
عدالت نے گواہی مسترد کی، سچ کو سوشل میڈیا پر لایا گیا
دیش بھکتی یا سیاسی ہتھیار؟ بم دھماکوں کے پیچھے چھپے مقاصد بے نقاب
ضمیر احمد خان ناندیڑ
ناندیڑ، پورنا، جالنہ، پربھنی اور مالیگاؤں میں بم دھماکوں کی مشترکہ کہانی یا منظم سازش؟
دہشت گردی، شدت پسندی اور سنگھی نیٹ ورک؛ ایک عینی شاہد کی حیران کن داستان
ملک میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پس منظر میں کئی چونکا دینے والے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ آر ایس ایس کے سابق مبلغ یشونت شندے نے سوشل میڈیا کے معروف میڈیا ہاؤس ’’دی وائر‘‘ کے نمائندے کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں الزام عائد کیا ہے کہ مختلف شدت پسند تنظیمیں ملک کے نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر، جھوٹی اور فرضی کہانیاں گڑھ کر، انہیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس عمل کے پیچھے اصل مقصد نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکا کر انہیں بطور ہتھیار استعمال کرنا ہے تاکہ اس کی آڑ میں سیاسی مفادات حاصل کیے جا سکیں۔ یشونت شندے نے کہا کہ یہ رجحان کسی ایک طبقے یا گروہ تک محدود نہیں ہے بلکہ آر ایس ایس اور اس کی ہم خیال تنظیمیں بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے اسی نوعیت کی سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس منظم حکمتِ عملی کے ذریعے معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور معاشرے میں بد اعتمادی و نفرت کی فضا پیدا کی جارہی ہے، جس کا بالآخر فائدہ سیاسی پارٹیوں کو پہنچتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ شدت پسند تنظیمیں سب سے پہلے نوجوانوں کو متاثر کرنے کے لیے ایک ’بیانیہ‘ تیار کرتی ہیں، جس میں ماضی کے واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے یا من گھڑت قصے سنائے جاتے ہیں۔ یہ بیانیہ نوجوانوں کی جذباتی کمزوریوں کو نشانہ بناتا ہے، خاص طور پر وہ نوجوان جو سماجی یا معاشی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ پھر ان میں ایک ’فرضی دشمن‘ کا تصور پیدا کر کے ان سے متشدد کارروائیاں کروائی جاتی ہیں۔ یشونت شندے نے اپنے تجربات اور ماضی کے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود اس طرح کے عمل کو قریب سے دیکھا ہے۔ ان کے مطابق آر ایس ایس اور اس کے زیرِ اثر چلنے والی تنظیمیں نہ صرف نوجوانوں کو سخت گیر نظریات اپنانے پر اکساتے ہیں بلکہ اس کے لیے خصوصی تربیتی کیمپ، خفیہ اجلاس اور ذہن سازی کے پروگرام بھی منعقد کرتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر معاشرہ اور ریاستی ادارے اس رجحان کے خلاف بروقت اور سنجیدہ اقدامات نہیں کریں گے تو آنے والے وقت میں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرزِ عمل کو روکنے کے لیے تعلیمی اداروں، سِول سوسائٹی اور میڈیا کو متحرک کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو صحیح معلومات اور متوازن سوچ فراہم کی جا سکے۔ یشونت شندے کے ان انکشافات نے ایک بار پھر ملک میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے پسِ پردہ کار فرما محرکات پر بحث چھیڑ دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ہم اپنے نوجوانوں کو ایسے سیاسی و نظریاتی جال سے بچا پائیں گے یا آنے والی نسلیں بھی اسی نفرت اور تشدد کے گرداب میں پھنس کر رہ جائیں گی؟
وہیں دوسری طرف ہندوستان میں شدت پسندی اور بم دھماکوں کے سلسلے میں کئی تحقیقات اور عدالتی کارروائیاں ہو چکی ہیں، لیکن بعض حقائق آج بھی پردہ اخفا میں ہیں۔ یشونت شندے نامی ایک ایسے شخص نے جو ماضی میں شدت پسند تنظیموں کے ساتھ منسلک تھا، اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں نہ صرف اس دور کے حالات بیان کیے ہیں بلکہ کئی چونکا دینے والے انکشافات بھی کیے ہیں۔ یشونت شندے نے کہا کہ وہ ان تمام باتوں کو ایک سرکاری گواہ کی حیثیت سے عدالت میں پیش کرنا چاہتا تھا لیکن عدالت سے اسے اجازت نہیں ملی جس کی وجہ سے اس نے میڈیا کے ذریعے ان تمام حقائق کو عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تاکہ سچائی عام لوگ جان سکیں اور انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ ہمارے ملک میں شدت پسند تنظیمیں کس طرح سے خطر ناک منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔اگر یہ ساری باتیں عدالت میں پیش کرنے کی اجازت مل جاتی تو نہ صرف ناندیڑ بم دھماکہ معاملے کے ملزمین کو سزائیں ہوتیں بلکہ پورنا، پربھنی جالنہ اور مالیگاؤں بم دھماکہ کے ملزمین کو بھی سزائیں ہوتیں اور وہ اس طرح سے بری نہیں ہوتے۔ لیکن عدالت سے انہیں اجازت نہیں ملی اس لیے اب ان باتوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانا یہ میری ذمہ داری ہے اور میں اس لیے اپنی باتیں پیش کر رہا ہوں۔
یشونت شندے نے آر ایس ایس سے اپنی وابستگی کے پس منظر کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے کہا کہ 1988-89 کے دوران جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر ہندوؤں کی ہلاکتوں اور نقل مکانی کی خبریں ٹی وی اور وشو ہندو پریشد و بجرنگ دل کی میٹنگوں کے ذریعے عام ہو رہی تھیں۔ ان واقعات سے متاثر ہو کر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کشمیر جا کر دہشت گردی کے خلاف کام کرے گا۔ 1993-95 میں وہ گھر بار چھوڑ کر جموں و کشمیر پہنچا اور راجوری و ادھم پور اضلاع میں سنگھ کے کام سے وابستہ رہا۔ لیکن جلد ہی اس نے بی جے پی کی جانب سے کام میں غیر ضروری مداخلت، تنظیم کے اندرونی تضادات اور بعض غلط رجحانات کو قریب سے دیکھا۔ اس نے تنظیمی ڈھانچے میں اصلاح کی کوشش کی مگر ناکامی کے بعد براہ راست سنگھ سے الگ ہو گیا۔ اس کے باوجود اس کا مقصد ایک ایسی ٹیم بنانا تھا جو ملک کے طلبہ کو تیار کر کے دہشت گردی کا مقابلہ کر سکے۔ اس مقصد کے لیے اس نے ناندیڑ کے ہمانشو پانسے سمیت کئی نوجوانوں کو جموں و کشمیر لے جا کر تربیت دلوائی۔ لیکن جب اسے کہا گیا کہ یہ گروپ پاکستان جا کر کارروائیاں کرے تب اس نے صاف انکار کر دیا اور فنڈز بھی قبول نہیں کیے۔ کیونکہ اسے اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ اسے موت کی کھائی میں دھکیلا جا رہا ہے اور وہاں سے واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایسے میں اسے یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ دیش بھکتی کی آڑ میں دراصل ہمارا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہماری زندگیوں ہمارے مستقبل کے بارے میں انہیں کوئی فکر نہیں۔ بعد ازاں یہ ٹیم بھارت واپس بھیج دی گئی۔ کچھ عرصے بعد اسے ایک اور اہم تنظیمی فرد کے ذریعے ممبئی میں میٹنگ کے لیے بلایا گیا، جہاں بم بنانے کی تربیت لینے اور ملک بھر میں دھماکے کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔ اس نے اس تجویز پر حیرت کا اظہار کیا مگر اندرونی معلومات حاصل کرنے کے لیے تربیتی کیمپ میں شامل ہو گیا۔ یہ کیمپ پونے کے قریب ایک ریسارٹ میں منعقد ہوا، جہاں بجرنگ دل کے راشٹریہ سہ سنیکشک روی دیو، عرف متھن چکرورتی نے بم بنانے کی عملی تربیت دی۔ واضح رہے کہ ناندیڑ بم دھماکہ معاملے کی تفتیش کے دوران اے ٹی ایس کی جانب سے بھی ان باتوں کا خلاصہ ہوا تھا کہ پونے کے ایک ریسارٹ میں بم بنانے کی ٹریننگ دی گئی تھی۔ یشونت شندے نے بتایا ہے کہ اس نے ہمانشو کو کئی بار سمجھایا کہ یہ منصوبہ دراصل ملک میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے اور بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے ہے، مگر ہمانشو نے پس پردہ اس منصوبے میں حصہ لے لیا۔ نتیجتاً پربھنی، جالنہ اور ناندیڑ میں بم دھماکے ہوئے۔ ناندیڑ میں بم تیار کرتے وقت حادثاتی دھماکے میں ہمانشو اور نریش گونڈاوار مارے گئے جبکہ کئی افراد زخمی ہوئے۔ اس کے مطابق اصل ماسٹر مائنڈز کو کبھی گرفتار نہیں کیا گیا اور صرف نچلے درجے کے کارکنوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ عدالتوں میں مقدمات کمزور ہوئے، فائلیں دوسرے ججوں کو منتقل کی گئیں اور بالآخر اصل مجرمین کو الزامات سے بری کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ تک اپیل کی گئی مگر وہاں بھی معاملہ برقرار رکھا گیا۔ معروف وکیل پرشانت بھوشن نے بھی متاثرین کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی لیکن ججوں نے سننے سے انکار کر دیا۔ اس کے مطابق، ناندیڑ بم دھماکہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک منظم سازش کا حصہ تھا، جس میں شدت پسند عناصر، سیاسی مفادات اور فرقہ وارانہ نفرت شامل تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ اصل منصوبہ ساز آج بھی آزاد ہیں اور انصاف ابھی تک نہیں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انصاف کے حصول کے لیے ناندیڑ بم دھماکہ معاملے میں سرکاری گواہ کی حیثیت سے پیش ہونا چاہتا تھا لیکن اسے موقع نہیں دیا گیا ۔حالانکہ اس کے لیے اس نے سپریم کورٹ تک اپنی لڑائی لڑی۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے عرضی گزار یشونت شندے کی جانب سے ناندیڑ بم دھماکہ کیس میں سرکاری گواہ کی حیثیت سے گواہی دینے کی اجازت سے متعلق دائر خصوصی اجازت کی عرضی (Special Leave Petition – SLP) کو 4؍ اگست کو دیے گئے اپنے فیصلے میں خارج کرتے ہوئے بمبئی ہائی کورٹ، اورنگ آباد بنچ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ اسے ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ یہ معاملہ 26 فروری 2025 کو بمبئی ہائی کورٹ کے اورنگ آباد بنچ کی جانب سے دیے گئے فیصلے کے خلاف دائر کیا گیا تھا جو سی آر ڈبلیو پی نمبر 732/2023 سے متعلق تھا۔ یشونت شندے نے اس فیصلے کے خلاف SLP (کریمنل) نمبر 6881/2025 کے تحت سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی۔ 4؍ اگست 2025 کو جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس نان گمکاپم کوٹسوار سنگھ کی دو رکنی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کی۔ عرضی گزار کی طرف سے سینئر وکیل پرشانت بھوشن، ٹی آر بی سیوا کمار (AOR) شریاس گچچے اور موہنیش تھورات نے پیروی کی۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا ’’ہمیں ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی بنیاد نظر نہیں آتی۔ اس بنا پر خصوصی اجازت کی عرضی مسترد کی جاتی ہے۔ اگر کوئی زیر التوا درخواستیں ہیں تو وہ بھی نمٹا دی جاتی ہیں۔‘‘ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب یشونت شندے کو مزید کوئی قانونی ریلیف حاصل نہیں ہوگا اور بمبئی ہائی کورٹ کا حکم حرفِ آخر تصور کیا جائے گا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سینئر وکیل پرشانت بھوشن جیسے نامور قانونی ماہر کی موجودگی کے باوجود عدالت نے مداخلت سے انکار کر دیا۔
واضح رہے کہ ناندیڑ میں 6 اپریل 2006 کو پاٹ بندھارے نگر میں بم سازی کے دوران ہوئے دھماکے کے مقدمے کی سماعت کے دوران 2022 میں یشونت شندے نے سیشن کورٹ ناندیڑ میں ایک حلف نامہ داخل کیا تھا۔ اس میں اس نے بم دھماکے کی سازش میں ملوث لوگوں سے اپنے ماضی کے قریبی تعلقات کا اعتراف کرتے ہوئے تمام تفصیلات اور ثبوت پیش کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ سی بی آئی نے اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شندے کو اپنی گواہی کے لیے بہت پہلے سامنے آنا چاہیے تھا کیونکہ دھماکے کے پندرہ سال بعد اس طرح پیش ہونا اب تک کی تحقیقات کو متاثر کر سکتا ہے۔ اسی بِنا پر سی بی آئی نے عدالت سے ان کی درخواست مسترد کرنے کی سفارش کی۔جب سیشن کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی تو یشونت شندے نے اسے ممبئی ہائی کورٹ، اورنگ آباد بنچ میں چیلنج کیا۔ اس دوران 4؍ جنوری 2025 کو ناندیڑ کی مقامی عدالت نے اس مقدمے میں آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے تمام ملزموں کو بری کر دیا۔ ریاستی حکومت نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ چونکہ مقدمے کا فیصلہ آ چکا ہے اور ملزمین بری ہو چکے ہیں اس لیے شندے کی سرکاری گواہ بننے کی درخواست قابلِ قبول نہیں۔یشونت شندے کو امید تھی کہ سپریم کورٹ میں اس کی درخواست منظور ہو جائے گی اور مقدمہ دوبارہ کھل سکے گا، لیکن سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اس کی درخواست خارج کر دی، جس سے اسے سخت مایوسی ہوئی۔ بعد ازاں، شندے نے اپنی بات میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کے معروف پلیٹ فارم "دی وائر” کو ایک خصوصی انٹرویو دیا۔ اس میں اس نے ناندیڑ، پورنا، پربھنی، جالنہ اور مالیگاؤں میں 2002 کے بعد ہونے والے مختلف بم دھماکوں میں آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے متعدد رہنماؤں کے ملوث ہونے کے سنگین الزامات لگائے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر ان لوگوں کو سزا ہو جاتی تو مزید کئی نام سامنے آ سکتے تھے، لیکن جان بوجھ کر حقیقت چھپائی گئی اور ملزمین کو بری کرا دیا گیا۔ یشونت شندے نے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ قانون کے دیگر ذرائع استعمال کرتے ہوئے حقیقت کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025