
نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری خطرے کی گھنٹی
سات ہزار سے زائد خودکشی کے واقعات ۔ حکومتیں فوری اقدام کریں
نئی دلی۔ (دعوت نیوز ڈیسک)
گریجویٹس میں بے روزگاری کی شرح 28.4 فیصد۔ مہارت اور روزگار میں بڑھتی خلیج۔ این ایف وائی ایم کی چونکادینے والی رپورٹ
نیشنل فیڈریشن آف یوتھ موومنٹ (NFYM) نے پریس کلب آف انڈیا میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملک میں بےروزگاری کے برھتے ہوئے بحران پر جامع رپورٹ جاری کی ۔’’اعداد و شمار سے ماورا: بھارت میں نوجوانوں کی بے روزگاری کے بحران کا انکشاف‘‘ کے عنوان سے جاری کردہ اس رپورٹ میں این ایف وائی ایم نے نوجوانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر تشویش ظاہر کی ہے۔ NFYM کے چیئرمین مسیح الزمان انصاری نے رپورٹ کے نتائج پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف بے روزگاری کے پیمانے کو آشکار کرتی ہے بلکہ اس کے گہرے سماجی اثرات کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومتیں فوری اور ہدفی اقدامات نہ کریں تو ملک اپنی آبادیاتی طاقت ضائع کر بیٹھے گا۔
رپورٹ کے مطابق نوجوانوں (عمر 15–29 سال) کی قومی سطح پر بے روزگاری کی شرح اپریل تا جون 2025 میں 14.6 فیصد رہی جو مجموعی بے روزگاری کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ شہری نوجوانوں میں یہ شرح 17.9 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 13.1 فیصد رہی۔
کچھ ریاستیں اس سے بھی زیادہ سنگین صورتحال پیش کرتی ہیں۔ لکشدیپ میں بے روزگاری 36.2 فیصد، ہماچل پردیش میں 29.6 فیصد، اور کیرالا میں 25.7 فیصد ہے۔ خواتین سب سے زیادہ متاثر ہیں: کیرالا میں نوجوان خواتین میں بے روزگاری 47 فیصد تک پہنچ گئی۔
یہ بحران سب سے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے درمیان محسوس کیا جاتا ہے۔ گریجویٹوں میں بے روزگاری کی شرح 28.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو مہارت اور ملازمت کے درمیان بڑھتی ہوئی عدم مطابقت کو ظاہر کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ اعلیٰ تعلیم میں داخلہ بڑھا ہے لیکن اہل امیدواروں کے لیے روزگار کے مواقع اسی رفتار سے نہیں بڑھے۔ NFYM نے بحران کے ذہنی صحت کے پہلو کو بھی اجاگر کیا۔ قومی جرم ریکارڈز بیورو (NCRB) کے اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں 7,034 خودکشیوں کا تعلق بے روزگاری سے تھا، جن میں زیادہ تر متاثرین کی عمر 35 سال سے کم تھی۔ انصاری نے کہا:
"یہ محض اقتصادی بحران نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔”
رپورٹ کے اہم نکات:
نوجوانوں کی بے روزگاری کی قومی شرح: 14.6فیصد شہری: 17.9فیصد دیہی: 13.1فیصد
صنفی تفاوت برقرار: نوجوان خواتین 11فیصدنوجوان مرد 9.8فیصد
تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری سب سے زیادہ (28.4فیصد)
کئی ریاستوں میں خواتین کی بے روزگاری شدید، خاص طور پر کیرالا (47فیصد)۔
غیر رسمی شعبے کی بالادستی نوجوانوں کو غیر محفوظ اور کم معاوضہ والے روزگار میں محدود رکھتی ہے۔
ذہنی صحت کے مسائل بڑھتے ہیں، بے روزگاری سالانہ ہزاروں خودکشیاں کرواتی ہے۔
بحران کے تدارک کے لیے NFYM کی تجاویز:
1- صنعت کے مطابق ہنر کی تربیت، لازمی انٹرنشپ اور یونیورسٹی-انڈسٹری شراکت داری کو مضبوط کرنا تاکہ مہارت اور ملازمت کے درمیان فرق کم ہو۔
2- خواتین کے روزگار کے ہدفی اقدامات، جن میں محفوظ آمدورفت، سستی بچوں کی دیکھ بھال اور کاروباری فنڈز شامل ہوں۔
3- غیر رسمی شعبے کی رسمی شکل میں تبدیلی، ڈیجیٹل رجسٹریشن اور مزدوروں کے لیے سوشل سیکیورٹی کی توسیع۔
4- ریاستی مخصوص روزگار پیدا کرنے کی حکمت عملی، جیسے شہری روزگار کی ضمانتی اسکیمیں اور مقامی سطح کی پالیسیاں۔
5- بے روزگار نوجوانوں میں ڈپریشن اور اضطراب کے حل کے لیے ذہنی صحت کی معاونت کو ہنر اور روزگار پروگراموں میں شامل کرنا۔
انصاری نے سیاسی جماعتوں کی خاموشی پر بھی تنقید کی:
"طویل عرصے سے کوئی اس بحران پر بات نہیں کر رہا ہے، نہ حکم راں جماعت نہ حزب اختلاف۔ کچھ NGOs اور آزاد ادارے اعداد و شمار کے ساتھ مسئلہ اٹھاتے ہیں لیکن مرکزی سیاسی مکالمہ اسے نظر انداز کرتا ہے۔”
چند ریاستوں میں انتخابات کے پیش نظر، NFYM نے مطالبہ کیا کہ جماعتیں اپنے منشور میں روزگار کو مرکزی موضوع بنائیں۔ انصاری نے کہا کہ بے روزگاری ان ریاستوں میں سب سے زیادہ ہے جن پر مختلف سیاسی جماعتیں حکومت کر رہی ہیں: ہماچل پردیش میں کانگریس، پنجاب میں عام آدمی پارٹی اور ہریانہ میں بی جے پی۔
"یہ ثابت کرتا ہے کہ بحران جماعتی سرحدوں سے بالا ہے۔ ہر حکومت نوجوانوں سے ناکام ہوئی ہے۔” NFYM کے سربراہ نے بے روزگاری کے بحران کو "بھارت کے نوجوانوں اور قوم کے مستقبل کے لیے ایک تاریک دور” قرار دیا اور کہا کہ تعلیم یافتہ مگر بے روزگار نوجوان تیزی سے نظام پر سے اعتماد کھو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: "حکومتیں نوجوانوں کو تعلیم جاری رکھنے کی تلقین کرتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد بھی مواقع سے محروم ہیں۔ یہ عدم مطابقت نوجوانوں کا حوصلہ توڑ رہی ہے اور مایوسی کو جنم دے رہی ہے۔”
رپورٹ میں صنفی پہلو پر بھی زور دیا گیا اور بتایا گیا کہ اعلیٰ تعلیم میں نمایاں داخلوں کے باوجود تعلیم یافتہ خواتین ہی سب سے زیادہ بے روزگار ہیں۔
انصاری نے کہا "ہم خواتین کو مزید تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن معاشرہ اور نظام ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ یہ صریح نا انصافی ہے۔”
پریس کانفرنس کے اختتام پر NFYM نے اعلان کیا کہ وہ آنے والے ہفتوں میں وزارتِ محنت و روزگار کو ایک یادداشت پیش کرے گی اور حکومت سے فوری اصلاحات نافذ کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ تنظیم نے یہ بھی عہد کیا کہ اپنے ریاستی یونٹوں کو متحرک کر کے علاقائی حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے گا تاکہ نوجوانوں کے لیے روزگار اور فلاح کو اولین ترجیح بنایا جائے۔ NFYM کے بیان میں کہا گیا:
"بھارت میں نوجوانوں کی بے روزگاری کا بحران محض ایک عددی اشاریہ نہیں بلکہ لاکھوں افراد کی جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا تو ایک پوری نسل مایوسی، ڈپریشن اور ضائع شدہ صلاحیت کا شکار ہو جائے گی۔ عمل کرنے کا وقت کل نہیں، آج ہے۔”
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025