
بھارت کی موجودہ سیاسی فضا میں بد عنوانیوں کی بدبو اتنی تیزی سے پھیل گئی ہے کہ اس سے چھٹکارا پانا اب ممکن نہیں رہا۔ وہ جماعت جو خود کو ’’پارٹی وِدھ اے ڈیفرنس‘‘ کہلانے پر ناز کرتی تھی اور جس کے سربراہ نے برسوں تک ’’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘‘ کا نعرہ لگایا تھا آج انہی گندگیوں میں ڈوبی ہوئی دکھائی دے رہی ہے جنہیں ختم کرنے کا دعویٰ کر کے وہ اقتدار میں آئی تھی۔
اقتدار کے ایوانوں میں اقرباء پروری اور بد عنوانی اب معمول کی بات بن گئی ہے۔ چنانچہ گزشتہ دنوں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے شنکر سنگھ راوت کے بارے میں انکشاف ہوا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کے لیے جعلی معذوری کا سرٹیفکیٹ بنوا کر اسے تحصیل دار کے عہدے پر بٹھا دیا اور بہو کو ’’طلاق یافتہ خواتین کے کوٹے‘‘ سے استاد مقرر کروا دیا—جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بیٹے کے ساتھ بدستور ازدواجی زندگی گزار رہی ہے۔ خصوصی آپریشن گروپ (SOG) کی تفتیش نے ان تمام دستاویزات کو جعلی ثابت کیا۔ یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں ہے بلکہ اس بد عنوانی کلچر کی تازہ ترین مثال ہے جو اقتدار کے نشے میں بدمست طبقے نے رائج کر رکھی ہے۔
یہ مثال دراصل اس بڑی بد نیتی کی نشاندہی کرتی ہے جو برسر اقتدار پارٹی کی رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔ آج اقتدا قومی خدمت کا ذریعہ نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی تکمیل کا ہتھیار بن چکا ہے۔ ’’بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے‘‘ کے محاورے کو آج برسر اقتدار گروہ کے رویوں میں جیتی جاگتی شکل میں دیکھنا مشکل نہیں ہے، جہاں ہر کوئی دو نہیں بلکہ چاروں ہاتھوں سے لوٹ مار کر رہا ہے۔
بی جے پی اور اس کی پشت پناہ سنگھ پریوار نے دہائیوں تک خود پر نام نہاد بلند اخلاقی، بے لوثی اور قومی خدمت کا ملمع چڑھائے رکھا۔ مگر اقتدار کے دس برسوں بعد یہ ملمع آج اتر گیا اور ملک کے عوام نے دیکھ لیا کہ ان کو کس خوبصورتی کے ساتھ دھوکہ دیا گیا تھا۔
آج ’’پارٹی ودھ اے ڈیفرنس‘‘ دراصل ’’پارٹی آف ڈیسیٹ‘‘ (فریب کی جماعت) بن چکی ہے۔ ان سے ’’نسل پرست اور سرمایہ دار پارٹی‘‘ ہونے کا رنگ چھپائے نہیں چھپتا۔ اقتدار کو ایک خاندانی جاگیر اور سرکاری عہدوں کو مالِ غنیمت سمجھنے کی روش تیزی سے بے نقاب ہو رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ملک و قوم ان لوگوں کے ہاتھوں میں محفوظ ہیں؟ جب سیاسی اخلاقیات اس حد تک گر جائیں کہ عوامی اعتماد، قومی ادارے اور ملازمتوں کے مواقع سب کے سب اقرباء پروری اور جعل سازی کی نذر ہونے لگیں تو سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت کے اوپر خطرے کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ کیوں کہ کسی بھی ملک کی اصل طاقت اس کا ادارہ جاتی نظام، شفافیت اور قانون کی بالا دستی ہوتی ہے۔ اگر انہی ستونوں کو ڈھا دیا جائے تو باقی ماندہ ڈھانچہ زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا۔
یہ صرف ایک اسکینڈل یا کسی ایک واقعے کی نشاندہی نہیں ہے بلکہ پورے ملکی سیاسی منظر نامے پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر آج ہم نے اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی تو کل یہ بد عنوانی ہماری قومی سلامتی، ادارہ جاتی وقار اور جمہوری ڈھانچے کو پوری طرح تباہ کر کے رکھ دے گی۔
یہی وقت ہے سوچنے کا کہ کیا محض نعروں اور وعدوں سے بھری سیاست سے قوم کی تقدیر سنور سکتی ہے یا پھر وقت آ گیا ہے کہ اخلاقی، فلاحی اور انصاف پر مبنی سیاست کے لیے حقیقی متبادل کھڑا کیا جائے۔ ایسا متبادل جو ذاتی مفادات اور خاندانی لوٹ کھسوٹ سے پاک ہو، اور جو عوامی خدمت کو اصل مقصد سمجھے۔
بی جے پی کی حالیہ بد عنوانیوں نے یہ سوال ہر سوچنے والے دماغ میں پیدا کر دیا ہے کہ آیا ملک کا مستقبل انہی بد عنوان ہاتھوں میں رہنا چاہیے یا پھر ایسی قیادت کو آگے لانا ہوگا جو قوم کو لوٹ کھسوٹ سے بچا کر انصاف، شفافیت اور عوامی خدمت کی راہ پر ڈال سکے؟