تک دس کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا بڑا چیلنج2030
پینتالیس سالوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے بلند
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
جملے بازی نہیں، روزگار کی اصل حقیقت سے ملک کو آگاہ کریں
شہری بے روزگاری اور کثیر لیبر والی صنعتوں کا زوال ایک سنگین چیلنج
ہریانہ کے علاوہ کشمیر میں انتخابی بگل بج چکا ہے اور ملک کی ان ریاستوں میں بے روزگاری آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ امسال ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات پر بیروزگاری کا گہرا اثر محسوس کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک کی روایت رہی ہے کہ کوئی بھی حکومت بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ موجودہ حکومت نے اعداد و شمار میں تبدیلی اور شماریاتی اداروں پر دباؤ ڈال کر روزگار کے من مانی اعداد پیش کیے۔ سرکاری اداروں نے بھی واضح کیا کہ ملک میں گزشتہ پینتالیس سالوں میں سب سے زیادہ بے روزگاری ہے۔ بے روزگاری پر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کو حکومت ہمیشہ سے رد کرتی رہی ہے۔ گزشتہ ماہ، آئی ایم ایف کی ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر نے دہلی میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ 2030 تک بھارت کو کم از کم چھ سے دس کروڑ اضافی روزگار پیدا کرنا ہوں گے۔ دیگر ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ یہ تعداد کم ہے اور ملک کے لیے دس کروڑ سے زائد روزگار کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو انتظامیہ اور حکومت کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ملک کے تین مشہور ماہرین اقتصادیات، پروفیسر ارون کمار، پروفیسر سنتوش مہلوترہ اور وجے مہاجن نے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی حقیقت کو اجاگر کیا ہے۔ وجے مہاجن نے بتایا کہ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف باون کروڑ افراد مختلف طور پر معیشت میں شامل ہیں، جن میں سے سینتالیس کروڑ افراد کے پاس کام ہے جبکہ پانچ کروڑ افراد کام کی تلاش میں ہیں۔ ہر سال دس کروڑ نئے افراد لیبر فورس میں شامل ہوتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کا لیبر فورس پارٹیسپیشن ریٹ (LFPR) دیگر بڑی معیشتوں کے مقابلے میں کم ہے، خصوصاً خواتین کی شمولیت بہت کم ہے۔ خواتین کی شمولیت جی-20 ممالک میں سب سے کم ہے اور ان کے لیے تحفظ اور سلامتی کی کمی ان کی شرکت میں کمی کا باعث ہے۔
جو لوگ روزگار حاصل کر چکے ہیں، ان کی اوسط آمدنی بہت کم ہے۔ آج آئی آئی ٹی ممبئی کے فارغ التحصیل طلبا کو 33 ہزار سے 50 ہزار روپئے کی ملازمت مل رہی ہے، اور پچیس فیصد آئی آئی ٹی فارغ التحصیل کو کوئی نوکری ہی نہیں ملی۔ آئی آئی ٹی سیکٹر کی شروعاتی تنخواہیں بھی اچھی نہیں ہیں۔ ملک میں صرف چار کروڑ لوگ باقاعدہ تنخواہ دار ملازمین کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ پروفیسر ارون کمار کے مطابق ملک میں چار طرح کے بیروزگار ہیں: وہ جو کام کی تلاش میں ہیں لیکن انہیں کام نہیں ملا، وہ جو ہفتے میں چوبیس گھنٹے سے کم کام کرتے ہیں، وہ جو ہفتے میں چھتیس گھنٹے سے کم کام کرتے ہیں، اور وہ جو بظاہر برسر روزگار ہیں لیکن حقیقتاً بے کار ہیں۔ پروفیسر مہلوترہ کے مطابق حکومت کے ذریعے بجٹ بڑھا کر پبلک سرمایہ کاری سے روزگار میں اضافہ ممکن نہیں ہے کیونکہ سرکاری سرمایہ کاری میں خالص نمو نہیں ہو رہی ہے۔
ملک میں خود روزگار اسکیموں کے ذریعے بھی روزگار کے مواقع پیدا کیے گئے ہیں، لیکن ان کی آمدنی بہت کم ہے۔ منریگا اور دیگر غیر مستقل محنت کشوں کی اوسط آمدنی بھی کم ہے۔
بھارت کی معیشت حالیہ برسوں میں بہتری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اسے دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتی معیشت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے لیکن اس کے سامنے روزگار کا سنگین چیلنج اب بھی برقرار ہے۔ ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے روزگار کی فراہمی انتہائی ضروری ہوگئی ہے، خصوصاً ان شعبوں میں جہاں زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جا سکے۔ لہٰذا لیبر انٹینسیو (Labor-Intensive) ایکسپورٹ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے۔
تاریخی طور پر لیبر انٹینسیو صنعتوں جیسے فینسی کپڑے، لباس، چمڑا اور ٹیکسٹائل روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں یہ سیکٹرز زوال پذیر ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش اور ویتنام جیسے ممالک نے چین کی غیر موجودگی میں عالمی بازار میں لیبر انٹینسیو مینو فیکچرنگ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے۔ حالیہ دنوں میں خاص طور پر فینسی لباس کی برآمدات میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت نے اس شعبے میں بڑے مواقع کو ضائع کیا ہے، حالانکہ یہ سیکٹرز روزگار کے اچھے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔
بھارتی مصنوعات کی عالمی مانگ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ دنیا کے بڑے بازار، جیسے لاطینی امریکہ اور افریقہ، بھارتی فینسی کپڑوں، فٹ وئیر، اور دیگر لیبر انٹینسیو پروڈکٹس کے لیے کھلے ہوئے ہیں، اور اس سے برآمدات کے مواقع بھی دستیاب ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھارت اپنی لیبر انٹینسیو پروڈکٹس کے برآمداتی دائرہ کار کو وسیع کرے۔ اس مقصد کے لیے پروڈکشن لنکڈ انسینٹیو (PLI) اسکیم میں ضروری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ نیم ہنر مند افراد کو مینوفیکچرنگ سیکٹر میں شامل کیا جا سکے۔
بھارت کے لیے عالمی ویلیو چینز (Global Value Chains) سے منسلک ہونا بھی انتہائی اہم ہے۔ تاہم، بھارت کا تحفظ پسندانہ رویہ، جیسے زیادہ ٹیرف لگا کر گھریلو صنعتوں کو تحفظ فراہم کرنا، قلیل مدتی فائدہ تو دے سکتا ہے لیکن اس سے عالمی مسابقت میں ہم پیچھے رہ رہے ہیں۔ اگر ہم درآمدی ٹیرف کو کم کرتے ہوئے عالمی ویلیو چینز کا حصہ بن جائیں تو ہمارے برآمدات زیادہ مسابقتی ہو جائیں گے اور معیشت کی نمو کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
ملک میں شہری بے روزگاری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور اگر حکومت مناسب پالیسی مداخلت نہ کرے اور ڈیموگرافک ڈیوینڈ (Demographic Dividend) کو صحیح طریقے سے استعمال نہ کرے تو یہ طاقت ایک بوجھ بن سکتی ہے۔ لہٰذا لیبر انٹینسیو سیکٹرز میں روزگار کی فراہمی نہ صرف ہماری معاشی ضرورت ہے بلکہ سماجی طور پر بھی ایک ناگزیر امر ہے۔
وزیر اعظم کو جملہ بازی سے پرہیز کرتے ہوئے نوجوانوں کو روزگار کے متعلق اصل حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا تاکہ ان کا اعتماد مجروح نہ ہو۔ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق ہریانہ میں پانچ ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ پر کنٹریکٹ کی بنیاد پر سوئپر کے لیے تقریباً تین لاکھ چھیانوے ہزار امیدواروں نے درخواست دی۔ ان امیدواروں میں چھ ہزار سے زیادہ پوسٹ گریجویٹس، چالیس ہزار گریجویٹس اور ایک لاکھ سترہ ہزار سے زیادہ بارہویں پاس افراد شامل ہیں۔ کیا اس صورت حال میں نوجوانوں کا اعتماد برقرار رہ سکتا ہے؟ ورلڈ بینک کے مطابق ملک میں شہری بے روزگاری سترہ فیصد سے زیادہ ہے۔
یہ وقت ہے کہ حکومت درست فیصلے کرے اور روزگار کی فراہمی کو اپنی اولین ترجیح بنائے، ورنہ بہت سے مواقع ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
***
تاریخی طور پر لیبر انٹینسیو صنعتوں جیسے فینسی کپڑے، لباس، چمڑا اور ٹیکسٹائل روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں یہ سیکٹرز زوال پذیر ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش اور ویتنام جیسے ممالک نے چین کی غیر موجودگی میں عالمی بازار میں لیبر انٹینسیو مینو فیکچرنگ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے۔ حالیہ دنوں میں خاص طور پر فینسی لباس کی برآمدات میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت نے اس شعبے میں بڑے مواقع کو ضائع کیا ہے، حالانکہ یہ سیکٹرز روزگار کے اچھے مواقع فراہم کر سکتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024