!آبادی بڑھائیے ،نمائندگی بڑھائیے اور فنڈز بڑھائیے
جنوبِ ہند: ضبط ولادت کے قانون پر شدت سے عمل اور قدرتی قانون سے کھلواڑ کا نتیجہ
زعیم الدین احمد حیدرآباد
پارلیمنٹ میں لوک سبھا نشستوں کی ڈی لیمیٹیشن کے بعد سب سے زیادہ خسارہ جنوبی ریاستوں کا ہوگا
پاپولیشن سائنس یعنی ڈیموگرافی ایک مشہور و معروف اصطلاح ہے، جسے آبادیاتی تغیر یا برابری ڈیموگرافک ٹرانزیکشن کہا جاتا ہے، اس میں توازن برقرار رہنا ضروری ہے ورنہ آبادیاتی بحران پیدا ہوگا۔ مثلاً جہاں پیدائش زیادہ اور اموات کم ہوتی ہیں وہاں آبادی کا ایکسپلوشن ہوتا، آبادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ پیدائش بمقابلہ اموات دوگنی ہوں تو اس کو آبادی کا دھماکہ کہا جائے گا اور یہ ڈیموگرافک ٹرانزیکشن کا پہلا درجہ ہے۔ اسی طرح جہاں پیدائش اور اموات مساوی ہوں، اس کو مستحکم حالت کہتے ہیں، اور اگر پیدائش بمقابلہ اموات مساوی ہوں تو اس کو مستحکم آبادی کی حالت کہا جاتا ہے، اور یہ ڈیموگرافک ٹرانزیکشن کا دوسرا درجہ ہے اور اگر اموات بمقابلہ پیدائش زیادہ ہو جائیں تو اس جگہ آبادی کا تناسب بگڑ جاتا ہے، وہاں بوڑھوں کی تعداد زیادہ اور نوجوانوں کی آبادی میں کم ہوتی جاتی ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کام کرنے والے لوگ یعنی ورکنگ کلاس ختم ہو جاتا ہے، آبادیاتی توازن بگڑ جاتا ہے، یہ تیسرا درجہ کہلاتا ہے۔
اب ہم اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے جنوبی ہند کی دو ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ چندرابابو نائیڈو اور اسٹالن کے زیادہ بچے پیدا کرنے کی بات کو سمجھتے ہیں، ان دونوں نے کہا کہ ہر کسی کو سولہ سولہ بچے پیدا کرنے چاہئیں، یہ بات ان دونوں نے اس لیے کہی ہے کیوں کہ جنوب کی ریاستیں آبادیاتی بحران کا شکار ہیں اور کم آبادی کے نقصانات جھیل رہی ہیں۔ یہ صرف جنوبی ہند کی ریاستوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک جاپان، امریکہ، چین کے علاوہ اور بھی بہت ملکوں میں بھی یہی مسئلہ ہے، ترقی پانے کے دوڑ میں آبادی گھٹتی چلی جاتی ہے اور تیسرے درجے کی ڈیمگرافک ٹرانزیکشن کی حالت ہو جاتی ہے یعنی بوڑھوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، کام کرنے والے نوجوانوں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ آبادی کے توازن میں بگاڑ کے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں مثلاً معاشی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ڈائمنشن ہے، اور جنوب کی ریاستوں کو اسی مسئلے کا سامنا ہے۔ پھر دوسری طرف ہمارے ملک میں شمال و جنوب کی تقسیم کا مسئلہ بھی بہت خطرناک ہے۔ شمال ہند کی ریاستیں بہار، مدھیہ پردیش، اتر پردیش وغیرہ جنہیں ہندی بلٹ یا کاؤ بلٹ یا بیمارو ریاستیں کہا جاتا وہاں ضبط ولادت والے قوانین کی پابندی نہیں کی گئی، اسی لیے وہاں آبادی زیادہ ہو گئی، گو کہ وہاں بھی ٹی ایف یعنی شرح زرخیزی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بہار میں پہلے یہ چار ہوتی تھی یعنی ایک جوڑا اوسطاً چار بچے پیدا کرتا تھا جو اب کم ہو کر تین ہو گئی ہے یعنی اس وقت ایک جوڑا اوسطاً تین بچے پیدا کر رہا ہے۔ اسی طرح اتر پردیش میں اس وقت یہ شرح دو عشاریہ پانچ ہے، وہیں جنوبی ہند کی ریاستوں میں یہ شرح ایک عشاریہ چھ ہے جو کہ بہت کم ہے۔ اس لیے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں نے آبادی کنٹرول کے قانون کی سختی سے پابندی کی جس کے نتیجے میں یہاں آبادی کم ہوگئی، جبکہ شمال کی ریاستوں نے آبادی کنٹرول کے قانون کو صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا اسی لیے وہاں آبادی زیادہ ہو گئی۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ جس مقام پر معاشی ترقی ہوتی ہے وہاں آبادی بھی کنٹرول میں ہوتی ہے، اور جہاں یہ نہیں ہوتی وہاں آبادی کا دھماکہ ہوتا ہے، یہی کچھ جنوبی ہند کی ریاستوں کے ساتھ ہوا ہے، یہاں آبادی مکمل کنٹرول میں ہے، اسی وجہ سے شمالی ریاستوں کی بہ نسبت کیرالا، تمل ناڈو، کرناٹک، آندھراپردیش اور تلنگانہ میں معاشی ترقی زیادہ ہے اس لیے فی کس آمدنی بھی یہاں زیادہ ہے، یعنی شمال کی بہ نسبت جنوب میں خوشحالی پائی جاتی ہے۔ جب آبادی کنٹرول کرنے کا قانون بنایا گیا تو جنوب کی ریاستوں نے اس کا صحیح طریقے سے نفاذ کیا اور آبادی کو کنٹرول کیا۔ آبادی کنٹرول کرنے کے سیاسی اور معاشی طور پر نقصانات بھی ہوتے ہیں اور جنوب کی ریاستیں وہ نقصانات اٹھا رہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آبادی، معاشی اور سیاسی ہس منظر میں ایک اہم عنصر ہوتا ہے، آبادی کے تناسب سے ہی معاملات طے ہوتے ہیں، مثال کے طور پر فائنانس کمیشن ریاستوں کو فنڈز مختص کرتا ہے، جو ریاستوں کی جانب سے مرکز کو دیے جانے والے فنڈز کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ فائنانس کمیشن ریاستوں کو عمودی اور افقی دونوں بنیادوں پر فنڈز تقسیم کرتا ہے۔ مرکز کے ٹیکسوں میں کون سی ریاست کو کتنا حصہ دینا چاہیے، اس کو عمودی حصہ کہا جاتا ہے۔ افقی حصہ یہ ہے کہ ملک کی جس ریاست میں جتنے قدرتی وسائل ہیں وہ اور مرکزی حکومت آپس میں تقسیم کر لیتے ہے، اسے افقی حصہ کہتے ہیں، ملک کے وسائل اور ٹیکسوں کی تقسیم کے کئی عناصر ہوتے ہیں مثلاً اس میں ریاست کی معاشی صورت حال اور اس میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کو دیکھا جاتا ہے، اس کے علاوہ اور بھی عناصر ہیں لیکن سب سے اہم عنصر کے طور پر ریاست کی آبادی کو دیکھا جاتا ہے، اگر ریاست کی آبادی زیادہ ہوگی تو اس ریاست کو زیادہ فنڈز مختص کیے جاتے ہیں، اسی طرح پولیٹکل سسٹم کا معاملہ ہے جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں سیٹیں بھی زیادہ ہوں گی، تلنگانہ میں پارلیمنٹ کی سترہ سیٹیں ہیں، وہیں اتر پردیش میں اسّی سیٹیں ہیں، بہار میں چالیس سیٹیں ہیں، بلحاظ آبادی پارلیمنٹ کی بھی سیٹیں طے ہوتی ہیں، اب جو پارلیمنٹ کی سیٹیں مختص ہیں وہ 1971 کی مردم شماری کے حساب سے ہیں، لیکن اگر اسے 2011 یا 2026 کی مردم شماری کے حساب سے کیا جائے تو جنوبی ہند کی ریاستیں خسارے میں چلی جائیں گی، کیوں کہ ان ریاستوں نے آبادی کنٹرول قانون پر پوری طرح عمل کیا ہے، اس کا خمیازہ انہیں فنڈز کی کمی اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کی کمی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
آبادی کے تناسب سے مختص ہونے والی سیٹوں کا منظر نامہ ملاحظہ کیجیے:
کیرالا میں موجودہ پارلیمنٹ سیٹیں بیس ہیں۔ ڈی لیمٹیشن کے بعد انیس ہو جائیں گی، یعنی ایک سیٹ کا نقصان ہوگا۔
تمل ناڈو میں موجودہ پارلیمنٹ سیٹیں انچالیس ہیں جو ڈی لیمٹیشن کے بعد اکتالیس ہوں گی یعنی صرف دو کا اضافہ ہوگا۔ آندھراپردیش میں موجودہ پارلیمنٹ سیٹیں پچیس ہیں ڈی لیمٹیشن کے بعد اٹھائیس ہوں گی یعنی صرف تین کا اضافہ ہوگا۔ تلنگانہ میں موجودہ پارلیمنٹ سیٹیں سترہ ہیں ڈی لیمٹیشن کے بعد بیس ہوں گی یعنی صرف تین کا اضافہ ہوگا۔ اسی طرح کرناٹک میں موجودہ پارلیمنٹ سیٹیں اٹھائیس ہیں ڈی لیمٹیشن کے بعد چھتیس یعنی آٹھ کا اضافہ ہوگا ۔
اس کے برعکس شمال کی ریاستوں کو دیکھیے:
اتر پردیش میں موجودہ پارلیمنٹ سیٹیں اسّی ہیں ڈی لیمٹیشن کے بعد ایک سو اٹھائیس ہو جائیں گی یعنی اڑتالیس سیٹیوں کا اضافہ ہوگا ۔ بہار میں موجودہ پارلیمنٹ سیٹیں چالیس ہیں ڈی لیمٹیشن کے بعد ستر ہو جائیں گی یعنی تیس سیٹوں کا اضافہ ہوگا۔ مدھیہ پردیش میں موجودہ پارلیمنٹ سیٹیں انتیس ہیں ڈی لیمٹیشن کے بعد سینتالیس یعنی اٹھارہ سیٹوں کا اضافہ ہوگا۔ راجستھان میں موجودہ پارلیمنٹ سیٹیں پچیس ہیں ڈی لیمٹیشن کے بعد چوالیس یعنی سترہ سیٹوں کا اضافہ ہوگا۔ مہاراشٹر میں موجودہ پارلیمنٹ سیٹیں اڑتالیس ہیں ڈی لیمٹیشن کے بعد اڑسٹھ یعنی بیس سیٹوں کا اضافہ ہوگا۔
ڈی لیمٹیشن کے بعد ریاستوں کا جو نیا منظر نامہ یہ رہے گا وہ یہ کہ جنہیں آبادی کے تناسب سے فنڈز مختص کیے جائیں گے اسی تناسب سے ڈی لیمٹیشن کا عمل کیا جائے گا۔ ان دونوں پیمانوں پر جنوبی ہند کی ریاستوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ پندرہویں فائنانس کمیشن میں جنوب کی پانچ ریاستوں یعنی کیرالا، تمل ناڈو، کرناٹک، آندھراپردیش اور تلنگانہ کو جملہ اٹھائیس ہزار ایک سو باون کروڑ روپے مختص کیے گیے، جبکہ شمال کی صرف ایک ریاست اتر پردیش کو جو فنڈز مختص کیے گئے وہ اکتیس ہزار نو سو باسٹھ کروڑ روپے ہیں، اندازہ لگائیے کہ جنوب کی پانچ ریاستوں سے تقریباً تین ہزار کروڑ روپے زیادہ شمال کی محض ایک ریاست کو فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ پھر دوسری طرف مرکز کو جنوب کی ریاستیں ہی فنڈز زیادہ فراہم کرتی ہیں یعنی وہ ایک روپیہ مرکزی حکومت کو دیتی ہیں اس کے بدلے میں پچاس پیسے واپس آتے ہیں، جب کہ شمال کی ریاستوں کا حال بالکل مختلف ہے، بہار مرکزی حکومت کو ایک روپیہ دیتا ہے اور دو روپے واپس لیتا ہے۔ جنوبی ہند کی ریاستیں زیادہ تعاون کرکے بھی نقصان اٹھا رہی ہیں، اس طرح جنوبی ہند کی ریاستوں کو آبادی کنٹرول کرنے سے دو طرح کے نقصانات یعنی ایک طرف فنڈز کی کمی کا اور دوسری طرف سیاسی سیٹوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسی لیے اسٹالن اور چندرابابو نائیڈو نے اپنے عوام سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی قانونِ قدرت سے کھلواڑ کرتا ہے اسے خمیازہ تو بھگتنا ہی پڑتا ہے۔
***
***
جنوبی ہند کی ریاستوں نے آبادی کنٹرول کے قانون کی سختی سے پابندی کی جس کے نتیجے میں یہاں آبادی کم ہوگئی، جبکہ شمال کی ریاستوں نے آبادی کنٹرول کے قانون کو صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا اسی لیے وہاں آبادی زیادہ ہو گئی۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ جس مقام پر معاشی ترقی ہوتی ہے وہاں آبادی بھی کنٹرول میں ہوتی ہے، اور جہاں یہ نہیں ہوتی وہاں آبادی کا دھماکہ ہوتا ہے، یہی کچھ جنوبی ہند کی ریاستوں کے ساتھ ہوا ہے، یہاں آبادی مکمل کنٹرول میں ہے، اسی وجہ سے شمالی ریاستوں کی بہ نسبت کیرالا، تمل ناڈو، کرناٹک، آندھراپردیش اور تلنگانہ میں معاشی ترقی زیادہ ہے اس لیے فی کس آمدنی بھی یہاں زیادہ ہے، یعنی شمال کی بہ نسبت جنوب میں خوشحالی پائی جاتی ہے۔ جب آبادی کنٹرول کرنے کا قانون بنایا گیا تو جنوب کی ریاستوں نے اس کا صحیح طریقے سے نفاذ کیا اور آبادی کو کنٹرول کیا۔ آبادی کنٹرول کرنے کے سیاسی اور معاشی طور پر نقصانات بھی ہوتے ہیں اور جنوب کی ریاستیں وہ نقصانات اٹھا رہی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024