاحت ہے اور یہ شعبہ (حلال سیاحت کا شعبہ) بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر معصوم کا مزید کہنا ہے کہ’’اب تمام ہوٹلوں کا ایک چوتھائی کمیونٹی پر مبنی یا مقامی گھریلو سیاحت کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ کئی ریزارٹس میں کمرہ مختص کرنے، کمرے کے ڈیزائن اور یہاں تک کہ کھانے پینے کے معاملے میں بھی مسلم دوست ماحول ترتیب دیا گیا ہے۔ اسی لیے ملکی معیشت میں سیاحت کا حصہ ایک چوتھائی سے بھی زیادہ ہے‘‘
اتنا ہی نہیں بلکہ دنیا کی بڑی بڑی ہوٹلوں میں بھی حلال سیاحت اثر انداز ہو رہی ہے جیسا کہ لندن کی مشہور فائیو اسٹار لینڈ مارک ہوٹل جو کہ سال 1899ء میں شروع کی گئی تھی اور آج بھی نہایت ہی شان دار شکل میں موجود ہے، اس میں بھی اب خصوصیت کے ساتھ ’حلال گوشت‘ پیش کیا جانے لگا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہوٹل کے عملے کو مشرق وسطیٰ کی مذہبی اور ثقافتی تفہیم کی تربیت بھی دی جا رہی ہے تاکہ مسلم سیاحوں کے ساتھ ان کے اسلامی اقدار کے مطابق ہی تکریم و ضیافت کی جا سکے۔
اسی طرح مجدی رستم، سیلز ڈائریکٹر، مشرقِ وسطیٰ، کہتے ہیں کہ ’’ہمارے پاس الکحل کے ساتھ ساتھ غیر الکحل والے مشروبات کی باقاعدہ ایک الگ رینج ہے۔ ہمارے بار میں آپ غیر الکحل والی کاکٹیل لے سکتے ہیں جو کہ بہت ہی مشہور ہے‘‘ اسی طرح اس ہوٹل میں داخل ہونے کے لیے دو دروازے ہیں۔ شمال میں ایک دروازہ ذاتی استعمال کے لیے ہے۔ مشرق وسطیٰ کے زیادہ تر خاندان، خاص طور پر وہ خواتین جو با حجاب ہوتی ہیں وہ اسی شمالی دروازے سے داخل ہوتی ہیں، اور ہوٹل میں ایک خاص لفٹ بھی ہے جو انہیں براہ راست کمروں تک لے جاتی ہے تاکہ کوئی نامحرم انہیں دیکھ نہ سکے۔ ہوٹل میں ایک بڑا بال روم ہے جو شادیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں اسلامی رسم و رواج کے مطابق مرد اور خواتین مہمانوں کو الگ الگ ٹہرائے جانے کی سہولت دستیاب ہے۔ یاد رہے کہ یہ کسی اسلامی ملک میں واقع ہوٹل کا نہیں بلکہ لندن کی عمدہ ترین ہوٹلوں میں سے ایک ہوٹل کا تذکرہ ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’حلال سیاحت‘ کی طرف پیش رفت اس وقت ہو رہی ہے جب ایک مسلم ملک ترکی کو چھٹیوں کے موقع پر نئی نسل کے لیے مرکزی منزل کے طور پر ان مسلمانوں کے لیے منتخب کیا گیا جو ساحل سمندر پر کسی ترقی یافتہ ملک کی طرح تمام سہولتیں چاہتے ہیں لیکن اسلامی حدود و قیود میں رہتے ہوئے۔ اسی لیے ‘سورج سمندر اور حلال’ جیسے نعروں کے تحت ترکی میں مختصر پیمانے پر ہی سہی بعض ہوٹلوں نے حلال تعطیلات یعنی ساحلی تعطیلات کی پیشکش کرنا شروع کر دی ہیں جو اسلامی اقدار کی پاسداری کرتی ہیں، جس میں ان حلال مقامات کو خصوصیت کے ساتھ شراب اور دیگر نشہ آور اشیاء سے پاک رکھا جاتا ہے۔ وہاں کسی نا محرم کے سامنے غیر اسلامی لباس پر بھی پابندی ہے۔ ہاں زوجین کے لیے الگ سے سہولتیں مہیا ہیں جہاں وہ آزادانہ طور پر بے تکلفی کے ساتھ لوگوں کی بولہوس نگاہوں سے محفوظ رہتے ہوئے ایک دوسرے کا لباس بن سکتے ہیں اور سیر و تفریح کا مکمل لطف اٹھا سکتے ہیں۔
ظاہر بات ہے کہ اس طرح کے انتظامات پر پیسہ بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے لیکن اس کے باؤجود کئی ایسی خواتین سیاح بھی ہیں جو ’’حلال سیاحت‘‘ کے تحت کئی اسفار کر چکی ہیں، جن میں سے ایک برطانوی اثر و رسوخ رکھنے والی سیاح زہرہ روز بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ: میں سفر کرنا بہت پسند کرتی ہوں لیکن اپنے مسلم عقیدے اور طور طریقوں پر بھی قائم رہنا چاہتی ہوں۔ اسی لیے اب تک وہ تقریباً 30 سے زیادہ ’حلال تعطیلات‘ گزار چکی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’’مجھے دھوپ میں رہنا پسند ہے، مجھے وٹامن ڈی پسند ہے اور مجھے سارا سال ٹین رہنا بھی پسند ہے۔ اس لیے مجھے ایسی جگہوں پر جانا بہت اچھا لگتا ہے جہاں تنہائی ہو یا جہاں چھٹیاں سکون و اطمینان کے ساتھ گزاری جا سکیں۔‘‘ اسی لیے وہ حلال سیاحت کی قائل ہیں جہاں سکون بھی ہوتا ہے اور رازداری بھی۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’میرے نزدیک حلال چھٹیوں اور عام تعطیلات میں سب سے بڑا فرق رازداری ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ پرائیویسی عام تعطیلات سے زیادہ قیمت پر آتی ہے۔ ایسے ریزورٹس میں بک کرنا بہت آسان ہے جن میں عام (خواتین اور مرد) پول ہیں یا جن میں آپ کے اپنے پول یا نجی بالکونی کی کوئی رازداری نہیں ہے۔ میں کہوں گی کہ قیمت میں فرق ضرور ہے لیکن یہ بہت اطمینان بخش اور شرعی حدود کے اندر ہوتا ہے اسی لیے نقصان کا سودا نہیں ہے‘‘
اسی طرح 36 سالہ ہیجر سوزوگلو اڈیگوزئی تین بچوں کی ماں ہیں اور استنبول میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ترکی میں حلال چھٹی کے لیے جگہ تلاش کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی لیکن جب بھی ہم کسی غیر اسلامی ملک کا سفر کرتے ہیں تو ہمیں کافی تحقیق اور منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ حال ہی میں ہم مقدونیہ اور کوسوو گئے تھے۔ ہم نے اپنے ہوٹل میں ناشتہ کیا اور دوپہر کے کھانے کے لیے ہم ایسی روایتی جگہوں کو تلاش کرکے گئے جہاں شراب کے بغیر کھانا پیش کیا جاتا ہو‘‘
اڈیگوزئی دن میں پانچ وقت کی نمازیں پڑھتی ہیں اور اسلامی اقدار کی پیروی میں دلچسپی بھی رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’حلال ہوٹلوں میں باقاعدہ جائے نماز بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اگر ہم عام ہوٹلوں میں قیام کرنے جا رہے ہیں تو میں اپنے ساتھ نماز کی چٹائی لے کر جاتی ہوں۔ اسی طرح میں ہوٹلوں میں کم لباس والے لوگوں کو بھی نہیں دیکھنا چاہتی، کیونکہ ہمارے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایسے لوگوں کے ساتھ رہیں جو ہمارے عقیدے اور ثقافت کی پیروی کرتے ہوں۔ ہم انہیں ساحلوں پر نہیں لے جانا چاہتے جہاں لوگ برہنہ ہو کر دھوپ لیا کرتے ہیں‘‘
ہیج اپنے حلقہ خواتین کو آن لائن انٹرپرینیورشپ اور سوشل میڈیا کی تربیت دیتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سیاحت کی صنعت ابھی تک حلال تعطیلات کے امکانات کو مکمل طور پر استعمال کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ یعنی ابھی بھی منافع کے کئی امکانات باقی ہیں۔ ان خواتین کے تجربات اور جو بین الاقوامی حقائق انڈیکس کی شکل میں سامنے آرہے ہیں اس کے مطابق مسلمانوں کے لیے شرعی حدود میں رہتے ہوئے سیر و سیاحت کے راستے عالمی پیمانے پر ہموار ہو رہے ہیں اور ’حلال سیاحت‘ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ دیگر ممالک کے کئی ایک متمول مسلم سیاحوں نے دوران سیاحت اسلامی اقدار سے سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنےشعائر کا احترام کرتے ہوئے فرائض و واجبات کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیا اسی لیے دنیا ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہے۔ لہذا اگر بھارت میں ہم بھی اپنے دین و شریعت کی پابندی میں کسی طرح کی غفلت اور سستی نہیں کریں گے تو یہاں بھی بڑے پیمانے پر ’’حلال سیاحت‘‘ ترقی پا سکتی ہے۔ہمارے ملک مین صرف حلال گوشت پر بحث و مباحثے ہوتے ہیں لیکن اس گوشت کو خریدنے کیلئے جو پیسہ کمایا جارہا ہے اس کے حلال ہونے کی فکر بہت کم لوگ کرتے ہیں اور زندگی کے دیگر امور میں بھی امتیاز حلال و حرام نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔لہذا اگر ہم بھی چاہتے ہیں کی ملک کا ماحول بدلے اور تعصباتی عوامل کی وجہ سے مسلمانوں کی جو شبیہ بنائی گئی ہے اس میں تبدیلی آئے تو اس کے لئے بس شرط یہی ہے کہ ہم ہر معاملے میں اسلامی احکام و فرامین کی پاس داری کرتے رہیں۔اور زندگی کے ہر معاملے کو شرعی ترازو میں تول کر انجام دیں ۔ اگر اسی طرح ہر مسلمان اسلام کی چلتی پھرتی تصویر بن جائے تو پھر یاد رکھیں کہ کوئی بھی بات ناممکن نہیں ہے۔
***
***
گلوبل مسلم ٹریول انڈیکس کے مطابق سال 2022ء میں حلال ٹریول کا کاروبار 220 بلین ڈالر ہو گیا تھا اور اسی ایک سال میں 110 ملین عالمی مسلم سیاح تمام بین الاقوامی آمد کا 12 فیصد تھے۔ یہ تعداد سال 2023ء میں 140 ملین اور 2024ء میں 160 ملین تک بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
’تھامسن رائٹرز ‘کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014ء میں دنیا بھر کے مسلمانوں نے (حج اور عمرہ کو چھوڑ کر) صرف سیاحت پر تقریباً 142 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس کے مقابلے میں چینیوں نے 2014ء میں 160 بلین ڈالر اور امریکیوں نے 143 بلین ڈالر خرچ کیے تھے۔ اس تحقیق کے مطابق مسلم ٹریول سیکٹر کو عالمی سفری اخرجات میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا اور سفر پر کل عالمی اخرجات کا 11 فیصد حصہ بنتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023