عدالتوں کے بلڈوزر تلے اندھیرا

گھروں کے انہدام پر سپریم کورٹ کے بیانات؛ دیر آید درست آید!

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

گیان واپی مسجد کے زیر سماعت معاملے پر پنڈتوں اور سرکاری اہلکاروں کے متنازعہ بیانات چہ معنی دارد؟
وطن عزیز میں بی جے پی کی صوبائی سرکاروں نے اپنے مخالفین، خاص طور پر مسلمانوں کو سزا دینے کا کام بلڈوزر کے ذریعہ شروع کیا ہے۔ اور اب ہندو فرقہ پرست تنظیمیں مساجد پر اس کے استعمال کا مطالبہ کرنے لگی ہیں۔ یہ سلسلہ شملہ کے سنجولی سے شروع ہوکر منڈی سے ہوتے ہوئے اب راجستھان پہنچ گیا ہے۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ کے مطابق ہندوستان میں تین لاکھ غیر قانونی مساجد ہیں۔ اس بد زبان نے یہ بہتان بھی لگایا کہ یہ مساجد دہشت گردوں کی افزائش گاہ بن سکتی ہیں اس لیے انہیں شملہ ماڈل یعنی عوامی احتجاج کے ذریعہ منہدم کیا جانا چاہیے۔ اس ملک میں ہر عمارت کی جانچ پڑتال کی جائے تو کوئی نہ کوئی قانونی کمی نکل ہی آئے گی۔ کون جانے ایودھیا میں رام مندر کا نقشہ منظور ہوا یا نہیں اور اگر اس کے مطابق کام ہوا تو اس میں پانی کیسے چلا آیا؟ لیکن عوام نہ تو ایودھیا میں احتجاج کرنے کے لیے گئے اور نہ نئی پارلیمانی عمارت کے سامنے جس کے اندر پہلی ہی بارش میں سیلاب آگیا۔ اس لیے کہ فرصت کس کے پاس ہے؟ مکیش امبانی کا محل بھی متنازع ہے لیکن وہاں کوئی نہیں پھٹکتا۔ نوئیڈا میں دو ٹاور سرکار نے گرائے مگر عوام وہاں جلوس لے کر کبھی نہیں گئے۔ یہ دراصل نفرت انگیزی کی سیاست ہے جس کے تحت بلڈوزر سے لوگوں کو پیار آرہا ہے لیکن جب یہ خود ان پر چلے گا تو ہوش ٹھکانے آئیں گے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی باری کبھی نہیں آئے گی تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔
اس معاملے کا ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ بلڈوزر ناانصافی پر کمبھ کرن کی نیند سونے والا سپریم کورٹ اب اچانک بیدار ہو گیا ہے۔ اس نے ایک ماہ میں دوسری بار بلڈوزر کے ذریعہ کی جانے والی ناانصافی کے ننگے ناچ کو ہدف تنقید بنایا۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس بار کہا کہ جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ہونا کسی کی جائیداد کو منہدم کرنے کی بنیاد نہیں ہے اور اس طرح کے اقدامات ملک کے قوانین کو بلڈوز کرنے جیسے ہیں۔ اس سے قبل 2 ستمبر کو جسٹس بی آر گوائی اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے دورانِ سماعت پوچھا تھا کہ کسی بھی گھر کو صرف اس لیے کیسے گرایا جا سکتا ہے کہ اس کا مالک ملزم یا مجرمانہ معاملے میں سزا یافتہ ہے۔ عدالت نے یہاں تک کہا تھا کہ ’’صرف اس وجہ سے انہدام کیسے کیا جا سکتا ہے کہ وہ ملزم یا مجرم ہے؟ اگر تعمیر غیر مجاز ہے تو ایسا ہی ہو، اس میں کچھ ہموار ہونا پڑے گا۔ ہم فیصلہ کریں گے۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ بلڈوزر کے بے دریغ استعمال کا حقیقی مقصد تجاوزات ہٹانا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو ایک بہانہ ہوتا ہے۔ اس کا ہدف مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکا کر اپنی سیاسی دکان چمکانا یا اپنے مخالفین کو ڈرانا دھمکانا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی سے نکل کر سماجوادی پارٹی میں جانے والے دو ہندو سیاست دانوں کی جائیدادوں کو بھی بلڈوزر سے روند دیا گیا۔ ستمبر کے اوائل میں عدالتِ عظمیٰ نے قوانین کی خلاف ورزی کرکے تباہی کرنے والی میونسپلٹی کو روکنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ بنچ نے تسلیم کیا تھا کہ اس بابت رہنما خطوط وضع کرکے اسے دستاویزی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز میں بلڈوزر کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کا کھیل2017 میں شروع ہوا۔ اس کے بعد وہ بڑے زور و شور کے ساتھ اترپردیش سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا لیکن عدالت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کاش کے عدالت اس کو روکنے کےاقدامات سات سال قبل کرتی تو لاکھوں لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچایا جاسکتا تھا کیونکہ اس ظالمانہ اقدام سے تقریباً ساڑھے سات لاکھ لوگوں کے بے گھر ہونے کی خبر ہے۔ ریاستی حکومتیں فوراً انصاف دینے کے نام پر بے قصور لوگوں کے گھر اجاڑ کر یہ پیغام دیتی ہیں کہ ملک کا عدلیہ ناکارہ ہو چکا ہے اور وہی اس معاملے میں افضل و برتر ہیں۔ بعید نہیں کہ یہ بات عدالتِ عظمیٰ کو ناگوار گزری ہو اور وہ حرکت میں آیا ہو خیر دیر آید درست آید کی مصداق خوابِ خرگوش سے بیدار ہونے والے عدلیہ کے بارے میں یہی کہنا پڑے گا:
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
سپریم کورٹ میں جسٹس رشی کیش رائے، سدھانشو دھولیا اور ایس وی این بھٹی کی بنچ کے سامنے آدرش گجرات کا ایک مقدمہ تشویش کا سبب بن گیا۔ ضلع کھیڑا کے جاوید علی محبوب میاں سعید کے خلاف یکم ستمبر کو ایک فوج داری شکایت درج کرائی گئی تو میونسپل حکام نے ان کے خاندانی مکان کو بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کردینے کی دھمکی دے دی۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے خلاف تجاوزات کا مقدمہ درج ہونے کے بعد میونسپل حکام نے اہل خاندان کو گرفتار بھی کیا تھا۔ سعید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کتھلال گاؤں کے ریونیو ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا موکل زمین کا شریک مالک تھا۔ اگست 2004 میں گرام پنچایت کی طرف سے منظور شدہ قرارداد میں اس زمین پر مکان بنانے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس میں ان کے خاندان کی تین نسلیں دو دہائیوں سے مقیم تھیں۔ وکیل نے سپریم کورٹ کے 2 ستمبر کے حکم کا بھی حوالہ دیا، جس میں اس نے مکانات کو گرانے سے پہلے کچھ رہنما اصولوں پر عمل کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔اس معاملے میں سماعت کے بعد بنچ نے کہا کہ کسی فرد کا کسی جرم میں مبینہ طور پر ملوث ہونا جائیداد کو گرانے کی بنیاد نہیں ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے مزید یہ تبصرہ کیا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں ریاستی کارروائی قانون کی حکم رانی کے تحت ہوتی ہے، خاندان کے ایک فرد کی طرف سے خلاف ورزی خاندان کے دیگر افراد یا ان کی قانونی طور پر تعمیر شدہ رہائش کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ جس ملک میں سرِ عام یہ زیادتی ہوتی ہے وہاں قانون کو اپنے پہیوں تلے روندنے والے بلڈوزر کی حکم رانی ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے بلڈوزر دھاریوں سے کہا کہ سعید کے خلاف صرف ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے اور وہ بھی قانونی عمل کے ذریعے عدالت میں ثابت ہونا باقی ہے۔اس لیے عدالت انہدام کی ان دھمکیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ یہ ایک ایسے ملک میں ناقابل تصور ہے جہاں قانون کی بالادستی ہے۔ فی الحال ملک کے کنول چھاپ حکم راں قانون کو اپنا زیر دست سمجھتے ہیں اس لیے عدالت کے ذریعہ ایسی جارحانہ کارروائیوں کو ملکی قوانین پر بلڈوزر چلانے کی مصداق سمجھنا صد فیصد درست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے گجرات حکومت کو نوٹس جاری کرکے چار ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے اور تاکید کی ہے کہ سعید کے گھر کو اگلے حکم تک گرایا نہ جائے۔
مودی کی جنم بھومی گجرات میں تو خیر گھر کے انہدام سے قبل معاملہ عدالت میں پہنچا اور اس پر روک لگ گئی مگر ان کی کرم بھومی اترپردیش اس سے دو قدم آگے ہے۔ وہاں پر اعظم گڑھ کے سنیل کمار نے الٰہ باد ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی کہ زمین تنازعہ کے کیس میں اعظم گڑھ کے ایڈیشنل کلکٹر نے اس کا موقف سنے بغیر 22 جولائی کو گھر گرانے کا حکم جاری کر دیا۔ اس کے بعد انتظامیہ نے ان کے گھر کو بلڈوزر سے گرا بھی دیا۔ سنیل کا الزام ہے کے بغیر سماعت کا موقع دیے جلد بازی میں ان کے مکان پر بلڈوزر چلا دیا گیا۔ اس تنازع میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش میں بلڈوزر کارروائی پرسوال اٹھایا۔ جسٹس پرکاش پڑیا کی سنگل بینچ نے اس معاملے میں سماعت کے دوران سخت ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے اتر پردیش حکومت سے پوچھا کہ ایسی کون سی مجبوری تھی کہ جس کے سبب قانونی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر عرضی گزار کے گھر کو منہدم کر دیا گیا؟
عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری نا انصافی کی تلافی کرکے آئندہ اس کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرنا ہوتا ہے مگر اس کے بجائے جج صاحبان پروچن (پندو نصیحت) پر اکتفا کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ اس طرح کا ایک واقعہ 10نومبر 2023 کو بھی پیش آیا تھا جب الممہ آباد ہائی کورٹ نے پریاگ راج کے جھونسی تھانہ علاقے میں رہنے والے ایک وکیل کے گھر کو منہدم کرنے پر سماعت کے دوران پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کو پھٹکار لگائی تھی۔ ایڈووکیٹ ابھیشیک یادو کی شکایت پر دورانِ سماعت ہائی کورٹ نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلڈوزر کی کارروائی من مانی کے لیے نہیں ہے۔پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کے وائس چیئرمین سے جواب طلب کرنے والے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ گھر کی ایک اینٹ لگانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور حکام اسے توڑنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔ پی ڈی اے کے اہلکاروں نے نوٹس کی تین سو کاپیاں ہائی کورٹ میں پیش کرکے بتایا تھا کہ شہر میں پچاس غیر قانونی تعمیرات کو گرایا گیا ہے نیز، جھونسی زون کے تین سو لوگوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ اس معاملے میں اگر عدالت نے بی ڈی اے اتھارٹی یا اس کے آقاؤں کو کوئی سزا دی ہوتی تو ممکن ہے اس طرح کی دھاندلی پر لگام لگتی کیونکہ یوگی جیسے انتظامیہ سے متعلق خواجہ منظر حسن منظر کا کہنا ہے:
اب کلام نرم و نازک بے اثر پاتے ہیں ہم
پھول کی پتی نہ ہیرے کا جگر پاتے ہیں ہم
وطن عزیز میں انتظامیہ فی الحال اس قدر خود سر ہوگیا ہے کہ اسے عدالتی احکامات کی ذرہ برابر پروا نہیں ہے۔ اس کی تازہ مثال گیان واپی مسجد کے حوالے سے الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ اور اس کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ اور ان کے ہمنواؤں کے احمقانہ تبصرےہیں۔ وارانسی کی سِول عدالت میں گیانواپی محلے کے اندر واقع جامع مسجد کے حوالے سے ہندو فریق نے عرضی داخل کر کے یہ مطالبہ کیا کہ ویاس جی تہہ خانہ کی چھت پر مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا جائے۔ عدالت نے جب ہندو فریق کی عرضی خارج کر دی تو اس نے مایوس ہو کر اس فیصلہ کے خلاف ضلع عدالت میں جانے کا ارادہ ظاہر کیا ۔اس سے قبل عدالت نے مسجد کے تہہ خانے میں پوجاکرنے کی اجازت دے کر جو فتنہ کھڑا کیا ہے اس کا فائدہ اٹھاکر ہندو فریق نے کم زور چھت کے کسی بھی وقت ٹوٹنے پھوٹنے کو بنیاد بناکر عدالت میں دلیل دی تھی کہ اگر بڑی تعداد میں مسلمان ویاس جی کے تہہ خانہ کی چھت پر نماز ادا کرتے رہیں گے تو اس بات کا قوی امکان رہے گا کہ چھت منہدم ہو جائے، یہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے لہٰذا مسلم طبقہ کے وہاں نماز پڑھنے پر روک لگا دی جائے۔ وہ لوگ بھول گئے کہ اس مسجد کو مودی انتظامیہ نے رشوت لے کر تعمیر نہیں کیا تھا جو چند ماہ میں ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔ سِول جج (سینئر ڈویژن) ہتیش اگروال کی عدالت نے اس دلیل کو مسترد کرکے نماز کی ادائیگی پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا۔
عدالت کے ان احکامات والے دن ہی اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے پنڈت دین دیال اپادھیائے گورکھپور یونیورسٹی میں ‘ہم آہنگی پر مبنی سماج کی تعمیر میں ناتھ پنتھ کی شراکت’ کے موضوع پر ایک بین الاقوامی سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ "یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کچھ لوگ گیان واپی کو مسجد کہتے ہیں جبکہ بھگوان وشواناتھ خود ایک اوتار ہیں‘‘۔انہوں نے اسے یعنی مسجد کی عمارت کو "بھگوان وشوناتھ کا اوتار” قرار دے دیا۔ اسے کہتے ہیں ’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی مذمت کرتے ہوئے ایس پی کے ترجمان عباس حیدر کو کہنا پڑا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے آئین پر حلف اٹھایا اس کے باوجود وہ عدالت کا احترام نہیں کرتے۔ عباس حیدر کے مطابق عوام نے بی جے پی کو جو مینڈیٹ دیا ہے اس کو نظر انداز کر کے انہوں نے عوامی مسائل پر بات نہیں کی بلکہ اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کے لیے وہ سماج کو تقسیم کر رہے ہیں۔ ‘‘
بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کے مصداق اتر پردیش بی جے پی کے ترجمان منیش شکلا نے تو آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ "تاریخی، آثار قدیمہ اور روحانی شواہد واضح طور پر بتاتے ہیں کہ گیانواپی ایک مندر ہے‘‘۔ اس بابت ایودھیا میں ہنومان گڑھی مندر کے مہنت راجو داس اور چار قدم آگے نکل گئے۔ انہوں نے کہہ دیا کہ "یہ صرف بد قسمت لوگ ہیں جبکہ گیان واپی خود وشوناتھ کا مندر ہے۔ اس مہنت کے مطابق ’’ہم مسلسل کہتے رہے ہیں کہ یہ مندر ہے، اسے صرف بے وقوف ہی مسجد کہتے ہیں۔‘‘ یعنی مہنت راجو داس کی نظر میں عدالتیں احمق ہیں۔ کیا یہ عدالت کی توہین نہیں ہے؟ عدالت میں زیر سماعت معاملے پر جو لوگ ایسی بد زبانی کرتے ہیں ان سے بھلا بلڈوزر سے متعلق کیا توقع کی جائے؟ سپریم کورٹ نے تو حال ہی میں بلڈوزر انصاف کے حوالے سے سخت تبصرے کیے مگر اپنے بلڈوزر استعمال کا دفاع کرتے ہوئے یوگی نے کہہ دیا کہ بلڈوزر دل اور دماغ سے چلایا جاتا ہے۔ حالانکہ جس کے پاس قلب سلیم اور ٹھیک ٹھاک دماغ ہو وہ بلڈوزر کے بجائے اپنی کارکردگی عوام کا اعتماد اور ووٹ حاصل کرتا ہے اور جو اس میں ناکام ہو جائے اسے بلڈوزر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ویسے عدالت اگر چاہے تو حکم رانوں کی عقل ٹھکانے لگا سکتی ہے مگر وہاں بھی خوف اور لالچ کے بلڈوزر تلے انصاف کو روند دیا جاتا ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 ستمبر تا 28 ستمبر 2024