اعتکاف : تقرب ِ الٰہی کی تربیت

شخصیت کو نکھانے ،سنوارنے اور اس کے ارتقاکا بہترین ذریعہ

محب اللہ قاسمی

اللہ کے نیک بندے اللہ سے اپنی عبودیت کے رشتے کو مضبوط کرنے اور اپنا تعلق گہرا بنانے کے لیے اس کے گھر سے چمٹ جاتے ہیں اور اس میں ڈیرہ ڈال دیتے ہیں تاکہ وہ دنیا کی چمک دمک، لہو و لعب اور اس کے مکرو فریب سے آزاد ہو کر اس کی رضا کے حصول کی تمنا لیے ہوئے شب قدر کے فضائل و برکات کو سمیٹ سکیں۔ اس مقصد سے مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف کہا جاتا ہے۔ اس کا بہترین وقت رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے۔
اعتکاف کا معنی: اعتکاف کے لغوی معنی ہیں ’لزوم الشی‘ یعنی کسی جگہ ٹھہرنا، جمے رہنا اور اپنے آپ کو روکے رکھنا۔
اصطلاحِ شرع میں اعتکاف کہتے ہیں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے روزے کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنا، اس طور پر کہ اس میں غیر ضروری گفتگو سے اجتناب اور بلا وجہ مسجد سے باہر نکلنے سے بچا چائے۔ اعتکاف قرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (البقرۃ:125)
اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
روزے کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ (البقرۃ:187)
اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔
اعتکاف اور معمولاتِ نبویؐ
رسول اللہ ﷺ کے معمولات رمضان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے پابندی کے ساتھ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا ہے اور یہ اعتکاف آپ کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ خاص طور سے شب قدر کی تلاش و جستجو کے پیش نظر، جسے قرآن نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت ابوسعید خدری کا بیان ہے کہ ’’ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندر رمضان کے دس دن گزارے۔ اعتکاف ختم ہونے پر آپؐ نے اپنا سر مبارک خیمے سے باہر نکالا اور فرمایا: میں نے اس رات کی تلاش میں پہلے دس دن کا اعتکاف کیا، پھر میں نے درمیان کے دس دن کا اعتکاف کیا۔ تب میرے پاس آنے والا آیا اور اس نے مجھ سے کہا: ’’لیلۃ القدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے۔ پس جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف میں بیٹھے تھے انہیں چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف کریں۔ مجھے یہ رات (لیلۃ القدر) دکھائی گئی تھی مگر پھر بھلا دی گئی اور میں نے دیکھا کہ میں اس رات کی صبح کو پانی اور مٹی میں (برسات کی وجہ سے) نماز پڑھ رہا ہوں۔ پس تم لوگ اسے آخری دس دنوں کی طاق تاریخوں میں تلاش کرو۔‘‘(بخاری ومسلم )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے، البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے لیکن ایک سال کسی سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو آئندہ رمضان میں بیس دن کا اعتکاف کیا۔
امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ دیا ہے حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے آپ نے اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا حتی کہ اپنی عمر عزیز کے آخری سال میں آپ نے رمضان المبارک کے دو عشروں کا اعتکاف کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔
نبی ﷺ نے اعتکاف کا جس قدر اس کا اہتمام کیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہے۔ اسی وجہ سے صحابہ و تابعین میں بھی اس کا اہتمام رہا ہے۔
اعتکاف کاوقت:
جو کوئی رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو وہ بیسویں رمضان کا سورج غروب ہونے سے قبل مسجد میں آجائے۔ نبی کریم ﷺ کا یہی معمول رہا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے، میں آپ کے لیے ایک خیمہ نصب کر دیتی جس میں آپ صبح کی نماز کے بعد داخل ہوتے تھے۔
کسی شخص نے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا ہو تو وہ شوال کا چاند نکلتے ہی اپنا اعتکاف ختم کر کے گھر واپس آسکتا ہے مگر مستحب یہ ہے کہ عید کی صبح اپنی جائے اعتکاف سے باہر آئے اور عیدگاہ جائے کیونکہ صحابہ و تابعین کا یہی عمل رہا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ جب وہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تو اپنے گھر عید کی نماز پڑھ لینے کے بعد آتے۔
حالت اعتکاف
حالت اعتکاف میں اللہ کے رسول ﷺ کا محبوب مشغلہ یہ تھاکہ آپ ہر طرف سے یکسو اور سب سے منقطع ہو کر بس اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے۔ مسجد کے کسی گوشے کو پکڑ لیتے، وہاں تنہائی میں ذکر و فکر اور اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے، اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرتے ہوئے اس کی رضا اور قرب حاصل کرتے۔ قیام لیل کا اہتمام کرتے، اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرتے اور روتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول چلتے ہوئے بیمار کی مزاج پرسی کرلیتے تھے البتہ اس کے لیے ٹھہرتے نہیں تھے۔
اعتکاف اور تزکیہ نفس
اعتکاف شخصیت کو نکھانے، سنوارنے اور اس کے ارتقا کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ تزکیہ نفس کے لیے اس سے بہتر ماحول کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جب انسان ہر وقت خود کو بارگاہ الٰہی میں محسوس کرتا ہے تو وہ ان تمام چیزوں سے دوری اختیار کرنے لگتا ہے جو اس کے نفس کو پراگندہ کرنے والی ہیں۔ گویا ’ترک مالا یعنیہ‘(غیر ضروری چیزوں کا چھوڑ دینا) ایمان ہے، کی مکمل مشق کرائی جاتی ہے۔ جب انسان اس پر کاربند ہوگا تو لازما اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا۔ وہ جھوٹ، بغض وحسد، کینہ کپٹ، چوری، چغلی، غیبت وبدکاری جیسی اخلاقی برائیوں سے بچ کر رضائے الٰہی کے حصول کے ساتھ بامقصد زندگی گزارے گا۔ اللہ پر مکمل یقین اور اس سے دعا کر کے اپنے آپ کو کبھی اکیلا نہیں سمجھے گا۔ اعتکاف کی وجہ سے اللہ کے ساتھ جو رشتہ مضبوط ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی کرنے سے بچے گا۔ اس طرح انسان کی شخصیت کا غیر معمولی ارتقا ہوگا۔
الغرض اعتکاف عبادتوں میں خلوص و للہیت کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس لیے افراد امت کو اس کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ رمضان المبارک سے بھر پور استفادہ کے ساتھ اپنی تربیت کا فریضہ انجام دے کر شخصیت کے ارتقا میں پیش قدمی کر سکیں۔ خاص طور سے وہ نوجوان جو دنیا اور اس کی مستی میں چور ہو کر اللہ سے دور ہو رہے ہیں ان کا تعلق اللہ سے مضبوط ہو۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023