تعلق باللہ اور جمالیات

محبتِ الٰہی اور ذوقِ جمال، اعمال کو بوجھ اور جبر سے نکال کر راحت و سکون عطا کرنے والی قوت ہے

عبدالحسیب بھاٹکر

وہی ہے جس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے۔ (قرآن)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔‘‘
اللہ سے تعلق اور اس کی معرفت کوئی ریاضی کا فارمولا نہیں، نہ ہی کوئی عقلی تھیوری ہے کہ ذہن نے سمجھ لیا اور بات ختم ہوگئی۔ عقل کی بنیاد پر وجود میں آنے والی تھیوری، خواہ وہ سائنسی ہی کیوں نہ ہو، مثلاً نظریۂ اضافیت (Theory of Relativity) اپنی جگہ اہم ہے لیکن وہ انسان کے احساسات اور جذبات میں ڈھل نہیں سکتی۔ انسان محض عقل کا پیکر نہیں بلکہ جذبات اور احساسات کا بھی حامل ہے۔ اس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کا علم اور اس کی فکر اس کے حال اور کیفیت میں کیسے ڈھل جائے؟ گویا انسان کے اندر یہ فطری پیاس ودیعت ہے کہ تصورات احساسات کا روپ دھاریں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان میں جمال کا ذوق فطری طور پر رکھا ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے روایتی نظامِ تزکیہ میں جمالیاتی ضرورت کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی وہ مستحق تھی۔ فقہی فکر نے اللہ سے تعلق کو زیادہ تر قانونی صورتوں تک محدود کر دیا اور حسن و جمال کو ایک اضافی شے سمجھ لیا، حالانکہ قرآن میں بار بار آیا ہے کہ ’’اللہ محسنین کو پسند کرتا ہے۔‘‘
انسان اللہ سے تعلق قائم کرنے کے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔ اللہ کی ایک صفت ’’حق‘‘ ہے جس پر ہمارا یقین ہے اور ایک صفت ’’جمیل‘‘ ہے جس پر ہمارا ایمان ہے۔ اگر ہم صرف حق کے پیمانے پر معاملات حل کریں تو وہ درست تو ہوگا لیکن اگر حق میں جمالیاتی قدر دانی / جمالیاتی پذیرائی / جمالیاتی عنصر شامل نہ ہو تو اس کی تاثیر ناقص رہ جائے گی۔
نبی اکرم ﷺ کی سیرت میں اس کی روشن مثال ملتی ہے۔ خانہ کعبہ کے متولی نے آپ کو نماز کے لیے چابی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’ایک وقت آئے گا جب یہ چابی میرے پاس ہوگی اور میں جسے چاہوں گا اسے دوں گا۔‘‘ جب مکہ فتح ہوا اور آپ نے بلال حبشیؓ کو خانہ کعبہ کی چھت پر اذان دینے کے لیے بھیجا تو وہی شخص موجود تھا۔ آپ نے اسے بلایا اور کعبہ کی چابی اسی کے حوالے کی۔ وہ کہنے لگا: ’’رب کعبہ کی قسم! مجھے آپ سے زیادہ مبغوض کوئی نہ تھا اور آج آپ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں۔‘‘
یہی نہیں، حج کے بعد جب آپ نے حلق فرمایا تو یہی شخص لوگوں کے درمیان سے رینگتا ہوا آیا اور عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! اپنے موئے مبارک عنایت فرمائیے۔‘‘ دیکھیے! برحق ہوتے ہوئے بھی صرف ’’صحیح‘‘ کے رویے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ حسن و جمال نے نفرت کو محبت میں بدل دیا۔
یوں سمجھنا چاہیے کہ صرف صحیح اور غلط کی بنیاد پر رویہ اختیار کرنا اگرچہ درست ہے لیکن ناکافی ہے، کیونکہ اس میں جمال کا پہلو غائب ہوتا ہے۔ اور جب تعلق باللہ میں جمال کی صفت شامل ہو جاتی ہے تو انسان دوسروں کے لیے کشش اور محبت کا مرکز بن جاتا ہے۔
ایک اور پہلو سے دیکھیے تو قرآن میں حکم دیا گیا کہ ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘
یہ دین کا ہم سے مطالبہ ہے اور اس مطالبے کی تکمیل میں ذوقِ جمال کا بڑا کردار ہے۔ یہی ذوق اللہ کی مرضی پر چلنے والے اعمال کو نہ بوجھ بننے دیتا ہے اور نہ جبر۔ جب بندہ خالقِ کائنات کی محبت یا عشق کو اپنے اعمال میں شاملِ حال رکھتا ہے تو اس کا کمٹمنٹ پُر اطمینان ہو جاتا ہے اور اس کا مجاہدہ راحت بخش۔ اسی لیے اللہ کے لیے اپنی جان جیسی محبوب چیز دینا بھی انسان کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔
اسی طرح غور کریں، اللہ کی محبت ہی اس کی خشیت کو خوشگوار بنا دیتی ہے۔ درحقیقت خشیت مجاہدانہ جذبۂ تعلق کا نام ہے جسے اللہ کی محبت سہارا دیتی ہے۔ یہ کسی موذی جانور کے خوف کی مانند نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ سے اللہ سے ڈرنا بھی اچھا لگتا ہے اور اللہ کے لیے مرنا بھی۔
سعیدؓ بن جبیر کا مشہور واقعہ ہے۔ حجاج نے حق گوئی کے نتیجے میں ان کے قتل کا حکم دیا۔ جب وہ شہید ہوئے تو ان کے خون کا بہاؤ سب کو غیر معمولی لگا۔ حجاج نے اطبا سے پوچھا تو انہوں نے کہا:
’’موت کے وقت اگر خوف کے بجائے مسرت اور خوشی کی کیفیت ہو تو خون زیادہ بہتا ہے۔ تب موت جو بظاہر کراہت رکھتی ہے ایک حسین اور خوشگوار احساس میں بدل جاتی ہے۔‘‘
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’مومن کے لیے موت ایک تحفہ ہے۔‘‘
اللہ سے ہمارا تعلق ’’تعلقِ بندگی‘‘ ہے۔ اس میں اللہ ہم سے سچائی چاہتا ہے۔ ہمارا پورا کا پورا نیک نہ ہونا اللہ کے دربار میں قابلِ قبول ہو سکتا ہے، لیکن ہماری بندگی اور اس کے ساتھ وابستہ احساسات کو غیر اللہ کی نذر کر دینا ہرگز قبول نہیں۔ اللہ بے وفائی کو برداشت نہیں کرتا۔
بنی اسرائیل کو جب فرعون سے نجات ملی اور وہ سمندر پار کر رہے تھے تو ایک بستی کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے سیدنا موسیٰؑ سے کہا:
’’ہمارے لیے بھی ایک ویسا خدا بنا دیجیے جیسا ان کا ہے‘‘۔(قرآن)
اسی پس منظر میں سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے وقت کے یہود سے فرمایا:
’’تمہاری مثال اس عورت کی سی ہے جس نے پہلی ہی رات اپنے شوہر سے بے وفائی کی۔‘‘
ہمیں ہر وقت محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں بے وفائی کا یہ وائرس ریاکاری اور خود نمائی کے جراثیم کی شکل میں ہمارے اندر داخل نہ ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے ریا کو شرک فرمایا ہے۔ آج کے دور میں ہر عمل کے ساتھ تصویری نمائش، خصوصاً امداد کے وقت فوٹوز کی بھرمار، کہیں ہمارے اعمال کو ضائع نہ کر دے۔ یقین جانیے! ہزارہا سال کی تہجد گزاری یا عمر بھر کی دینی خدمت میں اگر یہ وائرس داخل ہو جائے تو برسوں میں بنی شخصیت لمحوں میں گر سکتی ہے۔
صحابہ کرام اس پہلو سے بہت حساس تھے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا:
’’جب میں نماز پڑھتا ہوں اور کوئی دیکھتا ہے تو اچھا لگتا ہے، کیا یہ بھی ریا ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’اے ابو ہریرہ! یہ بشارت ہے جو مومن کو دنیا میں اللہ دیتا ہے۔ ہاں! اگر تم کسی کے دیکھنے کی وجہ سے نماز کو طول دو تو یہ ریا ہے۔‘‘
یہی جمالیاتی ذوق ہے جو ہمارے محرکات اور احساسات کو حسن عطا کرتا ہے۔ یہی ذوق تعلق باللہ کو نفس کے تقاضوں کے بجائے اعلیٰ اقدارِ حسن کے پیمانے پر پرکھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہی ہمیں کائنات کی ہر حسین و جمیل چیز کو یا ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والی اشیا کو معبود بنانے کے بجائے ان کے خالق و صانع کو معبود بنانے پر آمادہ کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ دوسری غلطیوں کو معاف فرما دیتا ہے لیکن معبود کے انتخاب میں بے وفائی کو معاف نہیں کرتا۔
اللہ سے تعلق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اعمال اور اوصاف کو اللہ کے رنگ میں رنگ دیں۔
’’اللہ کا رنگ اختیار کرو، اور اللہ سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے۔‘‘ (قرآن)
اللہ کا ایک رنگ جمال ہے اور رحمت اسی جمال کا ایک پہلو ہے جو ساری کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ بنا کر بھیجا گیا۔ لہٰذا جب میں اپنے تعلق باللہ کو صفتِ جمال سے آراستہ کرتا ہوں تو لازم ہے کہ میری شخصیت کا خاصہ بھی رحمت ہو اور میری ساری مخلوق سے وابستگی خیرخواہی اور رحمت کی بنیاد پر ہو۔
نبی اکرم ﷺ رحمت للعالمین تھے۔ آپ کو مکہ کے اپنے ہی رشتہ داروں نے ہجرت پر مجبور کیا، آپ کی بیٹی کو اونٹ سے گرایا گیا، آپ کو بے شمار اذیتیں پہنچائی گئیں۔ لیکن جب وہی لوگ مکہ کی فتح کے وقت مغلوب ہو کر آپ کے سامنے کھڑے تھے تو آپ نے کسی سے ذاتی انتقام نہ لیا بلکہ فرمایا:
’’جاؤ! آج میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی: میں تم سب کو معاف کرتا ہوں۔‘‘
صفتِ جمال سے آراستہ شخصیت نہ صرف اللہ سے تعلق کو خوشگوار بناتی ہے بلکہ مخلوق کے ساتھ اس کے رویے میں بھی رحمت و شفقت جھلکتی ہے۔ تعلق باللہ کے لیے جہاں مثبت اعمال ضروری ہیں، وہیں دنیا کی محبت اور خواہشِ نفس اس تعلق میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ آج کا انسان حیوانی سطح پر اٹک گیا ہے؛ جبلّی تقاضوں کی تسکین ہی کو مقصد بنا بیٹھا ہے، اسی لیے تعلق باللہ کی جمالیاتی شرطیں پوری کرنے کے لائق نہیں رہا۔ ہمیں لازم ہے کہ اپنی تنہائی اور اپنی محفل کی کیفیت کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیں، کیونکہ سیدنا علیؓ نے فرمایا:
’’پاکیزہ وہ نہیں جو محفل میں پاکیزہ ہے بلکہ پاکیزہ وہ ہے جو اپنی تنہائی میں پاکیزہ ہو۔‘‘
یہ پیمانہ ہمیں دکھا دیتا ہے کہ ہمارے ذوق کی سطح کیا ہے: کیا ہمیں بے پردگی اور فحش مناظر میں لذت ملتی ہے یا بلبل کی صدا اور قدرت کے حسن میں؟ اگر ہمارے اندر احساسِ حسن حیوانی سطح سے بلند نہیں ہو پا رہا تو یہ کمزوری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جبلّی تقاضوں کو جمالیاتی شعور کے تابع کریں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’ایک نوجوان جس نے خوبصورت عورت کو دیکھ کر محض اللہ کی خشیت میں اپنی نظر جھکا لی، اللہ اس کو ایسی حلاوت عطا فرمائے گا جس کا وہ ضرور ذائقہ چکھے گا۔‘‘
انسان جبلّی لذت میں ڈوپامین پاتا ہے، مگر اللہ کی خاطر چھوڑنے پر جو لذت ملتی ہے وہ سیراٹونین کی طرح دیرپا اور پرسکون ہوتی ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’قلب میں آنے والے خیالات کی مثال اس حوض کی سی ہے کہ اگر اس میں مسلسل گندہ پانی ڈالا جائے تو وہ پاک نہیں رہ سکتا۔‘‘
اسی لیے صفتِ جمال کا تقاضا ہے کہ جہاں خواہشِ نفس خدا کی مرضی کے مقابل آئے، وہاں ہم اللہ کی رضا کو ترجیح دیں۔
رسول اکرم ﷺ نے حسنِ ظن کو عبادت قرار دیا ہے۔ مگر جدید دور میں بدگمانی اور شک کو بنیاد بنا لیا گیا ہے۔ حالانکہ جمال حسنِ ظن سکھاتا ہے اور انسان کو اپنے احساسات و خیالات کو بلند رکھنے کی قوت بخشتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر خوبصورت جوتی صدقہ کر دی کیونکہ وہ نماز میں توجہ بٹانے کا سبب بنی۔ یہ حقیقی حسن کی ترجیح تھی۔
اسی جمالیاتی ذوق کا مظاہرہ سیدنا علیؓ کے اس عمل میں بھی ہوا کہ جب انہوں نے ایک پہلوان کو زمین پر گرایا، تو اس نے ان کے چہرے پر تھوک دیا۔ انہوں نے فوراً اسے چھوڑ دیا اور کہا:
’’میں نے تجھے اللہ کے لیے گرایا تھا، لیکن تیرے تھوکنے کے بعد میرے نفس کی آمیزش ہو گئی، اس لیے اب تجھ پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
یہی کامل انسان کا کمال ہے کہ جبلّت اور روحانیت میں تضاد نہ رہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کریں۔
نماز میں تناسب اور توازن بھی جمال کا اظہار ہے۔ سیدہ عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی سب سے حسین نماز کون سی تھی؟ فرمایا:
’’وہ جس میں قیام، رکوع اور سجدہ سب برابر ہوتے۔‘‘
یہی تناسب ہر عبادت کو پرکشش اور دلنشین بنا دیتا ہے۔
جمالیاتی شعور نئی سوچ، نئے خیالات اور نئے زاویے پیدا کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
’’وہ ہر روز ایک نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔‘‘ (الرحمن: 29)
لیکن امت کی قیادت میں اگر پرانے خیالات جمود کا شکار ہو جائیں اور احساسات تازہ نہ ہوں تو وہ بے تاثیر ہو جاتے ہیں۔ جمالیاتی شعور اگر زندہ اور قرآنی اصولوں سے جڑا ہو تو خیالات اور احساسات کو تازہ رکھتا ہے۔ سیدنا عمرؓ نے بھی نئے حالات میں قرآن ہی سے نئی راہیں تلاش کیں تاکہ دولت محض مالداروں میں گردش نہ کرے۔
جمالیاتی شعور کو پروان چڑھانے کے لیے کائنات کے حسن سے فیض پانا ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ باغوں اور سبزہ زاروں میں تشریف لے جاتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لے جاتے تاکہ جمالیاتی حس کی تربیت ہو۔ قرآن کہتا ہے:
’’ان میں تمہارے لیے جمال ہے جب تم انہیں صبح چراگاہ کی طرف بھیجتے ہو اور جب شام کو واپس لاتے ہو۔‘‘ (النحل: 6)
یہی جمالیات ہے جو دوسروں کے غم کو اپنا غم بنا دیتی ہے، دل میں نرمی اور شفقت پیدا کرتی ہے اور شخصیت کو ایک مقناطیسی کشش عطا کرتی ہے۔ پھر اللہ بھی ایسے بندے سے محبت کرنے لگتا ہے اور وہ بندہ اللہ کی محبت و سکون کا مزہ چکھتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے قرآن میں ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کہا گیا ہے:
’’اے نفسِ مطمئنہ! پلٹ اپنے رب کی طرف، اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی، پس شامل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں‘‘ (الفجر: 27-30)
اللہ ہمیں بھی اس بشارت کا مستحق بنائے۔ آمین۔
(مضمون نگار سے رابطہ : 98200 99169)
***

 

***

 جمالیات کی آبیاری کے لیے قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ کائنات کے حسن سے فیض پانا بھی ضروری ہے۔ یہی جمالیاتی ذوق انسان کے دل میں نرمی، شفقت اور مقناطیسی کشش پیدا کرتا ہے اور بالآخر اسے ’نفسِ مطمئنہ‘ کی کیفیت تک لے جاتا ہے، جو اللہ کی رضا اور دائمی سکون کی منزل ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 ستمبر تا 04 اکتوبر 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
90min |
En yakın taksi |
Taksi ücreti hesaplama |
casibom |
casibom giriş |
meritking |
new |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
1xbet giriş |
casino siteleri |
bahis siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
casino siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
casino siteleri |
Meritking güncel |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
90min |
En yakın taksi |
Taksi ücreti hesaplama |
casibom |
casibom giriş |
meritking |
new |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
1xbet giriş |
casino siteleri |
bahis siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
casino siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
casino siteleri |
Meritking güncel |