اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں بھارت کا مظاہرہ حوصلہ افزاء
معیاری اعلیٰ تعلیم ہی ترقی کی ضامن ۔ کم تر معیار والے اداروں پر توجہ ضروری
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
دنیا کی 560 معیاری یونیورسٹیوں کی کیو ایس درجہ بندی میں 69 بھارتی اداروں کو شامل کیا گیا تھا ۔ اس فہرست کے لیے امسال ملک کے 424 شعبہ جات اور ان کے نصاب کی جانچ کی گئی تھی جو گزشتہ سال کی تعداد سے 19.4 فیصد زائد ہے۔ خصوصاً یہ درجہ بندی تبدیلی مضامین کے معیار کی بنیاد پر شامل کی گئی ہے۔ ایشیا میں اس طرح کے تجزیہ میں ہمارے ملک کی 101 یونیورسٹیوں کے مقابلہ میں چین بہت آگے ہے۔ تجزیاتی مطالعہ میں شامل کیے گئے مجموعی شعبوں کے اعتبار سے عالمی سطح پر ہمارا ملک اب چوتھے مقام پر آگیا ہے جو ملک کے لیے بڑی خوش آئند بات ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارا ملک گزشتہ سال کے مقابلے میں 17 فیصد کی بہتری کے ساتھ اعلیٰ معیاری تعلیم کے شعبہ میں ترقی کا اچھا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس تجزیہ میں 95 ممالک کے 1500 سے زائد یونیورسٹیوں کے 16400 شعبہ جات کا مطالعہ کیا گیا۔ حالیہ برسوں میں ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے اندراج میں کافی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) 2020 کے لیے کل اندراج کے تناسب کو 2035 تک پچاس فیصد تک بڑھانے کا ہدف متعین کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں اعلیٰ معیاری تعلیم کی حصول یابی ایک بڑا چیلنج ہے۔ کیو ایس درجہ بندی کی چیف جسیکا ٹرنر نے واضح کیا ہے کہ یونیورسٹیوں کے شعبہ جات کی تعداد میں اضافہ سے یقین دہانی ہوتی ہے کہ شائع ہونے والے اکیڈمک، تحقیقاتی مضامین اور ریسرچ پیپرس کی تعداد اعلیٰ تعلیم میں ترقی کا بہت اہم اشاریہ (Indicator) ہوتے ہیں۔ معیاری پیپرس میں 20 فیصد اور ریسرچ شراکت میں 16 فیصد کا اضافہ ہمارے ملک کی تحقیقی صلاحیت میں اضافے کا اچھا مظہر ہے۔ 2017 سے 2022 کی مدت میں ریسرچ آوٹ پٹ میں 54 فیصد کا قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ ریسرچ سنٹرس کی وسعت میں تیزی کے معاملے میں بھارت کا مقام دنیا میں پہلا ہے۔ ہمارے ملک کی ریسرچ پیداوار کی صلاحیت برطانیہ سے بہتر ہونے کی پوزیشن میں ہے۔ اس مدت میں ہمارے ملک کا مقام نواں رہا ہے۔ ترقی یافتہ اور تیزی سے بڑھتی ہوئی چند ترقی پذیر معیشتوں کے درمیان ہمارے ملک کی ترقی ہمت افزا ہونے کے باوجود ہر شعبہ میں اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ ادھر ابتدائی وسطی اور ہائی اسکولوں کی تعلیم میں پورے ملک میں کچھ بہتری آئی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں اسکولوں میں اساتذہ، تجربہ گاہوں اور کھیل کے میدانوں میں سہولتوں اور وسائل کا فقدان ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کی بھی یہی کیفیت ہے۔ مرکزی حکومت کے اداروں اور چند نجی یونیورسٹیوں کی کیفیت معیاری ضرور ہے لیکن ریاستوں کے بہیترے ادارے اپنی خستہ حالی کا دکھڑا بیان کر رہے ہیں کیوں کہ وہاں معیار کا فقدان ہے۔ کہیں اساتذہ نہیں ہیں، اسٹاف حسب ضرورت رکھا نہیں جاتا، خصوصاً شمالی ریاستوں کے اداروں کے کمتر معیار کی وجہ سے اعلیٰ معیار کے اداروں میں اپنا مقام بنانے میں ناکام ہیں۔ بہت سے ادارے اور یونیورسٹیاں معیار پر ہرگز نہیں اترتے۔ اس لیے اس سمت میں تعلیم سے لگاو رکھنے اور ملک کو تعلیمی میدان میں وشو گرو بنانے والوں کو زیادہ توجہ دینی کی ضرورت ہے۔
مضامین کی بنیاد پر کیو ایس ورلڈ یونیورسٹیوں کی درجہ بندی 2024 کی فہرست جاری کردی گئی ہے۔ مینجمنٹ کی درجہ بندی میں احمد آباد کا ادارہ کاروبار اور مینجمنٹ کی سطح پر دنیا بھر کے 25 اداروں میں شامل ہے اور اس کا مقام 22واں ہے۔ وہیں آئی آئی ایم بنگلور اور آئی آئی ایم کولکاتا نے دنیا بھر کے پچاس اداروں میں اپنا مقام بنایا ہے۔ رینکنگ کے مطابق جے این یو کو ملک میں اولیت ملی ہے۔ ترقیاتی مطالعہ (Developmental Study) میں یہ یونیورسٹی بین الاقوامی سطح پر بیسویں مقام پر ہے۔ چینئی میں واقع سبیتا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس اویر ڈینٹل مطالعہ کی فہرست میں دنیا میں 24ویں مقام پر ہے۔ اعلیٰ تجزیاتی کمپنی گوا کویرلی سائمنڈس (کیو ایس) ٹنڈن نے یہ درجہ بندی شائع کی ہے۔ کیو ایس چیف نے تسلیم کیا ہے کہ بھارت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معیاری اعلیٰ تعلیم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نجی طور پر چلنے والے تین اداروں کےکئی پروگراموں میں کئی طرح کی ترقیاں اور بہتری دیکھی گئی ہیں جو ملک کے اعلیٰ تعلیمی شعبوں کو مہمیز دینے میں مثبت اور اچھے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ کیو ایس کے مطابق ایشیا میں بھارت نے ساٹھ یونیورسٹیز کی شمولیت کے ساتھ دوسرا مقام حاصل کیا ہے۔
انٹرنیشنل جرنل آف سائنس کے 18؍ اپریل کے ’’نیچر‘‘ میں واضح کیا گیا کہ بھارت جہاں معاشی قوت بننے جا رہا ہے وہیں بہت جلد ہی وہ سائنس کا پاور ہاوس بننے کے لیے بھی پرعزم ہے۔ کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے بغیر کوئی ملک رہنمائی کے مقام پر فائز نہیں ہوسکتا۔ نیچر کے مطابق مرکزی حکومت سائنسی ریسرچ کے لیے زیادہ فنڈس فراہم کر کے فوقیت دے رہی ہے۔ اس سمت میں راکٹ کی کامیابی ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ 22-2021 میں ہم دنیا کی تیسرے بڑے فارما سیوٹیکل اور جنرک ادویات کے سپلائر بن گئے ہیں۔ فی الحال ریسرچ کے شعبہ میں امریکہ اور چین کے بعد ہمارا ہی مقام ہے۔ ملک میں 21-2014 کے درمیان 760 یونیورسٹیوں سے بڑھ کر 1113 یونیورسٹیاں ہوگئی ہیں۔ اس طرح گزشتہ دہائی میں سات آئی آئی ٹیز کے اضافے کے ساتھ کل 23 آئی آئی ٹیز ہوگئے ہیں۔ اسی مدت میں دو نئے انڈین انسٹیٹیوٹس اینڈ ریسرچ سنٹرس قائم کیے گئے ہیں۔ حالیہ ڈپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شائع شدہ ڈاٹا کے مطابق 21-2020 کی مدت میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر جی ڈی پی کا محض 0.64 فیصد ہی خرچ کیا گیا۔ اب تو جو بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار کیوں نہ ہو اسے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے اخراجات بڑھانے ہوں گے۔ 38 ممالک کی تنظیم Organisation of Economic& Development نے 2022 میں آر اینڈ ڈی پر جی ڈی پی کا 2.7 فیصد خرچ کیا ہے جبکہ چین اس شعبہ میں اپنے جی ڈی پی کا 2.4 فیصد خرچ کرتا ہے۔ 1991 کے معاشی اصلاحات کے بعد آر اینڈ ڈی پر خرچ 2.4 فیصد رہا جو 10-2009 تک 0.82 فیصد ہوگیا اس کے بعد اس مد میں پھر کمی ہونا شروع ہوئی۔ گزشتہ اگست میں پارلیمنٹ نے ایک بل کی توثیق کرکے ایک فنڈنگ ایجنسی انوسندھان نیشنل ریسرچ فاونڈیشن (ANRF) جس کے اخراجات پانچ سو بلین روپے مختص کیے گئے ہیں جس کے ذریعہ یونیورسٹیوں اور لیباریٹریوں کو پانچ سالوں تک فنڈس فراہم کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ ساٹھ فیصد تحقیقی اخراجات یونیورسٹیوں کو مرکزی اور ریاستی حکومتیں فراہم کریں گی اور چالیس فیصد نجی شعبوں سے حاصل کیے جائیں گے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ملک میں ریسرچ سے بے توجہی کا خاتمہ ہوگا۔ خیال رہے کہ سرکاری اور نجی طور پر سائنسی تحقیق پر سرمایہ کاری ملک کی معیشت کو بلندی پر پہنچائے گی۔ اس کے علاوہ اس سے سماج، صحت اور فلاحی کاموں پر خصوصی توجہ دی جا سکے گی۔ اس طرح کے معلومات سے نجی اور سرکاری شعبہ جات دنیا کی بڑی معیشت بننے کے لیے اپنے بجٹ میں سائنسی تحقیق کو ترجیحات میں رکھیں گے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024