گذشتہ 70 سالوں میں 80 فیصد دہشت گردی غیر مذہبی تحریکوں کی جانب سے ہوئی ہے: سید سعادت اللہ حسینی
نئی دہلی، مارچ 16:جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ گذشتہ 70 سالوں میں دہشت گردی کے تقریباً 80 فیصد واقعات سیکولر اور غیر مذہبی تحریکوں سے آئے ہیں۔
انھوں نے یہ بات حال ہی میں جے آئی ایچ کے ہیڈ کوارٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران جے آئی ایچ کے کاموں کے بارے میں میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہی۔
انھوں نے جماعت کی شراکت اور اس کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بھی بہت سے سوالات کے جوابات دیے۔
امیر جماعت نے ان لوگوں سے اختلاف کیا جو یہ سمجھتے ہیں کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی مذہبی قدامت پرستی کے نتائج ہیں۔
انھوں نے کہا ’’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک غلط نتیجہ ہے اور مذہبی قدامت پرستی اور دہشت گردی سے متعلق اس نظریہ کو مسترد کرتے ہیں۔ دنیا میں دہشت گردی صرف مذہبی قدامت پرستی کا نتیجہ نہیں ہے۔ دہشت گردی کا بڑا حصہ سیکولر دہشت گردی ہے۔ یہ سیکولر تنظیمیں ہیں جو زیادہ سے زیادہ دہشت گردی میں ملوث ہیں۔‘‘
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے آئرش ریپبلک آرمی کی مثال دی۔ انھوں نے کہا ’’آئی آر اے کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی بہت بڑی تاریخ ہے اور وہ مذہبی قدامت پسند تنظیم نہیں ہے۔ نہ ہی وہ مذہبی اقدار پر یقین رکھتی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں امیرِ جماعت نے اعتراف کیا کہ یہ کہنا درست ہے کہ جماعت اسلامی ہند عوامی تحریک نہیں بن سکی۔ تاہم انھوں نے وضاحت کی کہ تنظیموں کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ جے آئی ایچ کو ایک عوامی تحریک بننا چاہیے تھا۔ امیر جماعت نے کہا ’’ایک تنظیم پہلے ذہین افراد کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، جس کے بعد وہ دوسرے مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو عوام اس کی پیروی کرتے ہیں اور پھر وہ عوامی تحریک بن جاتی ہے۔‘‘
انھوں نے تجاویز کو قبول کیا اور کہا ’’ہمیں احساس ہے کہ ہم عام لوگوں کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ لہذا ہم جے آئی ایچ کو ایک عوامی تحریک بنانے کے لیے تمام مثبت تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ ہم آپ کے مشوروں سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ جے آئی ایچ مختلف محاذوں پر توسیع کی کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا ’’اس مقصد کے لیے ہمارے پروگراموں میں عوامی خدمت کے کام شامل ہیں۔ ہم عوامی تحریکیں بھی چلا رہے ہیں اور عام عوام کے مسائل بھی اٹھا رہے ہیں۔ لہذا ہم یقینی طور پر کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند، میڈیا کے افراد سمیت معاشرے کے تمام طبقوں کی طرف سے فراہم کردہ تجاویز سے اپنی کوششوں کو آگے بڑھائے گی۔
تنظیم کی توسیع پر سوال اٹھاتے ہوئے امیر جماعت نے کہا ’’مختلف وجوہ کے سبب ہماری تنظیم میں جغرافیائی عدم توازن ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو ہماری طاقت کا 60 فیصد تین ریاستوں کیرالہ، تلنگانہ اور کرناٹک میں مرکوز ہے۔‘‘
انھوں نے قبول کیا کہ جے آئی ایچ کی موجودگی، افرادی قوت اور کام، ہندی بولنے والی ریاستوں جیسے اتر پردیش، مدھیہ پردیش، دہلی اور دیگر میں کمزور ہیں۔ لیکن انھوں نے زور دے کر کہا ’’ہم ملک کے دوسرے حصوں میں بہت بہتر ہیں، جس کے بارے میں دہلی کے لوگ واقف نہیں ہیں۔‘‘
یوپی کے رام پور میں جے آئی ایچ کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی ادارے کو بند کیے جانے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ ایک درست نکتہ ہے۔ ’’لیکن ہم مختلف ریاستوں میں کئی دوسرے ادارے کامیابی سے چلا رہے ہیں۔‘‘
امیر جماعت نے کہا ’’JIH نے ملک بھر میں تقریباً 2000 تعلیمی ادارے چلائے ہیں، جن میں اسکول، کالج اور تکنیکی ادارے شامل ہیں۔‘‘
جماعت کی مقبولیت کے بارے میں انھوں نے کہا ’’ہم بہت سی ریاستوں میں کافی مقبول ہیں، حالاں کہ یہ بھی سچ ہے کہ ہم کچھ علاقوں میں اتنے مقبول اور عوام میں معروف نہیں ہیں۔‘‘
امیر جماعت نے کہا ’’جماعت اسلامی ہند کا پختہ یقین ہے کہ اسلام ایک مکمل طرز زندگی ہے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہنا چاہتے ہیں کہ اخلاقی اقدار اور اسلام کا پیغام زندگی کے ہر پہلو کے لیے دستیاب ہے۔ ہم اسلام کو ان سب کے لیے متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
دہشت گردی کے بارے میں امیر جماعت نے کہا کہ ان کی تنظیم واضح طور پر اس کی مذمت کرتی ہے، چاہے وہ کسی بھی نام سے ہو۔ انھوں نے کہا ’’ہم دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، چاہے وہ اسلام کے نام پر ہو، مذہب کے نام پر ہو یا سیکولر نظریہ کے نام پر۔ ہم اس کی شدید مذمت اور مخالفت کرتے ہیں۔ ہم اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے۔‘‘
دہشت گردی اور اسلام کے بنیادی عقائد کے درمیان فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسلامی اقدار بشمول اس کی سیاسی اقدار پر یقین کرنا اسلام کے نام پر تشدد اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے مختلف ہے۔
کشمیر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے ہماری پالیسی واضح اور تحریری شکل میں دستیاب ہے۔
ذات پات کے بارے میں امیر جماعت نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند ہمیشہ ذات پات کے خلاف رہی ہے۔ انھوں نے واضح کیا ’’ملک کی آزادی کے بعد سے JIH کی ہر سماجی اصلاحی مہم میں ذات پات کے خاتمے کا مسئلہ سرفہرست رہا ہے۔ جے آئی ایچ نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’یہ افسوس ناک ہے کہ ہندوستانی مسلم معاشرے میں ذات پات موجود ہے حالاں کہ اسلام اسے مسترد کرتا ہے۔ اسلام کے مساوات کے پیغام اور اس طرح کے امتیاز کی سخت مخالفت کے باوجود ذات پات کی بیماری موجود ہے۔ ہم نے ہمیشہ اس کی مذمت کی ہے۔ جہاں تک JIH کا تعلق ہے، ہمارے کیڈرز اور عہدیداروں کے درمیان ہر طبقہ کے لوگ موجود ہیں۔‘‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگر جے آئی ایچ کی قیادت، مشاورتی کونسلوں اور اراکین اور کارکنوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ تنظیم میں ہر ذات اور طبقے کی نمائندگی ہے۔