
وہ رب جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتا ہے
سمیہ بنت عامر خان
زندگی ہر روز ہمیں ایک نئے امتحان سے گزارتی ہے۔ کہیں نا کامی کا طعنہ، کہیں خواہشات کی نامکمل کہانی، کہیں گناہوں کا بوجھ تو کہیں لوگوں کی بے قدری دل کو تھکا دیتی ہے۔ دل پکار اٹھتا ہے، مایوسی آنکھوں میں گھر کر لیتی ہے مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ وہ جو رب کے در پر جھکتا ہے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ اگر ان لمحوں کو صبر کے رنگ میں رنگ دیا جائے تو یہی تھکن، آخرت میں جنت کی خوشبو بن جاتی ہے۔
اکثر ہمیں لگتا ہے کہ ہم کافی نہیں تھے اس لیے کامیاب نہیں ہو سکے، اپنی زندگی رب کے دیے ہوئے معیار کے مطابق نہیں گزار سکے۔ مگر وہ رب جو دلوں کے حالات سے واقف ہے، وہ ہر قطرہ نیت کو سمندر کی وسعت دے دیتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کوششیں، خلوص بھرے اعمال، وہ سب اس کے ہاں محفوظ ہیں۔ اس کے نزدیک نیت کا وزن ہے، دل کی سچائی کا مقام ہے۔
کچھ آیات، کچھ سورتیں، کچھ کلماتِ الٰہی اگر دل میں اتر گئے تو وہ بے مول نہیں جا سکتے۔ خلوص سے کیا گیا عمل، اگرچہ مکمل نہ ہو، پھر بھی رب کی نظر سے چھپا نہیں رہتا۔ دنیا اگر واہ واہ نہ کرے تب بھی وہ رب آنکھوں کے گوشے سے بہنے والے ان آنسوؤں کو سنبھال کر رکھتا ہے جنہیں کسی نے نہیں دیکھا ہوتا ہے۔
اگر زندگی گناہوں میں گزر بھی گئی ہو تب بھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔ رب کا وعدہ ہے "اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ یقیناً اللہ تمام گناہ معاف کر دیتا ہے” (سورۃ الزمر: 53)
ابھی بھی وقت ہے، سانسیں باقی ہیں، توبہ کا در کھلا ہوا ہے۔ پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف۔
زخم کھا لینا، خوابوں کا بکھر جانا، ناکامی کا سامنا کرنا یہ سب زندگی کا حصہ ہیں۔ مگر یہ اس کا مطلب رب کی رحمت سے محرومی نہیں ہے کیوں کہ قرآن کہتا ہے:
"بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے، یقیناً تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔” (سورۃ الشرح: 5-6)
ہر گرا ہوا انسان پھر سے اٹھ سکتا ہے۔ اس کا رب اسے تھامنے کے لیے تیار ہے۔
دنیا فانی ہے۔ یہاں کی محرومیاں، نا تمام دعائیں، ادھوری خواہشیں سب کچھ وہاں پوری کی جائیں گی جہاں کوئی کمی نہیں، کوئی رنج نہیں، کوئی جدائی نہیں، جہاں دل کی ہر حسرت، زبان کی ہر دعا، روح کی ہر تمنا پوری کی جائے گی۔
اگر رزق کم ہو گیا، اگر حالات تنگ ہو گئے، تو یاد رکھو کہ نبی کریم ﷺ نے فقر کو فخر بتایا ہے۔ وہ جو دنیا کی چمک دمک سے بے نیاز ہو جاتا ہے رب کے قریب ہو جاتا ہے۔ یہ آزمائش تمہیں جنت کی بلندیوں تک لے جانے کا ذریعہ بن سکتی ہے لیکن صبر اور شکر لازمی ہے۔
دنیا اگر تمہیں کمزور سمجھے، اگر تمہارے ماضی کی لغزشیں تمہیں پریشان کریں، اگر تم پر انگلیاں اٹھیں تو جان لو کہ تمہارا رب اب بھی تمہیں پکار رہا ہے: "لوٹ آؤ، میں ہی تمہارا رب ہوں، تمہارے ٹوٹے دلوں کو جوڑتا ہوں، تمہارے آنسو پونچھتا ہوں، تمہاری توبہ قبول کرتا ہوں، اور تمہیں وہ کچھ عطا کرتا ہوں جو تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔”
مایوسی کفر ہے۔ تھک جانا فطری ہے، مگر بیٹھ جانا ہار ہے۔ اگر زندگی تمہیں تھکا رہی ہے تو سجدے میں گر جاؤ۔ وہ سجدہ جہاں سے اٹھنے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں رہتا۔
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ”
"اور میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔”
(سورۃ الأعراف: 156)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2025