’’مسجد پریچے‘‘ پروگرام سےسماجی ہم آہنگی کی نئی راہیں ہموار

صرف مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا مطالبہ فسطائی ذہنیت کا عکاسی اقدام

ضمیرا حمد خان، ناندیڑ

مہاراشٹر میں نفرت انگیز ایجنڈے کے مقابلے کے لیے قانون، اتحاد اور دانشمندی بہترین راستہ
مہنگائی اور بے روزگاری جیسے حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے مذہبی منافرت سیاسی چال
بھارت میں ایک عرصے سے مسلمانوں کے خلاف منظم طور پر نفرت انگیز ایجنڈا چلایا جا رہا ہے۔ آئے دن مسلمانوں، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے طرزِ زندگی میں پائی جانے والی معمولی خامیوں کو بنیاد بنا کر ملک کے اکثریتی طبقے کو مشتعل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ سیاسی مفادات حاصل کیے جا سکیں۔ ان تشویشناک حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ فکرمند حلقے مسلسل کوشاں ہیں، اور ایسی ہی ایک قابلِ ستائش کوشش ’’مسجد پریچے‘‘ (مسجد کا تعارف) پروگرام ہے، جس کا ایک کامیاب تجربہ مہاراشٹر کے ضلع ہنگولی میں کیا گیا۔ یہاں جماعتِ اسلامی ہند اور دیگر ہم خیال تنظیموں کے اشتراک سے پچھلے دنوں مسجدِ معراج میں ایک روزہ ’’مسجد پریچے‘‘ پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس منفرد پروگرام میں مقامی مسلمانوں نے اپنے حلقہ احباب میں شامل غیر مسلم برادرانِ وطن کو خصوصی طور پر مدعو کیا۔ تقریب میں ضلع کے ایس پی شری کرشنا کوکاٹے نے بھی بطور خاص شرکت کی۔پروگرام کا آغاز درسِ قرآن سے ہوا، جسے علاقائی زبان مراٹھی میں پیش کیا گیا تاکہ تمام انسانوں کے نام قرآنِ مجید کا آفاقی پیغام عام فہم انداز میں پہنچ سکے۔ مقررین نے مسجد میں ہونے والی عبادات، جیسے نماز اور اذان کی وضاحت کی اور اسلام کے پانچ بنیادی ارکان جیسے ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے بارے میں بھی تفصیلی معلومات فراہم کیں۔ اس کے ساتھ ہی انسانیت کے حوالے سے اسلام کی روشن تعلیمات کو بھی اجاگر کیا گیا۔ پروگرام میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ کس طرح کچھ عناصر منظم طور پر جھوٹا پروپیگنڈا کرکے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور سماج میں ان کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروگرام میں شریک ایس پی شری کرشنا کوکاٹے نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’بھارت ہمیشہ سے گنگا-جمنی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے اور یہاں کا ہندو-مسلم بھائی چارہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال تھا۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے اس صورتحال میں گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ لوگ اپنی ذاتی زندگی اور مسائل میں اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ انہیں مل بیٹھ کر سماج کی تعمیر اور ایک دوسرے کے قریب آنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ مختلف طبقات کے درمیان نفرت اور غلط فہمیاں پھیلانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ایسے میں آج کا یہ ’مسجد پریچے‘ پروگرام قومی یکجہتی کو فروغ دینے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘ پروگرام میں شریک دیگر غیر مسلم مہمانوں نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے برملا اعتراف کیا کہ ’’نماز، اذان اور مساجد کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں جو منفی تصورات تھے، وہ آج دور ہو گئے ہیں۔ ہم نے یہاں آ کر ایک پرسکون ماحول دیکھا اور مسلمانوں کے بارے میں ہماری کئی غلط فہمیاں دور ہوئیں۔‘‘ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس طرح کے پروگرام شہر کے دیگر علاقوں میں بھی منعقد ہونے چاہئیں۔
اب آئیے اس پہلو پر بات کریں جو اس تقریب میں سامنے آئی کہ کچھ لوگ مسلمانوں کے بارے میں دانستہ طور پر غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی کوششوں کا طریقہ کیا ہے، اس کے سماج میں کیا اثرات پڑ رہے ہیں، اور ان کوششوں کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت کیوں بن گئی ہے؟مہاراشٹر کی سیاست میں بی جے پی کے سابق ایم پی کریٹ سومیا کی شناخت ایک ایسے رہنما کی ہے جو محض پریس کانفرنسیں نہیں کرتے، بلکہ سیاسی طوفان کھڑا کرتے ہیں۔ بدعنوانی کے الزامات سے مخالفین کو گھیرنے کے بعد، اب انہوں نے ایک نیا ریاست گیر محاذ کھول دیا ہے جس کے دو بنیادی ستون ہیں: مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانا اور مبینہ بنگلہ دیشی شہریوں کو بے نقاب کرنا۔ بظاہر یہ مہم قانون کی حکم رانی اور قومی سلامتی کے نام پر چلائی جا رہی ہے لیکن اس کی گہرائی میں اتریں تو یہ آنے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل سماجی پولرائزیشن کو ہوا دینے کی ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی نظر آتی ہے۔یہ مہم بی جے پی کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ مسلسل حساس سماجی اور مذہبی مسائل کو اٹھا کر سیاسی ماحول کو گرم رکھتی ہے اور اپنی حریف جماعتوں کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیتی ہے۔
 مہم کا پہلا حصہ: مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانا
بنیادی دلیل یہ ہے کہ کریٹ سومیا اور بی جے پی کا موقف یہ ہے کہ مساجد پر اذان کے لیے استعمال ہونے والے لاؤڈ اسپیکر صوتی آلودگی (Noise Pollution) کے قوانین اور سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مہم کسی مذہب یا عبادت کے خلاف نہیں، بلکہ صرف قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔ وہ اکثر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی ہے اور دن کے وقت بھی اس کی آواز ایک مخصوص ڈیسیبل کی حد سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون تمام مذاہب پر یکساں طور پر لاگو ہونا چاہیے۔اس مہم کے تحت، کریٹ سومیا مختلف شہروں کا دورہ کر رہے ہیں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے اس مسئلے کو اٹھا رہے ہیں۔ وہ مقامی پولیس اسٹیشنوں اور ضلع کلکٹروں کو یادداشت (Memorandum) پیش کر رہے ہیں جس میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کروایا جائے اور غیر قانونی لاؤڈ اسپیکروں کو ہٹوایا جائے۔ان کی درخواستوں میں تمام مذاہب کی مذہبی عبادت گاہوں سے لاؤڈاسپیکر ہٹانے کا ذکر نہیں بلکہ صرف مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر ہٹانے کےبارے میں کارروائی کرنے کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ان کی فسطائی ذہنیت کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ ایک طرف سپریم کورٹ کا حوالہ دے کر تمام مذہبی عبادت گاہوں کے ساتھ یکساں رویہ اپنانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف پولیس انتظامیہ سے نمائندگی کرکے صرف مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے ۔اس مہم کو سوشل میڈیا پر بھی بھرپور طریقے سے چلایا جا رہا ہے تاکہ عوامی رائے کو ہموار کیا جا سکے۔  
واضح رہے کہ مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا موضوع ماضی میں بھی سیاست کا حصہ رہا ہے لیکن اب تک اس پر صرف نفرت اور جذبات بھری تقریریں ہوتی رہی ہیں۔ انتخابات میں فسطائی طاقتوں کے قائدین اس موضوع کو اٹھا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس کی ابتدا شیو سینا کے بانی آنجہانی بالا صاحب ٹھاکرے نے کی تھی۔ وہ اپنی تقریروں میں کئی مرتبہ اس ایشو کو اٹھاتے رہے اور اپنی پارٹی کے اقتدار میں آنے پر ریاست کی تمام مسجدوں سے ‘بھونگے’ ہٹانے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اس کے بعد اس کو مہاراشٹر نو نرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے اپنی سیاست کا ایجنڈہ بنا لیا۔ گزشتہ دنوں اسمبلی انتخابات کے دوران انہوں نے کئی مرتبہ مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکروں کی وجہ سے ہونے والی صوتی آلودگی کے بہانے مسجدوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور وہاں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی دھمکیاں دیں۔ اسی طرح مسلم بستیوں میں بنگلادیشیوں کی غیر قانونی موجودگی کو بھی اپنی سیاست کا حصہ بنا کر ریاست کی عوام کو مسلمانوں کے خلاف بدظن کرنے اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔اب تک یہ معاملہ صرف بیان بازی تک محدود تھا لیکن اب کریٹ سومیا نے اس مسئلے کو ایک الگ انداز میں لیا ہے اور قانون کا سہارا لیتے ہوئے کئی بہانے سامنے لا کر عملی طور پر مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے پر کام کیا۔ انہوں نے کچھ لوگوں کو کھڑا کر کے ممبئی ہائی کورٹ میں مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے لیے ایک رٹ پٹیشن داخل کی۔ اس پر کورٹ نے اپنے فیصلے میں مذہبی عبادت گاہوں پر نصب کیے گئے لاؤڈ اسپیکر کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے وہی تمام باتوں کا ذکر کیا جو سپریم کورٹ کے فیصلے میں آئی تھیں، جیسے مسجد میں ایک مخصوص لیول تک ڈیسیبل کی آواز ہونی چاہیے، صبح چھ بجے سے رات دس بجے تک ہی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ اور اس طرح کی تمام باتوں کا عدالت نے اپنے فیصلے میں ذکر کیا۔اس فیصلے کے سامنے آنے کے بعد کریٹ سومیا نے ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سے مل کر انہیں مذہبی عبادت گاہوں پر نصب کیے جانے والے غیر قانونی لاؤڈ اسپیکروں کو ہٹانے کے لیے اقدامات کرنے کی گزارش کی۔ چنانچہ اسی کے تحت ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کی جانب سے ریاست کے تمام پولیس اسٹیشنوں کے نام ایک مکتوب جاری کیا گیا، جس میں مذہبی عبادت گاہوں پر نصب کیے گئے لاؤڈ اسپیکرز سپریم کورٹ کی دی گئی ہدایات کے مطابق ہیں یا نہیں، یہ دیکھنے کی ہدایت دی گئی۔ ساتھ ہی جو لوگ اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جائیں، ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے لاؤڈ اسپیکروں کو ہٹانے کے احکامات دیے گئے۔اب اس مکتوب کی بنیاد پر پولیس نے مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کے لیے سختیاں شروع کیں۔ ابتدا میں ممبئی اور اطراف کی مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹائے گئے۔ اس کے بعد ناسک، جالنہ، اورنگ آباد اور ریاست کے کئی اضلاع میں مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹائے جا رہے ہیں۔ پولیس کی جانب سے کی جانے والی اس سختی کے خلاف بھی کچھ لوگوں نے ممبئی کورٹ میں ایک الگ سے رٹ پٹیشن داخل کی ہے اور یہ معاملہ ابھی زیر سماعت ہے۔ پولیس کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر کسی کو مذہبی عبادت گاہوں پر لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنا ہے تو اس کے لیے باضابطہ درخواست دے کر اجازت لینی ہوگی۔ درخواست کے ساتھ چند دستاویزات جمع کرنے ہوں گے، اس میں متعلقہ عبادت گاہ کی تعمیر کرتے وقت حاصل کی گئی اجازت نامہ کی کاپی، مسجد کمیٹی کے ٹرسٹیوں کے شناختی کارڈ، ملکیت کے دستاویزات اور اگر مسجد وقف بورڈ کے ماتحت ہے تو وقف بورڈ کی این او سی، مسجد کا لائٹ بل اور دیگر چیزیں مانگی جا رہی ہیں۔ جو عبادت گاہیں ان تمام شرائط کو پورا کر رہی ہیں، انہیں اجازت دینے کا یقین دلایا گیا ہے۔  
 مہم کا ظاہری چہرہ: قانون اور قوم پرستی
کریٹ سومیا کی مہم کا پہلا حصہ سپریم کورٹ کے احکامات کی ڈھال استعمال کرتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ مساجد پر نصب لاؤڈ اسپیکر صوتی آلودگی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، لہذا انہیں ہٹایا جانا چاہیے۔ یہ دلیل سننے میں قانونی اور منطقی لگتی ہے۔ مہم کا دوسرا حصہ قوم پرستی کے جذبے کو اپیل کرتا ہے، جس میں غیر قانونی بنگلادیشی تارکین وطن کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ، مقامی وسائل پر بوجھ اور جرائم کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دونوں دلائل عوام کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کیونکہ یہ قانون کی پاسداری اور ملک کی حفاظت جیسے حساس معاملات سے جڑے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اس مہم کا مقصد صرف قانون کا نفاذ ہے؟ اگر صوتی آلودگی مسئلہ ہے تو صرف مساجد کے لاؤڈ اسپیکر ہی نشانے پر کیوں ہیں؟ سیاسی ریلیوں، مذہبی جلوسوں اور دیگر تہواروں پر استعمال ہونے والے ڈی جے اور لاؤڈ اسپیکر اس مہم کا حصہ کیوں نہیں ہیں؟ اسی طرح، اگر غیر قانونی تارکین وطن ایک مسئلہ ہیں تو اس کے لیے ایک منظم پالیسی کے بجائے اسے ایک مخصوص کمیونٹی سے جوڑ کر سیاسی ایشو کیوں بنایا جا رہا ہے؟  
در حقیقت، اس جارحانہ حکمت عملی کے پیچھے گہرے سیاسی مقاصد پوشیدہ ہیں۔
سب سے اہم مقصد بیانیے کی جنگ جیتنا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کے مسائل اور بنیادی ڈھانچے کی کمزوری جیسے حقیقی عوامی مسائل پر حکم راں جماعت کو جواب دہ ٹھیرانے کے بجائے، بی جے پی ان جذباتی اور مذہبی مسائل کے ذریعے گفتگو کا رخ موڑنا چاہتی ہے۔اسی طرح، ایک اور مقصد یہ ہے کہ حال ہی میں مہاراشٹر کی اسمبلی میں ’’پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘ کے نام سے ایک قانون پاس کیا گیا، جسے انگریزوں کے زمانے کے رولیٹ ایکٹ سے بھی خطرناک مانا جا رہا ہے۔ اس قانون پر ریاست کے مختلف سماجی حلقوں کی جانب سے زبردست تنقیدیں ہو رہی تھیں۔ ان تنقیدوں کی وجہ سے حکومت دفاعی پوزیشن میں آ گئی تھی۔ ایسے میں اس ایشو سے توجہ ہٹانے کے لیے مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر اور بنگلادیشی شہریوں کا مسئلہ کھڑا کر کے بحث کا رخ بدلنے اور لوگوں کا ذہن بھٹکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ، حال ہی میں تعلیمی اداروں میں ہندی کی سختی سے متعلق نافذ کیے گئے احکامات کے معاملے میں بھی حکومت کو عوام کے شدید غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ شیو سینا اور ایم این ایس نے اس مسئلے پر پر زور احتجاج کیا اور مراٹھی زبان کے وجود کو خطرہ بتا کر لوگوں کو حکومت کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کی اپیل کی۔ اس کے بعد حکومت بیک فٹ پر آ گئی اور اس نے اپنے احکامات کو واپس لے لیا۔ اس مسئلے سے بھی لوگوں کا ذہن بھٹکانے کے لیے یہ نیا مسئلہ لایا گیا ہے۔یہ مسائل بی جے پی کے بنیادی ووٹ بینک کو مضبوط اور متحرک کرتے ہیں۔ اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ صرف بی جے پی ہی ’’ہندو مفادات‘‘ کی محافظ ہے۔  
مخالفین کو جال میں پھنسانا بھی اس مہم کا ایک اہم مقصد ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ مہم سیکولر اور اپوزیشن جماعتوں کے لیے ایک سیاسی جال ہے۔ اگر وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں تو ان پر ’’اقلیتی خوشامدی‘‘ اور ’’قانون مخالف‘‘ ہونے کا لیبل لگایا جائے گا۔ اور اگر وہ خاموش رہتے ہیں تو وہ اپنا اقلیتی ووٹ بینک کھو سکتے ہیں۔ اس مہم کا سب سے خطرناک پہلو معاشرے میں ہندو-مسلم تفریق کو گہرا کرنا ہے۔ ایک کمیونٹی کو ’’قانون شکن‘‘ اور دوسری کو ’’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘‘ کے طور پر پیش کر کے، وہ انتخابات سے قبل معاشرے کو واضح طور پر دو کیمپوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، جس کا براہ راست فائدہ انہیں ووٹوں کی شکل میں ملتا ہے۔یہ حکمت عملی نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ حقیقی مسائل سے توجہ ہٹا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سماجی سطح پر آگاہی اور اتحاد کی ضرورت ہے۔
 متاثرین کے لیے چیلنج اور حکمت عملی
ایسے حالات میں اقلیتوں اور دیگر متاثرہ طبقات کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کے جال میں نہ پھنسیں۔ جذباتی اور پرتشدد ردعمل وہی ہے جو کریٹ سومیا اور ان کی جماعت چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے بیانیے کو مزید تقویت دے سکیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹھنڈے دماغ اور منظم حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ درج ذیل اقدامات اس سلسلے میں مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں:
قانون کو ڈھال بنانا: سب سے مؤثر جواب قانون کی مکمل پاسداری ہے۔ مساجد کی انتظامیہ رضاکارانہ طور پر ساؤنڈ لمیٹر نصب کر کے اور سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کر کے اس مہم کی ہوا نکال سکتی ہے۔ اسی طرح تمام شہریوں کو اپنے دستاویزات مکمل رکھنے چاہییں۔  
اتحادیوں کی تلاش: یہ لڑائی تنہا نہیں لڑی جا سکتی۔ معاشرے کے انصاف پسند اور سیکولر طبقات، دیگر مذاہب کے رہنماؤں اور سِول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ محاذ تشکیل دینا ضروری ہے، تاکہ اسے ’’ہندو بنام مسلم‘‘ کے بجائے ’’نفرت بنام ہم آہنگی‘‘ کی جنگ بنایا جا سکے۔ اسی طرح قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے مختلف تقریبات کا اہتمام کرتے ہوئے برداران وطن کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دیا جا سکے۔  
بیانیے کو بدلنا: میڈیا اور عوامی پلیٹ فارموں پر بحث کا رخ واپس حقیقی مسائل کی طرف موڑنا ہوگا۔ RTI جیسے قانونی اوزار استعمال کر کے یہ بے نقاب کیا جا سکتا ہے کہ قانون کا نفاذ صرف منتخب طور پر کیوں کیا جا رہا ہے۔ کریٹ سومیا کی مہم مہاراشٹر کے سماجی تانے بانے کے لیے ایک امتحان ہے۔ یہ محض ایک سیاسی بیان بازی نہیں ہے بلکہ معاشرے کی گہری تقسیم کی ایک کوشش ہے۔ اس کا نتیجہ اس بات پر منحصر نہیں ہوگا کہ سومیا کتنی جارحیت دکھاتے ہیں بلکہ اس بات پر ہوگا کہ مہاراشٹر کا معاشرہ، اس کی سیاسی جماعتیں اور خاص طور پر متاثرہ کمیونٹیاں کس قدر دانشمندی، صبر اور اتحاد کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتی ہیں۔ یہ وقت جذباتی ردعمل کا نہیں بلکہ آئینی اور جمہوری دائرے میں رہ کر نفرت کی سیاست کو ناکام بنانے کا ہے۔
قانونی حق RTI کا استعمال: انفارمیشن کے (RTI) کے تحت درخواستیں دائر کی جائیں کہ شہر میں صوتی آلودگی کے کل کتنے معاملات درج ہوئے اور ان میں سے کتنے دیگر مذہبی تہواروں، سیاسی ریلیوں یا کلبوں کے خلاف تھے۔ یہ اعداد و شمار یہ ثابت کرنے میں مدد دیں گے کہ صرف مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
نفرت انگیز تقاریر کے خلاف شکایات: کریٹ سومیا یا ان کے حامیوں کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی اشتعال انگیز یا نفرت انگیز تقریر کو ریکارڈ کریں اور اس کی بنیاد پر پولیس اور الیکشن کمیشن میں باقاعدہ شکایت درج کروائیں۔
بین المذاہب  (Interfaith Dialogue): ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر برادریوں کے اعتدال پسند اور انصاف پسند رہنماؤں کے ساتھ مشترکہ میٹنگیں اور پریس کانفرنسیں منعقد کریں۔ مشترکہ امن کمیٹیاں قائم کریں جو اس بات پر زور دیں کہ یہ مسئلہ کسی ایک کمیونٹی کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کے امن و امان کا ہے۔ اس سے یہ پیغام جائے گا کہ یہ ہندو بنام مسلم نہیں، بلکہ ’’نفرت کی سیاست بنام سماجی ہم آہنگی‘‘ ہے۔
عوامی بیداری مہم:  اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو پرامن رہنے، کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب نہ دینے اور قانونی دائرے میں رہ کر کام کرنے کی تلقین کریں۔ سوشل میڈیا پر مثبت پیغامات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی کہانیاں شیئر کریں۔
سیکولر سیاسی جماعتوں سے رابطہ: تمام سیکولر اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے انہیں اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کریں اور مطالبہ کریں کہ وہ اس کے خلاف اسمبلی اور عوامی سطح پر آواز اٹھائیں۔
انتظامیہ کو یادداشت پیش کرنا: ایک وفد کی شکل میں ضلع کلکٹر اور پولیس کمشنر سے ملاقات کریں اور انہیں میمورنڈم پیش کریں جس میں انہیں آئین کے تحت تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری یاد دلائی جائے۔ ان سے مطالبہ کریں کہ وہ نفرت پھیلانے والی مہمات کو روکیں۔
دفاعی کے بجائے اقدامی بیانیہ: صرف ان کے الزامات کا جواب دینے کے بجائے، ایک مثبت بیانیہ تشکیل دیں۔ اس بات پر زور دیں کہ کس طرح اقلیتی برادریاں ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ بحث کا رخ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم اور صحت جیسے حقیقی عوامی مسائل کی طرف موڑنے کی کوشش کریں۔
حقائق پر مبنی جواب: میڈیا میں جذباتی بیانات دینے کے بجائے، حقائق، اعداد و شمار اور قانونی دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔ ایک پینل تیار کریں جو میڈیا میں مؤثر طریقے سے کمیونٹی کا موقف پیش کر سکے۔ سوشل میڈیا کا دانشمندانہ استعمال: سوشل میڈیا پر #IndiaAgainstHate یا #UnityInDiversity جیسے ہیش ٹیگز کے ساتھ مثبت مہم چلائیں۔ غلط معلومات اور افواہوں کا فوری طور پر حقائق کے ساتھ جواب دیں۔
سماجی اثرات اور مقابلے کی ضرورت
یہ کوششیں سماج میں نفرت اور تقسیم کو بڑھاوا دے رہی ہیں، جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو کمزور کر رہی ہیں۔ اس سے مسلمان کمیونٹی کو الگ تھلگ کرنے اور اکثریتی طبقے میں غلط فہمیاں پھیلانے کا کام ہو رہا ہے، جو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں، ’’مسجد پریچے‘‘ جیسے پروگراموں کے ذریعے براہ راست بات چیت اور غلط فہمیاں دور کر کے اس کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو مضبوط بنائے گا بلکہ نفرت کے ایجنڈے کو ناکام بھی کرے گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025

hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
casinolevant |
hacklink panel |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
hacklink panel |
betorder giriş |
güncel bahis siteleri |
casinolevant |
hacklink panel |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |
Altaybet |