سیرت نبویؐ اور جمالیات، ایک منفرد زاویۂ نظر

نبی اکرمؐ کی ذات اقدس: جمالِ اخلاق و جمالِ کردار کا کامل نمونہ

عبدالحسیب بھاٹکر

جمالیاتی شعور: عبادات، گفتار اور طرزِ معاشرت میں حسن کا ظہور
منتہائے جمال: دنیا کی رعنائیوں کے مقابل رب سے ملاقات کی تمنا
سیرت النبیؐ اور جمال ایک اچھوتا موضوع ہے ۔نبی اکرم ﷺ کی سیرت پر تاریخِ انسانی میں بہت کام ہوا ہے مگر آپ کی ذاتی زندگی کے جمالیاتی پہلو کا تذکرہ کچھ زیادہ نہیں کیا گیا۔جیسا کہ علامہ شبلی نعمانیؒ نے سیرت النبیؐ میں لکھا ہے۔ آج کے اس مضمون میں سیرت کے کچھ واقعات سے نبی اکرمؐ کی زندگی کے جمال کو سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی زندگی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں ایک اعلی معیار آپ نے قائم کر کے دکھایا ہے۔ جمال جو کہ انسانی فطرت کا حصہ ہے اس لیے اس پہلو سے بھی نبی اکرمؐ نے بہترین نمونہ قائم کر کے بتایا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جمال انسانی فطرت کا حصہ ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا ’’اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے‘‘ اور جمال انسانی فطرت کا حصہ ہے اور جمالیات کا اعلی ترین نمونہ نبی اکرمؐ کی ذات اقدس میں ہمیں نظر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی ذات اقدس میں جمالیاتی شعور کی اعلی سطح کی وجہ سے آپ صرف اخلاق کا مظہر نہیں تھے بلکہ حسن اخلاق کا نمونہ تھے۔ آپ کا ہر عمل حسن عمل میں ڈھلا ہوتا تھا اور آپ کے خیالات، سوچ اور ادراک؛ حسنِ ادراک کی شکل اختیار کیے ہوئے ہوتے تھے۔ ان اوصاف سے جب کسی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے تب دوسرے انسانوں کے لیے اس میں ایک کشش اور جاذبیت پیدا ہوتی ہے اور اپنے ہی نہیں غیروں کے بھی دل اس کے احترام میں جھک جاتے ہیں مگر بدقسمتی سے دورِ جدید میں چاہے وہ ضروری مصروفیات ہوں یا غیر ضروری اس کی ایسی یلغار ہے کہ ہمیں جمالیات کی حس کو ارتقاء کرنے اور ان سرگرمیوں کو جو جمالیات کے شجرِ وجود کو پانی دیتی ہیں ہم نے چھوڑ رکھا ہے؛چاہے وہ کائنات کی سیر و تفریحات ہوں، تخیل ہو، ان سب چیزوں میں بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف تو تفریحات کی بہتات نے انسان کو اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غافل کردیا ہے تو دوسری طرف دور جدید کے انسان نے کمپیوٹر سے تصویر کشید کرنے کی ایسی عادت ڈال دی ہے کہ قدرتی مناظر کو دیکھ کر سبحان اللہ اور ماشاء اللہ کہنا تک ہم بھول گئے ہیں۔ اگر اس کائنات کے معمولی نظارے ہمارے اندر خوشی اور غم کا سبب نہیں بنتے تو یہ بڑی خرابی کی بات ہے۔پرندوں کی اڑان کا نظارہ کسی جانور کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ سے چلنے میں تکلیف،ہمارے اندر خوشی اور غم کے احساسات نہ پیدا کریں تو ہم آدمی ہونے کی ذمہ داری ادا کرنے سے غافل ہیں، اسی لیے ضروری ہے کہ انسان کی حسِ جمال جو یونیورسل ہے یعنی جمال کو قبول کرنے کی صلاحیت سب میں ہے لیکن اس کا شعور بننے کا مرحلہ ترقی پذیر ہوتا ہے اور اس ترقی کے لیے خارج کی دنیا اور اس سے حاصل ہونے والے تجربات ناگزیر ہیں۔ قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’تمہارے لیے ان جانوروں میں جمال ہے جب شام کو چَرا کر لاتے ہو اور جب صبح چَرانے لے جاتے ہو۔‘‘ جب جمالیاتی شعور کی صحیح نشو و نما ہوتی ہے تو وہ انسان کا ذوق بن جاتی ہے اور انسانی شخصیت میں نفاست کا بھی اعلی ذوق پیدا کرتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ جب اپنے سر کے بالوں پر تیل لگایا کرتے تھے تو خیال رکھتے کہ کہیں تیل کا اثر عمامہ پر ظاہر نہ ہو، اس کے لیے آپ ایک رومال سر پر باندھتے اور پھر ٹوپی پہنتے تھے اور اس کے اوپر عمامہ باندھتے تھے کتنا نفیس ذوق آپ کا رہا ہے۔ آپ اپنے بالوں کو کنگھی کر کے ہمیشہ سنوارتے رہتے تھے اور کسی کے بکھرے ہوئے بالوں کو دیکھتے تو ناپسندی کا اظہار فرماتے تھے ۔نبی اکرم ﷺ خوشبو کو بہت پسند فرماتے تھے پھر یہی ذوق خرد و نوش میں بھی ہم دیکھتے ہیں جب آپ کو مرغ کا گوشت کھانا ہوتا تو علامہ ابن قیمؒ نے لکھا ہے نبی ﷺ تین دن تک مرغی کو گھر میں کھانا کھلاتے باہر جانے نہ دیتے تاکہ کوئی گندگی نہ کھالے۔ انسان میں نفاست اور پاکیزگی کا یہ ذوق جمالیاتی حس ہی سے پیدا ہوتا ہے۔مسلم محلوں میں مرغی کی دکانوں کے پاس گندگی اور عید الاضحی کے موقع پر ہمارے محلوں میں خون اور اوجھڑی کا جو انبار لگا ہوتا ہے وہ ہمارے ذوق اور نفاست کو نمایاں کرتا ہے، کیا اسوہ نبیؐ میں ہمارے لیے رہنمائی کا سامان موجود نہیں ہے؟
جمالیاتی حس کو ایک اور پہلو سے دیکھیں کہ جب یہ عبادات میں ظہور پذیر ہوتی ہے تو ہماری نمازوں کو عادت کی نماز کی بجائے خشیت یا عبادت کی نماز بنا دیتی ہے، جسے سائنس آف پریزنس کہتے ہیں ۔نبی اکرم ﷺ کی نمازوں کی کیفیات کے بارے میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’کئی بار نبی اکرم ﷺ حالت سجدہ میں ایک ہی آیت میں پوری رات گزار دیتے تھے ۔‘‘جمالیات کو دوسرے پہلو سے دیکھیں تو اس کا نام حسن ہے اور حسن کمیت کے اعتبار سے توازن کا نام بھی ہے جو صحیح تناسب سے ظاہر ہو جائے وہ حسین ہوتی ہے، تاج محل کی خوبصورتی کا اصل راز اس کے تناسب میں ہے۔ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم کی سب سے خوبصورت اور حسن والی نماز کیسی ہوتی تھی؟ تو آپ فرماتی ہیں’’ وہ نماز جس میں قیام رکوع اور سجدہ سب برابر ہوتے تھے اور یہی کیفیت آپ کے کلام میں بھی ہوتی تھی۔‘‘ کلام سب سے زیادہ موثر وہی ہوتا ہے جس میں موزونیت ہوگی تو وہ میرے نفس میں ایک خاص قسم کی تسکین اور حضوری پیدا کرتا ہے حالانکہ بولنے کی صلاحیت تو ہر ایک میں ہوتی ہے لیکن موزوں کلام میں ایک بات ڈھل جائے تو بالکل میرے دل میں بیٹھ جاتی ہے ۔نبی اکرم ﷺ جوامع الکلم تھے آپ کی باتیں دل کو چھو جاتی تھیں جیسے آپ نے فرمایا ’’لوگ کنگھی کے دانوں کی مانند ہیں یا لوگ کانوں کی مانند ہیں جیسے سونے اور چاندی کی کانیں‘‘ یہ اتنی معنی خیز تشبیہات ہیں کہ انسان کے ذہن و قلب میں اتر جاتی ہیں۔ جب یہی حسِ جمال آواز میں اثر انداز ہوتی ہے تو حسن صوت کے ساتھ موثر ہو جاتی ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے ابو موسیٰؓ اشعری کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ تمہیں داؤدؑ کے سازوں میں سے ایک ساز عطا ہوا ہے‘‘ اور اشعری قبیلے کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ قافلہ جب پڑاؤ ڈالتا ہے تو میں رات میں اشعری قبیلے کو ان کی حسن تلاوت سے پہچان لیتا ہوں۔‘‘ ہمیں بھی حسن گفتار کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کرنا چاہیے ۔اسی طرح فنون لطیفہ میں شاعری دراصل جمالیاتی شعور کی سرگرمی ہے جیسے فلسفہ عقلی شعور کی سرگرمی ہے ۔کچھ علوم اخلاقی سرگرمیوں سے پیدا ہوتے ہیں تو شاعری کا سورس آف اوریجن جمالیاتی شعور ہے۔عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ شعر نہیں کہتے تھے اور اس سے یہ مفہوم سمجھا جاتا ہے کہ آپ کو شعری ذوق بھی نہیں تھا حالانکہ آپ کو شعر فہمی کا اعلی ذوق عطا ہوا تھا جس کا اظہار مختلف مواقع پر آپ نے کیا ہے۔ایک موقع پر دور جاہلیت میں عربوں نے ادب کے میدان میں جو اشعار کہے ہیں اس میں آپ نے فرمایا کہ’’شاعری میں کلامِ لبید سب سے اعلیٰ اور سچا ہے۔‘‘لبید نے کیا خوب کہا ؎
سنو تمام چیزیں اللہ کو چھوڑ کر باطل ہیں یعنی فنا ہونے والی ہے،باقی نہ رہنے والی ہے اور تمام نعمتیں چاہے نہ چاہے بہرحال ختم ہونے والی ہے
نبی اکرم ﷺ نے دور جاہلیت کے عربوں کے پورے ادب پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بات فرمائی اور یہ ایسی شخصیت کر سکتی ہے جو جاہلیت کے پورے ادب کو نہ صرف جانتی ہو بلکہ اس کا اعلی ذوق بھی رکھتی ہو۔ اسی لیے اچھے اشعار اچھے کلام کا ذوق رکھنا یہ بھی ایک جمالیاتی حس کا حصہ ہے۔نبی اکرم ﷺ جمالیاتی شعور کی آبیاری کے لیے نہ صرف خود فکرمند رہتے بلکہ اپنے گھر والوں میں بھی اس کا ذوق پیدا کرتے، روایت میں آتا ہے کہ آپ روزانہ باغ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ حضرت عائشہؓ کو ایسے مقام پر سیر کرانے لے جاتے جو بہت سرسبز و شاداب تھا۔سبزہ زار تھا آبشار تھا مگر اس مقام تک پہنچانے کے لیے آپ نے سواری کا خصوصی انتظام فرمایا،اسی طرح بچوں اور بڑوں کے ساتھ مختلف کھیلوں میں حصہ لیتے اور خود اپنی زوجہ عائشہؓ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا۔ تفریحات ذہن اور جسم کے ڈائنمک ریلیشن کا انکشاف بلکہ تجربہ کراتی ہے۔ تفریح کا عمل روح اور نفس کو ہم حال بنا دے تو ایک اچھا منظر آدمی کو حالت احسان میں پہنچا دیتا ہے۔ ہمیں جوگنگ (Jogging) میں سانس پھولتے وقت وہ نہ صرف ہماری جسم کی فرحت بلکہ دماغ اور قلب کو سرشار کر دیتی ہے، بس تفریح کا مقصود صحیح ہونا چاہیے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’دلوں کو بھی حزن لگ جاتا ہے اسے بہلا لیا کرو۔‘‘ جمالیات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو چیزیں عقل اور اخلاق کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں جمالیاتی شعور اسے ظاہر کر دیتا ہے۔
اگر کسی انسان کا غم میرا غم یا کسی جانور کی ٹوٹے ہوئے پیر سے چلتا دیکھ کر تکلیف نہ محسوس ہو یا پرندوں کی چہچہاٹوں سے میرے اندر خوشی کی کیفیت نہ پیدا ہو اور میرے اندریہ احساسات جنم نہ لے تو ہم آدمی ہونے کی ذمہ داری ادا کرنے سے غافل ہیں۔
آج المیہ یہ ہے کہ انسان کسی کی خوشی سے خوش ہونا اور کسی کے غم سے غمگین ہونا بھول گیا ہے۔اس کا سب سے زیادہ اثر بوڑھے محسوس کر رہے ہیں جو جبری تنہائی میں گھروں میں زندگی گزار رہے ہیں اور اہل ثروت کسی نوکر کو رکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی حالانکہ ان کے خوشی اور غم کے احساس کو سننے کی جو تمنا وہ بزرگ رکھتے ہیں وہ کون ہے آخر جو ان کی اس ضرورت کو پورا کر سکے گا؟ جمالیاتی شعور کے زندہ رہنے سے دراصل انسان ان احساسات کو اپنے اندر جذب کر کے دوسرے کی خوشی اور غم کو محسوس کرتا ہے۔جمالیاتی حس کا ایک کردار فلفلمنٹ ہے یعنی وہ قلب کو حالت تسکین دینا چاہتا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا’’جب کوئی سائل تمہارے پاس مانگنے آئے اور تمہارے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو تم اس وقت تک اس کی حاجت پوری ہونے کی دعا کرتے رہو جب تک تمہارا دل مطمئن نہ ہو جائے۔‘‘ دیکھیے کس طرح اللہ کے نبی ﷺ نے کسی شخص کی تکلیف کو دور کرنے کے لیے ہمیں حالت پریزنس اور حضور میں لایا کہ کچھ مدد نہ کر سکو تو کم از کم اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک کہ دل مطمئن نہ ہو جائے۔ آج کا مشینی انسان جو ایک روبوٹک انسان بن گیا ہے وہ اس درد دل کے احساس کو کھوتا جا رہا ہے اس لیے راستے میں آپ نے بارہا دیکھا ہوگا کہ ایکسیڈنٹ ہونے کے بعد لوگ موبائل پر ویڈیو اور فوٹو نکال کر دوسروں کو شیئر کرتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس زخمی کے درد کو اپنا درد سمجھ کر اس کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہوں۔
ایک اور پہلو سے جمالیات کو سیرت النبی کے حوالے سے اگر ہم سمجھنا چاہیں تو بڑے بڑے فلاسفر اور بہت زیادہ مطالعہ کرنے والے انسانوں کا بالعموم مشاہدہ یہ ہوتا ہے کہ انسانوں سے ان کا جذباتی تعلق کم ہوتا جاتا ہے اور ایک طرح کے سینس آف ایلینیشن میں وہ چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے بہت سے فلاسفر یا تو خود شاعر رہے ہیں یا کسی شاعر سے وابستہ رہے ہیں۔کال مارکس کے بارے میں آتا ہے کہ وہ شیکسپیئر سے بہت متاثر تھا لیکن جمالیات کی اعلیٰ سطح پر انسان جب پہنچتا ہے تو دوسرے انسانوں سے وہ اس کو اتنا زیادہ قریب کر دیتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی طرف سے کوئی درد یا اذیت بھی آتی ہو تو وہ اس کو ایک خوشگوار احساس میں بدل دیتا ہے اور وہ کام اس کے لیے یا اس کی مدد کرنا اس کے لیے بوجھ نہیں بنتا ۔نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک مانگنے والا آیا آپ کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا تو آپ نے فرمایا ’’فلاں یہودی سے قرض کے ذریعہ اپنی حاجت کو پوری کر لو ،‘‘سیدنا عمرؓ نے آپ کا ہاتھ روک دیا اور یہ کہا کہ اللہ نے آپ کو اس کا مکلف نہیں بنایا ہے، اب اللہ کے رسول کا چہرہ مرجھا گیا اسی وقت ایک انصاری صحابی نے اٹھ کر کہا ’’اے اللہ کے رسول!آپ اس شخص کو دیجیے،اللہ اور آپ کو دے گا‘‘تو آپ کا چہرہ کھل کھلا اٹھا اور فرمایا جاؤ ’’فلاں جگہ جا کر اپنی ضرورت کو پوری کر لو۔‘‘ ایسے مواقع پر بھی ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ میری کیا کیفیت ہوتی ہے، یہ دل کو ناپنے کا پیمانہ ہے اگر ہمارا دل مردہ ہے تو شاعر نے کہا ہے:؎
مجھے یہ ڈر ہے اے دل تو نہ مر جائے
زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
جمالیات دراصل کہتے ہی بیوٹیفکیشن اور حسن کو ہے، انسانوں کی زندگی اور پیدائش کا مقصد بھی اللہ تعالی نے حسین عمل کرنا بتایا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ہر کام کو حسن کے ساتھ انجام دیں حتیٰ کہ جانوروں کو ذبح کرو تو احسن طریقے سے کرو۔‘‘ نبی اکرم کی زندگی میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک شخص اپنی مجبوری میں اپنی واحد خوبصورت سواری کو بیچنے کے لیے آیا، اپ نے اس کی قیمت پوچھی تو مجبوری کی وجہ سے اس نے کم قیمت بتائی۔آپ نے فرمایا تمہارا گھوڑا تو بہت خوبصورت ہے اور تم نے اس کی کم قیمت لگائی ہے اس کی دگنی قیمت ہونی چاہیے، پھر آپ گھوڑے پر سوار ہوئے ایک چکر لگایا، واپس آتے وقت آپ اس شخص کے چہرے کے تاثرات کو پڑھ رہے تھے جس شخص کی ایک ہی متاع ہو اور وہ اسے بیچ رہا ہو تو اس کے دل کی کیفیت ضرور چہرے پر ظاہر ہو جاتی ہے، اور آپ تو نبی تھے جو مردم شناس میں اعلی درجے پر فائز تھے، آپ گھوڑے سے اترے اس شخص کو اس کی دگنی قیمت ادا کی اور ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ ’’جاؤ یہ گھوڑا بھی لے جاؤ ‘‘اس شخص کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہو گئے اور اس کی خوشی کو دیکھ کر آپ خود بھی بہت خوش ہوئے۔ دور جدید ایک استحصالی دور ہے جہاں مجبوری میں بیچنے آئے ہوئے شخص کو چاہے اس کی پراپرٹی ہو یا کوئی اور سامان انسان کم سے کم داموں میں لینے کی کوشش کرتا ہے مگر اس وقت محمد ﷺ کو دیکھیے کہ آپ اخلاقی طور پر اسے صرف قیمت بھی دیتے تو یہ رویہ آپ کا درست ہوتا مگر یہ جاننا چاہیے کہ اخلاق، حسن کے بغیر ادھورا ہوتا ہے لیکن آپ نے حسن خلق کے ذریعے اعلیٰ معیار پیش کیا ۔مجھے اور آپ کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جمالیات کا منتہائے کمال کیا ہے؟ تو آپ دیکھیں کہ جس طرح ایک بڑا فلسفہ حقیقت کو ریشنلائز کرتا ہے عقل کے ذریعے لاجسائز کرتا ہے،کوئی بھی بڑا مذہب حقیقت کو اس کے اخلاقی پیراڈائم دیتا ہے اور مقصود بناتا ہے،اسی طرح جمالیات کا منتہائے کمال یہ ہے کہ وہ اس کائنات میں بکھری ہوئی خوبصورتی کے پیچھے اصل حقیقت جو ان دیکھی ہوتی ہے اس کو محسوس کرا دیتا ہے۔ آنکھوں کی رسائی میں آتے ہوئے منظر اپنے اندر ایک ان دیکھا پن ضرور رکھتے ہیں اور ایسا ان دیکھا پن جسے لمحۂ دید میں دل محسوس کر لیتا ہے اور دماغ بھی بھانپ لیتا ہے، اسی اندھے پن سے دیکھی ہوئی شے کی قدر و قیمت مشروط ہوتی ہے۔دماغ اور دل کے یہ احساسات اسی وقت عوامیت اور منتہائے کمال کو پہنچتے ہیں جب وہ اس کائنات کی ہر شے کو جو حسین و جمیل بنانے والی ہستی کے پرتَو یعنی خدا کے پرتَو میں ہر چیز کو دیکھنے اور برتنے لگتے ہیں۔ یہ جمالیاتی احساس کائنات کی خوبصورتیوں کے پیچھے نظروں سے پوشیدہ زیادہ حسین و جمیل خدا کو محسوس کرا دیتا ہے اور دنیا میں موجود تمام رعنائیاں اور حسن انسان کے سامنے پھیکا پڑ جاتا ہے۔
خدا کی طرف انسان کی کشش بڑھ جاتی ہے۔نبی اکرم ﷺ کو دیکھیے جب آپ عرب کے حکم راں بن گئے پورے عرب کی تمام قوتیں اور طاقتیں آپ کے سامنے جھک گئیں اور دنیا کی تمام رعنائیاں خوشیاں آپ پر نچھاور ہونے لگی۔قوت اور اقتدار اور دنیا کی نعمتیں جب ایک ساتھ کسی کو مل جائے تو یہ اپنے اندر ایک کشش وجاذبیت رکھتی ہیں جو انسان کو اس طرح چمٹ جاتی ہے کہ اسے چھوڑنے کا اس کا دل گوارا نہیں کرتا، ایسے میں اللہ نے نبی اکرم ﷺ کو دو اختیارات دیے۔ آپ نے فرمایا’’اللہ نے اپنے بندے کو اختیار دیا چاہے تو وہ دنیا کی زندگی کو پسند کر لے اور چاہے تو اپنے رب سے ملاقات کو پسند کر لے۔‘‘ نبی اکرم ﷺ نے لمحہ بھر تاخیر نہ کرتے ہوئے فرمایا’’بندے نے اپنے رب سے ملاقات کو پسند کیا۔‘‘ یہ جمالیاتی شعور کا منتہا ہے کہ دنیا اپنے تمام جلوؤں کے ساتھ آپ ﷺ کے قدموں تلے تھی لیکن اس کی خوشنمائی، اللہ کے سامنے پھیکی پڑ گئی اور آپ نے اپنے رب کی ملاقات کو پسند فرمایا۔ شاعر نے کہا ہے؎
وہ رگِ جاں سے بھی بڑھ کر اور کچھ آیا قریب
مجھ کو کم ہوتے ہوئے یہ فاصلے اچھے لگے
ساتھیو! یہ کیفیت انسان کوصرف اس وقت نصیب ہوتی ہے جب دنیا میں وہ اللہ کا رنگ اختیار کرتا ہے،اللہ کا رنگ اختیار کرو اللہ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے۔ اور اللہ کا ایک رنگ جمال یعنی خوبصورتی ہے اور انسان جب اس جمال کو اپنی شخصیت کا حصہ بناتا ہے تو اس کا اظہار اس کی ذات میں بھی ہوتا ہے،بیوی بچوں کے درمیان بھی ہوتا ہے، دوستوں کے ساتھ بھی حسن کا معاملہ کرتا ہے،کاروبار میں بھی حسن معاملہ و اخلاق کرتا ہے، حتیٰ کہ جانوروں کے ساتھ بھی اس کا معاملہ حسین اور ایک دلکش احساس کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہی طرز عمل انسان کی شخصیت میں ایک کشش و جاذبیت پیدا کر دیتی ہے اور اللہ ایسے لوگوں کو تمام انسانوں کا مرجع خلائق بنا دیتا ہے اور آسمان میں منادی ہوتی ہے کہ میں اس شخص سے محبت رکھتا ہوں،فرشتوں تم بھی اس سے محبت رکھو اور فرشتے دنیا میں انسانوں کے قلب میں القا کرتے ہیں کہ اللہ اس شخص سے محبت رکھتا ہے تم بھی اس سے محبت رکھو۔اللہ ہم جیسے کمزوروں کو اس کا ادنی سا درجہ نصیب فرمائے اور ساتھ ہی جمالیات کے منتہا تک پہنچنے کی سعی کرنے کی ہمیں توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

 

***

 نبی اکرم ﷺ کی زندگی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں ایک اعلی معیار آپ نے قائم کر کے دکھایا ہے۔ جمال جو کہ انسانی فطرت کا حصہ ہے اس لیے اس پہلو سے بھی نبی اکرمؐ نے بہترین نمونہ قائم کر کے بتایا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جمال انسانی فطرت کا حصہ ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا ’’اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے‘‘ اور جمال انسانی فطرت کا حصہ ہے اور جمالیات کا اعلی ترین نمونہ نبی اکرمؐ کی ذات اقدس میں ہمیں نظر آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی ذات اقدس میں جمالیاتی شعور کی اعلی سطح کی وجہ سے آپ صرف اخلاق کا مظہر نہیں تھے بلکہ حسن اخلاق کا نمونہ تھے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
casino siteleri |
casino siteleri |
casino siteleri güncel |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
hacklink panel |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
şans casino |
deneme bonusu veren siteler |
gamdom |
gamdom giriş |
casino siteleri |
casino siteleri |
casino siteleri güncel |
yeni casino siteleri |
betorder giriş |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
onlyfans nude |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |
onlyfans |