عالمی معیشت پر ٹرمپ کے جوابی ٹیرف کی دہشت

ٹیرف سے عالمی تجارت میں ایک فیصد کی گراوٹ کا امکان۔ ماہرین معاشیات کا انتباہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

’’میک امریکہ گریٹ اگین‘‘ کا نعرہ، خود امریکہ کے لیے خطرہ!
حصص بازاروں میں بھونچال، ٹرمپ کی ضدی پالیسیوں سے سرمایہ کار پریشان
آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھو رام راجن نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے تقریباً 60 ممالک پر عائد کیے گئے "ریسی پروکل ٹیرف” کا نقصان بالآخر خود امریکہ کو ہوگا، جب کہ بھارت پر اس کا اثر بہت کم ہوگا۔ ان کے مطابق قلیل مدت میں سب سے پہلے منفی اثر امریکی معیشت پر پڑے گا کیونکہ یہ پالیسی خود کو خسارے میں ڈالنے جیسی ہے۔ اگرچہ امریکی صدر کا طویل مدتی ہدف ملکی پیداوار میں اضافہ ہے لیکن اس کے لیے امریکہ کو طویل سفر طے کرنا ہوگا۔ پروفیسر راجن کے مطابق فی الحال امریکی معیشت پر مندی کے آثار نمایاں نہیں ہیں لیکن اگر یہ ٹیرف تین یا اس سے زیادہ مہینوں تک برقرار رہے تو 2025 تک امریکی معیشت میں سست روی کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن ممالک پر یہ ٹیرف لاگو کیے گئے ہیں وہاں بھی فی الوقت مندی کے آثار نہیں ہیں۔ تاہم، ٹرمپ کی غیر متوقع طبیعت کے سبب یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ پالیسیاں کب تک جاری رہیں گی، خاص طور پر جب کہ امریکہ کے پاس درآمدات کا کوئی فوری متبادل موجود نہیں ہے۔
امریکی معاشی مشیر مائیک ریڈ کا بھی ماننا ہے کہ جن اشیا کو امریکہ درآمد کرتا ہے ان کا متبادل اس کے پاس نہیں ہے۔ ایک تہائی پھل اور سبزیاں میکسیکو، چین، بھارت اور کینیڈا سے آتی ہیں اور ٹیرف کی بندش کے بعد یہ اشیا دیگر ذرائع سے مہنگی حاصل ہوں گی۔ امریکہ کی تجارتی شراکت میں میکسیکو، کینیڈا، چین اور بھارت کی مجموعی شرکت 45 فیصد ہے کیونکہ یہ ممالک امریکہ کو توانائی، غذائی مصنوعات، آٹوموبائل کے پرزے، مہنگے پتھر اور برقی آلات برآمد کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے مطابق امریکہ میں درآمد ہونے والی تمام کاروں اور لائٹ ڈیوٹی ٹرکوں پر 25 فیصد ٹیرف 3 اپریل سے لاگو ہو چکے ہیں جو کہ ریسپروکل ٹیرف کے اعلان کے اگلے ہی دن کی بات ہے۔ یہ قدم امریکی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ آٹو موبائل تجارت معمول پر آ جائے گی مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ٹرمپ کی پالیسی نہ صرف روایتی معاشی منطق بلکہ ڈیوڈ ریکارڈو، ایڈم اسمتھ، ملٹن فریڈمین اور جان مینارڈ کینز جیسے معاشی مفکرین کی تھیوریوں کو بھی نظر انداز کرتی ہے جس سے شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں اس کے پسِ پشت کوئی خفیہ حکمت عملی تو کارفرما نہیں ہے؟ بظاہر یہ پالیسیاں امریکی آٹو ساز کمپنیوں کو اندرونِ ملک کارخانے قائم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ہیں لیکن باریکی سے جائزہ لینے پر واضح ہوتا ہے کہ اس میں عملی دم خم کم ہے۔
یہ ممکن ہے کہ جاپان، میکسیکو اور کینیڈا متاثر ہوں لیکن سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو پہنچے گا۔ ٹیرف کی وجہ سے امریکہ میں کاروں کی قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوگا۔ آٹو موبائل اور سیمی کنڈکٹر جیسی صنعتوں کی پیداواری لاگت طے شدہ ہوتی ہے۔ کارخانوں کی زمین اور پرمٹ کی لاگت کے ساتھ ساتھ ٹیرف میں غیر یقینی کمی سرمایہ کاری کو متاثر کرے گی۔ ایسے حالات میں سرمایہ کار تبھی اعتماد کریں گے جب انہیں کم از کم دس برس تک پالیسی میں تسلسل کی یقین دہانی ہو۔ اس کے برخلاف بھارت، چین، انڈونیشیا، ویتنام اور میکسیکو جیسے ممالک کم لاگت والے مزدوروں کے ذریعے کاروں کی سستی پیداوار کرکے عالمی منڈی میں اپنی برتری قائم کر سکتے ہیں اور امریکہ کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔
ماہرین معاشیات اور عالمی تجارتی ادارے متفق ہیں کہ ٹرمپ کی من مانیاں سپلائی چین کو نقصان پہنچائیں گی، تحفظ پسند سوچ کو فروغ دیں گی، تجارتی جنگ چھیڑیں گی اور عالمی معیشت کو خطرے میں ڈالیں گی۔ عالمی تجارتی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ان پالیسیوں سے عالمی تجارت میں ایک فیصد کمی آسکتی ہے جب کہ آئی ایم ایف نے سست رفتار عالمی معیشت کے تناظر میں ٹیرف کو ایک سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔
ٹیرف کے اعلان کے بعد صرف دو دنوں میں امریکی شیئر بازاروں میں کورونا وبا کے دنوں جیسا خوف کا ماحول بن گیا ہے۔ شیئر انڈیکس میں 10 فیصد سے زیادہ گراوٹ درج کی گئی ہے جس سے تقریباً پانچ لاکھ کروڑ ڈالر کی پونجی تباہ ہو گئی اور ملک میں مندی کا ماحول پیدا ہو گیا۔
معاشی ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ جب بھی تجارتی تحفظ پسندی بڑھی ہے عالمی معیشت مندی کا شکار ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ نے آزاد تجارتی نظام کو یکسر بدل دیا ہے۔ اب عالمی تجارت کی جگہ دو طرفہ یا مخلوط تجارتی سمجھوتے زیادہ نظر آئیں گے جن کے لیے سپلائی چینز کو از سرنو تشکیل دینا پڑے گا۔
درحقیقت ٹرمپ کی یہ پالیسیاں امریکہ کو خود نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن سکتی ہیں، اگرچہ بعض پہلو فائدہ مند بھی ہو سکتے ہیں، جیسے کہ گھریلو سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی لیکن پالیسی میں غیر یقینی تبدیلیاں امریکی معیشت کے استحکام اور اس کی عالمی مسابقتی حیثیت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
ٹرمپ عرصے سے امریکہ کے تجارتی خسارے پر برہم ہیں اور انہوں نے گزشتہ ماہ وزیر اعظم مودی سے ملاقات کے دوران بھارت کے ساتھ 145.6 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے پر تشویش کا اظہار کیا۔ جواباً مودی نے توانائی کی درآمدات بڑھانے کا وعدہ کیا، لیکن ضروری نہیں کہ ہر تجارتی رشتہ متوازن ہو۔ تجارتی عدم توازن عالمی معیشت کا فطری پہلو ہے، جس سے بالآخر تمام ممالک کو فائدہ ہوتا ہے۔
عارضی طور پر ٹرمپ کی پالیسی دنیا بھر میں اقتصادی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے لیکن طویل مدت میں سب سے بڑا نقصان خود امریکہ کو ہی ہوگا۔ ٹرمپ اپنے "میک امریکہ گریٹ اگین” کے نعرے کے عوض کہیں وہ دوسرے ممالک کو "گریٹ” نہ بنا بیٹھیں۔
ٹرمپ کی پالیسیوں نے دیگر ممالک کو باہمی تجارتی تعاون بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ بھارت اور یورپی یونین تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں، جب کہ کینیڈا، میکسیکو اور چین کے ساتھ تجارت کو وسعت دینے پر بات ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹیرف کبھی مؤثر نہیں ہوتے مگر جب وہ خود اپنے ملک کی مسابقتی صلاحیت کو کمزور کریں تو وہ نقصان دہ ہی ہوتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے آغاز پر ایسی ہلچل مچائی ہے کہ دوست اور دشمن سب حیران و پریشان ہیں۔ ان کی ٹیرف پالیسی نے عالمی منڈی کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ بھارت سمیت دنیا بھر کے شیئر بازاروں میں گراوٹ آئی ہے، سرمایہ کاروں کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے، اور اسے "بلیک منڈے” سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
سات اپریل کو شیئر بازار میں سال کی دوسری بڑی گراوٹ ریکارڈ کی گئی جس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کے تقریباً 19 لاکھ کروڑ روپے ڈوب گئے۔ ایشیا کے بڑے بازار جیسے جاپان، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، سنگاپور اور چین میں بھی شدید مندی دیکھی گئی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس تنزلی کی سب سے بڑی وجہ یہی ریسپروکل ٹیرف ہیں۔ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ 2025 کے آخر تک امریکہ میں ایک اور معاشی مندی آ سکتی ہے۔
اسی دن دنیا بھر کے بازاروں میں بھاری گراوٹ دیکھی گئی: امریکہ میں 5.5 فیصد، جاپان میں 6.5 فیصد، چین میں 6 فیصد، آسٹریلیا میں 4 فیصد اور بھارت میں 3.5 فیصد کی کمی دیکھی گئی جبکہ یورپی بازار بھی 4 فیصد نیچے چلا گیا۔
کئی ممالک نے ٹرمپ کے خلاف سخت رد عمل دینا شروع کر دیا ہے لیکن ٹرمپ اپنی ضدی طبیعت کے سبب پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان پالیسیوں کے باعث امریکہ میں افراطِ زر میں شدید اضافہ متوقع ہے اور عوامی رد عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ امریکہ کی پانچ ریاستوں میں ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔
برطانوی وزیراعظم نے گلوبلائزیشن کے اختتام کا اعلان کر دیا ہے جب کہ سنگاپور کے وزیر اعظم لارنس وانگ نے اپنے عوام کو خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کا یہ فیصلہ من مانی ہے اور اس کے برے اثرات آئیں گے—لوگ تیار رہیں۔
(مضمون نگار سے فون نمبر9883409298:پر ربط کیا جاسکتا ہے)
***

 

***

 ٹرمپ نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے آغاز پر ایسی ہلچل مچائی ہے کہ دوست اور دشمن سب حیران و پریشان ہیں۔ ان کی ٹیرف پالیسی نے عالمی منڈی کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ بھارت سمیت دنیا بھر کے شیئر بازاروں میں گراوٹ آئی ہے، سرمایہ کاروں کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے، اور اسے "بلیک منڈے” سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025