اے مِرے کشمیر اے ارضِ دِل گیر
مشکل وقت میں بلا تفریق مذہب مہمان نوازی ۔ اسلامی روایت اور کشمیری ثقافت کی جھلک
ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر، بارہمولہ، کشمیر
کشمیر، براعظم ایشیا کے قلب اور ہمالیہ کے دامن میں پھیلی ہوئی دنیا کی خوب صورت ترین وادی ہے جسے کبھی ’’جنت ارضی‘‘ کہا گیا تو کبھی ’’درّہند‘‘ جو اپنے آنچل تلے سر بہ فلک پہاڑوں، سرسبز و شاداب وادیوں، بَل کھاتے دریاؤں، لہلہاتے کھیتوں، گنگناتے جھرنوں، سرخوشی سے جھومتے چناروں اور نیلگوں جھیلوں کو چھپائے ہمہ وقت ثنائے قدرت میں مصروف و مگن رہتی ہے۔ اس کا حُسن ہی اس کی پاکیزگی کا امین و گواہ ہے۔ فضائیں نشیلے، مہکتے، مسکراتے نغمے چھیڑا کرتی ہے۔ ہر چہرہ یہاں چاند، تو ہر ذرہ ستارہ ہے۔ دن ہو یا رات ہوا ہر لمحہ یہاں ساز بجاتی ہے۔ دریاؤں کے لبوں پر محبت کے ترانے ہیں۔ شعراء کے شیریں و معطر قصیدوں سے قرطاس بھی مہکنے لگتے تھے۔
یہاں کے باسی چاہت و الفت ہی کی بولی بولتے اور سمجھتے ہیں؛یہی وجہ ہے کہ جب بھی بھارت فسادات کی لپیٹ میں آ جاتا ہے ان ناگفتہ بہ مواقع پر کشمیر بلا تفریق مذہب وملت؛ محبت و اخوت اور ہمدردی کا گہوارہ بنا رہتا ہے۔یہاں مسلم، ہندو، سکھ، ہر زماں شانہ بشانہ زندگی کے نشیب وفراز طے کرتے رہتے ہیں۔ فساد، نفرت، آپسی رنجشوں سے کوسوں دور امن کی اصل تصویر بنے ہوئے۔
کشمیر ایک طرف قدرتی حسن سے پُر ہے تو دوسری طرف اہلیانِ کشمیر حسنِ طبع کے مالک ہیں۔ چنانچہ حال ہی میں دنیا نے یہاں کی ہمدردی؛ ایثار و قربانی کا جلوہ کشمیر کی گلیوں و شاہ راہوں پر دیکھا جب دسمبر کی 27 تاریخ کو موسم کی پہلی شدید برف باری نے آمد و رفت کو متاثر کیا جس کی وجہ سے شاہ راہوں پر موجود سیاحوں سے پُر چھوٹی بڑی گاڑیاں برف کی سفید چادر اوڑھے سڑکوں پر وقتی طور پر ’دم توڑ‘ بیٹھیں۔ بوڑھا آسمان سفید آنسو بہا رہا تھا۔ کُہر آلود ہوائیں ملک بھر سے کشمیر کو تفریح کے لیے آنے والے پِیر و جواں اور طفل و زن کو اپنی آغوش میں لے چکی تھیں۔ اس مشکل وقت میں حسبِ روایت کشمیری عوام نے سخاوت اور مہمان نوازی کی مثال پیش کرتے ہوئے شاہ راہوں اور سڑکوں پر درماندہ مسافروں کے لیے اپنے گھروں اور مساجد کے دروازے وا کیے۔
سری نگر۔سونہ مرگ شاہراہ پر گُنڈ میں مقامی لوگوں نے پھنسے ہوئے مسافروں کے ایک گروپ کو پناہ دینے کے لیے مسجد کے دروازے کھولے۔ مقامی باشندوں کے مطابق یہ ایک بہترین ممکنہ حل تھا کیونکہ مسجد میں ایک صُفہ بھی ہے، جو رات بھر گرم رہتا ہے۔ ایک سیاح نے اس مہمان نوازی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہر کسی کو کشمیر کی مہمان نوازی کا تجربہ کرنے کے لیے کشمیر آنا چاہیے۔ یہاں ہر کوئی مہربان ہے اور وادی ہمارے لیے محفوظ ہے۔ براہ کرم زمین پر اس جنت میں ضرور آئیے۔‘‘
اس رات میڈیا رپورٹس کے مطابق تقریباً ایک ہزار درماندہ غیر ریاستی مسافروں کو مقامی لوگوں نے اپنے گھروں اور مساجد میں پناہ دی۔ سیاح ٹھٹھرتی سردی میں کانپ رہے تھے۔ مقامی لوگوں نے اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے غیر مسلم سیاحوں کے لیے گرم کپڑوں، گرم پانی اور کھانے کا انتظام کیا۔
سیاحوں نے انسانی ہمدردی اور مہمان نوازی کے اس جذبے کی تعریف کی۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے میر واعظ عمر فاروق نے بھی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’بھاری برف باری کے درمیان کشمیریوں کو اپنی مساجد اور گھروں کو پھنسے ہوئے سیاحوں کے لیے کھولتے ہوئے دیکھ کر خوشی ہوئی۔ گرم جوشی اور انسانیت کا یہ مظاہرہ ہماری مہمان نوازی اور بوقت ضرورت مدد کی دیرینہ روایت کی عکاسی کرتا ہے‘‘
سری نگر کے نواح اور ضلع گاندربل کے گنڈ علاقے کے رہائشیوں نے مہمان نوازی کی مثال قائم کرتے ہوئے پورے کشمیر کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کیا اور ہماری صدیوں پرانی روایت کو تازہ کیا۔ سری نگر۔لیہ ہائے وے پر سیاحوں کا رش تھا اور جوں ہی گنڈ کے لوگوں کو ان کے پھنسے ہوئے ہونے کی خبر ملی، وہ تیزی سے حرکت میں آگئے۔ اہلِ گنڈ نے اپنے رابطہ نمبر واٹس ایپ گروپ ‘سِول سوسائٹی تحصیل گنڈ’ پر شیئر کیے اور پھنسے ہوئے سیاحوں کو اپنے گھروں میں رہنے کی دعوت دی۔
کشمیر میں مہمان نوازی کی یہ روایت کوئی نئی یا انوکھی چیز نہیں ہے بلکہ یہاں کے لوگ اس مہمان نوازی کو اپنی ثقافت اور عقیدے کا ایک اٹوٹ حصہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ روایت صرف ایک رسمی یا ظاہری طور پر نہیں بلکہ ہمارے دل سے جڑی ہوئی ہے۔ جیسا کہ امام محمدؒ نے امام شافعیؒ کو گھر سے رخصت کرتے ہوئے کہا تھا اسی طرح ’یہاں مہمان کو رحمت سمجھا جاتا ہے‘ کشمیر میں جب کوئی مہمان آتا ہے تو اس کے لیے وقت، محنت اور ہر ممکن وسائل وقف کیے جاتے ہیں تاکہ وہ خود کو اجنبی نہ سمجھے۔
کشمیر کے لازوال حُسن، تاریخی ثقافت، جداگانہ طرزِ زندگی، میٹھی بولیوں، منفرد تہواروں، مدھر سُروں، گیتوں، روایتی لباس اور لذیذ کھانوں کا ایک عالم معترف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیری ثقافت میں مہمان کو بہت عزت دی جاتی ہے اور ان کے استقبال کو ایک عظیم ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے روایتی لباس، زبان اور کھانوں کے ذریعے مہمانوں کے لیے اپنے دل کھول دیتے ہیں۔ کشمیر کی خوبصورت وادیاں، دریاؤں کی شفاف موجیں اور پہاڑوں کی سر بفلک چوٹیاں یہاں آنے والے ہر مہمان کو ایسا محسوس کراتی ہیں جیسے وہ ایک خوابوں کی دنیا میں پہنچ گئے ہوں۔
یہاں کے باشندے اپنے مہمانوں کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ انہیں آرام دہ ماحول فراہم کریں۔ چاہے کوئی غیر ملکی سیاح ہو یا کوئی گھریلو مسافر، ہر کسی کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جاتا ہے۔ کشمیر کی مہمان نوازی محض ایک رسم نہیں ہے بلکہ یہ محبت، خلوص اور احترام کی علامت ہے۔ یہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ ہر مہمان اللہ کا انعام ہے۔
کشمیری لوگ قدرت کی عطا کردہ خوب صورتی کو اپنی مہمان نوازی میں جھلکنے دیتے ہیں۔ یہاں کی مسکراہٹیں، خلوص بھرے انداز اور دل کھول کر استقبال کی روایت ایسی ہے کہ مہمان خود کو اپنے گھر کی طرح آرام دہ محسوس کرتا ہے۔
ہم یہ مانتے ہیں کہ مہمان نوازی دلوں کو جوڑنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ ان کے لیے مہمان کی خدمت کرنے میں کوئی کمی یا کسر باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کی مہمان نوازی کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے اور لوگ یہاں آ کر خود کو اپنے گھر سے دور ہونے کا احساس نہیں کرتے۔
کشمیری مہمان نوازی کی یہ خوب صورتی دراصل ہماری امن پسند طبیعت اور محبت بھری شخصیت کا اظہار ہے۔ چاہے حالات جیسے بھی ہوں، یہاں کے لوگ اپنے مہمانوں کے لیے اپنے دروازے، اپنے دل اور اپنی روایات کھولے رکھتے ہیں۔ یہ چیز نہ صرف کشمیر کی ایک خوب صورت پہچان ہے بلکہ یہ ہماری تہذیب و ثقافت کا وہ حصہ ہے جو آنے والے وقتوں تک برقرار رہے گا۔ ان شاءاللہ
کشمیر کی مہمان نوازی میں ایک خاص کشش ہے جو یہاں آنے والے ہر فرد کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ جب ایک مسافر اس وادی میں قدم رکھتا ہے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک سیاح نہیں بلکہ ایک معزز مہمان ہے۔ یہاں کے لوگوں کی محبت، اپنائیت اور خلوص اسے ایسا محسوس کراتے ہیں جیسے وہ کسی جنت کے دروازے پر آ گیا ہو جہاں انسانیت اور اخلاقی اقدار سب سے اعلیٰ ہیں۔ اس بات کا اظہار غیر ریاستی سیاحوں نے بھی گزشتہ ہفتے گاندربل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
یہاں کا ہر منظر، چاہے وہ پہاڑ ہوں، دریا ہوں، یا سرسبز وادیاں، سب اس بات کے گواہ ہیں کہ کشمیری لوگ اپنے مہمانوں کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں اور ان کی خاطر ہر ممکن سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہاں کی مہمان نوازی اور محبت کو محسوس کرنے کے بعد ہر آنے والا یہ سوچتا ہے کہ وہ دوبارہ اسی سرزمین پر واپس آئے، جہاں ہر دل اس کے استقبال کے لیے بے تاب رہتا ہے۔
یوں کشمیر کی مہمان نوازی ایک ایسی دائمی خوشبو کی مانند ہے جو یہاں سے گزرنے والے ہر مسافر کو متاثر کرتی ہے، اور اسے یہاں کی محبت اور خلوص سے بھرپور یادوں کے ساتھ زندگی بھر کے لیے قید کر دیتی ہے۔ اس مہمان نوازی کا پیغام کشمیری لوگوں کا حقیقی عکاس ہے، جو امن، محبت اور احترام کی ایک مثال ہیں۔
یہاں کے مہمان نواز لوگ اپنی خوشی کو پسِ پشت ڈال کر اپنے مہمان کی ضرورت اور آرام کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ دل کی وسعت اور سخاوت کا یہ عالم ہے کہ کشمیری لوگ وسائل کی پروا کیے بغیر مہمان کی خدمت میں جٹ جاتے ہیں کیونکہ مہمان ان کے لیے اللہ کی رضا کا وسیلہ ہوتا ہے۔
کشمیریوں کی مہمان نوازی، سخاوت اور انسانیت دنیا کو یہ بتاتی ہے کہ اگر دل میں خلوص ہو تو کسی کو اپنے قریب لانے کے لیے بڑے وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024