آدی واسیوں کے خلاف ’نکسل‘ کے نام پر ظلم:کوئل فاؤنڈیشن انکشاف
141 مقدمات میں ملزمین کو سزا دلوانے کے لیے مخصوص حربوں کا پردہ فاش
شہاب فضل، لکھنؤ
قانونی اصولوں و معیارات کی خلاف ورزی اور اختیارات کا بے جا استعمال: پولیس پر سنگین الزامات
ملک کے مختلف خطوں میں قبائلی آبادی کی اکثریت برسوں کی تاریخی ناانصافیوں کے باعث حاشیہ پر ہے۔ انہیں میں سے ایک مسئلہ بھارت کے مختلف اضلاع کو ’سرخ کوریڈور‘ قرار دیے جانے کے بعد ’دہشت گردی (نکسل) مخالف کارروائیوں‘ میں قانون کے بے جا استعمال اور قانون کے طے شدہ اصولوں و معیارات کو نظر انداز کرنے کا ہے۔
مہاراشٹر کے خطہ ودربھ میں تلنگانہ اور چھتیس گڑھ کی سرحد سے متصل ضلع گڑھ چرولی کو حکومت ہند نے نکسل متاثرہ قرار دے کر ’ سرخ کورویڈو ‘ میں شامل کیا ہے ۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق گڑھ چرولی میں قبائلیوں کی آبادی 38 فیصد ہے اور ضلع کا بیشتر حصہ ساگوان کے جنگلات اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کافی معدنیات ہیں اور مہاراشٹر کے پچاس فیصد خام لوہے کے ذخائر یہیں پائے جاتے ہیں۔
کوئل فاؤنڈیشن (Quill Foundation) نامی ایک تنظیم نے گڑھ چرولی میں 2002 ء سے 2015 ء کے درمیان ’نکسل کیسیز‘ میں ملزموں کو سزا دلانے کے عمل پر تحقیق کی اور ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ تنظیم نے 356 صفحات پر محیط اپنی ایک رپورٹ میں قومی سلامتی قوانین کے پس منظر میں اور معقول قانونی نقطہ نظر سے 141 مقدمات کا تجزیہ کیا ہے اور پولیس اور استغاثہ کے بیانیے، پیش کیے گئے شواہد، عدالتی جانچ پڑتال اور سزا سنانے کے طریقوں میں ایک منظم ’طریقہ کار‘ اپنائے جانے کا پردہ فاش کیا ہے۔
دہشت گردی مخالف کارروائیوں کی تحقیق پر مبنی اس رپورٹ میں فاؤنڈیشن نے گڑھ چرولی کے قبائلیوں کے خلاف مبینہ نکسل سرگرمیوں میں گرفتاری اور عدالتی کارروائی کے دوران قانون کے تقاضوں اور ضابطوں کو نظر انداز کیے جانے کا نتیجہ اخذ کیا ہے۔
رپورٹ کے ایک مصنف فواز شاہین نے کہا : ’’گڑھ چرولی میں ’نکسل ازم‘ کے معاملات میں قانونی کارروائیوں کے دوران خاص طور پر آدیواسیوں کے لیے قانون کی حکم رانی کے معیارات کو نظر انداز کرنے کا ایک سلسلہ صاف نظر آتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’نکسل ازم‘ کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیے جانے کے بعد حکومتی اداروں کو قانونی اصولوں کو توڑنے کا شاید ایک جواز مل گیا جس کے نتیجے میں افراد کو بے قصور ثابت ہونے تک مجرم تصور کیا جاتا ہے اور ثبوت و شواہد جمع کرنے اور انہیں عدالتوں میں پیش کرنے کے معیارات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
بھارت میں قومی سلامتی پر ہونے والی قانونی بحثوں ،عدالتوں میں شواہد کی پیشی اور سماعت، فوجداری نظام انصاف کی صورت حال، واجب قانونی ضابطوں کے مطابق پولیس و عدالتی کارروائی اور حقوق کے تحفظ میں دلچسپی رکھنے والے افراد اور اداروں کے لیے یہ رپورٹ اہم ہے۔
طریقہ کار اور فوجداری انصاف کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں کسی ایک کیس میں لگائے گئے الزامات کی چھان بین کرکے قومی سلامتی کے عظیم دعوؤں کو قانون کی حکم رانی اور قدرتی انصاف کے پیمانہ پر پرکھا جاسکتا ہے اور یہی اس رپورٹ کی معنویت اور اہمیت ہے۔
141 میں سے 13 معاملات میں یو اے پی اے کے تحت کارروائی :
2002 ء سے 2015 ء کے درمیان 141 معاملات کے تجزیہ میں یہ پایا گیا کہ زیادہ تر کیسوں میں صرف پولیس کی گواہی کو کافی سمجھ لیا گیا اور ثبوتوں سے اسے نہیں ملایا گیا، جس کے نتیجہ میں ملزموں کا طویل مدت تک زیر حراست رہنا اور قانونی کارروائی کا عمل ہی اپنے آپ میں سزا بن گیا۔ 141 کیسوں میں سے 127 میں آرمس ایکٹ کے تحت غیرقانونی طور پر اسلحہ رکھنے کا الزام لگایا گیا جب کہ 13 کیسوں میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اگر مزید تفصیل میں جائیں تو کراس فائرنگ کے 61 معاملے، دھماکہ خیز مادّوں کی برآمدگی کے 26 کیسز، قتل کے 33 کیسز، آتشزنی کے 13 کیسز اور 8 دیگر معاملے تھے جن کا قانونی تجزیہ کوئل فاؤنڈیشن کے محققین نے کیا۔ ان سبھی کیسوں میں مقامی عدالتوں میں ٹرائل/سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ سنایا گیا۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کی تحقیق میں ان امور کا تجزیہ کیا گیا کہ مقدمہ کیوں درج کیا گیا، کون سے ثبوت و شواہد پیش کیے گئے، کن قوانین اور ضابطوں کا اطلاق کیا یا نہیں کیاگیا اور فیصلہ کیا اور کیوں آیا۔
رپورٹ دعویٰ کرتی ہے کہ 141 میں سے 140 مقدمات ایسے ہیں جن میں ملزمین باعزت بری ہوسکتے ہیں لیکن چونکہ ’نکسل ازم‘ ’قومی سلامتی‘ کو لاحق ایک بڑا خطرہ ہے، جس کے باعث سیکڑوں مقامی افراد جن میں زیادہ تر آدیواسی ہیں ایک طویل قانونی تعذیری عمل میں الجھائے جاتے ہیں اور ان کے لیے جمہوری تحفظات اور منصفانہ ٹرائل کے حقوق تک رسائی بے حد کم ہے، جس سے ایسا لگتا ہے کہ ملک کی آدیواسی آبادی کے لیے، قانون کی حکم رانی کا پیمانہ مختلف ہے۔
رپورٹ کے مطابق گڑھ چرولی کے آدیواسی خاص طور پر گرام سبھا کے ممبران جو جنگل اور پہاڑ کے وسائل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں انہیں پولیس حراست، ٹارچر اور طویل قید کی صورت میں اپنی جدوجہد کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے ۔مختلف کمپنیوں کو کان کنی کے ٹھیکے ملے ہوئے ہیں جہاں پولیس اسٹیشن اور سیکورٹی کیمپ موجود ہیں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے آدیواسیوں کو پولیس کی لامحدود طاقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’نکسلی‘ ہونے کا ٹھپہ ہی قصوروار قرار دینے کے لیے کافی!
رپورٹ کے بموجب جن معاملات پر تحقیق کی گئی ان میں استغاثہ نے یہ عام مفروضہ استعمال کیا کہ ملزمین مبینہ طور پر’ نکسلی‘ ہیں جو ضلع گڑھ چرولی میں ’نکسلی نظریہ‘ کو پھیلانے کے لیے ’غیر قانونی سرگرمیاں‘ انجام دے رہے ہیں۔ ملزم کسی ممنوعہ یا دہشت گرد تنظیم کا ممبر ہے اس کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جاتا، بس نکسلی ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے، جس سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ملزم ممنوعہ سی پی آئی (ماؤنواز) کا ممبر ہے، مگر فیصلے میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ تجزیہ کے دوران پنچ نامہ اور برآمدگی میں بھی ان گنت جھول پائے گئے ۔ نکسلی کی اصطلاح کا استعمال ’ملک دشمن‘ (اینٹی نیشنل) کے طور پر کیا جاتا ہے جس پرٹرائل کے دوران مقامی عدالت کی جانب سے بھی کوئی سوال نہیں کیا جاتا، چنانچہ ٹرائل برسوں تک جاری رہتے ہیں اور ملزم طویل قید میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
141 کیسوں میں سے صرف تین میں ٹرائل کورٹ نے سزا سنائی، جن میں یو اے پی اے کی دفعات لگائی گئی تھیں۔ ان میں بھی یو اے پی اے کے تحت دو معاملات میں عدالت نے ملزمین کو بری کردیا اور دو دیگر معاملات میں ہائی کورٹ نے یو اے پی اے کے تحت الزام کو خارج کردیا۔
تجزیہ سے اخذ کردہ نتائج، قانونی ضوابط کی صریح خلاف ورزی ثابت کرتے ہیں یعنی141 کیسز اور فیصلوں کے تجزیہ سے جو نتائج اخذ کیے گئے وہ یوں ہیں: (۱) گرفتار شدگان کے خلاف غیر معمولی نوعیت کے سخت قوانین کا استعمال کرنے کے بجائے آئی پی سی کی دفعات کے تحت غیرمعمولی قسم کی قانونی و عدالتی کارروائی کی گئی جو قانونی کارروائی کے بجائے ایک استحصالی اور ہراسانی کا عمل ثابت ہوتا ہے۔ قانونی اصطلاحات کے بجائے سیاسی اصطلاح (نکسل) کا استعمال، جس سے الزام کی نوعیت سرزد جرم سے مختلف ہوجاتی ہے اور ٹرائل کورٹ بھی اس پر سوال نہیں کرتی، چنانچہ ملزموں پر سیاسی ٹھپے لگانے میں پولیس کو جھجھک نہیں ہوتی ۔ نظام قانون کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔
متعدد کیسوں میں یہ دیکھا گیا کہ مبہم الزامات میں ایک شخص پر کئی کیسیز درج کیے گئے اور شواہد نہ ہونے کے باعث سبھی میں وہ بری ہوگیا۔ اسی طرح پولیس حراست میں دیے گئے بیان کو قبول نامے کے طور پر ٹرائل کورٹ میں پیش کیا گیا مگر اس کے ساتھ میل کھانے والے شواہد نہیں دیے گئے ، چنانچہ عدالت نے انہیں مسترد کردیا۔
141 میں سے 128 کیسوں میں پولیس نے ملزم کو ’نکسل‘ قرار دیا مگر اس سلسلہ میں کوئی ثبوت نہیں پیش کیا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرائل شروع ہونے سے قبل ہی ملزمین کو ’نکسل‘ مان لیا گیا۔ 39 کیسوں میں استغاثہ نے ’نکسل لٹریچر‘، نکسل بیانر یا نکسل پمفلٹ برآمد ہونے کا دعویٰ کیا مگر 19 کیسوں میں پنچ گواہ، پنچ نامہ کو ثابت کرنے میں ناکام رہے۔
ٹرائل کے مرحلہ میں استغاثہ کی کہانی کو ثابت کرنے میں پنچ گواہوں کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ ان کی گواہی، گرفتاری، تلاشی، ضبطی اور کیس کے دیگر پہلوؤں میں استغاثہ کے دعوؤں کو ثابت کرنے کے لیے اہم ہوتی ہے تاکہ پولیس پنچ نامہ میں فرضی اندراج نہ کر سکے۔ رپورٹ کے مطابق بیشتر کیسوں میں پنچ گواہ، پنچنامہ کی باتوں کو ثابت نہیں کرسکے، نہ ہی یہ ثابت ہوا کہ واقعہ کی جگہ پر پولیس نے پنچ نامہ تیار کیا، یا یہ کہ گواہوں کو پولیس اسٹیشن بلا کر پنچ نامہ پر دستخط کرائے گئے اور ضبطی پہلے ہی ہوچکی تھی، نہ کہ جائے واردات پر ضبطی ہوئی جیسا کہ قانون کے مطابق ضروری ہے ۔رپورٹ میں قانونی ضابطوں کی خلاف ورزی کی متعدد مثالیں 141 معاملوں میں ٹرائل کورٹ کے فیصلوں سے بطور حوالہ شامل کی گئی ہیں ۔
سبھی معاملات میں استغاثہ، ملزم اور وارداتِ جرم کے درمیان کوئی تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہا اور خاص بات یہ کہ ملزمین کو جائے وقوعہ/واردات سے گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس تحقیقی جائزہ میں شامل محققین نے دفاع کے وکلاء سے انٹرویو بھی کیا اور ملزمین کی گرفتاری اور ان پر عائد کردہ الزامات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ان کے بقول (۱) ملزمان کو جائے واردات کے قریب سے یا پولیس آپریشن میں گرفتار کیا گیا، (۲) ’انتظامیہ‘ کے خلاف رہنے والے گرام سبھا ممبران یا (۳) دیہی کمیٹی میں شامل افراد جو زمینوں پر غیرقانونی قبضہ کی مخالفت کرتے ہیں انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔
مجموعی طور پر، آدیواسی ملزمین کے خلاف درج مقدمات کا سلسلہ اور تجزیہ کیے گئے مقدمات میں باعزت بری ہونے کی اونچی شرح، پولیس کے بیانیے کی صداقت اور اعتبار پر سوالیہ نشان لگاتی ہے جسے استغاثہ مذکورہ مقدمات میں ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔ اس رپورٹ سے اس ضرورت کا احساس ہوتا ہے کہ ایسے معاملات میں گہرائی سے فیلڈ سروے کیا جائے اور حقائق کا پتہ لگایا جائے تاکہ حقیقی نظامِ انصاف کا قیام ہو اور شہریوں کے ساتھ زیادتیوں کا سدّباب ہوسکے۔
***
***
گڑھ چرولی کے آدیواسی خاص طور پر گرام سبھا کے ممبران جو جنگل اور پہاڑ کے وسائل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں انہیں پولیس حراست، ٹارچر اور طویل قید کی صورت میں اپنی جدوجہد کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے ۔مختلف کمپنیوں کو کان کنی کے ٹھیکے ملے ہوئے ہیں جہاں پولیس اسٹیشن اور سیکورٹی کیمپ موجود ہیں اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے آدیواسیوں کو پولیس کی لامحدود طاقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024