عالمی فوج داری عدالت کا اسرائیلی وزیر اعظم کا پروانہ گرفتاری
یورپی ممالک اور کینیڈا پر نیتن یاہو کے دروازے بند
مسعود ابدالی
نیتن یاہو کی خفیہ ادارے شاباک سے جھڑپ۔ ابوظبی میں اسرائیلی ربی (امام) کا قتل
قیدی چھڑانے کے لیے مزاحمت کاروں کی شرائط ماننی ہوں گی۔ اسرائیلی خفیہ ادارے کی رائے
بائیڈن انتظامیہ سےنیتن یاہو کا شکوہ۔اسرائیلی قائد حزب اختلاف کی امن کے لیے سعودی ثالثی کی تجویز
عالمی فوج داری عدالت (ICC) نے 21 نومبر کو غزہ نسل کشی کے ملزموں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع یعقوب گیلینٹ اور حماس کے ابراہیم المصری المعروف ابو ضیف کے نام پروانہ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ مستغیث اعلیٰ (Prosecutor) کریم خان نے اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار کے نام وارنٹ جاری کرنے کی بھی استدعا کی تھی لیکن ان دونوں حضرات کی شہادت کے بعد ججوں نے اسے غیر موثر قرار دے دیا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق محمد ضیف بھی اب با حیات نہیں ہیں لیکن اس حوالے سے مصدقہ اطلاع نہ ہونے کے باعث ضیف صاحب کو بھی حراست میں لینے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔
فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اس بات پر یقین کرنے کی معقول بنیاد موجود ہے کہ نیتن یاہو اور یعقوب گیلنٹ غزہ کی شہری آبادی کے خلاف وسیع و منظم حملوں، قتل و غارت گری کے ساتھ بھوک و فاقہ کشی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پروانہ گرفتاری کی وجوہات بیان کرتے ہوئے آئی سی سی کے ججوں نے مزید کہا کہ منظم ناکہ بندی کے نتیجے میں خوراک، پانی، بجلی، ایندھن اور طبی سامان کی کمی نے غزہ کے ایک حصے کو انسانی زندگی کے لیے غیر موزوں بنا دیا ہے۔ غذائی قلت اور پانی کی کمی کی وجہ سے بچوں سمیت لا تعداد شہری ہلاک ہوئے۔ یہ اقدامات ججوں کے خیال میں انسانیت کش جنگی جرائم شمار ہوتے ہیں
ابو ضیف کے وارنٹ میں 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے، عصمت دری اور شہریوں کو یرغمال بنانے کے الزامات شامل ہیں۔ ابراہیم المصری ابو ضیف کو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور غزہ کی جنگ شروع کرنے کا مبینہ ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔ تینوں ملزموں پر انسانیت کے خلاف اور جنگی جرائم کے یکساں الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حالیہ قدم پروانہ گرفتاری کا حکم ہے مقدمے کا حتمی فیصلہ نہیں۔
حسب توقع اسرائیل اور امریکہ نے فیصلے پر سام دشمنی (Antisemitic) کا فتویٰ جڑ دیا۔ قومی سلامتی کے امریکی ترجمان نے کہا کہ یہ معاملہ ICC کے دائرہ اختیار سے باہر ہے فیصلے کے فوراً بعد قصرِ ابیض کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ عالمی فوج داری عدالت کی طرف سے پروانہ گرفتاری کا اجرا شرم ناک ہے۔اس اسے ایک روز پہلے امریکی سینیٹ کے نو منتخب قائد ایوان جان تھیون (Jogn Theon) نے دھمکی دی تھی کہ اگر ICC نے اسرائیلی قیادت کے خلاف فیصلہ دیا تو وہ عالمی عدالت کے ججوں اور مستغیثِ اعلیٰ کریم خان پر پابندی لگانے کا بل منظور کروائیں گے۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ قانونِ روم یا Rome Statute of the International Criminal Court مجریہ 1998 کے 125 دستخط کنندگان میں امریکہ، اسرائیل، روس، چین، پاکستان اور ہندوستان شامل نہیں۔
آئی سی سی کے وارنٹ جاری ہونے سے دو دن پہلے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اعلیٰ حضرت پوپ فرانسس کی آنے والی کتاب امید کبھی نہیں مرتی، بہتر دنیا کی جانب ایک مقدس سفر سے جو اقتباس ویٹیکن نے جاری کیے ہیں اس کے مطابق پاپائے روم نے اس کتاب میں عالمی ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھا ہے کہ کیا اسرائیل، غزہ میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے؟ اور خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ تحقیقات کرائی جائیں۔
آئی سی سی کے فیصلے پر ہنگری کے سوا سارے یورپ کا رد عمل مثبت ہے۔ ہالینڈ کے وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا کہ ان کا ملک ICC کی خود مختاری اور قانونِ روم کا احترام کرتا ہے۔ ہالینڈ گرفتاری کے وارنٹ پر کارروائی کرے گا۔ اسی بنا پر اسرائیلی وزیر خارجہ گدون سعر نے ہالینڈ کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ اپنی ہم منصب کی دعوت پر انھیں اگلے ہفتے ایمسٹرڈیم آنا تھا۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس آئی سی سی کے فیصلوں کا احترام کرتا ہے۔ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر نیتن یاہو فرانس آتے ہیں تو کیا حکومت انہیں گرفتار کرے گی تو ترجمان نے No comments کہہ کر بات ختم کر دی۔ کینیڈا، ناروے، برطانیہ اور آئرلینڈ نے بھی فیصلےپر عمل درآمد کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین کے ذمہ دار برائے خارجہ امور جوزف بوریل نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ایک متفقہ فیصلہ ہے اور تمام ریاستیں جن میں یورپی یونین کے تمام ارکان شامل ہیں، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی پابند ہیں۔ ہنگری نے پروانہ گرفتاری کے اجرا کو شرم ناک اور مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم وکٹر اوربن کے ترجمان نے کہا کہ فیصلے میں دہشت گرد حملے کا نشانہ بننے والے ملک کے رہنماؤں کو دہشت گرد تنظیم کے رہنماؤں کے برابر کھڑا کر کے بین الاقوامی عدلیہ کی توہین کی گئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے وارنٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کے شکنجے نے بالآخر ان لوگوں کو جکڑ ہی لیا جو فلسطین اور اسرائیل میں جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ان گھناونے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہونی چاہیے۔ بیانات کی حد تک تو معاملہ ٹھیک ہے لیکن کیا یورپی ممالک، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور نیوزی لینڈ وارنٹ کی تعمیل میں اپنا مخلصانہ کردار ادا کریں گے، یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
جہاں تک غزہ نسل کشی کا تعلق ہے تو بائیڈن انتظامیہ اپنے آخری ایام میں بھی اسرائیلی سہولت کاری کے لیے کمر بستہ نظر آ رہی ہے۔ سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی غزہ جنگ بندی کی قرارداد امریکہ نے ایک بار پھر ویٹو کر دی۔ یہ تحریک کونسل کے دس غیر مستقل ارکان کی طرف سے پیش کی گئی جس کے حق میں پندرہ میں سے چودہ ارکان نے ہاتھ بلند کیے لیکن چچا سام کے اکلوتے ووٹ نے قرارداد کو غیر موثر کردیا۔ اسی روز اسرائیل کو ٹینک کے گولوں کی فراہمی روکنے کی قرارداد امریکی سینیٹ نے اٹھارہ کے مقابلے میں اناسی ووٹوں سے مسترد کردی گئی ۔ برنی سینڈرز سمیت صرف ایک تہائی ڈیموکریٹس نے قرارداد کی حمایت کی اور فلسطین دشمنی میں ڈیموکریٹس و ریپبلکن یک جان نظر آئے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ بے شرمی کی حد تک غیر مشروط حمایت کے باوجود ظالم محبوب کی طرح بی بی خوش نہیں۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی کنیسہ (پارلیمنٹ) میں تقریر کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ (غزہ مہم کے ہر پہلو پر) امریکہ کو اعتراض تھا۔ ان کی تجویز تھی کہ ہم غزہ میں داخل نہ ہوں۔ انہیں ہمارے غزہ سٹی اور خان یونس میں داخلے کے بارے میں تحفظات تھے۔ صدر بائیڈن نے رفح پر اسرائیلی فوج کے حملے کی سخت مخالفت کی۔ نیتن یاہو کے مطابق امریکی حکومت نے اہم ہتھیاروں کی ترسیل روک دینے کی دھمک دی لیکن میں نے ان سے دوٹوک کہا اسلحہ نہ ملا تو ہم اپنے ناخنوں سے لڑیں گے۔ جھوٹ اور شیخی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ صدر بائیڈن نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے دو ہزار پاونڈ بموں کی ترسیل روکی اور وہ بھی صرف ایک ہفتے کے لیے۔ ناخنوں سے لڑنے کی لاف زنی سے نیتن یاہو معلوم نہیں کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج کے لیے ڈائپرز بھی امریکہ بھیج رہا ہے۔
ایک طرف بی بی کا شکوہ تو دوسری جانب امریکی ہند بحرالکاہل کمان (Indo-Pacific Command) کے سربراہ ایڈمرل سام پاپارو نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اور یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے نتیجے میں امریکی فوج کے لیے مختص اسلحے کے ذخائر سکڑ گئے ہیں۔ مرکز دانش، بروکنگز انسٹیٹیوٹ (Brookings Institute میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیرالبحر نے کہا کہ کہ پیٹریاٹ اور فضا سے زمین میں مار کرنے والے میزائل بڑی تعداد میں استعمال ہو چکے اور ان اہم اثاثوں کے ذخائر میں کمی محسوس کی جا رہی ہے۔
بد ترین بمباری اور غزہ و بیروت کو تباہ کر دینے کے باوجود نہ تو نہتوں کی مزاحمت کم زور پڑی اور نہ اسرائیل اپنے قیدی رہا کرواسکا ہے۔ لبنان سے راکٹوں، میزائیلوں اور ڈرونوں کی بارش بھی جاری ہے۔ لبنانی راکٹوں نے کریات شمعونہ، حیفہ، الخلیل، رمعات گن اور شفا عمرو کے بڑے حصے کو کھنڈر بنا دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے تل ابیب کے ایک تہہ خانے میں قیدیوں کی رہائی پر غور کے لیے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک خصوصی اجلاس طلب کیا۔ بیٹھک میں خفیہ ادارے شاباک (Shin Bet) کے سربراہ ران بار، فوج کے سربراہ جنرل حرزی حلوی اور موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ برنی نے شرکت کی۔ گفتگو کے دوران فوج اور خفیہ اداروں کے سربراہوں نے وزیر اعظم کو مطلع کر دیا کہ طاقت کے بل پر قیدیوں کو چھڑانا ممکن نہیں ہے۔ مسلسل قید اور کم خوراکی کی بنا پر یرغمالیوں کی حالت خراب ہے اور ان کے لیے موسم سرما حراست میں گزارنا بے حد دشوار ہوگا۔ شاباک کے سربراہ کا خیال ہے کہ مزاحمت کاروں کی شرائط مان لینے کے سوا قیدیوں کو چھڑانے کا اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
ہدف کے حصول میں ناکامی نے وزیر اعظم نیتن یاہو کی طبیعت میں جھنجھلاہٹ پیدا کر دی ہے۔ خفیہ اداروں سے ان کی تو تڑاخ کی داستانیں عام ہیں۔ گزشتہ ہفتے جب حساس خفیہ دستاویز افشا کرنے کے الزام میں شاباک کی درخواست پر عدالت نے وزیر اعظم کے ترجمان ایلی فینسٹائین پر فردِ جرم عائد کی تو نیتن یاہو پھٹ پڑے اور اپنے ایک بصری پیغام میں کہا کہ معلومات افشا کیس میں گرفتار ہونے والوں کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ فوج اور شاباک نے معلومات پر پابندی کے حکم المعروف Gag order کی آڑ لے کر حساس معلومات تک میری رسائی روک دی ہے حالانکہ آئین کے تحت وزیر اعظم کو اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔
اسی کے ساتھ قائد حزب اختلاف یار لیپڈ نے غزہ اور لبنان میں جنگ بندی، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور علاقے میں پائیدار امن کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔تل ابیب کے موقر مرکز دانش متوِم انسٹیٹیوٹ (Mitvim Institute) میں تزویراتِ امید (Strategy of Hope) کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب لیپڈ نے کہا کہ اتحادی سیاست، علاقوں کے الحاق کا خبط اور غزہ کی اسرائیل سے وابستگی کے مذہبی تصورات کی وجہ سے بی بی جنگ کو طول دے رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ حقیقی فتح سفارتی پیش رفت سے ہی حاصل ہوگی۔
یارلیپڈ کے خیال میں لبنان اور غزہ میں جاری لڑائی کے خاتمے، ایران کے جوہری عزائم کے خلاف خطے کو متحد کرنے، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات اور اسرائیل سے "مستقبل کی علیحدگی” کے لیے مقتدرہ فلسطین (PA) سے مذاکرات وقت کی ضرورت ہے۔ جناب لیپڈ نے اس مقصد کے لیے ریاض میں ایک علاقائی کمیشن کا منصوبہ تجویز کیا ہے۔ انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کو امن کے لیے ایک موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی انتظامیہ ہے جو فیصلہ کن اقدامات سے نہیں ڈرتی۔
غزہ، غربِ اردن اور لبنان میں ہونے والے مظالم کا رد عمل اسرائیل سے باہر بھی محسوس ہو رہا ہے۔ اکیس نومبر کو ابوظبی سے لاپتہ ہونے والے خبد (Chabad) ربی (امام) زی کوگن (Zvi Kogan)کی لاش تین دن بعد العین سے برآمد ہوگئی۔ خبد، حریدی فرقے کے اعلیٰ ترین خاندان سے تعلق رکھنے والے ائمہ، حفاظ توریت اور تالمود (یہودی فقہ) کے شارحین میں سے تھے۔ ربائی کوگن کے پاس اسرائیل اور مالدووا کی دہری شہریت تھی۔ اٹھائیس سالہ ربی، امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونے کے بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ ابوظبی آئے تھے اور یہاں Rimon کے نام سے کوشر (حلال) اشیائے خوردنی کی دوکان چلاتے تھے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق چند ازبک نوجوانوں نے انہیں اغوا کرکے قتل کیا اور مبینہ طور پر ترکیہ فرار ہو گئے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
بد ترین بمباری اور غزہ و بیروت کو تباہ کر دینے کے باوجود نہ تو نہتوں کی مزاحمت کم زور پڑی اور نہ اسرائیل اپنے قیدی رہا کرواسکا۔ لبنان سے راکٹوں، میزائیلوں اور ڈرونوں کی بارش بھی جاری ہے۔ لبنانی راکٹوں نے کریات شمعونہ، حیفہ، الخلیل، رمعات گن اور شفا عمرو کے بڑے حصے کو کھنڈر بنا دیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 دسمبر تا 7 دسمبر 2024