ء2024 کے عام انتخابات اور حزب اختلاف کی حکمت عملی
نظریہ اور اصل مسائل کوموضوع بناکر عوام تک پہنچنے کی ضرورت
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
محض اتحاد کافی نہیں بلکہ مد مقابل کی طاقت اور کمزوریوں کو پہچان کر مقابلہ کرنا ہوگا
حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیاں آنے والے عام انتخابات میں برسر اقتدار این ڈی اے کو شکست دینے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہے، این ڈی اے کو ہرانے کے لیے حزب اختلاف کی پارٹیاں کوئی کسر چھوڑنا نہیں چاہتیں، این ڈی اے کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف منصوبے بنائے جارہے ہیں، کانگریس جو سابق میں یو پی اے کی سربراہی میں حکومت کر رہی تھی اس نے بی جے پی کو ہرانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کی ایک نئی صف بندی بھی کی ہے جسے ’انڈیا‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس نئی سیاسی صف بندی میں اس کے علاوہ آر جے ڈی، جنتا دل سیکولر‘ عام آدمی پارٹی، اور دیگر چھبیس پارٹیاں شامل ہوئی ہیں۔ منصوبے تو بنائے جا رہے ہیں کہ کیسے بی جے پی کو ہرایا جائے؟ لیکن کیا یہ ساری سیاسی پارٹیاں بی جے پی کے کو ہرانے میں کامیاب ہوپائیں گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے، کارپوریٹ میڈیا ہاؤسز تو ’انڈیا‘ نامی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی اور مضبوط سیاسی پارٹی ہے جس کے لاکھوں کارندے ہیں کسی بھی اتحاد کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اسے ہرا سکے۔ ابھی سے بی جے پی کے حق میں سروے آنے شروع ہوچکے ہیں، بڑی جیت کی پیشن گوئی کی جاچکی ہے، ویسے اس قسم کا پروپیگنڈہ تو ایک عام بات ہے کیوں کہ جس کا کھاتے ہیں اسی کے گن گانا پڑتا ہے۔ کیا واقعی بی جے پی کو شکست دینا ناممکن ہے؟ کیا بی جے پی ناقابلِ تسخیر ہوچکی ہے؟ اگر آپ ٹی وی پر نیوز یا مباحث دیکھتے ہیں تو آپ یقین کرلیں گے کہ واقعی بی جے پی ناقابلِ تسخیر ہوچکی ہے، لیکن حقیقت مختلف ہوسکتی ہے، کوئی بھی حکومت یا کسی بھی لیڈر کے تحت چلنے والی حکومت مستقل اور ناقابل تسخیر نہیں ہوتی ، دنیا کی آنکھوں نے بڑے بڑے تانا شاہ دیکھے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی لوگوں کا یہی خیال تھا کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہیں لیکن ان کی حکومتیں ایسے ختم ہوئی جیسے پانی میں پیدا ہونے والے بلبلے۔
یہ صحیح ہے کہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کو ہٹانا اور ایک مضبوط شخصیت کو شکست دینا آسان کام نہیں ہوتا، اس کے لیے اچھی حکمتِ عملی اور بروقت فیصلے اور اس کے مقابل ایک قابل اعتماد اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے، آج ہم اسی موضوع پر گفتگو کریں گے کہ ایسی کیا باتیں ہیں جسے اپنا کر ایک مضبوط سیاسی پارٹی کو میدان سیاست میں دھول چٹائی جا سکتی ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ جس سے مقابلہ کیا جا رہا ہے اس کی قوت اور اس کی کمزوری کا اندازہ لگانا بے حد ضروری ہوتا ہے، اگر مقابلے میں اپنے مخالف کی طاقت اور اس کی استعداد کا اندازہ نہیں ہوگا تو کامیابی حاصل کرنا مشکل ہی ناممکن ہوجاتا ہے۔ اسی تناظر میں ہم بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی استعداد اور ان کی کمزوریوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہ کیا مواقع ہیں جو بی جے پی اپنے مخالفین کو فراہم کر رہی ہے، انہیں کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان باتوں پر توجہ نہیں رکھی گئی تو حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا ایک جگہ جمع ہوکر محض تصویریں لینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر حزب اختلاف یہ سمجھتی ہے کہ عوام محض ان کے بیانات اور گروپ کی شکل میں تصویریں کھنچوانے سے ان کے حق میں اپنی رائے قائم کر لیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہوگی۔ وہ کیا عوامل ہیں جن کے بل بوتے پر آج بی جے پی سیاسی اکھاڑے میں دندناتے پھر رہی ہے۔
بی جے پی کی سب سے بڑی قوت قومیت یعنی ہائپر نیشنلزم ہے، وہ ہر بات کو قومیت سے جوڑ دیتی ہے، اس کی ہر بات ’بھارت ماتا‘ کے تناظر میں ہوتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے وطن عزیز کی محبت میں کتنی صادق ہے، اس کی سب سے بڑی قوت قومیت ہی ہے، اس نے اپنے قومیت کے نظریہ کو عوام تک بڑی کامیابی کے ساتھ پہنچایا ہے، لوگوں نے اس کی قومیت کے نعرے کو ہاتھوں ہاتھ لیا، وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ وہی ایک واحد سیاسی پارٹی ہے جو ہندو قومیت کے نظریہ پر عمل پیرا ہے، عوام میں اس نے جنون کے حد تک اس نظریہ کو فروغ دیا، لوگوں نے بھی اس افیون کو امرت سمجھ کر پیا ہے، یہی بی جے پی کا سب سے بڑا ہتھیار بھی ہے۔ اب حزب اختلاف کو اسی جعلی ہندو قومیت کے نظریہ پر قدغن لگانا ہوگا، اس جھوٹے پروپگنڈے کے قومی نظریے کی حقیقت کو عوام کے سامنے آشکار کرنا ہوگا، لوگوں کو یہ بتانا ہو گا کہ حقیقی قومیت کا نظریہ کیا ہے، اور یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے، ان کے قومی نظریے کی قلعی کھولنا بچوں کا کھیل نہیں ہے، بڑے پیمانے پر عوام کو اس بات کا قائل کرنا ہوگا کہ حقیقی قومیت کا نظریہ کیا ہے، اصل میں قومیت کیا ہے، کون حقیقت میں ہندوستانی قومیت کا علمبردار ہے۔
ایک بات یہاں قابل غور ہے کہ بی جے پی اور حزب اختلاف کی جماعتوں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ بی جے پی اپنے ہندو قومی نظریے کو عوام تک پہنچانے کی ہرممکن کوشش کرتی ہے اور وہ بھی بہت بڑے پیمانے پر کرتی ہے، جس کے لیے وہ عوامی پروگرام کرتی ہے، ہر چند دنوں میں ایک عوامی مہم چلاتی ہے، جیسے گھر گھر بی جے پی، سمپرک سمردھن، مہا سمپرک یوجنا وغیرہ یہ اور اس جیسے بہت سے عوامی پروگرام کرتی رہتی ہے، جس سے اسے عوام میں نفوذ ملتا ہے۔ ان سارے پروگراموں کے ذریعے وہ اپنے بنیادی ہندو قومیت کے نظریے کو پیش کرتی ہے۔ حزب اختلاف کو بھی اسی پیمانے پر اس کے پراگندہ قومی نظریے کے جواب میں حقیقی قومیت کے نظریے کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا، اس کا مقابلہ کئے بغیر بی جے پی کو صرف سیاست کے ذریعے ہرانا ممکن نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کو انتخابات کے ذریعے ہرایا نہیں جاسکتا جب تک کہ اسے نظریاتی طور پر شکست نہ دی جائے۔ عوام کو یہ سمجھانا پڑے گا کہ بی جے پی کا قومی نظریہ غلط اور ناقابل عمل ہے۔ ان کے قومی نظریے میں اور ہمارے ملک کے قومی نظریے میں بہت فرق ہے۔ ہمارے قومی نظریے کی بنیاد کسی ایک مذہب پر نہیں ہے،بلکہ اس کی قومیت شہریت کی بنیاد پررکھی گئی ہے، اس میں مختلف رنگ و نسل اور مختلف مذہبی شناختوں کے ساتھ لوگ بستے ہیں، اسی لیے یہ ملک کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی جاگیر نہیں ہوسکتا۔ اسی متبادل قومی نظریے کو عوام تک پہنچانے کا کام حزب اختلاف کو کرنا ہوگا اور وہ بھی بہت بڑے پیمانے پر۔
دوسری بات ہندوتوا، بی جے پی کی دوسری قوت ہندوتوا نظریہ ہے، اس کی بنیاد ہندؤازم پر قائم ہے، وہ یہ کہتی ہے اور اس پر عمل بھی کرتی ہے کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے اور اس ملک کے باشندوں کا مذہب ہندوازم ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اس نظریے کا مخالف ہے یا اسے نہیں مانتا تو اسے حاشیہ پر لگایا جاتا ہے یا پھر اسے دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے، اس کے مقابلے میں حزب اختلاف کو چاہیے کہ وہ یہ کہے کہ ہندو الگ چیز ہے اور ہندوتوا الگ، یہ دونوں ایک نہیں ہیں، گو کہ راہول گاندھی کہتے ہیں کہ ہندو الگ چیز ہے اور ہندوتوا الگ، محض پریس کانفرنس کرنے سے یا بیان دینے سے یا کسی جلسے عام میں اس پر تقریر کردینے سے کام نہیں چلے گا، جو یہ کہتے ہیں کہ ہندو الگ ہے اور ہندوتوا الگ، انہیں چاہیے کہ ایک بڑی مہم چلائیں ، عوام کو آگاہ کریں، عوامی شعور کو بیدار کرنے کے لیے گھر گھر اس پیغام کو پہنچائیں ، تب ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی یہی تو کر رہی ہے کہ وہ گھر گھر اپنا پیغام پہنچا رہی ہے، اس کا فارمولا یہ ہے کہ ملک میں اسی فیصد ہندوہیں باقی بیس فیصد دیگر مذاہب کے ماننے والے، اس کا ماننا یہ ہے کہ اگر اسی فیصد ہندوؤں میں سے چالیس فیصد بھی اس کو ووٹ ڈالیں تو یہ تناسب اسے اقتدار میں لانے کے لیے کافی ہوجائے گا ۔ اگر حزب اختلاف کی جماعتیں کامیابی چاہتی ہیں تو انہیں بھی بڑے پیمانے پر مہم چلانی پڑے گی۔
تیسری بات بی جے پی کی کمزوریاں کیا ہیں؟ اس کا جاننا ضروری ہے، عوام جن موضوعات پر اس کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں ان باتوں کو لے کر اسے گھیرا جانا چاہیے، صحیح موقع پر صحیح وقت پر وار کرنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ مسائل کچھ اور زیر بحث ہوں اور حزب اختلاف کسی اور مسئلے پر کام کر رہا ہو، اس سے عوام میں پذیرائی حاصل نہیں ہوگی،عوام کی نبض جاننے کا ہنر ہونا چاہیے،
وہ کون سے مسائل ہیں جن پر بی جے پی عوام کو مطمئن نہیں کر پا رہی ہے، ان مسائل کی نشاندھی کرکے ان کو موثر انداز میں اٹھانا چاہیے، بی جے پی قومیت کے نظریے پر لوگوں کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوئی، ہندوتوا نظریہ پر ہندوؤں کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئی، اس بات پر بھی عوام کو قائل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن ہوا ہے، اورمودی قیادت پر بھی عوام کو قائل کیا گیا کہ مودی کے علاوہ کوئی لیڈر ہی نہیں ہے۔ ان کے علاوہ بی جے پی حکومت کے کام سے عوام کے عدم اطمینان کی مزید وجوہات کیا ہیں؟ حال ہی میں این ڈی ٹی وی اور سی یس ڈی یس کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ عوام مودی حکومت کی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہے، ترقی کے انداز سے عوام خوش نہیں ہیں، ملک کی معاشی صورتحال سے عوام مطمئن نہیں ہیں، بے روزگاری، مہنگائی، آمدنی میں بچت نہ ہونا، غریبی میں اضافہ، چھوٹے اور متوسط صنعتوں سے متعلق پالیسی، غیر منظم شعبے کے مسائل ، معاشی اور سماجی عدم توازن، من پسند سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دینا یا بڑے بڑے سرمایہ داروں کے قرض معاف کرنا، یہ تمام ایسے مسائل ہیں جن پرعوام مودی حکومت سے مطمئن نہیں ہیں، اس کمزروی کو حزب اختلاف اپنا میدان کار بناکراپنی قوت بڑھا سکتا ہے۔
چوتھی بات یہ کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں آپسی اختلافات پر جنگ کو انتخابات تک گنگا میں پھینک دیں، ایک دوسرے کی مخالفت میں بیان بازی بھی ہو رہی ہے اور دوسری طرف آپسی اتحاد پر کانفرنسیں ہو رہی ہیں، یہ دو باتیں متوازی طور پر نہیں چل سکتیں، تمام حزب اختلاف کی جماعتیں آپسی اختلاف کو دور کریں اس کو پس پشت ڈال کر آگے کی سوچیں ورنہ ان کے اپنے وجود کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اختلافات تو ہوں گے ہی لیکن ابھی کے لیے آپس میں جنگ بندی کی جانی چاہیے۔
پانچویں بات بی جے پی کے ویژن کے مقابلے میں دوسرا ویژن پیش کیا جائے تاکہ عوام کو واضح طور پرسمجھ میں آجائے کہ ملک کو مذہبی بنیادوں پر ذاتوں کی بنیادوں پر، فرقوں کی بنیادوں پر تقسیم کرنے والا کون ہے اور عوام کے درمیان اتحاد و اتفاق اور بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھانے والا کون، ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ ایک پارٹی کا ووٹ شئیر دوسری پارٹی کو منتقل ہو، ایسی کوششیں کرنی چاہیے، اگر ووٹ تقسیم ہوں گے تو بی جے پی کو راست فائدہ ہوگا، اس طرح کچھ عرصے کے لیے اپنے سارے اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ اور لائحہ عمل تیار کرنا چائیے۔ اگر ان پانچ باتوں پر سنجیدگی نہیں دکھائی گئی تو وہی حال ہوگا جو دو ہزار انیس میں ہوا تھا۔
***
***
بی جے پی کے ویژن کے مقابلے میں دوسرا ویژن پیش کیا جائے تاکہ عوام کو واضح طور پرسمجھ میں آجائے کہ ملک کو مذہبی بنیادوں پر ذاتوں کی بنیادوں پر، فرقوں کی بنیادوں پر تقسیم کرنے والا کون ہے اور عوام کے درمیان اتحاد و اتفاق اور بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھانے والا کون، ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ ایک پارٹی کا ووٹ شئیر دوسری پارٹی کو منتقل ہو، ایسی کوششیں کرنی چاہیے، اگر ووٹ تقسیم ہوں گے تو بی جے پی کو راست فائدہ ہوگا، اس طرح کچھ عرصے کے لیے اپنے سارے اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ اور لائحہ عمل تیار کرنا چائیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اگست تا 26 اگست 2023