رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ، امت کے اتحاد اور نجات کی بہترین راہ

قرآن و سنت سے دوری، فرقہ واریت اور خود ساختہ طریقے انتشارِ امت اور زوال کی سب سے بڑی وجہ

ڈاکٹر ساجد عباسی ، حیدرآباد

دور حاضر میں اعتدال، اخلاص اور سیرتِ نبوی کی پیروی ہی اقامتِ دین کا حقیقی راستہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (سورۃ الاحزاب : ۲۱) ’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ساری انسانیت میں کامل نمونہ رسول اللہ ﷺ کی ذات میں ہے۔آپ کی اتباع کرکے ہی ہم دنیا میں سرخ رو ہو کر آخرت میں نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک ہی شخصیت ہے جس کی اتباع سے امت مسلمہ میں اتحاد پیدا ہو سکتا ہے۔دوسری شخصیات جزوی نمونہ ہوسکتی ہیں لیکن کامل نمونہ نہیں ہوسکتیں بلکہ دنیا میں کسی کا عمل بھی اس وقت تک قابل اتباع نہیں ہوگا جب تک اس کا عمل بھی رسول اللہ کے طریقے کے عین مطابق نہ ہو۔ اور رسول اللہ ﷺ کا عمل چلتا پھرتا قرآن یعنی قرآن کی عملی تفسیر تھا۔اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا کہ خاتم النبیین رسول اللہ ﷺ کو اخلاق کے بلند مقام پر فائز کیا گیا ہے ۔فرمایا گیا : وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (سورۃ القلم :۴)’’اور بےشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔‘‘رسول اللہ ﷺ کی زندگی اس طرح سے معجزہ ہے کہ آپ کی ۲۳ سالہ مختصر پیغمبرانہ زندگی میں اللہ تعالیٰ نے حالات میں اتنا تنوع پیدا کیا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام انبیاء و رسل کی سیرتوں کے خلاصہ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی میں سمو دیا ہے۔آپ یتیم پیدا ہوئے اور دنیوی وسائل سے محروم ہونے کے باوجود آپ نے دنیا کے سب سے کامیاب ترین انسان ہونے کا ثبوت پیش کیا ۔نبوت سے سرفراز ہونے تک صادق و امین کی حیثیت سے معاشرہ میں نمایاں مقام حاصل کیا ۔جب نبوت سے سرفراز ہوئے تو داعیٔ اعظم اور ہادیٔ انسانیت بن گئے۔آپ کے بلند اخلاق سے بدترین دشمن بھی آپ کے گرویدہ بن گئے ۔دعوت کے نتیجے میں سخت مخالفت اور اذیت پر صبر کیا لیکن انتقام نہیں لیا تاکہ دعوت کا مشن متاثرنہ ہو۔بنوہاشم سمیت آپ کا معاشی و معاشرتی مقاطعہ کیا گیا ۔اس میں دنیا کے محصور لوگوں کے لیے آپ کی زندگی ایک نمونہ ہے۔ہجرت کرنے والوں کے لیے بھی آپ نے نمونہ چھوڑا۔ مدینے کی ریاست کے حکم راں کی حیثیت سے آپ نے حکم رانوں کے لیے بہترین اسوہ پیش کیا جس میں یہودیوں کو بھی اقلیت کے طور مدینہ کا شہری بنا یا گیا۔ان کی بد عہدی اور قتل انبیاء کے قدیم طرز پر جب ان کی شرارتیں حد سے تجاوز ہونے لگیں تو ریاستی امن کی خاطر ان کو جلا وطن کرکے مدینے کی ریاست کو ان کے فتنوں سے بچایا گیا۔مکہ کی طرف سے حملوں کا جرأتمندی سے مقابلہ کرکے ایک بہترین سپہ سالار ہونے کی مثال قائم کی۔بہترین منصوبہ بندی کے ذریعے مکہ کو بغیر خون خرابے کے فتح کیا۔بیس سالہ بدترین دشمنی کے باوجود اپنے دشمنوں کو عام معافی دے کر معاف کرنے کی درخشاں مثال کو قائم کیا۔مربی اور مزکی ہونے کی حیثیت میں آپ نے انسانوں کی ایک بہترین جماعت تیار کی جس سے بہتر انسانوں پر سورج قیامت تک طلوع نہیں ہوگا۔دنیا کو اس حال میں چھوڑا کہ جزیرہ نمائے عرب سے ظلم ختم ہوا اور اللہ کا دین قائم ہوا اور انسانوں کے قلوب اور ان کے اخلاق بدلے۔آپ کے ذریعے سے اللہ تعالی کا کلام انسانوں کو ملا جس میں دنیا اور عقبیٰ دونوں جہانوں کی فلاح مضمر ہے۔مختلف حالات میں مختلف رول میں آپ ساری انسانیت کے لیے بہترین اسوہ دنیا کے سامنے پیش کیا ۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کو کتاب محفوظ بنایا اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے قول وعمل کو بھی قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا گیا تاکہ آپ قیامت تک انسانیت آپ کی اتباع کر سکے۔
امتِ مسلمہ آج جس انتشار، تفرقہ اور فکری زوال کا شکار ہے اس کی سب سے بڑی وجہ قرآن و سنت سے دوری اور خود ساختہ عقائد و نظریات کو دین کا حصہ بنا لینا ہے۔ ہر فرقہ اپنے عقائد کو حرفِ آخر سمجھ کر امت کے باقی افراد کو خارج از اسلام یا ناقص الایمان تصور کرتا ہے، جبکہ قرآن واضح طور پر کہتا ہے: وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ(سورۃ آل عمران :۱۰۳)’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘ تفرقہ نے امت مسلمہ بہت کمزور کر دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ایک مشن بردار امت بنایا تھا اور اس کا نام مسلم رکھا تھا لیکن امت کے اکابرین خود ساختہ طریقوں پر عامل ہو کر خود کو مختلف ناموں سے موسوم کروانا پسندکیا جس سے امت تفرقہ کا شکار ہوئی۔تفرقہ سے بچنے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ قرآن کو ہدایت کا واحد ذریعہ بنایا جائے۔قرآن اللہ کی رسی ہے جس کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا تھا۔رسول اللہ ﷺ کی سنت دراصل قرآن کی عملی تشریح ہے۔جب بھی قرآن وسنت سے بے نیازی برت کر کسی شخصیت کی اندھی تقلید کی گئی وہاں تفرقہ برپا ہوا۔اس طرح امت فرقوں میں بٹتی چلی گئی۔ نام لیے بغیر مختلف جماعتوں اور فرقوں کا قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے گا تاکہ نوجوان نسل کو یہ معلوم ہو کہ اصل اسلام کیا ہے جو قرآن و سنت پر مبنی ہے۔آج نوجوانوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کون سا فرقہ حق پر ہے اور کس جماعت سے وابستگی ہونی چاہیے۔بعض نوجوان امت کی اس تفرقہ اندازی کی وجہ سے دین سے ہی بے زاری کا شکار ہو رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل قرآن وسنت سے براہ راست ہدایت حاصل کرے۔وہ افراط وتفریط سے بچ کر قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی گزارے۔ غیر عقلی بنیادوں پر مسلکوں اور فرقوں سے وابستہ ہو کر اپنے اپنے مسلکوں اور فرقوں کی حمایت کرنے کے بجائے وہ اسلام کے نمائندہ بنیں اور قرآنی مشن کے علم بردار ہو کر اس دنیا میں امتِ وسط اور خیر امت بنیں۔یومِ قیامت اللہ تعالیٰ کے پاس ہر انسان فرداً فرداً حاضر ہوگا(سورۃ مریم :۹۵)۔وہاں پر کسی جماعت یا تحریک یا کسی فرقہ کے حق میں اجتماعی فیصلہ نہیں سنایا جائے گا بلکہ ہر فرد کے عقائد و افکار اور اس کے اعمال کو الگ الگ پرکھا جائے گا اور اس کی نیتوں کا بھی حساب لیا جائے گا۔ (سورۃ العٰدیات: ۱۰) دنیا میں چاہے کسی کے تقدس کا کتنا ہی ڈنکا بج رہا ہو آخرت میں اس کی ساری حقیقت کھول دی جائے گی۔ (سورۃالطارق :۹)۔
اگر ساری امت قرآن کو ہدایت کا ذریعہ بنالے اور رسول اللہ ﷺ کو اپنے عمل کے لیے کامل نمونہ بنالے تو کبھی امت میں تفرقہ پیدا نہیں ہوگا۔تفرقہ اس وقت پیدا ہوگا جب قرآن و سنت کے بجائے کسی کے قول و عمل کو قرآن وسنت کا درجہ دیا جائے اور اس پر ایمان و تکفیر کی بنیاد رکھی جائے تو وہاں ایک فرقہ وجود میں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو فرقان بنا کر نازل فرمایا ہے۔فرقان کے معنی ہیں کسوٹی کے، چاہے کوئی شخصیت کتنی ہی مقدس کہلائے اس کے قول و عمل کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔یہاں تک کہ اصحاب رسول کے اقوال اور اعمال کو بھی قرآن پر پرکھا جائے گا۔ جب حوض کوثر پر رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ لوگ آئیں گے جنہیں آپ پہچانتے ہوں گے پھر آپ کے اور ان کے درمیان پردہ ڈال دیا جائے گا۔آپ فرمائیں گے کہ یہ لوگ مجھ میں سے ہیں۔آپ سے اس وقت کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا تبدیلیاں کردی تھیں۔ اس پر آپ فرمائیں گے دور ہوں دور ہوں وہ لوگ جنہوں نے میرے بعد دین میں تبدیلیاں کردی تھیں۔ (صحیح بخاری)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سارے صحابی ایک مقام و منزلت پر فائز نہیں تھے۔ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ سارے کے سارے صحابہ قابل اتباع ہیں۔خلفائے راشدین،سابقون الاولون اور عشرۂ مبشرہ اور جلیل القدراصحاب رسول یقیناً قابل اتباع ہیں۔یہ وہ عزیمت والے صحابہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور ان کا عمل رسول اللہ کی اتباع کا آئینہ ہوتا تھا۔ان کی تعریف اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ یہ مہاجرین ہیں جنہوں نے اللہ کی محبت میں ہجرت کی اور وہ جنہوں نے مدینہ میں ان کی نصرت کی (سورۃ الانفال :۷۴) تفرقہ سے بچنے کا اصول یہ ہے کہ قرآن و سنت ہی کو کسوٹی بنایا جائے۔رسول اللہ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ احادیث رسول کو بھی قرآن پر پرکھا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ میرے بعد کچھ راوی میرے نام پر جھوٹی حدیثیں گھڑیں گے لہٰذا ان کو قرآن پر پرکھا جائے۔اسی طرح فرقہ بندی سے بچنے کا یہ اصول ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کے قول وعمل کو یا تفسیر وتشریح کو حرف آخر نہ سمجھا جائے ۔اللہ تعالیٰ نے اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کے لیے کھلا رکھا ہے۔اس لیے دینی مسائل پر کسی فقہی فیصلہ کو حرف آخر نہ سمجھا جائے۔قرآن اپنے فہم ادراک کے خزانے لٹاتا رہے گا اور تحقیق وتدبر کا دروازہ کبھی بندنہ ہوگا۔تفقہ فی الدین کی نعمت کو اللہ تعالیٰ صرف اسلاف تک محدود نہیں رکھا ہے۔ہمارے فقہا نے یقیناً عظیم الشان خدمات پیش کی ہیں اور دین کے اہم مسائل کا حل پیش کیا ہے لیکن حرف آخر صرف اللہ کا کلام ہے اور اتباع کے لیے کامل نمونہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔اگر کسی اور کا عمل قابل اتباع اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس کو بھی قرآن و سنت کی اتباع کی سند حاصل ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (سورۃ فصلت :۵۳) ’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ مستقبل میں اللہ تعالیٰ آفاق و انفس سے ایسی نشانیاں دکھائے گا کہ یہ حقیقت پہلے سے زیادہ ثابت ہو جائے گی کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔قرآن کی بعض آیات کا فہم پہلے سے بہت بہتر طور پر سامنے آنے لگا ہے جب پچھلی صدی میں سائنس کی ترقی سے اللہ کی قدرت کے شاہکار سامنے لائے گئے جیسے کائنات کا مسلسل پھیلنا،ایک نقطہ سے کائنات کا وجود میں آنا اور پانی سے ہر جان دار کا پیدا ہونا وغیرہ۔اس سے معلوم ہوا کہ قرآن اپنی حکمت کے خزانے مسلسل دنیا کے سامنے لاتا رہے گا اور قدیم مسائل کی طرح جدید مسائل کا حل بھی پیش کرتا رہے گا۔ایسی صورت میں ایک تفسیر حرف ِآخر بن نہیں سکتی۔قرآن کی حکمتوں کو قدیم بزرگوں کی فہم و فراست سے محدود نہیں کیا جا سکتا۔قرآن کی تشریح کو بھی کسی ایک مفسر کی حکمت و دانش سے محدود کرنا بھی امت کے اندر افتراق کا باعث ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرقہ بندی کی سختی سے مذمت کی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (آل عمران: ۱۰۵) ’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے‘‘۔ بینات یعنی قرآن کی صورت میں اللہ کی واضح آیات کے موجود ہونے کے بعد تفرقہ میں پڑنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ (سورۃ الانعام :۱۵۹)’’جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں ہے‘‘۔
اب اگلی سطور میں یہ بتایا جائے گا مختلف فرقے کس طرح اپنے اپنے دائرے کھینچ کر امت کو بانٹنے کا کام کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو بعض لوگوں کے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی ان سے فیض کے حصول کے قائل ہیں۔ ان کا یہ استدلال ہے کہ اللہ کی راہ میں مارے جانے والے مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں۔ یہ آیت شہداء کی برزخی زندگی پر دلالت کرتی ہے، نہ کہ ان سے مدد مانگنے یا پکارنے پر؟ اس بات کو لے کر وہ فوت ہو جانے والے بزرگوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں مردے سنتے بھی ہیں اور اللہ کے ہاں سفارش کرکے دنیا والوں کے کام بھی بناتے ہیں۔یہ عقیدہ قرآن کے بالکل خلاف ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: قرآن میں جس طرح عبودیت میں شریک کرنا ظلم ِ عظیم ہے اسی طرح استعانت میں شریک کرنا بھی شرک ہے جو اللہ کے نزدیک ناقابل معافی گناہ ہے۔ (ترمذی) نمازکی ہر رکعت میں ہمیں یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ ہم اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اسلام کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اس میں بندہ کا تعلق اللہ سے براہ راست جوڑا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ سے براہ راست مدد مانگنے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔اللہ اور بندوں کے درمیان اولیاءاللہ کی سفارشات کو واسطہ بنانا دین اسلام میں تحریف ہے۔بعض افراد اولیاء کی کرامات اور ان کے کشف کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ان کی من گھڑت کرامات، مکاشفے اور قصے عوام کو سناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے عمل کے لیے ترغیب ہوتی ہے۔دین کو سمجھانے کے لیے قرآن کی تعلیمات اور سنتِ رسول ہی کافی ہیں، کرامات کو دین کا معیار بنانا دین میں تحریف کا خطرہ پیداکرتا ہے۔یہ طریقہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔پچھلے انبیاءو رُسل کو حسی معجزات دیے گئے اور جب ان معجزات کا انکار کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان قوموں پر عذاب نازل کیا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے حسی معجزات دینے کے بجائے ایک زندہ و تابندہ معجزہ دیا جس کا نام قرآن ہے۔قرآن معنوی معجزہ ہے۔اس میں ایسا زورِ استدلال ہے کہ اس کے ذریعے وہ فکری انقلاب برپا کرتا ہے۔قرآن میں ایسے مضبوط دلائل دیے گئے ہیں جن سے تمام باطل نظریات کا رد کیا گیا ہے۔قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ حق کو ثابت کرنے کے لیے کرامات یا معجزات کا سہارا لیے بغیر دلائل سے حق کو حق ثابت کیا جائے اور باطل کا ابطال کیا جائے۔باطل نہ سامنے سے اس کا مقابلہ کرسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔ کشف وکرامات سے ایک معقول انسان حق بات ماننے کے بجائے خلاف عقل بات سن کر الٹا بدگمان ہوگا۔قرآن عقل کو قائل کرتا ہے۔اس لیے قرآن پڑھ کر کئی لوگ آج ایمان لا رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حق کو ثابت کرنے کے لیے کفارو مشرکین کے منہ مانگے معجزات دینے کے بجائے قرآن میں دلائل پیش کیے ہیں۔حق کو ثابت کرنے کے لیے کسی ولی کا کرامت دکھانے کے بجائے اسلوب قرآن کے مطابق دلائل سے بات منوائی جائے۔کرامت سے اللہ کی بڑائی نہیں بلکہ ولی اور بزرگ کی بڑائی کو ثابت کیا جاتا ہے اور یہ بات مشہور ہو جاتی ہے کہ فلاں بزرگ بہت پہنچے ہوئے ہیں۔کشف وکرامات کے قصوں کے بجائے قرآن سے نصیحت کی جائے اور لوگوں کو ڈرایا جائے۔قرآن میں فرمایا گیا: فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (سورۃ ق :۴۵) ’’بس تم اس قرآن کے ذریعہ سے ہر اس شخص کو نصیحت کر دو جو میری تنبیہ سے ڈرے‘‘تبلیغ کے خود ساختہ طریقے ایجاد کرکے ان کو انبیاء کی ہجرت اور ان کے جہاد کے برابر ٹھیرانا بھی دین کی معنوی تحریف ہے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے جو طریقہ قرآن میں بتا دیا ہے اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (سورۃ التوبہ : ۱۲۲)’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبر دار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے‘‘اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ کچھ لوگ دین کا علم حاصل کرکے تفقہ فی الدین (دین کی سمجھ) پیدا کریں اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں (نہ کہ ساری دنیا میں) جا کر مسلمانوں کے اندر فکرِ آخرت پیدا کرتے ہوئے ان کی اصلاح کریں۔قرآن میں دعوت و تبلیغ سے پہلے مستند علم حاصل کرنے پر ابھارا گیا ہے۔
ایک گروہ وہ ہے جس نے خلافت اور ملوکیت کے فرق کو ہی مٹا دیا ہے۔ خلافت جس طرح ملوکیت میں بدل دی گئی اور اس دوران جو نا انصافیاں ہوئیں ان کو فراموش کرکے اہل بیت کے مقام و مرتبہ کو گھٹا دیا گیا جنہوں نے اپنی قربانیوں کے ذریعے خلافت کو ملوکیت میں بدلنے سے روکنے کی کوشش کی۔جو لوگ خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کے ذمہ دار ہیں ان کے فضائل بیان کرکے ملوکیت کو جائز ٹھیرانا اور اس سلسلے میں اہل بیت پر جو ظلم ہوا اس ظلم کو تسلیم نہ کرنا یا اس کو ہلکا دکھا کر ظالموں کے حق میں رائے کو ہموار کرنا بھی ایک طرح کا ظلم ہے۔دنیا میں اللہ تعالیٰ ظالموں کے خلاف اٹھنے کے لیے کچھ افراد کے اندر غیر معمولی جرأت پیدا کرتا ہے تاکہ وہ ظالموں کے خلاف اتمام حجت کا کام کریں اور اس کے ذریعے ظالموں کی خباثت بھی ظاہر ہو اور اس کے مطابق وہ اللہ کے پاس سزا بھی پائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اس مشیت کا حصہ ہے جس کا اصل مقصود انسانوں کا دنیا میں امتحان ہے۔امتحان کا مقصد اسی وقت پورا ہوگا جب ظالم اپنی حدِ شقاوت تک ظلم کرے اور مظلوم اپنے حدِ استطاعت تک صبر کرے۔آخرت میں ظلم کے بقدر عذاب ہوگا اور صبر کے بقدر اجر بھی دیا جائے گا۔اگر کوئی ظالم کے خلاف نہ اٹھے گا تو پھر امتحان کا یہ مقصد کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔اس لیے انصاف کا طریقہ یہ ہے کہ جو ظلم کے خلاف اٹھیں انہیں ملامت نہ کی جائے کہ انہوں نے ظالم کے خلاف آواز بلند کر کے بڑی حماقت کی ہے۔
احادیث کے بارے میں امت میں افراط و تفریط کا رویہ پایا جاتا ہے۔ چند خلاف ِ عقل اور خلافِ قرآن احادیث کی وجہ سے پورے احادیث کے ذخیرہ کو فراموش کرکے کچھ لوگ منکرین حدیث کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔دوسری انتہا یہ ہے کہ خلافِ عقل و قرآن احادیث کو بھی ایسا درجہ دیا جاتا ہے جیسے قرآن کا مقام ہے۔ اس سے اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو موقعہ ملتا ہے کہ ان خلافِ عقل احادیث کو استعمال کرکے اسلام پر اعتراض کریں۔ احادیث کے سلسلے میں یہ سنہرا اصول طے کرلیا جائے کہ احادیث کو بھی قرآن پر پرکھا جائے گا۔ قرآن دین کا اصل میزان ہے۔ حدیث صحیح ہو اور قرآن کے خلاف نہ ہو تو وہ دین کا حصہ ہے ورنہ اس کی سند و متن پر تحقیق لازم ہے۔
امت کا ایک حصہ شدید گمراہی کا شکار ہوا جو اہل بیت کی محبت میں غلو کر کے جلیل القدر صحابہ کرام کے بارے میں سوئے ظن رکھتا ہے جن کے ایمان کی اللہ تعالیٰ نے قرآن میں گواہی دی ہے۔یہ بہت بڑی گمراہی ہے۔ انہوں نے محض بغضِ صحابہ کی وجہ سے رافضیت اختیار کی اور اپنی الگ فقہ بنالی ہے جو احادیث صحیحہ سے مطابقت نہیں رکھتی۔
امت مسلمہ کے وہ افراد قابلِ مبارکباد ہیں جو افراط وتفریط سے بچ کر اعتدال کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں۔جو قرآن و سنت کو کسوٹی بنا کر حق کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔جو ہدایت کے طالب ہوتے ہیں اللہ ان کے لیے ہدایت کے راستے کھول دیتا ہے لیکن جو دوسروں کو گمراہ قرار دے کر ان کی تکفیر کرتے ہیں ایسے لوگوں کو ہدایت سے محروم رکھتا ہے۔کچھ تحریکیں اقامت دین کو اپنا نصب العین بنا کر دین کا نفاذ چاہتی ہیں۔اقامتِ دین کا مقصد حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طریقِ انقلاب پر نظر رکھنا چاہیے۔سیرت النبی سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب تک دعوت الی اللہ کے انبیائی کام میں اتمام حجت کی حد تک کوشش نہ کی جائے اقامت دین محض ایک خوشنما خواب ہوگا جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں اقامت دین میں کامیابی کے لیے اسلام کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر تعلیمی ادارے قائم کریں تاکہ ایک نئی نسل کو اٹھایا جائے۔نوجوانوں کو تشکیک وریب سے نکال کر ان کے اندر اسلام سے محبت پیدا کی جائے۔
امتِ مسلمہ کی نجات کا راستہ صرف قرآن و سنت کی پیروی، شرک و بدعات سے اجتناب اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بلند ہو کر اخلاص کے ساتھ انبیائی مشن کو اختیار کرنے میں ہے۔

 

***

 امتِ مسلمہ کی نجات کا راستہ صرف قرآن و سنت کی پیروی، شرک و بدعات سے اجتناب اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بلند ہو کر اخلاص کے ساتھ انبیائی مشن کو اختیار کرنے میں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
casino siteleri |
casino siteleri |
casino siteleri güncel |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
Sweet Bonanza oyna |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
casino siteleri |
casino siteleri |
casino siteleri güncel |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
Sweet Bonanza oyna |