بہار میں ہجومی تشدد کے واقعہ میں ایک مسلم نوجوان کی موت ،دو زخمی

بہار کے گیا میں پیش آئے اس واقعہ میں ایک پر تشدد ہجوم کے ذریعہ تین مسلم نوجوانوں کو بے دردی سے پیٹا گیا جس میں بابر نامی نوجوان کی موت ہو گئی جبکہ دو دیگرنوجوان رکن الدین اور ساجد زخمی ہو گئے

نئی دہلی،25فروری :۔

ملک میں ہجومی تشدد کا واقعہ کم نہیں ہو رہا ہے آئے دن اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔گؤ رکشا کے نام پر راجستھان میں جنید اور ناصر کے قتل کا معاملہ پر ابھی ہنگامہ جاری ہے کہ بہار کے گیا میں  پیش آئے ہجومی تشدد کے واقعہ میں ایک نوجوان کی موت کی اطلاع ہے ۔انڈیا ٹو مارو کی رپورٹ کے مطابق بہار کے گیا میں بدھ کو پرتشدد ہجوم کے ذریعہ تین مسلم نوجوانوں کو بے دردی سے پیٹنے کا معاملہ سامنے آیا ہے، جس میں ایک نوجوان کی موت ہو گئی جبکہ دو دیگر شدید زخمی بتائے جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق واقعہ بہار کے گیا ضلع کے بارچھٹی بلاک کا ہے۔

اس حملے میں محمد بابر (28)نامی ایک نوجوان کی موت ہو گئی ، جبکہ دو دیگر نوجوان رکن الدین عالم (32) اور محمد ساجد شدید زخمی ہو گئے۔

رپورٹ کے مطابق تین مسلم نوجوانوں کومشتعل ہجوم نے چوری کے الزام میں بے دردی سے پیٹا۔ ہجومی تشدد کا یہ واقعہ گیا کے ڈیہا گاؤں میں 23 فروری کو پیش آیا تھا، جس میں محمد بابر نامی نوجوان کی موت ہو گئی تھی جبکہ دو نوجوان زخمی ہوئے تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں چور ہونے کے شبہ میں مارا پیٹا گیا تاہم متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ کہیں سے واپس آرہے تھے اور مقامی جھگڑے کی وجہ سے انہیں مارا پیٹا گیا۔ کچھ دیگر ذرائع نے بتایا کہ تینوں نوجوان نیل گائے کا شکار کرنے نکلے تھے۔بتایا جا رہا ہے کہ گاؤں والوں نے نوجوانوں کو پکڑ لیا اور پھر گھنٹوں تک بے رحمی سے مارا پیٹا۔ گاؤں والوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے تینوں نوجوانوں کو ہتھیاروں کے ساتھ پکڑا۔

ایک مقامی صحافی نے کہا، ’’کچھ لوگ جو اس وقت اپنے کھیتوں میں آب پاشی کر رہے تھے، انہیں دیکھا اور پکڑنے کی کوشش کی۔ لوگوں نے ان کا پیچھا کیا اور میدان میں شور مچا دیا، جس سے ایک ہجوم جمع ہو گیا، پھر بھیڑ نے انہیں بے رحمی سے مارا پیٹا اور انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔

یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ واقعے کے بعد اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا جس کے بعد انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ جہاں شدید زخمی 28 سالہ محمد بابر کی موت ہو گئی۔

اس ہجومی تشدد میں زخمی ہونے والے دیگر دو نوجوانوں ساجد اور ررکن الدین کی حالت نازک ہے، انہیں پہلے انوگرہ نارائن مگدھ میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیا تھا، لیکن حالت نازک ہونے پر انہیں پٹنہ اسپتال ریفر کر دیا گیا ہے۔پولس نے اس واقعہ کے سلسلے میں ایک کیس درج کرلیا ہے اور معاملے کی تحقیقات کررہی ہے۔

گیا کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آشیش کمار بھارتی نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس نے موقع سے ایک اسکارپیو کار، تین کارتوس، ایک چاقو اور ایک بم برآمد کیا ہے۔ گیا پولیس کے مطابق زخمی نوجوانوں ساجد اور رکن الدین کے خلاف بیلہ پولیس اسٹیشن میں پہلے سے ہی مقدمات درج ہیں۔

ایک مقامی رہنما صبغت  الخان نے کہا کہ پولیس مجرموں کو گرفتار کرنے کے بجائے اس بات پر توجہ مرکوز کر رہی ہے کہ متاثرین کی مجرمانہ تاریخ کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جائے وقوعہ سے پولیس کی ریکوری لسٹ مشکوک ہے۔حالانکہ پولیس کے مطابق  مقتول محمد بابر کے خلاف کسی قسم کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہے۔مقتولین کے لواحقین نے الزام لگایا ہے کہ نوجوان بے قصور ہیں اور ان پر چوری کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔

ایس ایس پی بھارتی نے بتایا کہ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہوئے پولیس نے مجرموں کو پکڑنے کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے اور اے ایس پی نے جائے وقوعہ کا معائنہ بھی کیا ہے۔سی پی آئی کے ضلع سکریٹری نرنجن کمار نے ضلع کمیٹی کے ممبر اور بیلا گنج کے   لیڈر موندریکا رام اور اے آئی ایس اے لیڈر محمد شیرجہاں کے ساتھ ہجومی تشدد کے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔انہوں نے مجرموں کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ سرکاری نوکری اور مرنے والوں کے لواحقین کو 20 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔مسلم نوجوانوں پر حملے کے اس واقعہ سے علاقے کے لوگوں میں کافی غصہ ہے، لوگ حملہ آوروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔