آئینی اصولوں کا احترام نہ کرنے والے جج عدلیہ کے لئے ایک ناسور

نفرتی ایجنڈوں والی تنظیموں کی عدلیہ میں بڑھتی دراندازی انصاف کے لیے مضر

شہاب فضل، لکھنؤ

جسٹس شیکھر کمار یادو معاملے پر عدالت عظمیٰ اور چیف جسٹس آف انڈیا کی فوری مداخلت ضروری
عدلیہ ملک میں انصاف و قانون کی حکم رانی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ جمہوریت کا ایسا ستون ہے جس پر اگر ضرب لگی تو ملک کمزور ہوگا اور لا قانونیت اور انارکی کا بول بالا ہو گا۔ سماج کا ہر طبقہ عدلیہ کی سلامتی اور پائیداری کی تمنا رکھتا ہے اور یہ امید کرتا ہے کہ ایک جج، سیاست داں کی زبان نہیں بولے گا بلکہ آئین ہند کے اصولوں اور قوانین کا احترام کرے گا اور اپنے مذہب، اپنی آستھا اور اپنے تعصب کو کنارے رکھ کر قانون اور انصاف کی بالا دستی کی بات کرے گا۔ اسی وجہ سے جب الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لائبریری میں گزشتہ آٹھ دسمبر کو بدنام زمانہ دائیں بازو کی تنظیم وشو ہندو پریشد کے پروگرام بعنوان ‘‘یونیفارم سول کوڈ: ایک آئینی ضرورت’’ میں ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو نے شرکت کی اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی تو انصاف پسند حلقوں میں سخت تشویش پیدا ہوئی۔ حالیہ تاریخ میں ملک میں پہلی بار یہ کھل کر سامنے آیا کہ عدالتوں میں نفرتی ذہنیت کے حامل جج بیٹھے ہیں، جو قانون و انصاف کی بالادستی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
کسی موجودہ جج کی مسلم مخالف تقریر کی غالباً یہ پہلی مثال ہے، جس پر انصاف پسندوں اور امن و قانون کی فکر رکھنے والے لوگوں کا ناراض ہونا فطری تھا۔ مسلمانوں سے نفرت کے اظہار اور ان کے خلاف اشتعال انگیزی کا کوئی بھی موقع نہ گنوانے والے چند عناصر نے جسٹس یادو کے بیان کی حمایت کی لیکن بیشتر لوگوں اور خاص کر قانون و انصاف کے شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت نے ہائی کورٹ کے ایک جج کی مسلم مخالف تقریر کو ملک کے لیے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ بار ایسوسی ایشن آف انڈیا نے چیف جسٹس آف انڈیا اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں سے اس معاملہ پر سختی برتنے کی درخواست کی تاکہ آئندہ کوئی جج عوامی پلیٹ فارم پر ایسا طرز عمل نہ اپنائے جس سے اس کا فکری رجحان یا تعصب سامنے آئے اور اس کی غیرجانب داری پر سوالیہ نشان لگے۔ ایسا ہونے پر جج سے انصاف کی امید نہیں رہ جائے گی اور ملک کا نظام انصاف تہہ و بالا ہوکر رہ جائے گا۔ نو دسمبر کو بار ایسوسی ایشن کی ہنگامی میٹنگ ہوئی اور اس میں قرارداد پاس کر کے یہ کہا گیا کہ…‘‘کٹھ ملّا ملک کے لیے مہلک ہیں…. اگر ان کو روکا نہ گیا تو بھارت کو بنگلہ دیش اور طالبان بنتے دیر نہیں لگے گی…..بھارت اکثریت کی مرضی سے چلے گا ’’ جیسی باتیں نہ صرف مسلمانوں کے تئیں نفرت کا اظہار ہیں بلکہ آئین ہند کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لوگوں کو اشتعال دلانے والی اور انہیں نفرت پر آمادہ کرنے والی ہیں۔ قانونی خبروں کے نیوز پورٹل بار اینڈ بینچ اور لائیو لا سمیت دیگر نیوز پورٹلوں پر اس کے ویڈیوز دیکھے جا سکتے ہیں۔
شیکھر کمار یادو کے خلاف آئین ہند کے آرٹیکل ۲۱۸ اور ججز (انکوائری) ایکٹ ۱۹۶۸ کے تحت مؤاخذہ کی تحریک شروع کرنے کے لیے ۵۵ اراکین پارلیمنٹ کے ایک گروپ نے راجیہ سبھا کے سکریٹری جنرل کو ایک نوٹس بھی دیا ہے، جس پر دستخط کرنے والوں میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکین مثلاً کانگریس کے دگ وجے سنگھ، پی چدمبرم، رندیپ سرجے والا، پرمود تیواری، جے رام رمیش، مکل واسنک، وویک تنکھا، کے ٹی ایس تلسی، ماہر قانون کپل سبل، ڈی ایم کے کے پی ولسن، سی پی آئی ایم کے جون بریٹاس، راشٹریہ جنتا دل کے منوج کمار جھا، ساکیت گوکھلے، نصیر حسین، عام آدمی پارٹی کے راگھو چڈھا، فوزیہ خان، سنجے سنگھ، اے اے رحیم، وی سیوا داسن، رینوکا چودھری وغیرہ شامل ہیں۔ راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ اگر مؤاخذہ کی اس تحریک کو قبول کرتے ہیں تو پھر اس سلسلہ میں ایک جوڈیشیل کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
اسی طرح دی کیمپین فار جوڈیشیل اکاؤنٹیبلٹی اینڈ ریفارمز (سی جے اے آر) کی جانب سے تنظیم کے کنوینر پرشانت بھوشن نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کو ایک تحریر بھیج کر جسٹس یادو کے خلاف معقول کارروائی شروع کرنے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ متعدد لائرز یونینوں نے بھی صدر جمہوریہ کو میمورینڈم ارسال کر کے جسٹس یادو کی تقریر کو آئین و انصاف کے اصولوں کی توہین قرار دیا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کی درخواست کی ہے۔ کئی اراکین پارلیمنٹ بشمول نگینہ ایم پی چندر شیکھر آزاد نے اپنے ایکس ہینڈل سے اس تقریر کے ایک حصہ کو شیئر کرکے صدر جمہوریہ سے مذکورہ جج کے خلاف کارروائی کی اپیل کی۔
جسٹس شیکھر کمار یادو نے اپنی تقریباً ۳۴ منٹ کی تقریر میں ایسی تمام باتیں کہی ہیں جو وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، آر ایس ایس یا بی جے پی کے چنندہ لیڈر مسلمانوں کو نشانہ بنانے، انہیں الگ تھلگ کرنے اور ان کے خلاف عوام کو مشتعل کرنے کے لیے عموماً کہتے رہتے ہیں۔تشویش کی بات یہ ہے کہ ہائی کورٹ کا ایک برسر خدمت جج اپنے عدالتی کردار کو نظر انداز کرکے نفرت انگیز باتیں کر رہا ہے۔ اسے یاد نہیں رہا کہ جس آئین کا اس نے حلف اٹھایا ہے اس میں سیکولرزم اور سبھی کے لیے انصاف و برابری کی بات کی گئی ہے اور بطور جج اسے ان اصولوں کی حفاظت کرنی ہے۔
سپریم کورٹ نے نفرتی ذہنیت کے حامل جج کی تقریر کے سلسلہ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ سے رپورٹ طلب کی ہے تو دوسری طرف الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس شیکھر یادو کے نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیان کے بعد ان کی بنچ تبدیل کردی ہے۔ ان سے کریمنل کیسیز چھین لیے گئے ہیں۔ اب وہ سِول معاملات کی فرسٹ اپیلیں سنیں گے، وہ بھی سال ۲۰۱۰ء تک کے معاملات، یعنی ان کا قد چھوٹا کر دیا گیا ہے۔
جسٹس شیکھر مہمل اور نامعقول بیانات دینے کے لیے پہلے سے ہی بدنام ہیں۔۲۰۲۱ء میں گاؤکشی کے ایک معاملے میں ایک ملزم کی ضمانت مسترد کرتے ہوئے وہ اپنے فیصلے میں یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ سائنس داں یہ مانتے ہیں کہ گائے واحد جانور ہے جو آکسیجن لیتی ہے اور آکسیجن چھوڑتی بھی ہے لہٰذا گائے کو ملک کا قومی مویشی قرار دیا جانا چاہیے۔ حالانکہ سائنسی اعتبار سے یہ غلط ہے اور گائے بھی دیگر جانوروں کی طرح کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑتی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ”پنچ گویّہ“ یعنی گائے کے دودھ، چھاچھ، گھی، پیشاب اور گوبر کے استعمال سے متعدد ناقابل علاج بیماریاں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔
یہ بیان کوئی نیا نہیں ہے۔ سنگھ پریوار سے وابستہ متعدد لوگ یہ غیر سائنٹفک بیان دیتے رہے ہیں۔ نومبر ۲۰۲۱ء میں اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تریویندر سنگھ راوت یہی کہتے ہوئے سنے گئے۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ گائے کی قربت میں رہنے سے تپ دق تک ٹھیک ہوجاتاہے۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کی عمارت میں وشو ہندو پریشد کا پروگرام کیوں؟
جسٹس شیکھر کمار یادو کا وشو ہندو پریشدکے پروگرام میں جانا یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے آئین ہند کا حلف تو اٹھایا ہے مگر ان کے خیالات اور ان کا طرز عمل آئین کے مطابق نہیں ہیں۔ عدلیہ کے اس طرح سیاسی استعمال سے ملک کمزور ہو جائے گا۔ اسی پہلو پر توجہ دلاتے ہوئے بار ایسوسی ایشن آف انڈیا نے ہائی کورٹ کی سیمینار لائبریری میں وشو ہندو پریشد کے لیگل سیل کے پروگرام پر اعتراض کیا ہے۔ ایسوسی ایشن نے کہا کہ عدالت کے کام کاج یا انصاف کے نظم سے غیر وابستہ ایک تنظیم کے پروگرام کا ہائی کورٹ کے احاطہ میں ہونا بذات خود قابل اعتراض ہے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ پروگرام میں جو آراء ظاہر کی گئیں انہیں ادارے یعنی ہائی کورٹ کی تائید حاصل ہے۔ بار ایسوسی ایشن نے اس پروگرام اور اس میں ظاہر کی گئیں آراء سے ہائی کورٹ سے خود کو الگ کرنے کی اپیل کی۔ ایسوسی ایشن نے مزید کہا کہ انصاف کے نظم سے غیر وابستہ کسی تنظیم کو کسی بھی عدالت کے احاطہ میں پروگرام کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
ججوں کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ
جسٹس شیکھر کمار یادو کی تقریر کے مشمولات واضح طور سے آئین ہند کے سیکولرزم کے اصولوں اور ایک آئینی عدالت کے جج کے حلف کے بھی خلاف ہیں۔ اس سے نہ صرف مذکورہ جج کی غیر جانب داری اور ایمان داری پر سوال کھڑا ہوگیا بلکہ عدلیہ کے وقار کا بھی یہ ایک مذاق بن گیا ہے۔ ججوں کے لیے جوڈیشیل کنڈکٹ یا طرز عمل کے کچھ اصول وضع کیے گئے ہیں جن کا ہر جج کو، کم از کم جب تک وہ عہدے پر فائز ہے خیال رکھنا ہوتا ہے۔ یہ جوڈیشیل کنڈکٹ بنگلور اصول ۲۰۲۴ کے نام سے معروف ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے ۷ مئی ۱۹۹۷ء کو عدالتی زندگی کے قدروں (ویلیوز آف جوڈیشیل لائف) پر از سر نو زور دیتے ہوئے ان قدروں کو ایک آزاد اور ایمان دار عدلیہ کے لیے رہنما اصول قرار دیا۔ ۱۹۹۹ء میں ہائی کورٹوں کے چیف ججوں کی کانفرنس میں ان کی توثیق کی گئی۔یہ وہ اصول ہیں جو ججوں سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ ان امور و مسائل کے بارے میں عوامی سطح پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کریں گے جن کے بارے میں مقننہ کوئی قانون منظور کرنے والا ہو اور جس سے جج کا تعصب یا جھکاؤ ظاہر ہو۔
ان اصولوں کی پہلی شق کہتی ہے کہ نہ صرف انصاف ہونا چاہیے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ کے اراکین کا طرز عمل اور کردار ایسا ہونا چاہیے جو عدلیہ کی غیر جانب داری کے تئیں لوگوں کے اعتماد کو مستحکم کرے۔ چنانچہ سپریم کورٹ یا کسی ہائی کورٹ کے ایک جج کا عمل اور برتاؤ، ذاتی طور پر اور عہدیدار کے طور پر، ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اس اعتبار کو مجروح کر دے۔ دوم یہ کہ کسی جج کو کسی کلب، سوسائٹی یا کسی تنظیم کا الیکشن نہیں لڑنا چاہیے اور قانون سے وابستہ کسی سوسائٹی یا ایسوسی ایشن کے ماسوا اسے کوئی انتخابی عہدہ نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ سوم یہ کہ بار کے ممبران خاص طور سے وہ وکلا جو اسی عدالت میں پریکٹس کرتے ہیں ان سے جج کو بہت قریبی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ کسی جج کو اپنی بیوی، بیٹے، بیٹی، داماد، بہو یا کسی دیگر قریبی رشتہ دار کو کسی معاملہ کی عدالتی پیروی خود اپنے سامنے نہ کرنے دینا چاہیے۔ جج کے کنبہ کا کوئی رکن اگر وہ بار کا ممبر ہے تو جج کی رہائش گاہ یا دیگر سہولیات کا استعمال پیشہ ورانہ کام کے لیے نہیں کرے گا۔ ایک جج کو اپنے عہدے کے وقار کے مطابق عوامی زندگی میں معاملات و امور سے عدم تعلق کے رویہ کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ عوام کی نظروں میں اس پر تعصب یا جھکاؤ کا الزام نہ لگے۔ کوئی جج ایسے کسی معاملے کی سماعت یا اس کا فیصلہ نہیں کرے گا جس میں اس کے کنبہ کا کوئی رکن، قریبی رشتہ دار یا کوئی دوست شامل ہو۔ ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ ایک جج سیاسی امور یا ایسے امور جو زیر التوا ہیں یا عدالتی چارہ جوئی کے لیے سامنے آسکتے ہیں ان پر عوامی سطح پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرے گا یا عوامی بحث میں شامل نہیں ہوگا۔ ایک جج سے یہ امید کی جاتی ہے کہ اس کے فیصلے خود بولیں اور وہ میڈیا کو انٹرویو نہ دے۔ ایک جج ایسے معاملہ کی سماعت نہیں کر ے گا جو اس کمپنی سے متعلق ہے جس میں اس کا شیئر ہے۔ البتہ اگر وہ اپنے مفاد کو افشا کر دے اور اس کی سماعت اور فیصلے پر کوئی دیگر فریق اعتراض نہ کرے تب وہ ایسے معاملات کی سماعت کر سکتا ہے۔ ایک جج براہ راست یا بالواسطہ طور سے بذات خود یا کسی کے ساتھ مل کر تجارت یا کاروبار نہیں کرے گا، البتہ قانونی کتاب یا مضمون وغیرہ کی اشاعت یا شوق (ہابی) کے طور پر اپنائے گئے کسی عمل کو تجارت یا کاروبار نہیں مانا جائے گا۔ کوئی جج کسی مقصد کے لیے فنڈ جمع کرنے کے کاز سے وابستہ نہیں ہوگا اور آخری نکتہ یہ کہ ہر جج کو ہمہ وقت یہ احساس رہنا چاہیے کہ وہ عوام کی نظروں میں ہے اور اسے ایسا کوئی عمل نہیں کرنا چاہیے جو اس کے اعلیٰ عہدے کے وقار کے منافی ہو اور عوام کی نظروں میں اس کی شبیہ خراب ہو۔
یہ تمام اصول ججوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان کا خیال رکھیں گے۔ مگر ملک کے جمہوری اداروں میں قدروں کے زوال کے دور میں اب یہ دن بھی آگئے ہیں جب دانستہ طور پر کچھ جج اپنے طرز عمل سے عدلیہ کا وقار مجروح کر رہے ہیں۔ بہر حال راحت بھری بات یہ ہے کہ ملک کی اکثریت نے مذکورہ معاملہ میں اپنی تشویشات کا اظہار کیا ہے اور ایسے ججوں کو عہدے کے لیے نا موزوں ٹھیرایا ہے۔ حالانکہ ایسے ججوں کو عہدے سے ہٹانے کا عمل اتنا آسان نہیں ہے۔
ججوں کے مؤاخذہ کا پیچیدہ طریقہ کار
آئین ہند کا آرٹیکل (۴) ۱۲۴ اور ججز انکوائری ایکٹ، نامعقول ججوں کو عہدے سے ہٹانے کے طریقہ کار سے تعلق رکھتے ہیں۔ آرٹیکل (۴) ۱۲۴ کے تحت کسی جج کو ہٹانے کے لیے لوک سبھا یا راجیہ سبھا میں ایک تحریک پیش کی جاتی ہے۔ ایوان کے اسپیکر یا چیئرمین کی رضا مندی کے بعد ایک انکوائری پینل تشکیل دیا جاتا ہے۔ اگر پینل الزامات کی تصدیق کرتا ہے تو پارلیمنٹ اس پر بحث کر سکتی ہے اور وہ جج بھی اپنا موقف ایوان میں آکر پیش کرسکتا ہے۔ پھر اس پر ایوان میں رائے شماری ہوتی ہے۔ تحریک مؤاخذہ کی منظوری کے لیے ایوان کی دو تہائی اکثریت کی تائید مطلوب ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس کی منظوری کے بعد حتمی فیصلہ پر دستخط اور اسے جاری کرنے کے لیے صدر جمہوریہ کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔
کسی جج کے ‘نامناسب طرز عمل’ یا ‘ڈسپلن شکنی’ کا فیصلہ بڑی حد تک انکوائری کمیٹی کے اراکین کی صوابدید پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ جہاں تک چیف جسٹس آف انڈیا کے مذکورہ معاملہ کا نوٹس لینے اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے رپورٹ طلبی کا معاملہ ہے تو یہ سپریم کورٹ کی ایک داخلی کارروائی ہے، جس میں رپورٹ آنے کے بعد اگر چیف جسٹس آف انڈیا کو الزامات سنگین لگتے ہیں تو وہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی قائم کریں گے جس میں ہائی کورٹ کے دو جج بھی ہوں گے۔ اگر کمیٹی کو لگتا ہے کہ الزامات سنگین نوعیت کے ہیں تو وہ متعلقہ جج کو ہٹانے کی سفارش کرسکتی ہے۔ پھر چیف جسٹس، متعلقہ جج سے استعفیٰ دینے کے کہہ سکتے ہیں، لیکن اگر جج استعفیٰ دینے سے انکار کر دے تو چیف جسٹس انہیں کوئی عدالتی کام نہ سونپنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں، جس کی اطلاع انہیں صدر جمہوریہ کو دینی ہوگی۔
یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کے خلاف جنسی ہراسانی کے معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے ایک انکوائری ہوئی تھی جس میں انکوائری پینل نے الزام کو بے بنیاد پایا تھا۔ اسی طرح مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس کے گنگیلے پر ایک خاتون جوڈیشیل آفیسر نے جنسی ہراسانی کا الزام لگا یا تھا، جس میں عدالت کے پینل نے انہیں کلین چٹ دی تھی اور بعد میں تحریک مؤاخذہ کے تحت راجیہ سبھا کے تین رکنی پینل نے بھی انہیں الزامات سے بری کردیا تھا۔ یہ پینل اپریل ۲۰۱۵ میں اس وقت کے راجیہ سبھا چیئرمین حامد انصاری نے راجیہ سبھا میں پچاس سے زائد اراکین پارلیمنٹ کے ذریعہ جج کے خلاف مؤاخذہ کی تحریک پیش کیے جانے کے بعد ججیز انکوائری ایکٹ کے تحت قائم کیا تھا۔ خاتون جوڈیشیل آفیسر کا اس شکایت کے بعد ٹرانسفر کردیا گیا اور پھر انہوں نے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا۔ بعد میں انہوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرکے کہا کہ ان کے لیے کام کے حالات نا ساز گار کر دیے گئے تھے اور ایک طریقہ سے انہیں استعفیٰ دینے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں خاتون جوڈیشیل افسر کو عہدے پر بحال کرنے کا فیصلہ سنایا، حالانکہ انہیں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے راحت نہیں مل سکی تھی۔
اسی طرح ۲۰۱۸ء میں چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کے خلاف تحریک مؤاخذہ کا نوٹس کانگریس نے راجیہ سبھا میں پیش کیا جسے اس وقت کے راجیہ سبھا چیئرمین وینکیا نائیڈو نے نا منظور کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ کانگریس نے یہ نوٹس چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کے خلاف بارہ جنوری ۲۰۱۸ کو سپریم کورٹ کے چار ججوں جے چیلامیشور، رنجن گوگوئی، مدن بی لوکر اور کورین جوزف کی پریس کانفرنس اور حساس مقدمات کو عدالت کی مخصوص بنچوں کے حوالے کیے جانے کے الزامات کے بعد دیا تھا۔
پارلیمنٹ کی جانب سے تحریک مؤاخذہ کی کارروائی ابھی تک تین ججوں جسٹس وی راما سوامی، جسٹس سومترا سین اور جسٹس پی ڈی دناکرن کے خلاف کی گئی ہے۔ جسٹس راما سوامی کے خلاف تحریک مؤاخذہ ناکام رہی جب کہ جسٹس سین اور جسٹس دناکرن نے تحریک مؤاخذہ شروع ہونے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
عدلیہ میں دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کی در اندازی
ججیز انکوائری ایکٹ کے تحت مؤاخذہ کی کارروائی کی پیچیدگی کو مذکورہ بالا مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے، تاہم یہ پہلو کم سنگین نہیں کہ ملک کی عدلیہ میں وشو ہندو پریشد، آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسی دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں سے وابستہ لوگوں کی در اندازی بڑھتی جا رہی ہے اور ججوں کے ذریعہ ایسے تبصرے عدالتی فیصلوں میں اور عدالت سے باہر مختلف فورمز پر کیے جارہے ہیں جو سماج کے ایک طبقہ کے لیے نفرت کے اظہار اور شدت پسندی کے زمرہ میں آتے ہیں۔ اس دائرہ میں سابق ججوں کی سرگرمیوں کو بھی اگر شامل کرلیا جائے تو در اندازی کا یہ دائرہ بڑھتا ہوا ہی نظر آئے گا۔
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے تقریباً تیس سابق ججوں نے دہلی میں وقف بل، کاشی-متھرا معاملہ، تبدیلی مذہب وغیرہ پر مبنی وشو ہندو پریشد کے پروگرام میں شرکت کی تھی، جس میں مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال بھی موجود تھے۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے موجودہ جج جسٹس وی سریشانندا نے کھلی عدالت میں بنگلورو کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ کو پاکستان کہہ دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے عدالت میں دوران سماعت ان کے تبصرہ کو ناقابل قبول قرار دیا تھا جس کے بعد انہوں نے معافی مانگ لی تھی۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک دیگر جج جسٹس روہت رنجن اگروال نے تبدیلی مذہب کے ایک معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تبدیلی مذہب کے پروگرام ایسے ہی بلاروک ٹوک ہوتے رہے تو ملک کی اکثریت ایک دن اقلیت ہو جائے گی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے جسٹس اگروال کے ان تبصروں پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ بابری مسجد ملکیت کے مقدمہ میں رام للا براجمان کی عدالت میں نمائندگی ان کے ’دوست‘ کے طور پر دیوکی نندن اگروال کر رہے تھے جو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے سابق جج تھے۔ ان کی موت کے بعد فروری ۲۰۰۸ء میں وشو ہندو پریشد کے لیڈر ترلوکی ناتھ پانڈے نے ان کی جگہ لی تھی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کی عدالتی روایت میں دیوتاؤں کو ’قانونی شخص‘ (جیورسٹک پرسن) مانا جاتا ہے یعنی وہ ایک زندہ شخص کی طرح جائیداد و املاک کا مالک ہوسکتا ہے اور اپنا مقدمہ لڑسکتا ہے۔ چنانچہ بابری مسجد ملکیت کا مقدمہ رام للا براجمان کی جانب سے لڑا جا رہا تھا، جس میں عدالت نے سابق جج دیوکی نندن اگروال کو رام للا کا دوست قرار دیا تھا۔
کلکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھجیت گنگو پادھیائے، ترنمول کانگریس پارٹی اور ریاستی حکومت کے لیے کئی ناپسندیدہ فیصلے دینے کے بدنام ہوئے۔ اپنی سبکدوشی سے پانچ ماہ قبل انہوں نے جج کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور بی جے پی میں شامل ہوگئے۔
ایک شہری ہونے کے ناطے جسٹس شیکھر کمار یادو یا کسی دیگر جج کے مخصوص سیاسی رجحانات اور خیالات ہوسکتے ہیں، لیکن ان کی جانب سے ایک ایسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے جو نفرت انگیزی اور شدت پسندی کے لیے بدنام ہے اور اس وجہ سے اس پر متعدد بار پابندیاں لگ چکی ہیں، کھلے عام نفرت انگیزی، شدت پسندی اور تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ یہ دیکھنا دل چسپ ہوگا کہ چیف جسٹس آف انڈیا اس معاملے پر کیا رخ اپناتے ہیں اور کیا وہ ایسے ججوں پر قدغن لگانے کے اقدامات کریں گے جس سے عدلیہ پر آنچ آنے کا سلسلہ تھمے اور ملک میں انصاف و آئین کی بالا دستی قائم رہے؟
***

 

***

 ایک شہری ہونے کے ناطے جسٹس شیکھر کمار یادو یا کسی دیگر جج کے مخصوص سیاسی رجحانات اور خیالات ہوسکتے ہیں، لیکن ان کی جانب سے ایک ایسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے جو نفرت انگیزی اور شدت پسندی کے لیے بدنام ہے اور اس وجہ سے اس پر متعدد بار پابندیاں لگ چکی ہیں، کھلے عام نفرت انگیزی، شدت پسندی اور تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ یہ دیکھنا دل چسپ ہوگا کہ چیف جسٹس آف انڈیا اس معاملے پر کیا رخ اپناتے ہیں اور کیا وہ ایسے ججوں پر قدغن لگانے کے اقدامات کریں گے جس سے عدلیہ پر آنچ آنے کا سلسلہ تھمے اور ملک میں انصاف و آئین کی بالا دستی قائم رہے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024