
پنجاب میں سیلاب کی تباہی: غیرقانونی کانکنی کا نتیجہ
سپریم کورٹ کا مرکز اور ریاستوں کو نوٹس، ماحولیاتی توازن کے بگاڑ پرسخت انتباہ
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
میوات کے مسلمانوں اور دیگر برادریوں کی پنجاب کے لیے مثالی امدادی مہم
پنجاب ملک کی بڑی آبادی کے لیے غلّہ و اناج پیدا کرنے والی ایک اہم ریاست ہے۔ ملک کی بھوک مٹانے والا یہی پنجاب آج کل گزشتہ کئی دہائیوں کے سب سے بھیانک اور تباہ کن سیلاب سے دوچار ہے۔ دیہات کے دیہات بہہ گئے، کھیت کھلیانوں میں ریت نے ڈیرہ ڈال لیا ہے۔ ایسی تباہی آئی ہے کہ پانی اترنے کے بعد بھی حالات جلد سنبھلنے والے نہیں۔ حکومتِ پنجاب نے اپنی عبوری رپورٹ میں تقریباً چودہ ہزار کروڑ روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر ریلیف فنڈ سے اس نقصان کی تلافی کرتے ہوئے فوری مدد فراہم کی جائے، ورنہ ریاست کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ پورا ملک پنجاب کے ساتھ کھڑا ہے اور مدد کے لیے ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ زراعت اور گھریلو معیشت سے بھرپور پنجاب میں ندی نالوں میں آئی طغیانی سے 1.75 لاکھ ہیکٹر زرعی زمین کو نقصان پہنچا ہے۔ سب سے زیادہ اثر دھان، سبزیوں اور دیگر خریف فصلوں پر پڑا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق اب تک چھیالیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ 1996 دیہاتوں میں 3.87 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ سرحدی اضلاع جیسے گرداسپور، پٹھان کوٹ، ہوشیار پور، جالندھر، فاضلکہ، کپورتھلہ اور آس پاس کے علاقوں میں گھروں، سڑکوں اور دکانوں تک پانی بھر گیا ہے۔ اگرچہ پنجاب کے لوگ سخت کوش اور حوصلہ مند ہیں مگر وہاں ہونے والی تباہی کے پیش نظر بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے۔ کئی ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ایسے علاقے ہیں جہاں آئندہ کئی مہینوں تک پانی اور اس کے ساتھ آئی ریت جمی رہے گی۔ پانی میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے خوراک کا انتظام مقامی حکومت اور مختلف فلاحی ادارے کر رہے ہیں مگر پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے۔ ساتھ ہی بجلی سے چلنے والے واٹر فلٹر، بڑے آر او پلانٹس، بیٹری انورٹر، موم بتیاں اور ماچس کی بھی اشد ضرورت ہے، کیونکہ بجلی کی بحالی میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں وباؤں کے پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر فینائل، کلورین پاؤڈر اور مچھر مار اسپرے کی بھی فوری ضرورت ہے۔
پانی اترنے کے بعد زندگی کو دوبارہ پٹری پر لانا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ سرکاری ریلیف کا پیسہ صرف انہی افراد کو ملے گا جن کے پاس آدھار کارڈ ہے، مگر جن کے تمام دستاویزات سیلاب میں بہہ گئے ہیں، ان کے لیے فلاحی تنظیموں کو شناختی کاغذات دوبارہ مہیا کروانے کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی ممکن ہو سکے گی۔ اس سیلاب میں بچوں کی اسکول کتابیں اور بیاگس سب کچھ بہہ چکے ہیں۔ متاثرہ تقریباً دو لاکھ بچوں کے لیے کتابیں، بیاگس اور اسٹیشنری کی ضرورت ہے۔ نصاب کی کتابیں دوبارہ چھپوانی ہوں گی اور بلیک بورڈز و فرنیچر بھی نیا بنوانا ہوگا۔ بارش کے بعد گلیوں اور محلوں سے پانی نکالنا، کیچڑ صاف کرنا اور مردہ جانوروں و انسانوں کی لاشیں ہٹانا بھی ایک مشقت طلب اور پیچیدہ کام ہوگا۔ جب تک غلاظت، ملبہ اور پانی کا صفایا نہیں ہوگا، زندگی معمول پر نہیں آسکے گی۔ سیلاب سے متاثرہ ہزاروں افراد ایسے ہیں جو شوگر، بلڈ پریشر اور تھائیرائیڈ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان کے لیے بروقت دوا کا حصول نہایت ضروری ہے۔ اپنا سب کچھ کھو دینے کے صدمے اور راحت کیمپوں کی محدود سہولیات کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ضروری ادویات، پینے کا صاف پانی، ڈیٹول، فینائل، کلورین کی گولیاں، بخار اور پیٹ درد کی دوائیں، گلوکوز پاؤڈر اور خواتین کے لیے سینیٹری نیپکنز جیسے ضروری سامان فوری مہیا کیے جانے چاہئیں۔ پنجاب کے دُور دراز علاقوں میں دوبارہ تعمیر کے لیے سیمنٹ، لوہا اور دیگر تعمیری سامان بھی پہنچانا ضروری ہے۔ پنجاب کے وزیرِ مالیات ہرپال سنگھ چیما نے مرکزی حکومت سے چودہ ہزار کروڑ روپے کے ریلیف پیکیج کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی ساٹھ ہزار کروڑ روپے جو مرکز پر واجب الادا ہیں، ان کی ادائیگی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
پندرہ دن سے زیادہ گزر چکے ہیں، پنجاب کے لوگ سیلاب کی تباہی سے لڑ رہے ہیں۔ اب جا کر وزیر اعظم نریندر مودی نے سیلاب کا فضائی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے پنجاب اور ہماچل پردیش میں شدید بارش اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کا معائنہ کیا اور متاثرہ افراد سے ملاقاتیں بھی کیں۔ وزیراعظم نے گرداسپور میں ریاستی و مرکزی افسران کی موجودگی میں حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سولہ سو کروڑ روپے کی ابتدائی رقم اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریسپانس فنڈ (SDRF) اور پی ایم کسان سمان ندھی فنڈ سے جاری کرنے کا اعلان کیا۔ اسی کے ساتھ ہاؤسنگ، سڑک، تعلیم، زراعت اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کا منصوبہ بھی پیش کیا۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت گھروں کی تعمیر، نیشنل ہائی ویز کی مرمت، سمگرا شکشاابھیان کے تحت اسکولوں کی بحالی، کسانوں کے بورویلوں کی مرمت اور منی کٹس کی تقسیم جیسے اقدامات کیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ سیلاب میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو دو لاکھ روپے اور شدید زخمیوں کو پچاس ہزار روپے بطور ایکس گریشیا دیے جائیں گے۔ سیلاب یا لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے یتیم ہونے والے بچوں کو طویل مدتی مدد پی ایم کیئرس فار چلڈرن اسکیم کے تحت فراہم کی جائے گی۔ پنجاب کی طرح ہماچل پردیش کے لیے بھی پندرہ سو کروڑ روپے کی عبوری امداد اور اسی طرح کی اسکیموں کے تحت راحت کا اعلان کیا گیا ہے۔
سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے دوران ایک کسان نے وزیر اعظم کو بتایا کہ یہ ساری تباہی دھوسی بندھ کے آس پاس غیر قانونی کانکنی کی وجہ سے ہوئی ہے جس کے نتیجے میں امرتسر کا بڑا حصہ زیرِ آب آ گیا۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ بندھ پر دس سال سے کوئی مرمت یا مٹی نہیں ڈالی گئی۔ ندی میں غیر قانونی کھدائی کے دوران بڑی گاڑیوں کی نقل و حرکت نے بندھ کو کمزور کیا جس سے بندھ میں شگاف پڑ گیا۔ ایک ماہ قبل امرتسر کے ڈپٹی کمشنر کو بندھ کی خستہ حالی سے آگاہ کیا گیا تھا مگر بروقت کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے آج پورا علاقہ تباہی کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔
سپریم کورٹ اور ماہرین کی جانب سے ہمالیہ کے نازک ماحولیاتی توازن کو بچانے کے لیے دیے گئے مسلسل انتباہات کو نظر انداز کرنے کے سنگین نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اتر کاشی میں حالیہ بڑا سانحہ اس غفلت کا زندہ ثبوت ہے (تفصیل کے لیے ہفت روزہ دعوت ’’31 اگست تا 6 ستمبر 2025‘‘ کے رقّام کی تحریر ملاحظہ کریں)۔ ہماچل پردیش میں ہزاروں درختوں کی بے دریغ کٹائی کے سبب ایسی وسیع پیمانے پر تباہی آئی ہے جس کا احاطہ کرنا بھی مشکل ہے۔ لا تعداد درختوں کی شاخیں اور تنے وادی کی ندیوں کے کنارے بکھرے پڑے پائے گئے۔ اس ماحولیاتی ظلم اور ریاست میں ہونے والی تباہی کے خلاف پنچکولا کی شہری انامیکا رانا نے سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے۔ یہ مقدمہ چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس ونود چندرن پر مشتمل بینچ نے سنا۔ عدالت نے مرکز، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) وزارتِ ماحولیات، وزارتِ جل شکتی، نیشنل ہائی ویز اتھارٹی آف انڈیا (NHAI) ریاستِ ہماچل پردیش، اتر اکھنڈ اور مرکزی زیرِ انتظام علاقہ جموں و کشمیر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتے میں جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ دورانِ سماعت سرکاری وکیل تشار مہتا کو مخاطب کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ’’براہِ کرم اس بات پر توجہ دیجیے کہ حالیہ سیلاب کے دوران ہماچل اور اتر اکھنڈ کی ندیوں کے کنارے غیر قانونی طور پر کاٹے گئے درختوں کے تنے بکھرے ملے ہیں۔ اگر یہی صورتِ حال جاری رہی، تو ہم جنگلات سے مکمل طور پر محروم ہو جائیں گے۔‘‘ چیف جسٹس نے پنجاب میں ہونے والی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے پنجاب کی وہ بھیانک تصویر دیکھی جہاں کھیت، بستیاں، سب کچھ پانی میں ڈوب گیا۔ ترقی ہونی چاہیے مگر وہ ماحولیات کے ساتھ توازن برقرار رکھ کر ہو، نہ کہ ایکو سسٹم کو تباہ کرکے؟‘‘
ماہرین طویل عرصے سے پنجاب میں ڈیموں کے بہتر انتظامات کی ضرورت پر زور دیتے آ رہے ہیں، جن میں تھین ڈیم بھی شامل ہے جو ریاستی حکومت کے زیرِ انتظام ہے۔ مگر حکومت کی جانب سے سیلاب کے تعلق سے عوام کو بروقت اور مؤثر انتباہ جاری نہیں کیا گیا جس کا خمیازہ لاکھوں لوگوں کو بھگتنا پڑا۔ انوائرنمنٹلسٹ پبلک آفس کمیٹی میٹوارہ کے جسکریت سنگھ نے تبصرہ کیا کہ ’’شدید بارش ایک فطری عمل ہے مگر اصل نقصان ہمیشہ انسانی غلط فیصلوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘ اسی طرح دھوسی بندھ کے انتظامات میں ہونے والی کوتاہیوں پر وزیرِ زراعت شیو راج سنگھ چوہان نے غیر قانونی کانکنی کو ذمہ دار ٹھیرایا اور خبردار کیا کہ اگر فوری طور پر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو ایسی تباہی بار بار آتی رہے گی۔
پنجاب آج بدترین سیلاب کی تباہی سے دو چار ہے۔ اس ہولناک آفت نے نہ صرف فصلیں تباہ کر دی ہیں بلکہ انسانوں اور جانوروں کی قیمتی جانیں بھی سیلاب کی نذر ہو رہی ہیں۔ ایسے سخت وقت میں میوات کے مسلمانوں نے انسانی ہمدردی اور اخوت کی بے نظیر مثال قائم کی ہے۔ یہ تحریک اب اتر پردیش کے مشرقی اضلاع تک بھی پھیل چکی ہے۔ دیہات کے دیہات اپنے پنجابی بھائیوں کی مدد کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء ٹرکوں اور ٹرالیوں کے ذریعے سیلاب زدگان تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ صرف مسلمان ہی نہیں، ہریانہ کی دیگر برادریوں کے لوگ بھی امدادی سامان جمع کر کے متاثرین تک پہنچا رہے ہیں۔ زیر آب آنے والے علاقوں میں مسلمانوں کی جماعتیں کشتیوں اور چھوٹے بوٹس کے ذریعے گاؤں گاؤں جا کر امداد پہنچانے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر پنجابی بھائی مسلمانوں کے اس خلوص، ایثار اور انسان دوستی کی دل کھول کر تعریف کر رہے ہیں۔ یہ مناظر انسانیت کے اعلیٰ جذبوں کا مظہر ہیں۔ سیلاب کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ممبئی کے فلمی ستارے بھی آگے آئے ہیں۔ کئی فنکار متاثرہ دیہات کو ’’گود‘‘ لے کر ان کی باز آبادکاری میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ گلوکار، موسیقار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی پنجاب کے اس دکھ کی گھڑی میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ درحقیقت یہی خدمت خلق ہے کہ انسان انسان کے کام آئے۔
***
سیلاب نے کھیت، بستیاں اور جانور سب بہا دیے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔ اس سخت وقت میں میوات اور ہریانہ کے مسلمانوں سمیت مختلف برادریاں امداد پہنچانے میں پیش پیش ہیں۔ کشتیوں کے ذریعے دیہات دیہات جا کر خوراک اور ضروری سامان پہنچایا جا رہا ہے۔ فلمی ستارے اور فنکار بھی آگے بڑھ کر متاثرہ دیہات کو ’’گود‘‘ لے رہے ہیں اور بازآبادکاری میں حصہ لے رہے ہیں۔یہ آفت نہ صرف ماحولیاتی توازن کی سنگین خرابی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ بہتر بندھوں، ڈیموں اور انتباہی نظام کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اگست تا 27 اگست 2025