
’ووٹ چوری‘ جیسے الفاظ کے استعمال کو سوشل میڈیا پر بلاک کرنے کی کوشش
سینئر صحافیوں کے خلاف بی این ایس کی دفعات کا استعمال، آزاد صحافت کے لئے خطرہ کی گھنٹی
شہاب فضل، لکھنؤ
ایلون مسک کا پلیٹ فارم بھی تنقید کی زد میں، آزادی اظہار مطلوب یا کارپوریٹ مفاد مقصود؟
آسام میں ایف آئی آروں کی یلغار۔ تنقید کرنے والے صحافیوں پر مقدمات کا سلسلہ دراز
بی جے پی اور اے بی وی پی کے کارکنوں کا کردار صحافیوں کے خلاف شکایت کنندگان کا انکشاف
’’بی این ایس دفعہ 152، صحافیوں کو دبانے کا ہتھیار‘‘ : میڈیا تنظیموں کی مذمت
حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے جب سے الیکشن کمیشن پر ’ووٹ چوری‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے اور بہار میں ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ شروع کی ہے، انتخابی عمل میں مختلف قسم کی دھاندلیاں طشت از بام ہورہی ہیں اور میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں پر ان پر تیز و تند بحثیں ہورہی ہیں۔
مائیکروبلاگنگ سائٹ ایکس عوامی موضوعات و مسائل اٹھانے اور ہر موضوع سے واقفیت کا ایک بڑا میڈیا پلیٹ فارم ہے۔ وہاں بھی ’ووٹ چوری‘ کا مسئلہ ان دنوں گرم ہے۔ حالانکہ جس طرح سے مین اسٹریم نیوز میڈیا پر عوامی نوعیت کی خبروں اور تجزیوں کو نظر انداز کرنے یا چھپانے کے الزامات عائد ہوتے ہیں اسی طرح کا مسئلہ اب ایکس پر بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ معروف صحافی اور تجزیہ نگار راجو پارولیکر نے 24 اگست کو ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں یہ انکشاف کیا کہ ووٹ چوری پر ان کی پوسٹ کو ایکس کے ذریعہ دبایا جا رہا ہے جسے انہوں نے ’شیڈو بین‘ یعنی بلاک کرنے اور دوسروں کی نظروں سے چھپانے کا نام دیتے ہوئے ایلون مسک اور گروک کو بھی ٹیگ کیا ہے اور ان سے سوال کیا ہے۔ ان کی پوسٹ پر کئی صارفین نے تائیدی تبصرے لکھے ہیں۔ مثال کے طور پر تنموئے نامی ایک یوزر نے یہ انکشاف کیا کہ کی ورڈ ’ووٹ چوری‘ کے ساتھ ہی ووٹر ادھیکار یاترا، ای سی اور ای سی آئی جیسے کی ورڈ (کلیدی الفاظ) بھی دبائے جا رہے ہیں، یعنی انہیں عام یوزرس کے سامنے آنے سے روکا جارہا ہے۔
انفارمیشن ٹکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ کچھ بھی ممکن ہے۔ انٹرنیٹ پر کسی لفظ، اصطلاح اور موضوع کو نمایاں کرنے یا چھپانے کے لیے ٹیکنالوجی ماہرین مختلف تکنیکیں استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ ایکس کے مالک ایلون مسک آزادی اظہار رائے کے سخت حامی ہیں جس پر وہ برملا بولتے رہتے ہیں، اس لیے ایکس پر ایسے الزامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کارپوریٹ فائدے کے لیے صنعت کاروں کی جانب سے ایسا ہونا کچھ بعید بھی نہیں ہے۔
ایک دیگر صارف ایڈووکیٹ وجے سنگھ لکھتے ہیں: جو ووٹ چوروں کو بے نقاب کررہے ہیں ان کی پوسٹ کا دائرہ محدود کرکے انہیں سزا دی جا رہی ہے۔ ایکس کو جمہوریت کے چوروں کا محافظ نہیں بننا چاہیے۔ کمار پٹیل نے تبصرہ کیا ’’وہ کچھ بھی کرے گا اپنی ووٹ چوری کو بے نقاب ہونے سے روکنے کے لیے‘‘۔ پلس آفیشیئل نے اپنے تبصرہ میں لکھا ’’سر، یہ ایک کڑوی گولی ہے۔ ایکس انڈیا کھیل کررہا ہے، اس نے میری بھی پوسٹ پر روک لگائی ہے۔ ایکس کورپ انڈیا کے بدعنوان کارپوریٹ، بی جے پی کے سُر میں سُر ملا رہے ہیں اور ایلون مسک کے پلیٹ فارم کو انہوں نے ایک گندے کٹھ پتلی شو میں تبدیل کر دیا ہے جہاں ہر لمحہ جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ ہماری آوازوں کو دبایا جارہا ہے اور سچائی کو دفن کیا جا رہا ہے۔ ایلون مسک، ہوش میں آؤ، اور اپنے پلیٹ فارم سے ان سرکاری ٹٹّووں کو نکال باہر کرو، یہ آزادی اظہار رائے نہیں ہے، یہ اس کا جنازہ ہے‘‘۔
ایکس پر ہر قسم کے پوسٹ اور تبصرے ہوتے ہیں چنانچہ مذکورہ بالا خیالات کے برعکس دی انجن میکینک نے راجو پارولیکر کی پوسٹ پر کچھ اس طرح کی باتیں لکھیں: ’’ووٹ چوری کے بے بنیاد الزامات لگاکر لوگوں کو گمراہ کرنا اور بے اطمینانی پھیلانا مقصود ہے۔ بھارتیہ نیائے سنہیتا (بی این ایس) 2023 کے سیکشن 353 کے مطابق عوامی سطح پر شرارت کی نیت سے جھوٹے بیانات تخلیق کرنا یا پھیلانا قابل سزا جرم ہے۔ بی این ایس کے سیکشن 182 کے تحت بھی سرکاری اداروں اور حکام کو گمراہ کرنے کی نیت سے غلط معلومات دینے پر کارروائی ہو سکتی ہے۔ آپ کے الزامات ’’شیڈو بین‘‘ نہیں بلکہ واضح طور سے غلط اطلاعات پھیلانے کے دائرہ میں آتے ہیں۔ ایسی غیرذمہ دارانہ پوسٹ پر سخت قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔ مفروضہ کہانیوں سے عوام کو بھڑکانے سے باز آؤ‘‘۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر دی انجن میکینک جیسی پوسٹس ٹرولنگ کہلاتی ہیں جس میں الزامات کی جانچ ہوئے بغیر لکھنے یا بولنے والے کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور الٹا انہیں ہی خطاکار مان لیا جاتا ہے۔ ایسی ٹرولنگ بعض دفعہ گالی گلوج یا نفرت انگیزی تک پہنچ جاتی ہے، جس کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خاصے بدنام بھی ہیں جہاں آئی ٹی سیل کے لوگ منظم حملے کرتے ہیں۔ اٹھنے والی آوازوں کو کچلنے کے لیے انہیں باقاعدہ تنخواہیں ملتی ہیں۔
ایک دیگر صارف لیجو لائیو نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ وہ راہل گاندھی کی پوسٹس نہیں دیکھ پارہے ہیں۔ مجھے اپڈیٹس دیکھنے کے لیے ان کی پروفائل پر جانا پڑ رہا ہے۔۔۔۔ انہوں نے ای سی آئی، ووٹ چوری، چور جیسے مخصوص الفاظ کو محدود کردیا ہوگا۔ اسی طرح فلپ کریاکوس لکھتے ہیں: جی ہاں، ایسا ہورہا ہے، اس حکومت پر تنقید کرنے والے سبھی لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔
آسام میں صحافیوں کے خلاف کارروائیاں اور بی جے پی کا کردار
آسام میں جو صحافی بی جے پی حکومت یا وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما پر تنقید کرتے ہیں ان کے خلاف ایف آئی آریں درج ہو رہی ہیں اور اس میں ایک پیٹرن دیکھا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل نیوز پورٹل نیوز لانڈری نے اس موضوع پر اپنی ایک تجزیاتی خبر میں بتایا ہے کہ گزشتہ 9 مئی کو ایک مقامی شہری بیجو ورما کی طرف سے گوہاٹی کرائم برانچ میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی جس میں میڈیا ادارے دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن، کنسلٹنگ ایڈیٹر کرن تھاپر، مبصر نجم سیٹھی، صحافی اشوتوش بھاردواج اور جموں و کشمیر کے آنجہانی گورنر ستیہ پال ملک کو نامزد کیا گیا ہے۔ یہ ایف آئی آر منظر عام سے اوجھل رہی اور یہ اس روز سامنے آئی جب سپریم کورٹ نے ایک دوسری ایف آئی آر میں دی وائر کو پولیس کارروائی سے تحفظ فراہم کیا۔ یہ دوسری ایف آئی آر موری گاؤں پولیس اسٹیشن میں 11 جولائی کو پارتھا پرتم پاتر نامی شخص کی طرف سے درج کی گئی تھی۔
اس کے بعد ایک تیسری ایف آئی آر 21 اگست کو معروف یوٹیوبر ابھیسار شرما کے خلاف آلوک برووا نامی شخص کی شکایت پر درج کی گئی ہے۔ سبھی ایف آئی آروں میں دیگر دفعات کے ساتھ بی این ایس کی دفعہ 152 کو شامل کیا گیا ہے جو ملک سے غداری کی قدیم دفعہ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔
نیوز لانڈری نے شکایت کنندگان کے بارے میں اپنی تحقیقی رپورٹ میں پایا کہ پارتھا پرتم پاتر بی جے پی کا سرگرم کارکن ہے، جیسا کہ اس نے اپنی فیس بک پروفائل میں دعویٰ کیا ہے، جب کہ ابھیسار شرما کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والا آلوک بروا مبینہ طور پر اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے وابستہ ہے جو بی جے پی کی طلبہ تنظیم ہے۔ برووا نے ابھیسار شرما کے خلاف اپنی شکایت میں کہا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کے خلاف فرقہ وارانہ سیاست میں ملوث ہونے اور منتخب حکومت کی شبیہ خراب کرنے کی نیت سے کام کرنے کا غلط الزام لگایا ہے۔ ادھر ابھیسار شرما نے ایف آئی آر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کی بات کہی ہے۔
نیوز لانڈری کے مطابق آسام حکومت اور وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کی معاندانہ پالیسیوں پر نکتہ چینی کرنے والے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافیوں پر ایک منظم سازش کے تحت ایف آئی آر درج کرائی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ آسام میں بی جے پی نائب صدر اپراجیتا بھویان نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کی طرف سے کسی کو کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی ہدایت نہیں دی گئی ہے اور کوئی بھی شخص ذاتی طور سے شکایت کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اسی طرح اے بی وی پی کی ریاستی اکائی نے واضح کیا کہ برووا اب تنظیم کا ممبر نہیں ہے۔ حالانکہ یہ الزامات اپنی جگہ بدستور موجود ہیں کہ سرما کی قیادت والی آسام حکومت یکے بعد دیگرے اپنی پالیسیوں سے مسلمانوں کو خاص طور سے نشانہ بنا رہی ہے اور عوامی سطح پر بسوا سرما کی ہرزہ سرائیاں ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
صحافی ابھیسار شرما کے خلاف ایف آئی آر میں بی این ایس کی دفعات 196 اور 197 بھی استعمال کی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی وزیر اعلیٰ پر ’فرقہ وارانہ سیاست‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرنا قابل مؤاخذہ جرم کب سے ہوگیا؟ شکایت کنندہ کا یہ دعویٰ کہ ایسے الزام سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی خطرہ میں پڑ سکتی ہے اور حکومتی اداروں سے اعتماد اٹھ سکتا ہے، بوگس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرہ میں ڈالنے، مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے اور مذہبی بنیادوں پر نفرت پیدا کرنے کے لیے بھارت ہی نہیں پوری دنیا میں بدنام ہوچکے ہیں اور متعدد عالمی میڈیا ادارے بھی اس پر اسٹوریاں شائع اور نشر کرچکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیر اعلیٰ ہونے کے ناطے ان پر قانونی کارروائی کی جرأت ملک کا کوئی ادارہ نہیں کر رہا ہے۔ حالانکہ جس دن سیاست دانوں کے خلاف نفرت انگیزی پر کارروائی ہونے لگی اور انہیں جواب دہ ٹھیرایا جانے لگا اسی دن سے ایسے سیاسی رہنماؤں کی الٹی گنتی شروع ہوجائے گی۔
یہ بات ملک کے میڈیا اداروں اور صحافیوں پر بھی صادق آتی ہے جو بھونڈی ہندو مسلم ڈبیٹ کو دھڑلّے سے ریکارڈ اور نشر کرتے ہیں اور پوری دنیا میں ملک کے میڈیا اداروں کی شبیہ خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بہر حال یہ بات اطمینان بخش ہے کہ میڈیا تنظیموں پریس کلب آف انڈیا، انڈین ویمن پریس کورپ اور ایڈیٹرز گِلڈ آف انڈیا نے سینئر صحافیوں سدھارتھ ورد راجن اور کرن تھاپر کے خلاف آسام پولیس کرائم برانچ کی ایف آئی آر کی مذمت کی ہے۔ ان تنظیموں نے کہاکہ دی وائر کے سینئر صحافیوں کے خلاف گزشتہ دو مہینوں میں یہ دوسری ایف آئی آر درج کی گئی ہے جو قابل مذمت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ بی این ایس کی دفعہ 152، صحافیوں کو نشانہ بنانے کا ایک ہتھیار بن رہی ہے حالانکہ اسی قسم کی سابقہ آئی پی سی کی دفعہ 124 اے کو سپریم کورٹ پہلے ہی معطل کرچکی ہے۔ میڈیا اداروں نے کہا کہ دفعہ 152، آئین ہند کے آرٹیکل (1) 19 میں مذکور اظہار رائے کی آزادی کے لیے خطرہ ہے۔ اس کے ذریعہ میڈیا کو خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، الگ الگ دفعات میں یکے بعد دیگرے ایف آئی آر درج کرنا اور میڈیا اداروں اور صحافیوں کو سمن جاری کرنا آزاد صحافت کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025