آدھی دنیا کا مکمل جہاں

مصنفہ نے 80خواتین کی ادبی و علمی خدمات کا احاطہ کیا

محمد عارف اقبال

شمع اختر کاظمی (پ 1964:) جمشید پور کے محلہ کاسی ڈیہہ میں پیدا ہوئیں۔ یہ شہر پہلے بہار کا حصہ تھا جو اب جھارکھنڈ میں آگیا ہے۔ البتہ ان کا آبائی وطن بھدوہی (اتر پردیش) ہے۔ جمشید پور میں ہی ابتدائی تعلیم کے بعد میٹرک اور پھر اردو زبان و ادب میں بی اے (آنرس) کی ڈگری لی۔ کریم کالج آف ایجوکیشن سے بی ایڈ امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ ایم اے (اردو) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد سے کیا۔ معروف معنی میں عصری تعلیم کے ساتھ ان کی دینی تعلیم میں ان کی والدہ رابعہ خاتون کے ساتھ ایک بزرگ اور مربی شخصیت مولوی عبدالاحد صاحب کی خصوصی نگرانی رہی۔ ان کی والدہ علم و ادب سے گہرا شغف رکھتی تھیں یہی وجہ ہے کہ ان کے ادبی ذوق کی آبیاری اس طرح ہوئی کہ کالج کے زمانے میں ہی انہوں نے ایک افسانہ ’زندگی کے موڑ پر‘ لکھا جسے کالج کے مقابلہ افسانہ نگاری میں اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ شمع اختر کاظمی اس بات کا برملا اعتراف کرتی ہیں کہ رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد بھی ان کے شریک سفر اختر کاظمی نے نہ صرف ان کی مزید تعلیم کے حصول کو آسان بنایا بلکہ ادبی ذوق کو نکھارنے میں بھرپور مدد کی۔ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے ان کو ایسا شوہر عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ افسانے، علمی و ادبی شخصیات پر مضامین لکھنا اور بچوں کی کہانیاں ان کی ادبی کاوشوں کا حصہ بن گئے۔ ان کے مضامین اردو دنیا، بچوں کی دنیا، باجی، ہدیٰ ٹائمز، گل بوٹے، بیباک، امنگ، پیام تعلیم، گلشن اطفال اور دیگر بہت سے رسائل میں شائع ہوتے رہے جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ممبئی اور دیگر ریاستوں کے معروف روزناموں میں بھی ان کے مضامین شائع ہوئے۔ ان کے مضامین کے دو مجموعے ’آدھی دنیا‘ (2010) اور ’سورج سوا نیزے پر‘ (2018) شائع ہوچکے ہیں۔ دونوں کتابوں کو ملک کی اہم اردو اکادمیوں نے انعام سے بھی نوازا۔
شمع اختر کاظمی کی یہ تیسری کتاب ’آدھی دنیا کا مکمل سچ‘ اپنے موضوع کے اعتبار سے ذرا مختلف ہے۔ ان کی رہائش مہاراشٹر کے شہر بھیونڈی میں ہے جو کپڑوں کی ہینڈلوم صنعت کے علاوہ علم و ادب کے لحاظ سے اس کی تاریخ تابناک اور توانا ہے۔
زیر نظر کتاب دراصل 80 خاتون قلم کاروں کا تعارف و تذکرہ اور انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے قبل شمع اختر کاظمی نے جو انتساب لکھا ہے وہ بڑا ہی معنی خیز اور درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ ’انتساب‘ کے الفاظ یوں ہیں:
’’قلم کاغذ سے برسر پیکار حوا کی ان بیٹیوں کے نام جنہوں نے علم و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے جائز حقوق اور حصول انصاف کی خاطر خود کو ہمہ وقت کمربستہ رکھا۔ ساتھ ہی ان خواتین کے نام جن کے ہاتھوں سے قلم چھین لیے گئے…!!!‘‘ 
اسّی خواتین کے تذکرے اور انٹرویوز میں خود شمع اختر کاظمی نے اپنا تعارف بھی پیش کردیا ہے تاکہ قاری کو کتاب کے مصنفہ کے بارے میں (بقلم خود) معلومات حاصل ہوسکیں۔ انہوں نے کوشش کی ہے کہ پورے ملک کی خواتین کی نمائندگی ہوسکے۔ مشاہیر خواتین کے علاوہ ایسی قلم کار خواتین بھی ہیں جن کے بارے میں اردو کے قارئین شاید کم جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب کے دیباچے (زمین سے چاند کو چھونے کا حوصلہ رکھنا) میں ان مشکلات کو بھی بیان کیا ہے جن سے وہ نبرد آزما ہوئیں۔ انہوں نے خواتین قلم کاروں کا تاریخی جائزہ بھی لیا جس سے اندازہ کرنا آسان ہوتا ہے کہ ہندوستان میں کن لوگوں کی کوششوں سے خواتین کے علمی و ادبی ذوق کی آبیاری ہوئی۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے علم و ادب کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اس کتاب کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ’زندہ خواتین‘ کی شمولیت ہے۔ ان کے تعارف کے ساتھ ان کے تلخ و شیریں خیالات و احساسات سے اردو قارئین کو واقف کرایا گیا ہے۔ اسی قلم کاروں میں سے چند نام ملاحظہ ہوں:
ڈاکٹر آمنہ تحسین، انور نزہت، ڈاکٹر اشرف جہاں، استوتی اگروال، بلقیس ظفیرالحسن، ڈاکٹر بانو سرتاج، ڈاکٹر ثروت جہاں، ڈاکٹر حلیمہ فردوس، خلیق النسا، ذکیہ مشہدی، ڈاکٹر رضیہ حامد، ڈاکٹر رینوبہل، راشدہ خلیل، ڈاکٹر راحت بشیر بدر، رضیہ سلطانہ، زیبا ناز، ڈاکٹر سرور نسرین قاضی، سیدہ نفیس بانو شمع، سیدہ نوشاد بیگم، سعدیہ مرچنٹ، ڈاکٹر شہناز فاطمی، شہناز شازی، ڈاکٹر صادقہ نواب سحر، ڈاکٹر عصمت جہاں، فوزیہ رباب، فریدہ رحمت اللہ، ڈاکٹر قمر جہاں، ڈاکٹر مرضیہ عارف، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، نینا جوگن، نصرت شمسی، ڈاکٹر یاسمین اختر وغیرہ۔
شمع اختر کاظمی کا درد بھرا احساس یہ ہے کہ یہ کام آسان نہیں تھا۔ ہر خاتون کے لیے الگ سوال نامہ اور انتظار کی صبر آزما مدّت۔ مصنفہ کے بقول کسی کو بھی زبانی اجازت کے بغیر سوال نامہ نہیں بھیجا گیا۔ سوال نامے غائب بھی ہوئے۔ بعض خواتین کو چار پانچ مرتبہ سوال نامہ بھیجا گیا لیکن ’برا کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا‘ کے مصداق مصنفہ ہاتھ ملتی ہی رہ گئیں۔ آج بھی وعدہ برقرار ہے لیکن جواب ندارد۔ شمع اختر کاظمی لکھتی ہیں کہ شاید انہیں ایسا کوئی شخص نہیں ملا جو ان کے نام سے جواب لکھ دیتا، پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے والے تو بہت ملتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ انہوں نے ملک گیر سطح پر ڈیڑھ سو سے زائد بہ قید حیات خواتین سے پے در پے رابطہ قائم کیا لیکن صرف 79 خواتین کے جوابات حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ 
اس مجموعہ میں خواتین کی ادبی و علمی خدمات کا جس طرح احاطہ کیا گیا ہے، وہ شمع اختر کا بڑا کارنامہ ہے۔ ماضی کی شاعرات اور ادیبائوں کے تذکرے تو مل جاتے ہیں لیکن عصر حاضر میں ’نسائی ادب‘ کو دستاویزی شکل دینا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اس طرح کا کام وہی خاتون کرسکتی ہیں جو ادب کو محض تفریح نہیں بلکہ ایک سنجیدہ تخلیقی، تحقیقی اور علمی عمل سمجھتی ہیں۔ شمع اختر کے بقول ’’تخلیقی ادب میں تانیث کا چہرہ مستقبل کے تمام روشن اور حسین امکانات سے دمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ حوّا کی بیٹیوں کا تخلیقی سفر اب دشوار نہیں‘‘
نینا جوگن (صفحہ 470) کی اصل شخصیت سے ہم بالکل ہی واقف نہیں تھے۔ البتہ کوہسار جرنل (بھاگلپور) میں ان کا نام ادارتی عملے میں ضرور دیکھتے تھے۔ اس مجموعے میں ان کی شمولیت سے ہی معلوم ہوا کہ ان کا اصل نام فرزانہ پروین (پ: 21 دسمبر 1964) ہے اور پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی بیوی لیکن اب بیوہ ہیں۔ ان کا گھرانہ علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ عصری تعلیم کے ساتھ مدرسے کی تعلیم بھی حاصل کی اور مولوی، عالم، فاضل کی ڈگریاں بھی لیں۔ ان کا قلمی نام ’نینا جوگن‘ کیوں ہوا، اس کا جواب وہ خود دے سکتی ہیں۔ بی اے (آنرس) میں یونیورسٹی ٹاپر ہیں اور بی ایڈ کی ڈگری بھی لی ہے۔ رسالہ کوہسار (بھاگلپور) کی ادارت سے وابستہ رہی ہیں لیکن گھر گرہستی میں ان کی دلچسپی خاص ہے۔
اَسّی خواتین کے اس تذکرے میں ہر خاتون کی تصویر تعارف سے قبل دی گئی ہے، صرف ایک خاتون کی تصویر اس میں نہیں ہے جن کا نام شمع اختر کاظمی ہے۔ اس طویل تعارف و تبصرے کے بعد اتنا ضرور کہوں گا کہ اس کی پروف ریڈنگ پر کچھ زیادہ ہی توجہ مرکوز کی جانی چاہیے تھی، لیکن اس کام کو جس طرح تنہا انہوں نے انجام دیا ہے، یہ انہی کا حصہ ہے۔ شمع اختر کاظمی ایسی خواتین اب انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ…۔ کتاب اس لائق ہے کہ یہ ہر گھر کی شیلف میں موجود ہو۔ مردوں کے ادبی کارناموں کے ساتھ اگر خواتین کی علمی و ادبی خدمات کو جاننے کا موقع مل جائے تو ہر تعلیم یافتہ شخص کے لیے بڑی بات ہوگی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 جون تا 17 جون 2023