اعجاز قرآن

اردو زبان میں قرآنی معجزوں پر تشفی بخش معلومات کا ذخیرہ

نام کتاب: اعجاز قرآن 
مصنف: پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی
سن اشاعت:2023ء
صفحات:255
قیمت:500 روپے
ناشر: پروفیسر خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ
ابو سعد اعظمی

پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی  کی زیر تعارف کتاب ’اعجاز قرآن‘ایک بہترین اور جامع کتاب ہے جس میں پیش لفظ، مقدمہ اور کتابیات کے علاوہ کُل  بارہ ابواب ہیں۔ ان میں معجزہ کی تعریف اور تاریخ، قرآن کے دائمی معجزہ ہونے کے دلائل، اعجاز قرآن کی تاریخ اور اس موضوع پر قدیم وجدید علماء کی تصانیف کا ذکر، فصاحت وبلاغت، نظم ومناسبت ، حروف مقطعات، فواصل، قسم، غیب کی خبریں، تعلیمات قرآن، قراءت اور آیات کائنات میں بکھرے ہوئے اعجاز قرآن کے مظاہر کو اعجاز قرآن کے مختلف وجوہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔مقدمہ میں مصنف نے واضح کردیا ہے کہ "قرآن اپنے حروف، الفاظ، معانی، تعلیمات، اخبار، اسلوب اور اثرات ہر لحاظ سے معجزہ ہے۔لغت اور ادب کے ماہرین کے لیے قرآن کی فصاحت وبلاغت معجزہ ہے، عالموں اور دانش وروں کے لیے قرآن کی تعلیم معجزہ ہے۔ سیاست دانوں کے لیے اس کا اصول حکمرانی معجزہ ہے۔ سائنس دانوں اور حقائق اشیاء پر غور کرنے والوں کے لیے اس کی آیات کائنات معجزہ ہے۔عارفوں اور زاہدوں کے لیے اس کا نظام عبادت وتزکیہ نفس معجزہ ہے۔نغمہ اور حسن صوت کے دلدادہ لوگوں کے لیے اس کی قراءت معجزہ ہے۔ غرضیکہ قرآن کریم کو جس پہلو سے دیکھیے اس کا اعجاز روشن ہے”۔ (ص10-11)
کتاب میں سب سے پہلے معجزہ کی لغوی واصطلاحی تعریف، خرق عادت کی قید سے متعلق علماء کے نقطہ نظر کا جائزہ لیتے ہوئے معجزہ اور جادو میں بنیادی فرق کو تین نکات کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔
1-  جادو صرف شعبدہ ہوتا ہے، محض نظر بندی ہوتی ہے۔جب کہ معجزہ میں وقتی اور عارضی طور پر مخفی اسباب کے تحت اشیاء کی ماہیت بدلی جاتی ہے۔
2-  جادوگر صرف جادوگر ہوتے ہیں، کسی روحانی پیغام اور رسالت ونبوت کے دعوے دار نہیں ہوتے جب کہ معجزہ پیش کرنے والے انبیاء خداکی طرف سے مبعوث ہونے اور انسانوں کی باذن اللہ رہنمائی کا دعوی کرتے ہیں۔
3-  جادوگر صرف تماشا اور مظاہرہ فن کرتے ہیں۔ان کے سامنے انسانیت کی اصلاح،فلاح وترقی اور نجات اخروی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔جب کہ انبیاء علیہم السلام بلند ترین نصب العین اور اعلیٰ مقاصد کے لیے معجزہ پیش کرتے ہیں۔
اس کے بعد انبیاء کرام کے معجزات کی حقیقت کا جائزہ لیتے ہوئے معجزہ کی دونوں قسمیں حسی اور مادی نیز عقلی اور علمی معجزہ پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔
دوسرے باب میں واضح کیا گیا ہے کہ قرآن ایک دائمی معجزہ ہے۔ نبی کریمؐ کو حسی معجزات بھی عطا ہوئے تھے لیکن مقصد نبوت کی تکمیل کے لحاظ سے علمی معجزہ ہی مناسب ہے۔ اس ضمن میں اس بات کا بھی حوالہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ صرف قرآن ہی معجزہ کیوں ہے؟ دیگر آسمانی کتابیں معجزہ کیوں نہیں ہیں؟ قرآن کریم نے اس جیسا کلام پیش کرنے، پھر دس سورتیں پیش کرنے اور پھر قرآن جیسی ایک سورہ پیش کرنے کا کفار ومشرکین سے جو چیلنج کیا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے قرآن اور کہانت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت کے اشعار پر خنساء کے نقد کے ذریعہ نزول قرآن کے وقت عربوں کی فصاحت وبلاغت کے معیار پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ کفار ومشرکین جن قرآن کی سورتوں کا جواب لانے سےعاجز رہے تو انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور کلام الٰہی کی زبان کو خاموش کرنے کے لیے تیر وتلوار کا سہارا لیا۔
باب سوم جو اس کتاب کا سب سے طویل باب ہے، اس میں اعجاز قرآن کی بحث کے آغاز پر روشنی ڈالتے ہوئے تیسری صدی ہجری سے پندرہویں صدی ہجری تک اعجاز قرآن کو موضوع بحث بنانے والے مصنفین کی تفصیلات فراہم کردی گئی ہیں اور ان مصنفین نے جس پہلو سے قرآن کریم کے اعجاز کو ثابت کیا ہے،مختلف اقتباسات نقل کرکے ان کے نقطہ نظر کو مدلل کیا گیا ہے۔ اس باب میں فاضل مصنف نے تقریباً ایک سو دس مصنفین کی عربی و اردو کتابوں کا تذکرہ کیا اور اعجاز قرآن کے وجوہ کی تعین میں ان کے نقطۂ نظر کی بھی مختلف اقتباسات نقل کرکے ترجمانی کی ہے۔البتہ اس فہرست میں مولانا محمد فاروق خاں کی قرآن کریم کا صوتی اعجاز، پروفیسر عبدالمغنی کی قرآن کریم کا ادبی وبلاغی اعجاز، پروفیسر نثار احمد فاروقی کی کتاب قرآن کریم کا اسلوب اور اعجاز، ڈاکٹر حبیب الرحمن کی اعجاز القرآن تجزیہ وتحقیق، ڈاکٹر شمس کمال انجم کا ترجمہ بلاغت قرآن کریم وغیرہ کا ذکر نہیں آ سکا ہے۔ اسی طرح عصر حاضر کے مشہور ترک اسکالر شیخ بدیع الزماں سعید نورسی کی کتاب کا ذکر بھی چھوٹ گیا ہے۔ اس باب کی افادیت اس لحاظ سے بڑھ جاتی ہے کہ اس کے مطالعہ سے اعجاز قرآن کا پورا منظرنامہ سامنے آجاتا ہے ۔
باب چہارم کے اندر فصاحت وبلاغت میں اعجاز قرآن کے پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اعجاز قرآن پر موجود قدیم عربی لٹریچر میں اس پہلو سے تفصیلی بحثیں ملتی ہیں۔ فاضل مصنف نے فصاحت وبلاغت کی تعریف کرتے ہوئے خطابی، باقلانی اور زرکشی کے حوالہ سے اس کی وضاحت کی ہے۔ علامہ ابن الاصبغ نے اپنی کتاب بدائع القرآن میں قرآن کریم کے محاسن اور صنائع لفظی کی سو قسمیں بیان کی ہیں۔ مصنف نے اس کا بھی ذکر کردیا ہے۔ اس کے بعد الفاظ  کی فصاحت، بلاغت قرآن، موقع ومحل کی نزاکت، اسالیب بیان اور منظر کشی وغیرہ کے ذیلی عناوین قائم کرکے قرآن کریم ادبی وبلاغی اعجاز کی ترجمانی کی گئی ہے۔
پانچویں باب میں نظم قرآن کے اندر اعجاز قرآن تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور رازی، زرکشی، مصطفی صادق رافعی، عبداللہ دراز، فراہی اور مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی وغیرہ سے خصوصی استفادہ کیا گیا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے حوالہ سے انہوں نے  لکھا ہے کہ ’’موضوع، مرکزی موضوع اور مدعا،ان تین بنیادی امور کو ذہن میں رکھ کر کوئی شخص قرآن کو دیکھے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کتاب کہیں بھی اپنے موضوع، اپنے مدعا اور مرکزی مضمون سے بال برابر بھی نہیں ہٹی ہے۔ اول سے لے کر آخر تک اس کے مختلف النوع مضامین اس کے مرکزی موضوع کے ساتھ اس طرح  جڑے ہوئے ہیں جیسے ایک ہار کے چھوٹے بڑے رنگ برنگ جواہر ہار کے رشتہ میں مربوط ومنسلک ہوتے ہیں‘‘۔ (ص126-127)
قرآنی آیات اور سورتوں کی مناسبت پر جو کتابیں تحریر کی گئی ہیں ان کی تفصیل پیش کرتے ہوئے آیات کے باہمی ربط وتعلق کو جن مفسرین نے بیان کیا ہے ان میں امام رازی، علامہ برہان الدین البقاعی، عبدالحق حقانی، اشرف علی تھانوی وغیرہ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں 29 ایسی سورتیں وارد ہیں جن کا آغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے۔ مفسرین کی بڑی تعداد حروف مقطعات میں اعجاز قرآن کو پوشیدہ سمجھتی ہے اور اپنی بصیرت اور لسانی صلاحیت سے اس راز کی نقاب کشائی کرتی ہے۔ اس باب میں علامہ مہائمی نے ان حروف مقطعات کی جو تشریح وتوضیح کی ہے اسے نقل کیا گیا ہے۔
ساتویں باب میں قرآنی فواصل کا تذکرہ ہے۔ قرآن کے رموز و اوقاف پر علماء نحو وقراءت نے گراں قدر کتابیں لکھی ہیں اور فواصل کی بلاغت وحکمت اور اعجاز قرآن سے اس کے تعلق پر عمدہ اور دلنشیں بحث کی ہے۔ قاضی ابوبکر باقلانی کا کہنا ہے کہ فواصل میں بھی قرآن کریم کا اعجاز پوشیدہ ہے۔ فاضل مصنف نے متعدد آیات میں فواصل کا جو اہتمام پایا جاتا ہے اس کے نمونے پیش کرکے اس پر جو گفتگو کی ہے وہ ان کے قرآنی ذوق اور گہری بصیرت کا غماز ہے۔
آٹھویں باب میں قرآن کریم میں وارد قسموں میں اعجاز قرآن کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور نویں باب میں غیب کی خبروں سے متعلق اعجاز قرآن کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اعجاز قرآن پر لکھنے والے قدیم مصنفین میں سےتقریباً ہر کسی نے غیب سے متعلق خبروں کی نشاندہی کو قرآن کریم کا اعجاز قرار دیا ہے اور اس کی متعدد مثالیں بھی پیش کی ہیں۔
دسواں باب ’اعجاز قرآن تعلیمات میں‘ کے عنوان سے ہے۔مصنف نے قرآن کریم کے فطری استدلال، کائنات میں غور وفکر کی دعوت، اللہ کی معرفت کا ادراک، اس کی صفات کی معرفت، آخرت کی معرفت، عمل کی اصلاح، عبادت اور خدمت خلق، حلال وحرام، انسانی حقوق، انسانی قدروں کا تحفظ، خاندان کی تشکیل، فرد اور معاشرہ کی اصلاح، دوسرے مذاہب سےسلوک وغیرہ کے ذیلی عناوین کے تحت قرآن کریم کی پاکیزہ اور روشن تعلیمات کو اس کے اعجاز کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
گیارہواں اور بارہواں باب بالترتیب "اعجاز قرآن قراءت میں” اور "اعجاز قرآن آیات کائنات میں” کے عنوان سے ہے۔ پہلے میں مصنف نے قرآن کریم کے صوتی وتاثیری اعجاز کو پیش کیا ہے۔ علامہ خطابی لکھتے ہیں: "اعجاز قرآن کی ایک وجہ دلوں میں اس کا اترنا اور نفوس میں اثر کرنا ہے۔ تم قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا کلام نہیں پاؤگے خواہ نثر ہو یا نظم، جب وہ کانوں سے ٹکرائے تو اس کی لذت وحلاوت دل میں اتر جائے اور اس میں رونق وہیبت پیدا کردے جس سے روح مسرور ہوجائے اور شرح صدر حاصل ہوجائے”۔ (ص221) فاضل مصنف نے متعدد اہل علم مثلاً قاری عبد الباسط، شیخ محمد عبدہ وغیرہ کے حوالہ سے قرآن کریم کے صوتی اعجاز کا اعتراف نقل کیا ہے۔قرآن کریم کے سائنسی اعجاز پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "قرآن اس وقت بھی معجزہ تھا جب عربوں کو اس کی ہر سورت اپنا مثل لانے کا چیلنج دیتی تھی اور آج بھی معجزہ ہے جب کہ دنیا میں ہر طرح کے علوم کا طوفان برپا ہے اور کائنات کی اشیاء برہنہ ہوکر انسانی نگاہوں کے سامنے آگئی ہیں”۔ (ص234) ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: "انسان، حیوان، زمین، پہاڑ، فضا، آسمان بلکہ تمام مظاہر کائنات کو علمی تحقیقات وانکشافات نے انسانوں کی دسترس میں لاکر رکھ دیا۔ اس پس منظر میں قرآن کی ان آیات پر بھی ماہرین علوم طبیعیات وطب نے غور وفکر کیا جن کا تعلق انسان اور کائنات کی جسمانی اور مادی تخلیق وتشریح سے ہے۔ اس کی روشنی میں قرآن کے علمی اعجاز کی گرہ کشائی کی۔ ان گنت کتابیں قرآن اور سائنس کے حوالہ سے ہر زبان میں معرض وجود میں آئیں”۔ (ص236) فاضل مصنف نے اس باب میں قرآن اور سائنس کے حوالہ سےعصر حاضر کی مولفہ بعض اہم کتابوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اردو لٹریچر میں اعجاز قرآن کے موضوع پر وقیع اور اہم کتابوں کی عدم موجودگی کا جو احساس ہے بڑی حد تک اس کتاب کے مطالعہ سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے نہ صرف یہ کہ اعجاز قرآن کا منظر نامہ اور اس کے وجوہ سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس موضوع پر لکھی گئی اہم کتابوں سے بھی قاری روشناس ہوجاتا ہے۔
پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی علمی دنیا کا ایک معروف نام ہے۔وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور ادارہ تحقیق وتصنیف کے تربیت یافتہ ہیں ساتھ ہی انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہوئی ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ دینیات  سے تقریباً  30 سال سے بھی زائد عرصہ سے بحیثیت مدرس منسلک ہیں۔ تحریر وتقریر کا یکساں ذوق ہے۔ زبان وبیان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ علوم القرآن ان کا خاص موضوع ہے۔ شاہ ولی اللہ کے قرآنی فکر کا مطالعہ، قرآن کی دعوت فکر، منہاج ترجمہ وتفسیر، مطالعہ تفاسیر قرآن، علامہ شبلی نعمانی کی قرآن فہمی، المدخل الی علوم القرآن قرآنیات پر ان کی اہم کتابیں ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2023