
قحط، قبضہ، قتلِ عام اور اقوامِ عالم کی بےحسی
عالمی عدالت پر دباؤ ۔ اسرائیلی جرائم کو چھپانے کی امریکی کوششیں مزید منظم
مسعود ابدالی
بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے:اقوامِ متحدہ کا باضابطہ قحط کا اعلان
غزہ شہر پر جہنم کے دروازے کھول دیے گئے:اسرائیلی وزیر دفاع
اسرائیلی انٹیلی جنس کی چشم کشا رپورٹ83: فیصد شہداء عام شہری
غزہ پر قبضے کے لیے اسرائیلی فوجی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ ٹینکوں اور توپوں کی گولہ باری کے ساتھ ساتھ بحری جہازوں سے میزائل برسائے جا رہے ہیں۔ وزیردفاع اسرائیل کاٹز نے اعلان کیا کہ ’’ہم نے غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دیے ہیں‘‘۔ تاہم، زمینی فوج کی بڑی پیش قدمی ابھی شروع نہیں ہوئی، جس کی وجہ کمک کا انتظار بتایا جا رہا ہے۔ اس آپریشن کے لیے 60 ہزار ریزرو فوجی طلب کیے گئے ہیں مگر نفسیاتی دباؤ، خوف اور تھکن کے باعث کئی ریٹائرڈ فوجی بیرونِ ملک جا چکے ہیں، جس سے مطلوبہ تعداد پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
قیدیوں کی بازیابی یا سیاسی چال؟
کارروائی کے آغاز پر وزیرِاعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ "میں نے فوری مذاکرات کی ہدایت دے دی ہے تاکہ تمام قیدی رہا ہوں۔”مگر اسی وقت ان کے دفتر نے وضاحت جاری کی کہ نہ کوئی قطر جا رہا ہے، نہ مصر، کسی وفد کی روانگی کا کوئی منصوبہ نہیں۔ یہ تضاد اسرائیلی عوام میں بے چینی پیدا کر رہا ہے، خاص طور پر ان خاندانوں میں جن کے عزیز مزاحمت کاروں کے قبضے میں ہیں۔ مظاہرے، دھرنے اور ہڑتالیں اسرائیل بھر میں جاری ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نیتن یاہو ہر قیمت پر غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا چاہتے ہیں۔اس کے بعد قیامِ امن کی آڑ میں صدر ٹرمپ کے نوبیل انعام اور منافع بخش Beachfront منصوبے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
عسکری حکمت عملی یا انتقام کی آگ؟
اسرائیلی انتہا پسندوں کی جانب سے رائے عامہ میں آتشِ انتقام بھڑکانے کا سلسلہ جاری ہے۔اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس (عبرانی مخفف امن) کے سابق سربراہ ہارون ہلیوا (Aharon Haliva) نے کہا کہ غزہ میں جو فلسطینی جان بحق ہوئے ہیں، وہ مستقبل کی نسلوں کے لیے "ضروری” تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ انتقام نہیں بلکہ ایک اہم پیغام تھا۔ سمعی تراشے میں وہ یہ کہتے سنائی دیے کہ ہر ایک اسرائیلی کے بدلے جو 7 اکتوبر کو مرا، 50 فلسطینی مارے جانے چاہئیں، چاہے بچے ہی کیوں نہ ہوں۔
قحط کا اعلان: بھوک بطور جنگی ہتھیار
اس ہفتے اقوام متحدہ کی نگرانی میں کام کرنے والے ادارے Integrated Food Security Phase Classification (IPC) نے غزہ میں قحط (Famine) کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ یہ جدید تاریخ کا پہلا قحط ہے جو کسی قدرتی آفت کے بجائے انسانی جارحیت اور محاصرے کے نتیجے میں پیدا ہوا۔اعداد و شمار کے مطابق، پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی اس وقت بھوک، افلاس اور موت کے دہانے پر ہیں اور اگر حالات نہ بدلے تو ستمبر کے آخر تک یہ تعداد ساڑھے چھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔اقوامِ متحدہ کے خیال میں یہ ’’انسانی ناکامی‘‘ اور’’بھوک کے بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے‘‘ کا شاخسانہ ہے۔ اسرائیل نے رپورٹ کو ’’جھوٹ کا پلندہ‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا، جبکہ امریکہ نے رپورٹ پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم قحط کی تعریفوں کا تجزیہ کر رہے ہیں‘‘۔یعنی قحط کی حقیقت کو سیاسی مفادات کے تحت جھٹلایا جا رہا ہے۔
عالمی عدالت پر دباؤ: انصاف کے راستے مسدود
اسرائیل کو احتساب سے بچانے کے لیے عالمی عدالت کے خلاف تادیبی کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بدھ (20 اگست) کو ٹرمپ انتظامیہ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے مزید چار ججوں اور عہدیداروں پر پابندیاں عائد کر دیں۔پابندیوں کا شکار ہونے والوں میں نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیردفاع گالانت کے خلاف وارنٹ پر دستخط کرنے والے فرانسیسی جج نکولس یان گیو (Nicolas Yann Guillou) وارنٹس برقرار رکھنے والی نائب پراسیکیوٹر فجی کی نزہت شمیم خان، سینیگال کے مامے مندیائے نیانگ (Mame Mandiaye Niang) اور کینیڈین جج کِمبرلی پروسٹ (Kimberly Prost) شامل ہیں جنہوں نے امریکی اہلکاروں کے خلاف افغانستان میں تحقیقات کی اجازت دی تھی ۔امریکہ بہادر جو ’’قانون کی بالادستی‘‘ کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتا، خود ہی قانون کو پامال کرتا نظر آ رہا ہے۔
اسرائیلی انٹیلیجنس کی چشم کشا رپورٹ
عالمی عدالت کے خلاف دھونس و دھاندلی کے باوجود غزہ نسل کشی کے مجرموں کو بے نقاب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہرطانیہ کے معتبر اخبار گارجین (The Guardian) اسرائیل کے آن لائن انگریزی رسالے +972 Magazineاور عبرانی زبان کے آن لائن اخبار Local Callنےاسرائیلی عسکری انٹیلیجنیس (عبرانی مخفف امن) سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے تجزیے کے بعد انکشاف کیا ہے کہ غزہ خونریزی میں 83 فیصد اموات عام شہریوں کی ہوئی ہیں۔روح فرسا اعداد وشمار کے مطابق اس سال مئی تک جاں بحق ہونے والے مسلح مزاحمت کاروں کی تعداد آٹھ ہزار نو سو تھی جبکہ اسی عرصے میں 53 ہزار عام شہری مارے گئے۔ یہ اعداد و شمار چونکہ براہِ راست اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس سے حاصل کیے گئے ہیں، اس لیے ان کی صحت پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب ریاستی فوج کی کارروائیوں میں ہر چھ میں سے پانچ اموات عام شہریوں کی ہوں تو سوال صرف عسکری حکمتِ عملی کا نہیں بلکہ انسانیت کے بنیادی اصولوں کا ہے۔
یورپ میں تضاد، استعفیٰ اور اسلاموفوبیا
نیدرلینڈز کے وزیرِ خارجہ کاسپر ویلڈکیمپ (Caspar Veldkamp) نے اسرائیل پر پابندیوں کی ناکامی پر استعفیٰ دے دیا۔ اس کے چند گھنٹے بعد ولندیزی قومی اسمبلی نے ایک انتہائی متنازع قرارداد منظور کر لی جس میں غزہ کے مزاحمت کاروں کو ’’اسلامی دہشت گرد تنظیم‘‘ (Islamic Terror Organization) کا آلہِ کار قرار دیتے ہوئے انہیں فنا کر دینے کے اسرائیلی عزم کی مکمل حمایت کی گئی ہے۔یہ قرارداد مسلم مخالف انتہا پسند گیرت وائلڈرز کی PVV پارٹی نے پیش کی، جو اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کے لیے بدنام ہے۔
ازبکستان میں عالمِ دین پر مقدمہ
یورپی نسل پرستوں اور ٹرمپ انتظامیہ کی طرح ازبکستان نے معروف عالمِ دین علی شیر ترسونوف المعروف مبشر احمد پر مقدمہ دائر کر دیا۔ان پر ایک فتوے کی حمایت کا الزام ہے جس میں مسلم حکومتوں کو غزہ میں خونریزی کے خلاف آواز اٹھانے کی دعوت دی گئی تھی۔ جرم ثابت ہونے پر انہیں آٹھ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ مبشر صاحب ازبک نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں اور سوشل میڈیاپر ان کے مداحوں کی تعداد 12 لاکھ سے زائد ہے۔
بارسلونا، ہسپانہ کے میئر کا داخلہ بند
گزشتہ ہفتے بارسلونا (ہسپانیہ) کے رئیسِ شہر (Mayor) جاومے کولبونی (Jaume Collboni) کااسرائیل میں داخلہ بند کردیا گیا۔جناب کولبونی غرب اردن میں انسانی حقوق کی پامالی کا مشاہدہ کرنے رملہ اور بیت اللحم آنا چاہتے تھے۔بارسلونا کی بلدیہ، غرب اردن کی غیرقانونی بستیوں کی مصنوعات پر پابندی لگا چکی ہے، جس پر نیتن یاہو سخت برہم ہیں۔ داخلہ بند کیے جانے پر کولبونی بولے ‘اسرائیل نہیں چاہتا کہ دنیا فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی دیکھے’۔ اسرائیلی فیصلے کو معاندانہ قرار دیتے ہوئے جناب کولبونی نے کہا کہ اس رکاوٹ سے امن و انصاف اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے ہمارا عزم مزید مستحکم ہوگیا ہے۔ بیت اللحم حضرت مسیحؑ کی جائے ولادت ہے اور کولبونی جیسے راسخ العقیدہ کیتھولک کو مقاماتِ مقدسہ کی زیارت سے محروم کرنا عبادت کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف شمار کی جانی چاہیے۔
اسرائیلی انتہا پسند وزیر کو آسٹریلیا آنے سے روکا گیا
گزشتہ دنوں آسٹریلیا نے فلسطینیوں کے خلاف ’’نفرت اور تقسیم پھیلانے‘‘ کے الزام میں انتہا پسند رکنِ پارلیمنٹ سمخا روتمن (Simcha Rothman) کا ویزا منسوخ کر دیا۔جواباً اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے لیے آسٹریلوی نمائندوں کے ویزے معطل کر دیے۔ نیتن یاہو نے آسٹریلوی وزیراعظم پر ذاتی حملہ کرتے ہوئے کہا "تاریخ البانیز کو یاد رکھے گی کہ وہ ایک کمزور سیاست داں ہیں جنہوں نے اسرائیل سے غداری کی۔”
نیتن یاہو کی اشتعال انگیزی: عالمی ردعمل
نیوزی لینڈ کے وزیراعظم نے تبصرہ کیا کہ نیتن یاہو نے ’’ہوش کھو دیے ہیں‘‘۔ اسرائیلی قائدِ حزبِ اختلاف یائیر لاپیڈ نے انہیں ’’زہریلا‘‘ سیاسی لیڈر قرار دیا۔ فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ارادے پر نیتن یاہو نے پیرس پر سام دشمنی (Antisemitic) کا الزام لگایا، جسے فرانسیسی صدر نے ’’گھٹیا اور غلط‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ فرانس کے وزیر یورپی امور بنجامن حداد (Benjamin Haddad) نے کہا کہ’’یہود دشمنی کے خلاف لڑائی میں فرانس کو کسی سے سبق لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
لہو پکارے گا آستیں گا
گزشتہ ہفتے آسٹریلوی شہر ملبورن (Melbourne) میں نائی کی دوکان (Juniper Salon) سے اسرائیلی شہری کو’’بچوں کا قاتل‘‘ کہہ کر نکال دیا گیا۔یہ واقعہ عالمی سطح پر عوامی غصے کی علامت بن گیا ہے۔
عبداللہ ابو زرقة کی موت، ایک درناک روداد
غزہ کا چارسالہ عبداللہ ابو زرقا اور اس کی چھ ماہ کی بہن حبیبہ بھوک کا شکار تھے۔ ترک حکومت کی کوششوں سے یہ دونوں اپنے والدین بسمہ اور حماد زرقا کے ہمراہ ترکیہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے لیکن عبداللہ کے لیے تاخیر ہوچکی تھی اور 19 اگست کو یہ بچہ اپنی ماں کی آغوش میں دم توڑ گیا۔ بیٹے کی لاش سینے سے لگائے بسمہ بلکتے ہوئے بولی، میرے لیے اپنے لختِ جگر کا سوگ منانا بھی مشکل ہے کہ اب ساری دعائیں ننھی حبیبہ کے لیے ہیں جس کی حالت بھی اپنے بھائی سے اچھی نہیں۔
یہ روداد اس جنگ کی ایک دردناک تصویر اور انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔اسرائیل کی مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف دنیا بھر میں ردعمل بڑھ رہا ہے، لیکن محض تنقید سے اہلِ غزہ کو راحت نہیں مل سکتی۔ جب تاریخ لکھی جائے گی تو عبداللہ زرقة کی بھوک، بسمہ کی آہ اور دنیا کی خاموشی سب کا ذکر ہوگا۔
***
***
غزہ کا چارسالہ عبداللہ ابو زرقا اور اس کی چھ ماہ کی بہن حبیبہ بھوک کا شکار تھے۔ ترک حکومت کی کوششوں سے یہ دونوں اپنے والدین بسمہ اور حماد زرقا کے ہمراہ ترکیہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے لیکن عبداللہ کے لیے تاخیر ہوچکی تھی اور 19 اگست کو یہ بچہ اپنی ماں کی آغوش میں دم توڑ گیا۔ بیٹے کی لاش سینے سے لگائے بسمہ بلکتے ہوئے بولی، میرے لیے اپنے لختِ جگر کا سوگ منانا بھی مشکل ہے کہ اب ساری دعائیں ننھی حبیبہ کے لیے ہیں جس کی حالت بھی اپنے بھائی سے اچھی نہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025