آخری قسط:اصل میدانی کام پر توجہ کی ضرورت

دعوت دین اور اسلام کے تعلق سے منفی سوچ کا خاتمہ ایک اہم کام

تحریکی جدوجہد کے 75 سال کے موقع پر امیرجماعت اسلامی ہند کا خطاب
حالیہ برسوں میں خصوصاً سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد جماعت نے مسلم امت کی تعمیر و ترقی کا ایک مبسوط وژن پیش کیا تھا جو وژن 2016کے نام سے مشہور ہوا۔ مسلمانوں کی فلاحی سرگرمیاں عام طور پر تعلیمی ادارے قائم کرنے تک یا خیراتی کاموں تک محدود تھیں۔ مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کے لیے یہ ضروری تھا کہ تعلیم کے میدان میں بھی منصوبہ بند طریقہ سے اور ضرورتوں کا تعین کرتے ہوئے ان کے مطابق کام کیا جائے اور ان کے علاوہ معیشت، مائکرو فینانس، فراہمی روزگار و ازالہ غربت، صحت عامہ، صفائی و حفظان صحت، وغیرہ جیسے محاذوں پر بھی منصوبہ بند کام کیے جائیں۔ اس وژن کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں شمالی ہند کے مسلمانوں کی غربت و پسماندگی کا خاص طور پر لحاظ رکھا گیا تھا اور یہ تصور پیش کیا گیا تھا کہ جنوبی ہند کے نسبتاً خوشحال مسلمانوں کے وسائل اور صلاحیتوں کا استعمال مشرقی و شمالی ہند کے مسلمانوں و دیگر پسماندہ طبقات کی بہبود کے لیے ہونا چاہیے۔ الحمد للہ اس وژن نے سماج پر محسوس اثرات مرتب کیے۔ جماعت سے وابستہ اور ہم خیال افراد نے کئی این جی اوز قائم کیں اور ان کے ذریعہ شمالی ہند میں نہایت ٹھوس کام بھی ہورہا ہے اور اس کے لیے وسائل بھی دستیاب کرائے جارہے ہیں۔ اس وژن نے بعد میں ملت کے دیگر درد مندوں کو بھی اس ضرورت کی طرف متوجہ کیا اور اب جنوبی ہند کے مختلف علاقوں کی کئی سماجی و فلاحی تنظیموں نے شمالی ہند میں اہم منصوبے شروع کیے ہیں۔ چند سال پہلے وژن 2016 کی کامیاب تکمیل کے بعد وژن 2026 کا اعلان کیا گیا ہے اور اللہ سے امید ہے کہ یہ منصوبہ بھی ملت کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔
محترم سامعین، اتنے بڑے ملک میں چند ہزار کی افرادی قوت بظاہر بہت چھوٹی قوت محسوس ہوتی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جماعت کی جدوجہد کے اثرات صرف اس کے کیڈر اور اس کی یونٹوں تک محدود نہیں ہیں۔وہ اصلاً ایک سماجی تحریک ہے اور اس نے ہندوستانی سماج کے مختلف گوشوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کے سماجی اثرات، اس کی افرادی قوت کے تناسب سے کہیں زیادہ ہیں جیسا کہ پروفیسر جان اسپوزیٹو لکھتے ہیں۔
”جماعت کے اثرات اس کی عددی قوت کے تناسب سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ اس کا ڈسپلن، فلاحی کام، سماجی قوت اور اس کی دیانت داری کی شہرت ہے۔“ ۱؎
اس طرح محترم دوستو! میں نے اختصار کے ساتھ اس پیش رفت کا خلاصہ آپ کی خدمت میں رکھا ہے جو جماعت کی کوششوں سے اقامت دین کی سمت ہو سکا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اور تحریک کے وابستگان کو اس پیش رفت کا بھی شعور ہونا چاہیے۔ جو کچھ ہمارے بزرگوں نے کام کیا ہے اور اس کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں وہ معمولی نہیں ہیں۔ بہت سے پہلووں سے بہت بڑی تبدیلیاں ہمارے بزرگوں کی کوششوں سے اور ان کی قربانیوں سے اس ملک میں اور خاص طور پر یہاں کے مسلم معاشرے میں آئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تحریک کی ان خدمات کو قبول فرمائے۔ ہمارے بزرگوں کی قبروں کو نور سے بھردے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ہم سب کو یہ توفیق بخشے کہ اس مبارک سفر کو ہم تیزی کے ساتھ آگے بڑھاسکیں۔
محترم سامعین! تحریک کی ان گراں قدر خدمات کے ساتھ ہماری نظر اس بات پر بھی ہونی چاہیے کہ اپنے سفر میں ہم کیا نہیں کرسکے۔ اسی سے چیلنجوں اور مسائل کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سب سے اہم کام جو زیادہ نہیں ہوسکا وہ اس ملک کی اکثریت سے گفت وشنید اور ان کی سوچ اور رائے کو متاثر کرنے کا کام ہے۔ آزادی کے بعد گزشتہ ستر برسوں میں اسلام کے متعلق ملک کی رائے عامہ میں اگر کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے تو وہ زیادہ تر منفی رخ پر ہے۔ ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ آج مسلمان پہلے سے زیادہ اسلام اور اسلامی شعائر سے قریب ہیں۔ دین کا علم عام ہوا ہے۔ دین کے نام پر بدعات و خرافات اور جہالت کم ہوئی ہے لیکن دوسری طرف جہاں تک ملک کی رائے عامہ کا تعلق ہے، وہ پہلے سے زیادہ اسلام کے تعلق سے غلط فہمیوں کا شکار ہے۔ اسلام کے تئیں نفرت و توحش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام اور اہل اسلام کے سلسلہ میں مثبت جذبات پہلے سے کم اور منفی زیادہ ہیں۔
میری نظر میں اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ ہم رائے عامہ کی تبدیلی کی اس سمت کو پلٹائیں۔ اسلام کے خلاف تیزی سے پھیلنے والی بدگمانیوں، غلط فہمیوں اور نفرتوں کے خلاف بند باندھیں اور کوشش کریں کہ رائے عامہ مثبت رخ پر بدلے اور اسلام سے قریب آئے۔ اب ہمارا اصل کام یہی ہے کہ جس طرح ہمارے بزرگوں کی کوششوں سے مسلم عوام میں سوچ کی ٹھوس تبدیلی واقع ہوئی ہے، اسی طرح ہماری کوششوں سے برادران وطن کی سوچ میں ٹھوس تبدیلی آئے، ان کے ذہن اسلام کے بارے میں مثبت ہوں۔
دوستو! اس وقت ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے، اس کی تفصیلی وضاحت ہماری پالیسی و پروگرام سے ہوتی ہے۔ لیکن جو کچھ بھی ہم کرنا چاہیں اس کے لیے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ جماعت کی قوت بڑھے۔ اب یہ موقع آگیا ہے کہ ہم عوام میں تیزی سے نفوذ کریں۔ ہمارے کارکنان لاکھوں میں ہوں۔ متفقین، ہمدردوں اور ہمارے ساتھ مختلف میدانوں میں کام کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہو۔ ہماری افرادی قوت نہیں بڑھے گی تو باصلاحیت فراد کی کمی ہوگی، ملک میں ہر جگہ ہماری موجودگی نہیں ہوگی، ملک کے ہر حصے میں ایک بااثر تحریک بن کر ہم نہیں ابھریں گے اور اتنے بڑے ملک میں کوئی ٹھوس کام اور ٹھوس نتیجہ لانا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے اثرات بڑھائیں۔ ہر جگہ زیادہ سے زیادہ افراد ہم سے جڑیں۔ نوجوان جڑیں، خواتین جڑیں، ڈاکٹرز جڑیں، تاجر جڑیں، سلم بستیوں میں ہمارا کام بڑھے۔ دیہاتوں میں بڑھے۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں وہاں موجود مواقع کے تناسب سے ہم تیزی سے ترقی کریں۔
یہ سب اہداف اسی وقت پورے ہوں گے جب ہم میں سے ہر ایک اپنی ذاتی ذمہ داریوں پر توجہ دے گا۔ ایک رکن جماعت کی اولین ذمے داری جو دستور جماعت دفعہ ۸ میں بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بندگان خدا کو اس عقیدے اور نصب العین کی طرف دعوت دے اور جو لوگ اس عقیدے و نصب العین کو قبول کرلیں انہیں اقامت دین کے لیے اجتماعی جدوجہد پر آمادہ کرے۔ یہ ہر رکن جماعت کا اصل کام اور اصل دستوری ذمہ داری ہے۔ اسی ذمہ داری کو ادا کرنے کا عہد کرکے ہم سب ارکان جماعت بنے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے خاندان میں، اپنے دوست احباب میں، پاس پڑوس میں ہر جگہ لوگوں کو اس جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کریں۔ اگر سارے ارکان جماعت ہر سال دو یا تین لوگوں کو اقامت دین کی جدوجہد کے لیے آمادہ کریں۔ یعنی اپنی بنیادی دستوری ذمہ داری ادا کریں تو ہم چند سالوں میں کئی لاکھ ہوجائیں گے۔ آپ حساب لگا کر دیکھ لیں اگر ہر رکن سال میں دو لوگوں کو رکنیت کے معیار تک تیار کرلے تو صرف ایک میقات میں یعنی چار سال میں، ارکان کی تعداد لگ بھگ دس لاکھ ہو جائے گی۔ ہمارے بزرگوں نے سب سے زیادہ یہی محنت کی ہے جس کے نتیجے میں آج ملک کے طول و عرض میں جماعت کا وجود ہے۔ آج اس اصل میدانی کام پر ہماری توجہ کم ہوگئی ہے۔ ہم پروگراموں، اجتماعات وغیرہ پر زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں اور اسی کو جماعت کا کام سمجھنے لگے ہیں۔ پچہتر سال کی تکمیل کے موقع پر آئیے ہم سب یہ عہد کریں کہ اس اصل، بنیادی اور میدانی کام پر توجہ دیں گے۔
محترم بزرگو اور دوستو! پچہتر سال کی تکمیل پر یہ جو خصوصی پروگرام ترتیب دیا گیا ہے، اس کے سلسلے میں آپ کے علم میں ہے کہ اس میں کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک زیادہ سے زیادہ نئے لوگوں کو جماعت سے متعارف کرائے۔ ہم نے یہی ہدایت کی ہے کہ اس میں اجتماعی کام کم سے کم ہوں گے۔ جلسے اور پروگرامس چار مہینوں میں ایک دو ہو سکتے ہیں۔ اصل چیز جو مطلوب ہے وہ یہ کہ آج سے اپریل تک ان چار مہینوں میں ہم میں سے ہر ایک زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملے گا اور انہیں جماعت سے متعارف کرائے گا۔ ہمارے شہر کے سیاستداں، دانشور، صحافی، سرکاری عہدے دار، پروفیشنلز، عام لوگ، کسان، مزدور، گھریلو خواتین۔۔۔ سب جماعت سے متعارف ہو جائیں۔ جماعت اور اس کے کاموں کو جاننے لگیں۔ اگر کہیں غلط فہمی ہو تو وہ دور ہو جائے۔ یہ مسلسل کوشش ہم کریں گے۔ ہم میں سے ہر ایک ایک لسٹ بنالے گا۔ یہاں مرکز کے تمام ذمے داروں کو لسٹیں دی جارہی ہیں۔ ہر ذمہ دار لسٹ کے مطابق افراد سے ملاقاتیں کرے گا۔ یہی کام حلقوں میں بھی ہوگا اور یہی کام مقامات پر بھی ہوگا۔ 16 اپریل 2023 یعنی ہمارے پچہترہویں یوم تاسیس سے پہلے لاکھوں نئے لوگ، ہر جگہ کے بااثر لوگ، جماعت سے واقف اور متعارف ہوجائیں یہ ہماری کوشش ہونی چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ اس کوشش میں آپ سب بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور پچہترویں یوم تاسیس کے اس موقع کو جماعت کے تعلق سے پورے ملک میں نئے راستے اور نئے اعتماد کو پیدا کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
پہلی سیڑھی پر قدم رکھ، آخری سیڑھی پر آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں کوئی پل نہ ہو۔
؂ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ اللہ کی مدد و نصرت ہر قدم پر ہم سب کے شامل حال رہے۔ اللہ ہماری راہوں کو آسان فرمائے۔ مشکلات اور رکاوٹوں کو دور فرمائے اور اپنے فضل خاص سے ہماری کوششوں میں برکت عطا فرمائے آمین۔
(ختم شد)
***

 

***

 اسلام کے خلاف تیزی سے پھیلنے والی بدگمانیوں، غلط فہمیوں اور نفرتوں کے خلاف بند باندھیں اور کوشش کریں کہ رائے عامہ مثبت رخ پر بدلے اور اسلام سے قریب آئے۔ اب ہمارا اصل کام یہی ہے کہ جس طرح ہمارے بزرگوں کی کوششوں سے مسلم عوام میں سوچ کی ٹھوس تبدیلی واقع ہوئی ہے، اسی طرح ہماری کوششوں سے برادران وطن کی سوچ میں ٹھوس تبدیلی آئے، ان کے ذہن اسلام کے بارے میں مثبت ہوں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 جنوری تا 21 جنوری 2023