آخر کار 5 مرحلوں کی رائے دہی کا ڈیٹا جاری لیکن خدشات ہنوز برقرار

تکنیک کے دور میں ووٹر ٹرن آؤٹ ڈیٹا میں تاخیر کا کوئی جواز نہیںہوسکتا

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

اب جبکہ الیکشن کمیشن نے 5 مرحلوں کی رائے دہی کا ڈیٹا جاری کردیا ہے ، مگر ووٹنگ کےبعد ریکارڈشدہ فیصد اورپانچ چھ دن بعد جاری کردہ قطعی ووٹنگ کے فیصد میں 6فیصد تک کا تفاوت بدستور الجھن آمیز اور خدشات پیدا کرنے والا ہے
یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اپوزیشن پارٹیوں اور دیگر سماجی تنظیموں کی جانب سے حقیقی پولنگ پرسنٹیج اور اعداد و شمار کو پولنگ کے فوری بعد پیش کرنے کے مطالبات کے باوجود پولنگ ہونے کے کئی دن بعد بھی ووٹنگ کا تفصیلی ڈیٹا فراہم کرنے سے گریز کیا یہاں تک کہ ایک غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کو سپریم کورٹ کے درپر دستک دینی پڑی ۔ اے ڈی آر نے عدالت عظمیٰ سےدرخواست کی تھی کہ وہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو تمام پولنگ اسٹیشنوں میں ڈالے گئے ووٹوں کا ریکارڈ جاری کرنے کی ہدایت دے اور یہ حکم بھی صادر کرے کہ جیسے ہی پولنگ ختم ہو اس کے اڑتالیس گھنٹوں میں پولنگ فیصد اور ساری تفصیلات ECI کی آفیشیل ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردے۔علاوہ ازیں اے ڈی آر نے پولنگ کے اختتام کے فوراً بعد ای سی آئی کی طرف سے جاری کردہ ابتدائی ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار اور بعد میں شائع ہونے والے حتمی ووٹر فیصد میں نمایاں فرق کی طرف بھی انگشت نمائی کی ہے۔
اس طرح کے تضادات نے عوامی ڈومین میں دستیاب پولنگ ڈیٹا کی صداقت اور گنتی کے مرحلے میں ہیرا پھیری کے امکان کے بارے میں اپوزیشن کی جانب سے الجھن آمیز سوالات کو جنم دیا ہے۔ 20 مئی کو، ایڈوکیٹ محمود پراچہ نےبھی اس معاملے میں مداخلت کی درخواست دائر کی تھی جنہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر رام پور لوک سبھا حلقہ سے الیکشن لڑاہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ متعلقہ ریٹرننگ آفیسر (RO) نے اپنے حلقے میں پولنگ ووٹوں کے فارم 17C ریکارڈ کی کاپیاں پیش نہیں کیں جو کنڈکٹ آف الیکشن رولز، 1961 (1961 رولز) کے تحت لازمی ہے۔
الیکشن کمیشن سے جب سوال کیا گیا کہ ووٹنگ کی تفصیلات فراہم کرنے میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے تو اس نے کوئی ٹھوس وجوہات بھی نہیں بتائیں، جب کہ سابق میں انتخابی عمل میں شفافیت کے لیے، ووٹوں کی قطعی تعداد اور پول ہونے والے ووٹوں کا فیصد اور اس کے ساتھ سارا ڈیٹا پیش کردیا جاتا تھا۔
الیکشن کمیشن کی ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ پولنگ ہونے ایک دن بعد سارا ڈیٹا پبلک ڈومین میں رکھ دیا جاتا ہے، لیکن اس بار یہ غیر معمولی بات دیکھنے میں آئی ہے کہ پولنگ کے 6 مرحلے مکمل ہونے کے بعد 5 مرحلوں تک کا ڈیٹا جاری کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے یہ اقدام کافی تاخیر سے اس وقت کیا جب مختلف گوشوں سے الیکشن کمیشن کو شدید تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا۔ حتی کہ غیر سرکاری تنظیم اے ڈی آر اور بعض دیگر لوگوں نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
ایک بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ ووٹنگ کےبعد ریکارڈشدہ فیصد اورپانچ چھ دن بعد جاری کردہ قطعی ووٹنگ میں چھ فیصد کا اضافہ بتایا گیا ہے، یہ ایک غیر معمولی بات ہے، سابق میں اس طرح کی مثال نہیں ملتی۔
سپریم کورٹ میں جو پٹیشن داخل کیا گیا ہے اس میں ووٹنگ کے حقیقی اعداد و شمار، جیسا کہ فارم 17-C پارٹ-1 میں درج ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہر اسمبلی حلقے میں ہونے والے ووٹنگ ٹرن آؤٹ ہوا ہے اس کے بھی حقیقی اور قطعی اعداد و شمار ایک ٹیبلیشن میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ مطالبہ اس لیے کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے دو راؤنڈز میں جو ووٹنگ فیصد پیش کیا تھا وہ فارم 17-سی کے اعداد و شمار سے مماثلت نہیں رکھتا، جو نمبرز فارم-17 سی میں درج ہیں وہ کم ہیں اور جو بعد میں پولنگ فیصد دیا گیا ہے وہ زیادہ ہے۔ اب اگر الیکشن کمیشن ہی یہ رویہ اختیار کرے تو پھر کس پر بھروسا کیا جائے؟ اور اس طرح کی قانونی دھاندلی ہوگی تو پھر ووٹ ڈالنے کا فائدہ ہی کیا ہے؟
اے ڈی آر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کے جو حتمی اعداد و شمار دیے ہیں وہ، اور جو ابتدائی اعداد و شمار تھے ان کے درمیان چھ فیصد کا اضافہ ہے جو کہ غیر معمولی ہے۔ پھر دوسری طرف انتخابات کے تمام مراحل میں ووٹروں کی جو اصل تعداد ہے اس میں جو اچانک اضافہ ہوا ہے اور جو حتمی اعداد و شمار جاری کرنے میں تاخیر ہوئی ہے اس پر سوالات اٹھنا لازمی ہے۔
درخواست میں اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر فارم 17-C پارٹ-II کی اسکیان شدہ کاپیوں کو بھی اپ لوڈ کرے، جس میں کس امیدوار کو کتنے ووٹ ملے اس کا سارا حساب کتاب ہوتا ہے۔ جب عدالت نے ان معاملات پر الیکشن کمیشن سے پوچھا تو اس نے کہا کہ فارم 17-C کی تفصیلات درج کرنے اور اس کو اپ لوڈ کرنے میں وقت لگتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی امیدوار کو اعداد و شمار میں تضاد نظر آتا ہے تو وہ الیکشن کمیشن میں پٹیشن دائر کر سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار دور میں اس طرح کا عذر، عذر لنگ ہی مانا جائے گا۔ جب الیکشن کمیشن کا سارا عمل ہی شک کے دائرے میں ہو تو پٹیشن دائر کرنے کا کیا فائدہ؟ الیکشن کمیشن کا جواب انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے حسی پر مبنی ہے۔ ظاہر ہے کہ انتخابی پٹیشن کو نمٹنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، ویسے کسی بھی کیس کو نمٹنے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالت سے یہ شکایت کی کہ اے ڈی آر کی طرف سے جو درخواست دائر کی گئی ہے، وہ ووٹروں کو ووٹ ڈالنے میں مانع ہوگی اور ووٹروں کے دل میں شک پیدا کرے گی۔ الیکشن کمیشن کا اس طرح کے بہانے بنانا اس کے شایان شان نہیں ہے، اسے تو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کا پورا اختیار ہے لیکن ووٹروں کے دل میں شک الیکشن کمیشن کے کاموں سے پیدا ہو رہا ہے۔
سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کے مطابق ووٹر ٹرن آؤٹ، ڈیٹا فراہم کرنے میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے، کیونکہ یہ حقیقی وقت میں دستیاب رہتا ہے۔ ایس وائی قریشی جو کہ خود الیکشن کمشنر رہے ہیں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انتخابی نظام میں ڈیٹا کیسے آتا ہے، یہ اس وقت کمیشن کے سربراہ تھے جب انتخابی عمل کو تیز کرنے اور ڈیٹا کو پبلک کرنے کے لیے ای وی ایم متعارف کرایا گیا تھا۔
ایس وائی قریشی کے مطابق ’’ووٹر ڈیٹا حاصل کرنے میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ ڈیٹا حقیقی وقت میں سسٹم میں موجود ہوتا ہے، جیسے ہی پولنگ ختم ہوتی ہے اس کے محض پانچ منٹ کے اندر، تمام معلومات دستیاب رہتی ہیں‘‘۔
اب اس صورتحال میں الیکشن کمیشن جواب دہ ہے کہ اعداد و شمار کو حتمی شکل میں دینے کے لیے اتنا وقت کیوں لیا جا رہا ہے؟ جناب قریشی نے یہ بھی کہا کہ، ’’الیکشن کمیشن کو اس بارے میں مکمل معلومات دینی چاہیے کہ یہ خلا یا کوآرڈینیشن کی کمی کیوں پیدا ہوئی ہے۔ کمیشن کو بتانا چاہیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ انتخابی عمل میں شفافیت کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے تمام سوالات کا جواب دینا ہوگا۔‘‘
الیکشن کمیشن کے پاس پورا ڈیٹا موجود ہے اور اس ڈیٹا کو اپنے پاس روکے رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کی ساکھ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں میں شفافیت لائے۔ الیکشن کمیشن کا کام ہی یہ ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ اس نے انتخابات میں شفافیت لانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ اسی سے ووٹروں میں اعتماد پیدا ہوگا، ورنہ اسی طرح اسے تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور عوام کا اعتماد بھی اس پر سے اٹھ جائے گا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا اور 24 مئی کو اس معاملے کی سماعت کی گئی۔ لیکن الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے وہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ شکوک و شبہات کو مزید گہرا کرنے والا ہے۔ اس حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ فارم 17-سی کی بنیاد پر رائے دہندے جب ووٹنگ ڈیٹا دیکھیں گے تو انہیں غلط فہمی پیدا ہوگی، کیونکہ اس میں ڈاک بیلٹ پیپر کی گنتی بھی شامل ہوگی۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں یہ دلیل دی کہ پولنگ مراکز میں ووٹروں کے لیے ووٹنگ کے آخری تصدیق شدہ ڈیٹا کو شائع کرنے کا کوئی قانونی التزام نہیں ہے۔ واضح رہے کہ فارم 17-سی ایک پولنگ مرکز پر ڈالے گئے ووٹوں کا ریکارڈ ہوتا ہے جو پریسائڈنگ آفیسر کے دستخط کرنے کے بعد پولنگ کے آخر میں پولنگ ایجنٹ کو دیا جاتا ہے اور یہی اعداد و شمار براہ راست الیکشن کمیشن کو بھیجے جاتے ہیں۔اس میں ڈاک بیلٹس کو شامل کرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔ شفافیت کے لیے الیکشن کمیشن فارم 17-سی کے ڈیٹا اور ڈاک ووٹوں کو الگ الگ بھی پیش کرسکتا ہے تاکہ کوئی اشتباہ باقی نہ رہے اور وہ غلط فہمی پیدا ہی نہ ہو جس کی الیکشن کمیشن بات کر رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کی یہ بات کتنی عجیب وغریب ہے جو اس نے سپریم کورٹ میں کہی ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد بتانے والے فارم سی-17 کی تفصیلات کو عام نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے ملک میں افراتفری پھیل سکتی ہے اور اس سے چھیڑ چھاڑ کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اپنے حلف نامے میں الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ پولنگ اسٹیشن کے لحاظ سے ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار کا اندھا دھند انکشاف اور اسے ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے سے اس انتخابی مشینری میں افراتفری پھیل جائے گی جو لوک سبھا انتخابات کروانے میں مصروف ہے۔یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ فارم 17-سی کا مقصد ہی یہ ہے کہ عوام کو رائے دہی کے اعداد و شمار سے آگہی حاصل ہو اور انہیں اس بات کا اطمینان رہے کہ انتخابات صاف وشفاف طریقے سے کروائے جارہے ہیں۔
شکوک وشبہات کے اس ماحول میں عدالت عظمیٰ نے 24؍ مئی کی سنوائی میں الیکشن کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت یہ کہتے ہوئے ملتوی کردی کہ پولنگ کے 48 گھنٹوں کے اندر ووٹر ٹرن آؤٹ کے بوتھ وار اعدادوشمار اور فارم 17C کی کاپیاں ای سی آئی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کاحکم انتخابات کے درمیان نہیں دیا جاسکتا۔ظاہر ہے یہ بات الیکشن کمیشن کے لیے حوصلہ بخش ثابت ہوئی ہے۔ تاہم اس نے عدالت عظمیٰ کے اس موقف کے ایک دن بعد 5 مرحلوں کی رائے دہی کا ڈیٹا جاری کردیا ہےجو اب پبلک ڈومین پر ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس نے ہر پارلیمانی حلقے میں ووٹروں کی مطلق تعداد کو شامل کرنے کے لیے ٹرن آؤٹ ڈیٹا کے فارمیٹ کو مزید وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اب جبکہ الیکشن کمیشن نے 5 مرحلوں کی رائے دہی کا ڈیٹا جاری کردیا ہے ، مگر ووٹنگ کےبعد ریکارڈشدہ فیصد اورپانچ چھ دن بعد جاری کردہ قطعی ووٹنگ کے فیصد میں 6فیصد تک کا تفاوت بدستور الجھن آمیز اور خدشات پیدا کرنے والا ہے۔

 

***

 الیکشن کمیشن کا کام ہی یہ ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ اس نے انتخابات میں شفافیت لانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ اسی سے ووٹروں میں اعتماد پیدا ہوگا، ورنہ اسی طرح اسے تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور عوام کا اعتماد بھی اس پر سے اٹھ جائے گا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا اور 24 مئی کو اس معاملے کی سماعت کی گئی۔ لیکن الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے وہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ شکوک و شبہات کو مزید گہرا کرنے والا ہے۔ اس حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ فارم 17-سی کی بنیاد پر رائے دہندے جب ووٹنگ ڈیٹا دیکھیں گے تو انہیں غلط فہمی پیدا ہوگی، کیونکہ اس میں ڈاک بیلٹ پیپر کی گنتی بھی شامل ہوگی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024