اداریہ

متنازع وقف ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ: امکانات اور خدشات

سپریم کورٹ نے متنازعہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی چند شقوں پر عارضی روک لگائی ہے اور حکومت کو ہدایت دی ہے کہ ان شقوں پر فوری طور پر عمل نہ کیا جائے۔ بظاہر یہ فیصلہ مسلمانوں کے لیے ایک قانونی راحت معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ کئی پہلوؤں سے مایوس کن بھی ہے کیونکہ بعض بنیادی شقوں پر عدالت نے کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ ہے۔
عدالت نے ان شقوں پر عارضی روک لگائی ہے جو براہِ راست وقف کی شناخت کو متاثر کرتی ہیں، مثلاً وقف املاک کو “ڈی نوٹیفائی” کرنے کا اختیار، وقف کے لیے پانچ سال تک مسلم ہونے کی شرط اور وقف بورڈوں میں غیر مسلم ممبروں کی تقرری سے متعلق خدشات۔
مگر اہم بات یہ ہے کہ قانون کے دیگر حصوں پر بھی جو اتنے ہی متنازع اور حساس ہیں، عدالت نے کوئی روک نہیں لگائی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ آدھا ادھورا ہے، جو وقتی طور پر سکون تو دیتا ہے مگر اصل تشویش کو ختم نہیں کرتا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ واقعی مسلمانوں کے حقوق کے مکمل تحفظ کی ضمانت ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ فیصلہ وقتی ریلیف تو ہے لیکن پائیدار حل نہیں۔ کئی ایسی دفعات جن کے ذریعے حکومت یا انتظامیہ وقف کے معاملات میں براہِ راست مداخلت کر سکتی ہے، ان پر عدالت نے خاموشی اختیار کی ہے۔ اس سے یہ خدشہ باقی رہتا ہے کہ وقف املاک کے مستقبل پر تلوار لٹکتی رہے گی اور کمیونٹی کے اعتماد کو نقصان پہنچے گا۔
اس فیصلے نے مسلمانوں کی ذمہ داریوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ انہیں اپنی قانونی اور آئینی جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا تاکہ باقی شقوں کا بھی مؤثر جائزہ لیا جا سکے۔ انہیں وقف املاک کی دستاویزات، رجسٹریشن اور ریکارڈز کی درستگی اور شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ عدالت میں مضبوط بنیاد پر مقدمہ لڑا جا سکے۔علماء، وکلاء اور رہنماؤں کو چاہیے کہ اس فیصلے کو “کامیابی” قرار دے کر مطمئن نہ ہو جائیں بلکہ آگے بڑھ کر اصل خطرات کی نشان دہی کریں اور ان کے سدباب کے لیے اقدامات کریں۔ عام مسلمانوں کو وقف املاک کے تحفظ کی مہم میں شامل کیا جائے اور انہیں اس قانون کے مضمرات سے آگاہ کیا جائے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ وقف بورڈ کی اپنی خامیاں بھی اس قانون کو تقویت دیتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ وقف بورڈ میں تقرریاں شفاف، میرٹ کے مطابق اور کمیونٹی کی نمائندگی کے ساتھ ہوں۔ مالی اور انتظامی شفافیت کو اولین ترجیح دی جائے۔ بد عنوانی اور غلط استعمال کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ حکومت کے پاس مداخلت کا کوئی بہانہ نہ بچے۔ عوام میں وقف کے بارے میں آگاہی اور اعتماد پیدا کیا جائے تاکہ یہ ادارے کمیونٹی کی طاقت بن سکیں۔
سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ مسلمانوں کے لیے ایک طرف وقتی اطمینان کا باعث ہے تو دوسری طرف ایک بڑی مایوسی کی علامت بھی۔ یہ اس لیے کہ عدالت نے کئی بنیادی نکات پر خاموشی اختیار کر لی ہے اور قانون کے کئی خطرناک پہلو بدستور برقرار ہیں۔ اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ فیصلہ کامیابی نہیں بلکہ جدوجہد کی اگلی منزل کی طرف اشارہ ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی آئینی جدوجہد کو جاری رکھیں، اپنے اداروں کو شفاف بنائیں اور اپنی املاک کے تحفظ کے لیے سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو آج کی یہ عارضی راحت کل کو بڑی محرومی میں بدل سکتی ہے۔
نیپال میں بغاوت: بھارت کی ذمہ داری
خطے کی سیاست ایک بار پھر غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے۔ نیپال میں ابھرنے والی موجودہ بغاوت یا انقلاب کی صورت حال نے پورے جنوبی ایشیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ احتجاج اور مظاہروں کے دوران انسانی جانوں کا ضیاع اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی مسائل کو مسلسل نظر انداز کرنے اور طاقت کے ذریعے دبانے کی پالیسی کس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے امن اور انصاف بنیادی شرائط ہیں، اور جب یہ اصول پامال ہوں تو اضطراب اور تشدد پیدا ہو جاتا ہے۔
نیپال کا موجودہ بحران کسی حادثاتی پیش رفت کا نتیجہ نہیں بلکہ برسوں کی بے اعتنائی اور بد انتظامی کا حاصل ہے۔ کرپشن، اقربا پروری، میڈیا پر بے جا قدغنیں، معاشی بدحالی، ذات پات کی بنیاد پر امتیاز، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور نوجوانوں میں پائی جانے والی شدید مایوسی نے حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ عوام نے نظام پر اعتماد کھو دیا ہے۔ ریاستی جبر اور پر تشدد احتجاج دونوں ہی معاشرے کو مزید انتشار اور بے یقینی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا مقتدر طبقہ عوامی آواز کو دبانے کے بجائے اسے انصاف اور ہمدردی کے ساتھ سننے کے لیے تیار ہے؟
یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ نیپال کے عوام نے بادشاہت اور جاگیر دارانہ نظام کے خلاف ایک طویل اور کٹھن جدوجہد کے بعد جمہوریت حاصل کی تھی۔ اگر موجودہ مظاہروں کو سنجیدہ سیاسی اصلاحات کے ذریعے جمہوری ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے بجائے دوبارہ آمرانہ رویوں یا اکثریتی جبر کے راستے پر موڑ دیا گیا تو یہ نہ صرف نیپال بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوگا۔ جمہوریت کا اصل امتحان یہی ہے کہ اختلافات اور مطالبات کو طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ بات چیت، انصاف اور جواب دہی کے ذریعے حل کیا جائے۔
جنوبی ایشیا کی تاریخ بار بار یہ سبق دیتی ہے کہ عوامی آواز کو دبانے کی پالیسی ناکام ثابت ہوتی ہے۔ سری لنکا میں معاشی بحران اور سیاسی بد انتظامی نے عوامی بغاوت کو جنم دیا جس نے بالآخر حکومت کو گرا دیا۔ بنگلہ دیش میں بارہا عوامی مطالبات کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوششوں نے بد اعتمادی اور سیاسی کشمکش کو گہرا کیا۔ ان مثالوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں امن اور استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکم راں طبقہ شفافیت، انصاف اور عوامی رائے کے احترام کو اپنی پالیسی کا حصہ نہ بنائے۔
بھارت، جو نیپال کا قریبی پڑوسی اور خطے کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، اس بحران کے تناظر میں ایک نازک ذمہ داری کا حامل ہے۔ محض تزویراتی مفادات یا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں خطے کے امن کو مزید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ایک ذمہ دار ہمسایہ ہونے کے ناطے بھارت کو نیپال کی خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔ بھارت کی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ خطے کا استحکام اسی وقت ممکن ہے جب ہر ملک کو اپنی جمہوریت کو مضبوط کرنے اور عوامی حقوق کو تسلیم کرنے کا موقع دیا جائے۔
نیپال کے موجودہ بحران سے نکلنے کا راستہ صرف طاقت کا استعمال نہیں بلکہ انصاف پر مبنی سیاسی اصلاحات ہیں۔ قیادت کو کرپشن کے خاتمے، نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے، سماجی انصاف کو یقینی بنانے اور میڈیا پر غیر ضروری پابندیاں ہٹانے کی سمت فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ کامیاب قیادت وہ ہے جو مخالفین اور ناقدین کو خاموش کرانے کے بجائے ان کے خدشات کو سننے اور حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ طاقت وقتی طور پر سہارا تو دے سکتی ہے استحکام نہیں، پائیدار امن ہمیشہ انصاف، جواب دہی اور عوامی اعتماد کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom giriş |
gamdom |
porn |
gamdom |
gamdom giriş |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
1xbet giriş |
casino siteleri |
bahis siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
casino siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
casino siteleri |
casibom |
deneme bonusu |
vadicasino |
gamdom giriş |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom giriş |
gamdom |
porn |
gamdom |
gamdom giriş |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
sweet bonanza oyna |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
bahis siteleri |
matadorbet giriş |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
1xbet giriş |
casino siteleri |
bahis siteleri |
deneme bonusu veren siteler |
bonus veren siteler |
casino siteleri |
deneme bonusu veren siteler |