79 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے کی گئی تقریر میں مختلف پہلو تنازعات کے گھیرے میں

پی ایم کی تقریر کے بعد آزادی کی لڑائی میں آر ایس ایس کی ’کارگزاری‘ زیر بحث

شہاب فضل، لکھنؤ

سوشل میڈیا پر سنگھ کا حقیقی کردار سامنے آگیا، ’ووٹ چوری‘ پر الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس، اپنے ہاتھوں گول کرنے کے مترادف
سیمی کنڈکٹر پر وزیر اعظم کا بیان فیکٹ چیک میں غلط ثابت ہوا
وزیر اعظم نریندر مودی نے پندرہ اگست 2025 کو یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس ایک طرح سے دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے۔ انہوں نے کہا ’’آج سے سو سال پہلے ایک سنگٹھن راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا جنم ہوا‘‘۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں سنگھ کے بارے میں جو کچھ بھی کہا اس پر روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں میں کافی بحثیں ہورہی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق سینئر صحافی شرد گپتا نے پی ایم کے منہ سے آر ایس ایس کے ذکر کے ایک معنی یہ نکالے کہ پی ایم مودی نے آر ایس ایس کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم اس (آر ایس ایس) کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے، لہٰذا وہ مجھے کرسی سے ہٹانے کا خیال بھی ذہن میں نہ پالے۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا آر ایس ایس نے آزادی کی لڑائی میں کبھی حصہ لیا بھی؟ کیا ہیڈگیوار کو چھوڑ کر آر ایس ایس کا کوئی بڑا لیڈر کبھی جیل گیا؟ کیا آر ایس ایس کا ایک بھی کارکن کبھی پھانسی کے پھندے پر لٹکا جیسا کہ بھگت سنگھ لٹکے؟ کیا چندر شیکھر آزاد کی طرح شہادت دی؟ اس کے بعد جب ملک میں فسادات ہو رہے تھے گاندھی جی کو بتایا گیا کہ اس میں آر ایس ایس کے کچھ لوگوں کا ہاتھ ہے تو گاندھی جی نے گولوالکر کو بلوایا اور ان سے کہا کہ باہر نکلیں اور فسادات رکوائیں، مگر گولوالکر نے کچھ نہیں کیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے 1940 میں پاکستان کی قرارداد منظور کی اس کے ساتھ مل کر انہیں لوگوں نے حکومت بنائی۔ شیاما پرساد مکھرجی نے انگریز گورنر کو خط لکھ کر کہا کہ بھارت چھوڑو تحریک کو ہر حال میں کچلنا چاہیے۔ خود بابا صاحب امبیڈکر نے کہا ’’میں حیران ہوں، کیا وجہ ہے کہ جناح اور ساورکر کی زبان دو قومی نظریہ پر ایک ہے! یہ دیکھ کر میں حیران ہوں‘‘۔ وزیر اعظم کے منھ سے آر ایس ایس کی تعریفوں پر ہندی نیوز چینل آج تک پر ایک ڈبیٹ میں سیاسی مبصر آشوتوش نے یہ تمام سوالات اٹھا کر سنگھ کے چہرے سے پردہ اٹھا دیا اور ناظرین کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
اویش تیواری نامی شخص نے اپنے ایکس ہینڈل پر ایک تاریخی گزٹ نوٹیفکیشن منسلک کرتے ہوئے لکھا ’’4 فروری 1948 کو گاندھی جی کے قتل کے الزام میں آر ایس ایس پر پابندی لگائی گئی تھی۔ یہ اسی کا گزٹ نوٹیفکیشن ہے۔ آج پی ایم مودی نے لال قلعہ سے سنگھ کا نام لے کر وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو تار تار کر دیا‘‘۔
یقیناً وزیر اعظم کی یہ جرأت حیرت انگیز ہے۔ جس تنظیم پر حکومت ہند نے پابندی لگائی اور اس پابندی میں اُس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ سردار پٹیل نے کلیدی کردار ادا کیا، یوم آزادی کی تقریر میں ایسی تنظیم کی تعریفیں کرنا نریندر مودی کے لیے بطور فرد شاید درست ہو مگر وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ کر ایسی باتیں کرنا حد سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے اور اس پر اگر تنقید ہو رہی ہے تو وہ جائز اور درست ہے۔
اسے ایک اتفاق نہیں کہا جا سکتا کہ اس یوم آزادی پر وزارت پٹرولیم کے ایکس ہینڈل سے ‘ہیپی انڈیپنڈنس ڈے’ کا ایک پوسٹر جاری کیا گیا جس میں بابائے قوم مہاتما گاندھی، بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس کے ساتھ ان سے اوپر ساورکر کی تصویر نمایاں طور سے لگائی گئی تھی۔ یہ پوسٹر بھی سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا اور مرکزی حکومت کی وزارت کی جانب سے ایسے پوسٹر پر تنقیدیں کی گئیں۔ یہی نہیں، اس پوسٹر نے آئی ٹی سیل اور نظریاتی برتری میں اندھے ہوچکے افراد کو بابائے قوم کی توہین و تضحیک کا بھی موقع فراہم کر دیا۔
ابھیشیک نام کے یوزر نے ایکس پر لکھا: ’’مصنوعی طور سے کسی کو اونچا دکھانے سے کسی کا قد حقیقی دنیا میں اونچا نہیں ہوجاتا۔ ساورکر کی تصویر گاندھی جی، نیتا جی، بھگت سنگھ اور ترنگے سے بھی اونچا کر دینے سے آزادی کی لڑائی میں ان کی حصہ داری ان سے بڑی نہیں ہو جائے گی‘‘۔
اسی طرح کھیم راج ٹھاکر لکھتے ہیں: ’’مہاتما گاندھی کی توہین اس حکومت سے زیادہ کسی نے نہیں کی ہے۔ جب بھی مودی ملک سے باہر بات کرتے ہیں تو گاندھی جی کا نام لیتے ہیں کیوں؟ کیوں کہ وہاں کسی کو پتہ نہیں کہ ساورکر کون تھا اور بھارت کی آزادی کی لڑائی میں اس کا کیا حصہ ہے‘‘۔ سرینواس بی وی نے وزارت پٹرولیم کے پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’’ساورکر کون تھا؟ انگریزوں کے پنشن پر پلنے والا، گاندھی جی کے قتل کی سازش میں شامل رہنے والا ایک ملک دشمن شخص تھا۔ یوم آزادی کے موقع پر ساورکر کو گاندھی جی سے بڑا دکھانا ان سبھی مجاہدین آزادی کی توہین ہےجن کی بدولت ہمیں آزادی ملی‘‘۔
سینئر صحافی رویش کمار نے یوم آزادی کی طویل تقریر پر کہا کہ گیارہ سال میں ایک بھی پریس کانفرنس نہ کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھاشن دینے کا بڑا شوق ہے۔ انہوں نے پی ایم مودی کی جانب سے یوم آزادی کے موقع پر کی جانے والی آر ایس ایس کی تعریف پر کہا کہ وزیر اعظم مودی کے اس بیان سے اپوزیشن کو یہ بتانے کا موقع مل گیا کہ آزادی کی لڑائی میں آر ایس ایس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا: ’’کیا مودی یہی چاہتے تھے کہ آزادی کی لڑائی میں آر ایس ایس کے کردار کو لے کر بحث شروع ہو جائے؟‘‘ رویش کمار کے یوٹیوب پوسٹ کا عنوان ہے: آر ایس ایس کو این جی او بتا کر وزیر اعظم نے تعریف کی یا نشانہ بنایا؟
‘ووٹ چوری’ کے الزامات کے درمیان ہارا ہوا امیدوار سپریم کورٹ میں جیت گیا
‘ووٹ چوری’ کے الزامات کے درمیان ایک چونکانے والی خبر سامنے آئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں انتخابات میں دھاندلی کی مختلف شکلیں کن کن طریقوں سے رائج ہیں۔ لیکن اگر شکست خوردہ امیدوار پرعزم ہو اور شواہد کے ساتھ اپنی بات رکھے تو وہ دھاندلی کو ثابت بھی کرسکتا ہے۔ انگریزی اخبار "دی ہندو” کی ایک رپورٹ کے مطابق پانی پت، ہریانہ کے بونالاکھو گاؤں کے سرپنچ کے انتخاب میں عدالتی چارہ جوئی کی نوبت آنے کے بعد سپریم کورٹ میں ووٹوں کی گنتی کی گئی اور اس کی ویڈیو گرافی بھی ہوئی جس سے پتہ چلا کہ موہت کمار جسے الیکشن میں ہارا ہوا ڈیکلیئر کیا گیا تھا وہ اچھے خاصے فرق سے جیت گیا۔ دراصل نومبر 2022 میں ہونے والے الیکشن میں موہت کمار کے مقابلے میں کلدیپ سنگھ کو فاتح قرار دیا گیا تھا۔ موہت کمار کی اپیل پر پانی پت کے اڈیشنل سِول جج (الیکشن ٹربیونل) نے اپریل 2025 میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم دیا لیکن پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے پر روک لگادی۔ اس کے بعد موہت کمار نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، چنانچہ سپریم کورٹ میں جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی والی تین رکنی بنچ نے پورے معاملہ کی سماعت کے بعد سرپنچ کے انتخاب میں استعمال ہونے والی چھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو منگوانے کا فیصلہ کیا اور سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل کو حکم دیا کہ 6 اگست کو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ایک رجسٹرار نامزد کریں اور اس دوران دونوں امیدوار، ان کے نامزدکردہ ایجنٹ اور ان کے وکلا عدالت میں موجود رہیں۔ جب گنتی کی گئی تو نتیجہ پلٹ گیا اور ہارا ہوا امیدوار فاتح ثابت ہوا۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے جب سپریم کورٹ میں ای وی ایم کھولی گئی، ووٹوں کی گنتی کی گئی اور جس امیدوار کو 2022 کے سرپنچ کے الیکشن میں شکست خوردہ قرار دیا گیا تھا وہ 51 ووٹوں کے فرق سے جیت گیا۔
اتر پردیش میں من پسند کے بی ایل او کی تعیناتی اور ووٹ کاٹنے کی کارروائی
دوسری طرف مین پوری کی رکن پارلیمنٹ ڈمپل یادو نے لوک سبھا میں یہ مسئلہ اٹھایا کہ مین پوری لوک سبھا حلقہ میں ووٹر فہرست سے لاکھوں ووٹ کاٹے گئے ہیں۔ اس کے لیے ترکیب یہ کی گئی کہ اپنے پسند کے یا من چاہے بوتھ لیول آفیسر (بی ایل او) کی ڈیوٹی لگائی گئی جس نے اپنی مرضی سے مخصوص ووٹروں کے نام ہٹانے کا کام کیا۔ اکثر معاملات میں زندہ شخص کو مردہ دکھا دیا گیا۔ بعض معاملات میں یہ بھی ہوا کہ ایک بوتھ سے ووٹ کاٹ کر 20 سے 30 کلومیٹر دور کسی دوسرے بوتھ کی ووٹر فہرست میں شامل کیا گیا۔ مقصد ظاہری طور پر یہ تھا کہ اپنے بوتھ پر جاکر جب ووٹر اپنا نام ووٹر لسٹ میں تلاش کرے گا تو اس کا نام نہیں ملے گا اور وہ اپنا ووٹ نہیں ڈال سکے گا۔ مین پوری حلقہ میں جن کے ووٹ کاٹے گئے تھے یا انہیں مردہ دکھایا گیا ان کی جانب سے تین ہزار حلف نامے الیکشن کمیشن دفتر میں جمع کیے گئے تھے مگر اس کا الیکشن کمیشن نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور کوئی کارروائی نہیں کی۔ مین پوری صدر حلقہ میں کئی افراد نے آن ریکارڈ یہ بات کہی ہے کہ 2022 کے الیکشن میں یادو اور مسلم بی ایل او ہٹائے گئے تھے اور دوسرے بی ایل او کی ڈیوٹی لگا کر ووٹر لسٹ سے مسلم اور یادو ووٹروں کے نام ہٹانے کا کام کیا گیا۔ بہار میں جاری ایس آئی آر میں دھاندلیوں کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کے بعد یہ تمام معاملے دوبارہ تازہ ہو گئے ہیں اور میڈیا کے نمائندے عوام سے اس مسئلہ پر ان کی رائے اور تبصرے ریکارڈ کر رہے ہیں، جس سے انتخابات میں دھاندلی کی مختلف شکلوں سے پردہ اٹھ رہا ہے۔
اتر پردیش میں آئندہ سال تین سطحی پنچایت انتخابات ہونے والے ہیں اور اس کی تیاریوں کی کڑی میں ووٹر لسٹ نظر ثانی پروگرام 2025 کے لیے بی ایل اوز کی ٹریننگ شروع ہو رہی ہے۔ مقامی میڈیا میں ایسی خبریں آرہی ہیں کہ یہاں بھی بی ایل او کی تعیناتی میں دھاندلیاں کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر صفائی ملازم، گرام سیوک اور روزگار سیوک کو بیسک شکشا یعنی بنیادی تعلیم محکمہ کا شکشا متر بتاکر انہیں بی ایل او بنا دیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اپنی پسند کے بی ایل او کی تقرری کرکے ووٹر لسٹوں میں دھاندلی کرنا مقصود ہے۔ اس میں گرام پردھان کے ساتھ بنیادی تعلیم محکمہ یا بلاک دفتر کی ملی بھگت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ متعلقہ تحصیل کے ایس ڈی ایم کو اس سلسلہ میں کارروائی کرنا چاہیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا بی ایل او کی تعیناتی کی گڑبڑیاں درست کی جائیں گی یا پھر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا اور ووٹر لسٹوں کی تیاری سے وابستہ عملہ کے سلسلہ میں شکایتوں پر کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔
ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ شہریوں کو ملک کے انتخابی عمل کے سلسلہ میں چوکنا اور مستعد رہنا ہوگا تاکہ ان کے منتخب کردہ حقیقی نمائندے ہی ایوان اقتدار میں پہنچ سکیں اور شفاف انتخابات کے ذریعہ حقیقی منتخب نمائندوں کی جواب دہی طے کی جا سکے۔
’ووٹ چوری‘ مہم کی قیادت کرنے والے راہل گاندھی نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے لکھا: چوری چوری، چپکے چپکے اب اور نہیں، جنتا جاگ چکی ہے ، ادھیکار بچاؤ۔ اسی طرح ایکس ہینڈل کبیرن پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے یہ لکھا گیا کہ ’’ای سی کو اپنا نام بدل کر ووٹ چور آف انڈیا (وی سی آئی) کر دینا چاہیے۔ ایک سی سی ٹی وی کیمرے نے چندی گڑھ میئر کے الیکشن کا نتیجہ پلٹ دیا تھا‘‘۔ رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کے پریس کانفرنس پر ایک پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ پریس کانفرنس میں آپ کے بیانات اور دعوے مضحکہ خیز تھے۔ ہمارے اوسط آئی کیو کو بی جے پی کیڈر کے جیسا مت سمجھیے۔ اس کے ساتھ مس موئترا نے اپنی ویڈیو بھی پوسٹ کی جس میں میں انہوں نے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسی طرح اموک نام والے ایکس ہینڈل سے بھی سی ای سی کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا گیا کہ ای سی آئی راہل گاندھی کا جواب دینے کے لیے آیا تھا مگر اس نے خود کو ہی بے پردہ کر دیا۔ یہ ایک طویل تھریڈ ہے جس میں الیکشن کمیشن کے طرز عمل کو ووٹروں کے حق میں نہایت منفی قرار دیا گیا ہے۔
دوسری طرف سینئر خاتون صحافی مسز ساکشی جوشی نے لال قلعہ سے پی ایم نریندر مودی کے ذریعہ سیمی کنڈکٹر کے سلسلہ میں دیے گئے بیان کو سب سے بڑا جھوٹ قرار دیا ہے۔ کانگریس نے اس پر وزیر اعظم کی گھیرا بندی کی تھی، جس کا حوالہ دیتے ہوئے مسز ساکشی جوشی نے اپنی ایکس پوسٹ میں کہا کہ مودی کے بقول پچاس ساٹھ سال پہلے سیمی کنڈکٹر کے خیال کو جنم لینے سے پہلے ہی مار دیا گیا تھا۔ یہ بات سچائی سے پرے ہے کیوں کہ 1983 میں ایچ سی ایل کے نام سے ایک ادارہ چنڈی گڑھ میں قائم ہوگیا تھا جہاں پر سیمی کنڈکٹر پر کام ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر متعدد افراد کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے جب پی ایم مودی نے جھوٹ بولا ہو۔ پندرہ اگست کی اپنی تقریر میں انہوں نے جی ایس ٹی میں اصلاح کی بات بھی کہی جس پر انہیں یاد دلایا گیا کہ لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی جی ایس ٹی کو گبّر سنگھ ٹیکس کہتے رہے ہیں۔ راہل گاندھی کے بیان میں کچھ نہ کچھ صداقت تھی اور یہ ٹیکس عوام پر بھاری پڑ رہا تھا۔ روزمرہ کے استعمال کی اشیا پر جب جی ایس ٹی کی شرح کم کی جائے گی تو یقیناً عوام کو راحت ملے گی، جس کا مطالبہ راہل گاندھی کرتے رہے ہیں۔
12 شہروں میں’سوچنا بھون’ کی تعمیر کا منصوبہ
مرکزی حکومت نے علاقائی میڈیا کے ساتھ رابطہ سازی بہتر بنانے کے لیے دہلی کے نیشنل میڈیا سنٹر کی طرز پر ملک کی 12 ریاستوں میں سوچنا بھون کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے اس منصوبہ سے پریس انفارمیشن بیورو، سنٹرل بیورو آف کمیونیکیشن، پبلیکیشن ڈویژن اور سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن ایک چھت کے نیچے آجائیں گے۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق پہلے مرحلہ میں لکھنؤ، دہرہ دون، چنڈی گڑھ، جے پور، پٹنہ، بھوبنیشور، گوہاٹی، احمدآباد، بنگلورو، تھرواننتھاپورم، حیدرآباد اور کولکاتہ میں یہ سوچنا بھون تعمیر کیے جائیں گے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025

hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |
hacklink panel |
casino siteleri |
deneme bonusu |
betorder |
güncel bahis siteleri |
cratosbet |
hititbet |
casinolevant |
sekabet giriş |
2025 yılının en güvenilir deneme bonusu veren siteler listesi |
Deneme Bonusu Veren Siteleri 2025 |
deneme bonusu veren siteler |
deneme bonusu veren siteler |
taksimbet giriş |
betpas giriş |
bahis siteleri |
ekrem abi siteleri |
betebet giriş |
gamdom |
gamdom |
gamdom giriş |
gamdom |
betsat |
ronabet giriş |
truvabet |
venüsbet giriş |
truvabet |