اعلان جاری ہے ۔۔ کربناک حقیقتوں کا ادب کے ذریعہ اظہار
نام کتاب :۔اعلان جاری ہے ۔۔۔!
(افسانوی مجموعہ)
مصنف:۔ غلام نبی شاہد
ناشر:۔ میزان پبلیشرز (بٹہ مالو سرینگر)
قیمت :۔ 250 روپے
مبصر:۔ غازی سہیل خان
’اعلان جاری ہے‘محترم غلام نبی شاہد کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ یوں تو کشمیر میں بہت سارے افسانہ نگار اور ادب نواز موجود ہیں لیکن ان میں بہت قلیل تعداد ان افسانہ نگاروں کی ہے جو حق پسند اور حق شناس ہیں ان ہی میں سے ایک نام غلام نبی شاہد کا ہے۔ یہ مجھے ان کی ’تصنیف اعلان جاری ہے‘ کو پڑھ کر محسوس ہوا۔ میرے پاس اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے جس میں 23 افسانوں کے علاوہ چند قلم کاروں کے اس کتاب پر تبصرے بھی شامل ہیں۔ مصنف نے اپنا قلمی سفر 1973ء میں شروع کیا جب اُن کی کہانی ’’کتنے جھنڈے‘‘ وادی کے معروف روزنامہ آفتاب میں شائع ہوئی۔مذکورہ کتاب کا حرف آغاز جموں وکشمیر کے معروف افسانہ نگار نور شاہ صاحب نے لکھا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ان کی کہانیوں میں کشمیر کا پس منظر ہے، کشمیر کے حالات و واقعات کی منظر کشی ہے، ان کی کہانیوں میں درد وکرب کی ایک عجیب فضا نظر آتی ہے، ان کی کہانیوں میں کشمیر کی مٹی کی خوشبو ابھرتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ غلام نبی شاہد نے اپنی ذہنی پختگی کے سہارے ان کہانیوں کی زلفیں سنواری ہیں ۔۔۔!‘‘ پیش کلام وادی کے مشہور محقق اور ادیب محترم محمد یوسف ٹینگ نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’کیا کشمیریوں کے جذبہ دل کی اس معصوم تفسیر سے زیادہ اور بہتر ترجمانی کی جا سکتی ہے؟‘‘ وہیں پیش نامہ عنوان کے تحت وادی کشمیر کے معروف ادیب و صحافی غلام نبی خیال نے ایک جگہ لکھا ہے ’’افسانے کی ہیئت کے بارے میں یہ راے مسلمہ ہے کہ اس کے تین اجزا ہوتے ہیں جن میں آغاز، وسط اور اختتام یعنی عروج شامل ہیں۔ افسانے کا آغاز ایک عام تخلیق کی طرح ہوتا ہے جو آگے بڑھتے بڑھتے پڑھنے والے کے ذوق پر حاوی ہو جاتا ہے اور آخر میں اس کے عروج سے ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ قاری کا ذہن دیر تک اس کے بارے میں ایک غیر متوقع سوچ میں محو ہو جاتا ہے‘‘ کشمیر کے مشہور شاعر رفیق راز نے اپنے تبصرے کے عنوان میں ہی بڑی بات کہہ ڈالی کہ ’’باطن کی آنکھ سے ظاہر کا مشاہدہ کرنے والا ’’شاہد‘‘۔ ‘‘کتاب کا انتساب ایک کشمیری پنڈت لڑکے کے نام ہے، لکھتے ہیں کہ ’’دلیپ کمار نہرو کے نام جس نے خواب میں مجھ سے پوچھا کہ میں قتل کیوں ہوا۔۔۔؟‘‘ دلیپ کمار ایک کشمیری پنڈت لڑکا تھا جو کہ مصنف موصوف کا دوست تھا اور جو ایک دن اپنی جوانی کے ابتدائی ایام میں گھر سے لال چوک آتے ہوئے گولیوں سے ہلاک ہو گیا تھا۔ کتاب میں اس واقعہ کا تذکرہ بھی پڑھنے کو ملے گا۔
’اعلان جاری ہے‘ کشمیر کے گزشتہ تیس سالوں کے درد وکرب کی داستان ہے جس کا مشاہدہ مصنف موصوف نے کیا ہے۔ افسانے پڑھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہم میں سے کسی نہ کسی کی کہانی ہے اور ان پُرآشوب حالات سے ہم میں سے ہر کوئی متاثر ہوا ہے وہ بھلے ہندو ہو یا مسلم عسکریت پسند ہو یا فوجی۔ یعنی کشمیر کے سچے واقعات کو نبی شاہد نے افسانوں کی شکل دے کر قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ کسی فرد کی کہانی نہیں بلکہ کشمیر کے ہر ایک فرد کی داستان الم ہے۔ گولیاں، بندوقیں، کرفیو، آگ و آہن، کریک ڈاون، حراستی گمشدگیاں وغیرہ یہ کشمیر کے حوالے سے محض داستان اور مافوق الفطرت کہانیاں نہیں ہیں بلکہ حقائق پر مبنی کہانیاں ہیں اور ایسے تلخ ترین حقایق ہیں جن سے کشمیر کے ہر فرد کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ افسانوں میں سادگی ہے، یہ انسان کی فطرت کو اپیل کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں کوئی بناوٹی باتیں میں نے نہیں پائیں۔ اس طرح کے افسانے انسان کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’’آجادی‘‘ نام کے ایک افسانے میں ایک فوجی اور ایک کشمیری بچے کے کردار کو پیش کیا گیا ہے۔ اس افسانے کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ انسان چاہے وہ کوئی بھی ہو کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو آخر وہ اپنے اندر دردِ دل رکھتا ہے، وہ کوئی مشین یا روبوٹ نہیں ہے کہ اس کے سامنے جب کوئی انسان یا بچہ تڑپتا رہے تو اس کے دل میں درد پیدا نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ ایک سریندر نام کا فوجی شہر میں کسی جگہ کرفیو میں ڈیوٹی پر مامور ہوتا ہے، وہ ایک بچے کو روتا ہوا دیکھ کر وہ اسے خاموش کرانے کے لیے ایک چپس کا پیکٹ دیتا ہے اور اس سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے اور کچھ چاہیے؟ وہ بچہ معصومانہ انداز میں جواب دیتا ہے ’’آجادی‘‘۔ لکھتے ہیں کہ ’’سریندر یہ سب دیکھ رہا تھا، وہ آگے بڑھا اور جیب سے دس روپیہ کا نوٹ نکال کر محی الدین کے ہاتھ میں تھما دیا اور سامنے سے ایک چپس کا پیکٹ اٹھا کر بچے کے قریب گیا اور بچے کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولا ’’یہ لو، اب تو چپ ہو جاو۔۔۔۔۔‘چپس کا پیکٹ لے کر بچہ خاموش ہو جاتا ہے۔ سریندر بچے کو خاموشی سے دیکھتا رہا پھر قدرے اطمینان سے پوچھا۔ ’’شاباش۔۔۔۔اب بولو اور کیا چاہیے‘‘ بچے نے چپس کے پیکٹ سے کھیلتے ہوئے اسی اطمینان سے جواب دیا۔۔۔۔۔’’آجادی‘‘۔۔۔۔! اسی طرح سے ’’جواب دو ‘‘ عنوان کے تحت خدیجہ جو کہ اپنے بچے کی گمشدگی کے متعلق احتجاج کرتی ہے۔ ’’خدیجہ نے لوگوں کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اندر سے کچھ ہمت سی بندھی ۔۔۔۔وہ آہستہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور لرزتے ہاتھوں سے اپنا پلے کارڈ پوری قوت سے آسمان کی طرف بلند کیا۔۔۔۔۔ سڑک پر جمی بھاری بھیڑ نے دیکھا۔ ایستادہ ہورڈنگ پر پیش منظر میں بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا۔
اگر فردوس بروئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
اس شعر کے ٹھیک نیچے خدیجہ کے پلے کارڈ پر لکھا تھا ۔’’میرا فردوس کہاں ہے؟‘‘ اور بھی اس طرح کی روح فرسا کہانیاں اس کتاب میں شامل ہیں جن پر بات کرنے کا یہاں موقع نہیں۔
مجموعی طور پر کتاب کشمیر کے مزاحمتی ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے۔کتاب بڑی حد تک املا کی غلطیوں سے پاک ہے۔ کتاب کی قیمت بھی مناسب ہی معلوم ہوتی ہے۔ کتاب کا سر ورق بھی اچھا ہے۔کتاب کو کشمیر کے معروف اشاعتی ادارے میزان پبلیشرز بٹہ مالو سرینگر نے تیسری بار شایع کیا ہے۔ کتاب ہر کسی کشمیری کے مشاہدات، حالات اور واقعات کی عکاسی کرتی ہے، گویا یہ کشمیر کے ایک عام انسان کی آپ بیتی ہے۔ جو کوئی کشمیر کے غم زدہ حالات کو پڑھنا اور محسوس کرنا چاہتا ہے اُس کو ’’اعلان جاری ہے۔۔۔۔!‘‘ افسانوی مجموعے کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
رابطہ :۔7006715103
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023