کاشفہ ندیم ، ذاکر نگر دہلی
زمانہ قدیم سے موجودہ دور تک جیسے جیسے انسان نے شعور کی منازل طے کیں وہ مہذب بنتا چلا گیا، اس کی ترجیحات بھی بتدریج بدلتی چلی گئی اور نئی نئی تہذیب و تمدن کی مثالیں ہمیں ابتدائی دور سے دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن ہر ایک تہذیب جب اپنے نقطہ عروج کو پالیتی ہے تو اس کا زوال بھی شروع ہو جاتا ہے۔خصوصی طور پر وہ تہذیبیں جو خدا کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی بعثت سے پہلے وجود میں آ ئیں، ان میں اخلاقی گراوٹ انتہا درجے کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔اس کے بعد بھی ہر دور میں تہذیبوں کے عروج و زوال کی متعدد مثالیں ہیں۔
سماج میں اخلاقی اقدار کا جنم ایک خاندان کے افراد سے ہوتا ہے۔ یہ افراد مل کر ایک جماعت اور کئی جماعتیں مل کر ایک معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں۔کوئی بھی برائی جو چند افراد سے ایک جماعت اور وہ جماعت سے معاشرے میں بہت تیزی سے سرایت کر جاتی ہے اور معاشرتی سطح پر پھیلی ہوئی برائیاں در حقیقت بہت مہلک اور ان کے برے نتائج بہت دیر پا ثابت ہوتے ہیں اور نسل درنسل منتقل ہوتے ہیں۔
اس کارخانہ قدرت کو چلانے میں مرد و زن دونوں ہی کلیدی کردار نبھاتے ہیں۔ایک دوسرے کے تعاون سے وہ ایک صحت مند اور با اخلاق خاندان بناتے ہیں اور یہی خاندان ایک خوش حال اور با عمل مہذب معاشرے کی تشکیل میں معاون اور مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی ایسا مذہب نہیں جو اپنے پیروکاروں کو اخلاقیات کی تعلیم نہ دیتا ہو۔اخلاقی قدروں کے بغیر انسانی زندگی نا مکمل سمجھی جاتی ہے۔ اخلاق انسانیت کی روح اور اس کی بنیاد ہے۔انسانی زندگی کا ہر شعبہ مثلاً سیاست،قیادت،صنعت و حرفت اور تجارت میں اخلاقی اقدار کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔اخلاقیات کے لیے انسان کا ضمیر جواب دہ ہے اس کی باز پرس ضمیر کی عدالت میں ہوتی ہے۔
آ دم علیہ السلام سے لے کر تمام پیغمبروں اور مذہبی پیشواؤں نے دنیا میں اخلاق کی تعلیم دی ہے۔ مگر ایک مکمل اور جامع درس اخلاقیات صرف اور صرف مذہب اسلام نے ہمیں دیا ہے ۔آپؐ کی ذاتِ مبارکہ میں اخلاقی اقدار کی تکمیل کردی گئی۔ اخلاقی محاسن اور اقدار کی مضبوط جڑوں کی آب یاری ہمیشہ عورت کے کمزور اور ناتواں وجود سے ہی ہوئی ہے۔نسل انسانی میں اخلاقی قدروں کی تربیت کا آغاز آ غوش مادر سے ہی ہو جاتا ہے اور اسنکے سایہ عاطفت میں ہی یہ اقدار پھلتے پھولتے اور نشوونما پاتے رہے ہیں۔
آج کی عورت اپنی ذات کو منوانے اور خود کو خود کفیل اور معاشی طور سے مستحکم بنانے کی دوڑ میں اتنی سرگرداں ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے اصل مقصد کو یکسر فراموش کرتی جا رہی ہے۔آزادی ٔنسواں کے نام پر وہ مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کی حرص میں اتنی محو ہے کہ قوم،انسانیت واخلاقیات سے زیادہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔در حقیقت مقصد حیات سے اس کی دوری سے ہی اخلاقی قدروں کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ ایک ماں کا اس کے بچے کی زندگی میں کتنا اہم کردار ہوتا ہے اس کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا تمام تر دار و مدار اس کی پرورش پر ہوتا ہے۔اولاد کو والداور والدہ دونوں ہی کے تعاون کی ضرورت رہتی ہے لیکن ماں کی اولاد سے جذباتی وابستگی باپ کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ بہت اہم ہے۔
جو بچے زندگی کے ابتدائی حصے میں اس اخلاقی اور روحانی تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بلاشبہ ترقی کرلیں لیکن ان کی روح اور شخصیت میں ایک ایسا خلا رہ جاتا ہے جو زندگی بھر پر نہیں ہو سکتا۔موجودہ دور میں جبکہ زیادہ تر والدین تربیت کی ذمہ داری سے آزاد ہو چکے ہیں اور تربیت کی ساری ذمہ داری کا بوجھ بے چارے سوشل میڈیا کے نازک کندھوں پر آپڑا ہے اور وہ پوری مستعدی کے ساتھ اپنی کارفرمائیوں میں سرگرم عمل ہے اور نئی نسل کے دل ودماغ پر اپنا پورا تسلط قائم کر چکا ہے۔اس کی تربیت کا سب سے اہم ایجنڈا (YOLO) ہے۔ you only live once زندگی ایک بار ملی ہے اپنی ذات کے لیے جیو،بے تحاشا پیسہ کماؤ،عیش وعشرت کی زندگی گزارو، حقوق اللہ،حقوق العباد کیا ہیں ان کی قطعی پروا نہ کرو، انسانی ہمدردی،عاجزی،خیر خواہی وغیرہ کس بلا کا نام ہے ان سے بالکل بے بہرہ ہو جاؤ۔سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے چند دہائیوں میں اخلاقی قدروں میں ہمیں انتہا درجے کی گراوٹ،مادہ پرستی،مفاد پرستی اور خود غرضی کا ایک سیلاب دیکھنے کو ملتا ہے ۔اس تباہی کے پیچھے جو ذہنیت کار فرما ہے وہ ایک فرد کو محض اپنی خواہشات کا غلام بننا سکھاتی ہے۔خواہ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر جائز وناجائز راستہ اختیار کرے بس اتنا کافی ہے کہ وہ ملک کے بنائے ہوئے قانون اور ضابطے میں آتا ہو اس امر سے قطع نظر کہ خواہ اس میں کتنی ہی تہذیب واخلاقیات کی حدود پامال ہوتی ہوں اور اس کے بےشمار مہلک نتائج ہماری نظروں کے سامنے رونما ہوتے ہیں۔اور اس میں اگر کوئی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے تو وہ عورت کی اپنی ذات ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیوں میں ذاتی ترجیحات سے زیادہ ایک خاندان کی تعمیر وتربیت کے رجحانات کو فروغ دیا جائے۔ان کو ان کی بنیادی ذمہ داری کی اہمیت کے روشن اور امید افزا پہلوؤں سے آگاہ کیاجائے ۔ان کےاندر بچپن سے ہی معاشرے اور قوم کی خیر خواہی اور دردمندی کے جذبات کو ابھارا جائے ۔مادہ پرستی اور شخصی آزادی کے سماج پر برے اثرات اور نتائج سے روشناس کرایا جائے۔اس امر کو یقینی بنانے کے لیے والدین تادم حیات اپنی کوششیں جاری رکھیں۔خود بھی ان اصولوں پر سختی سے عمل کریں اور خود کو بطور نمونہ پیش کریں۔بچوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو خوش گوار اور قابلِ اعتماد بنا کر اس کام کے لیے ماحول کو ساز گار بنائیں ۔
لڑکیوں کو تعلیم سے آراستہ کریں لیکن تعلیم کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہی نہ ہو بلکہ یہ پہلو بھی ان کے پیش نظر رہے کہ معاشرے کی تعمیر میں ایک فرد کی حیثیت سے ان کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ان کو خوش گوار اور صحت مند خاندان بنانے میں ایک ماں کی حیثیت سے ایک مثبت کردار بھی نبھانا ہے ۔ان کے اندر ایثار و قربانی کا جذبہ بیدار کریں اور اللہ کی مخلوق سے محبت خواہ کسی بھی مذہب وملت میں ہوں،یہاں تک کہ جانوروں اور پرندوں اور فطرت کی بقا کی طرف اپنی ذمہ داری محسوس کریں۔
ایک مرد سماج میں مرکزی اور با اثر محافظ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔لڑکوں کو شروع سے صنف مخالف کا احترام اور عزت کرنا سکھائیں۔اگر باپ اپنے گھر میں بیوی،بہن اور بیٹی کی قدر و احترام کا معاملہ کرے گااور ان کو برابر کے حقوق اور تحفظ دے گا تو اس کے مثبت اثرات یقیناً اس کے بیٹوں پر بھی پڑیں گے۔ان کو گھر سے یہ تربیت ملے گی کہ عورت قابلِ احترام ہستی ہے، اس کی عزت نفس کسی بھی طریقے سے مجروح نہ ہونے پائے۔ وہ کسی بھی درجے میں،نہ سماجی اور نہ مذہبی اعتبار سے اس سے کمتر نہیں ہے بلکہ دونوں فریقین کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے اور دونوں ہی اللہ کی نظر میں ایک جیسے اجر کے مستحق ہیں ۔
***
ماں کی اولاد سے جذباتی وابستگی باپ کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ بہت اہم ہے
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024