2024کے لوک سبھا انتخابات پر عدم شفافیت کا سایہ

الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کی تقرری کا بل راجیہ سبھا میں منظور

نور اللہ جاوید، کولکاتا

من پسندطریقے سے تقررکردہ افسران سے آزادانہ کام کی توقع عبث
ای وی ایم مشینوں کی شفافیت کو یقینی بنانے سے گریزملک کے جمہوری کردار کے لیے خطرہ
ای وی ایم مشین سے متعلق ماہرین اور پروگرامنگ کے ماہرین کی رائے منقسم رہی ہے۔مختلف سائنس دانوں نے بھارت میں استعمال ہونے والے ای وی ایم مشینوں کے محفوظ ہونے پر سوالات کھڑے کئے ہیں ۔ بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ نے 2010 میں ایک مضمون شیئر کیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکی سائنسدانوں کے ایک گروپ بھارت کی الیکٹرانک مشینوں کو ہیک کیا ہے۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک امریکی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کہا کہ انہوں نے ہندوستانی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ہیک کرنے کی تکنیک تیار کی ہے۔
حالیہ اسمبلی انتخابات میں بڑی جیت کے فوری بعد بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے 12؍ دسمبر کو راجیہ سبھا میں الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کی تقرری سے متعلق ترمیمی بل کو اپوزیشن جماعتوں سے صلاح و مشورہ کیے بغیر ہی صوتی ووٹوں سے منظور کروالیا۔ اس بل کے پاس ہونے کے بعد مرکزی حکومت کو چیف الیکشن کمشنر اور دیگر عہدیداروں کے تقررات میں بالا دستی حاصل ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس سال کی شروعات میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں چیف جسٹس آف نڈیا کی شمولیت کو لازمی قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے مرکزی حکومت کی من مانی اور اپنی مرضی والے عہدیداروں کی تقرری پر قدغن لگنے کے امکانات روشن ہوگئے تھے۔ الیکٹورل بانڈز کے بعد مرکزی حکومت کا یہ دوسرا قدم ہے جس کی وجہ سے منصفانہ، شفاف وغیر جانبدارانہ الیکشن کے امکانات کو جھٹکا لگا ہے۔ اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد ایک بار پھر ای وی ایم مشین پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ای وی ایم مشین اور الیکٹورل بانڈ دو ایسے ایشوز ہیں جن کے تعلق سے سیاسی جماعتوں کا رویہ منافقانہ اور تضادات سے بھر پور رہا ہے۔بی جے پی کے سابق صدر اور ملک کے سابق نائب وزیر لال کرشن اڈوانی نے ای وی ایم مشین کے خلاف ملک بھر میں مہم چلائی تھی۔ سی پی آئی ایم جیسی جماعت بھی اس ایشو پر بی جے پی کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی، مگر آج یہی بی جے پی، ای وی ایم مشین کی سب سے بڑی طرف دار ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا بھی رویہ منافقانہ ہے۔ جب یہی اپوزیشن جماعتیں شکست سے دوچار ہوتی ہیں تو ای وی ایم مشین پر سوال کھڑے کرنے لگتی ہیں اور جیسے ہی ریاستی اسمبلی انتخابات میں جیت ملتی ہے تو خاموش ہوجاتی ہیں ۔اسی طرح الیکٹورل بانڈز پر سوال کھڑے والی سیاسی جماعتیں بالخصوص علاقائی اپوزیشن جماعتیں خود بڑی تعداد میں اس اسکیم سے فیض یاب ہو رہی ہیں۔ موجود مالی سال میں اڑیسہ کی حکمراں جماعت بیجو جنتا دل کو کل سیاسی چندہ الیکٹورل بانڈز کے ذریعہ ملا ہے۔ انڈیا اتحاد میں شامل ڈی ایم کے کو کل 186 کروڑ روپے کا چندہ ملا جس میں 185 کروڑ روپے الیکٹرولر بانڈز سے ملے۔ترنمول کانگریس کو موجودہ مالی سال میں 327 کروڑ روپے کا چندہ ملا جس میں سے کل 325 کروڑ روپے الیکٹرولر بانڈز سے حاصل ہوئے ہیں۔اسی طرح عام آدمی پارٹی کو نصف چندہ انتخابی بانڈز سے ملا۔ الیکشن کمیشن کی انتخابی آڈٹ رپورٹ 2021-22 کے مطابق بی جے پی کو کل 1,033,70 روپے چندہ ملا جس میں 58 فیصد چندہ الیکٹورل بانڈز سے ملا ہے ۔کانگریس کو 68 فیصد چندہ الیکٹورل بانڈز سے حاصل ہوا ہے، یعنی علاقائی جماعتوں کو چندے میں ملنے والی بڑی رقم نامعلوم ذرائع سے حاصل ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں صرف سی پی آئی ایم ہی ایک ایسی سیاسی جماعت جو الیکٹورل بانڈ کے ذریعہ چندہ نہ لینے کے اپنے فیصلے پر قائم ہے۔ ایسی صورت حال میں سوال یہ ہے کہ کیا 2024 کے لوک سبھا انتخابات شفاف و منصفانہ ہو سکیں گے۔ یہ تشویش اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ڈیپ فیکٹ (آرٹیفیشل انٹلی جنس) کے ذریعہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ آئی ڈی قوانین میں خامیوں کی وجہ سے ڈیپ فیکٹ کا سہارا لینے والے افراد آسانی سے پکڑ سے بچ جاتے ہیں۔ جب ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ڈیپ فیکٹ کا سہارا لے کر ووٹرس کے رجحانات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں تو پھر شفافت اور آزادانہ انتخابات کیسے ہوسکتے ہیں؟ مشہور صحافی گریج وششٹھ کہتے ہیں کہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے صحافی اور عالمی ادارے بھارت میں اگلے سال ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ گریج وششٹھ کہتے ہیں کہ ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ اہم مسئلہ ہے مگر معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔ ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کیے بغیر ڈیپ فیکٹ اور آرٹیفیشیل انٹلی جنس کے ذریعہ ووٹرس کے خیالات کو آسانی سے متاثر کیا جاسکتا ہے۔ یہ تکنیک اس قدر ترقی کرچکی ہے کہ ہر ایک ووٹر کے رجحان کا مطالعہ کرکے ایک ہی چیز کو مختلف طریقے سے پیش کرکے ہر ایک ووٹرکو متاثر کیا جاسکتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آزادی کے بعد سے ہی انتخابی اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ گزشتہ 75 برسوں میں انتخابی اصلاحات کی سمت کئی اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ای وی ایم مشین کا استعمال بھی انتخابی اصلاحات کے لیے کیا گیا تھا تاکہ بوتھ پر قبضہ اور لوٹ مار کا خاتمہ کیا جاسکے۔ تاہم یہ سوال بھی اہم ہے کہ ای وی ایم مشین کی آمد کے بعد کیا بوتھ پر قبضہ کرنے کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے؟انتخابی تشدد اور بوتھ پر ہنگامہ آرائی کے الزامات سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف لگاتی رہی ہیں۔ گزشتہ 75 سالوں میں جو انتخابی اصلاحات کیے گئے ہیں ان کی فہرست طویل ہے۔ان میں 1988 میں 61ویں آئینی ترمیمی ایکٹ کے ذریعے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی عمر 21 سال سے کم کر کے 18 سال کر دی گئی۔ 1988 میں الیکشن کمیشن کو بااختیار بناتے ہوئے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انتخابات کے لیے انتخابی فہرستوں کی تشکیل، نظرثانی اور تصحیح پر کام کرنے والے اہلکار الیکشن کمیشن میں ڈیپوٹیشن پر ہوں گے۔افسران ریاستی حکومت کے سامنے جواب دہ ہونے کے بجائے اپنے کام کاج کے لیے الیکشن کمیشن کو جواب دہ ہوں گے۔1989 میں آئینی ترمیم کے ذریعہ پولنگ کے دوران ای وی ایم کا استعمال ممکن بنا دیاگیا۔ 1999 میں گوا سمبلی انتخابات میں پہلی بار الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کا استعمال کیا گیا۔1989 میں، بوتھوں پر قبضے کی صورت میں انتخابات کو ملتوی کرنے یا ان کی جوابی کارروائی کے لیے ایک شق متعارف کرائی گئی۔الیکشن کمیشن نے 1993 میں ملک بھر میں ووٹروں کو تصویری شناختی کارڈ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ انتخابات کے دوران جعلی ووٹنگ اور ووٹروں کی نقالی کو روکا جا سکے۔ووٹنگ شروع ہونے سے 24 گھنٹے قبل اور بعد 48 گھنٹوں کے دوران، کسی بھی دکان، ریستوران یا دوسری جگہ، خواہ پرائیوٹ ہو یا عوامی، شراب یا دیگر نشہ آور اشیاء کی فروخت اور تقسیم پر روک لگادی گئی۔ 1971 کے نیشنل آنرز ایکٹ کی خلاف ورزی کی سزا کسی شخص کو پارلیمنٹ یا ریاستی مقننہ میں چھ سال کی مدت کے لیے عہدے کے لیے انتخاب لڑنے سے نااہل قرار دیتی ہے۔ 2010 کے بعد انتخابی اصلاحات کمیشن نے انتخابات میں خرچ ہونے والی رقم کی حد لوک سبھا انتخابات کے لیے 50 سے 70 لاکھ (اس ریاست کی بنیاد پر جہاں سے وہ الیکشن لڑ رہے ہیں) اور اسمبلی الیکشن کے لیے 20 سے 28 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن نے ایگزٹ پول کے نتائج صرف انتخابات کے آخری مرحلے کے اختتام کے بعد نشر کرنے کی ہدایت دی ہے۔ کمیشن نے ممکنہ ووٹرز کو کسی بھی طرح سے گمراہ یا تعصب کا شکار ہونے سے روکنے کے لیے یہ اقدام کیا۔ 2013 کے دوران الیکشن کمیشن نے پورے ملک میں پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹنگ کے دائرہ کار کو وسیع کرنےکا فیصلہ کیا۔اس سےقبل صرف بیرون ملک تعینات سفارت کار اور بہت کم تعداد میں دفاعی اہلکار ہی پوسٹل بیلٹ کے ذریعہ ووٹنگ کرسکتے تھے۔مگر الیکشن ڈیوٹی پر موجود افراد اور نوٹیفائیڈ ووٹرز کے ایسے چھ گروپ ہیں جو اب پوسٹل بیلٹ استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اہم اصلاحات جن میں نوٹا بھی شامل ہے متعارف کی گئیں۔ سپریم کورٹ نے بھی انتخابی اصلاحات کی سمت میں کئی اہم فیصلے کیے ہیں جیسے یونین آف انڈیا بمقابلہ ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز کیس 2002 کے مطابق امیدواروں کو اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرتے وقت اپنے تمام اثاثوں، قرضوں، مجرمانہ سزاؤں وغیرہ کے اعلان کو لازمی قرار دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے سیاست میں مجرمانہ پس منظر کے لیڈروں کو روکنے کے لیے سزا یافتہ افراد کے انتخابات میں حصہ لینے پر روک لگائی تھی۔سزا ہونے کے فوری بعد آرٹیکل 101(3) اور 190(3) کے تحت نااہلی کا قانون فوری نافذ العمل ہوجائے گا۔
تاہم انتخابی تبدیلیاں ایک جاری عمل ہے۔ وقت اور حالات کے مطابق تبدیلی ناگزیر ہے۔جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجٹیلائزیشن کے اس دور نے انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا ہے۔امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے انتخابات پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔امریکی سیاست داں اعتراف کرتے ہیں کہ روسی ہیکرز نے امریکی صدارتی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی اور انہیں کامیابی ملی۔ چنانچہ کسی بھی اصلاح سے متعلق یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ اصلاحی قدم اول و آخر ہے اور اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔مگر ای وی ایم سے متعلق الیکشن کمیشن کا رویہ ضد اور انانیت پر مبنی ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ اس پورے سسٹم کو ہیک کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کا ہمیشہ سے ایک ہی موقف رہا ہے کہ ای وی ایم کا پورا عمل شفاف اور فول پروف ہے۔ ای وی ایم مشین طویل جانچ کے عمل سے گزرکر بوتھ پر پہنچتی ہے۔ کون سی مشین کس حلقے میں جائے گی اور کس بوتھ پر اسے رکھا جائے گا، آخری لمحے تک کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح پولنگ شروع ہونے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی موجودگی میں تمثیلی پولنگ ہوتی ہے اور پھر ان میں سے ہر ایک مشین کی جانچ کی جاتی ہے اور اس کی تسلی بخش رپورٹ آنے کے بعد ہی پولنگ شروع ہوتی ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ای وی ایم مشین سے متعلق ماہرین اور پروگرامنگ کے ماہرین کی رائے منقسم رہی ہے۔مختلف سائنس دانوں نے بھارت میں استعمال ہونے والے ای وی ایم مشینوں کے محفوظ ہونے پر سوالات کھڑے کیے ہیں۔ بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ نے 2010 میں ایک مضمون شیئر کیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے بھارت کی الیکٹرانک مشینوں کو ہیک کیا ہے۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک امریکی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کہا کہ انہوں نے ہندوستانی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ہیک کرنے کی تکنیک تیار کی ہے۔ سنٹر فار انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی جو انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز پر پالیسی اور تعلیمی نقطہ نظر سے بین الضابطہ تحقیق کرنے والا ادارہ ہے، اس کے ڈائریکٹر پرنیش پرکاش کا کہنا ہے بھارت میں استعمال ہونے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں سب سے آسان ہیں، جن میں کوئی بڑی تکنیک نہیں ہے۔ آپریٹنگ سسٹم کی ضروریات اور نیٹ ورکنگ نہیں ہے۔ اس طرح سافٹ ویئر ڈیزائن کے نقطہ نظر سے یہ واقعی اچھی ہیں اور ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے امکانات کم ہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ فول پروف ہیں۔ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک اس پر بھروسہ نہیں کرتے۔ یہ مشینیں یقینی طور پر جمہوری انتخابات کے لیے کافی محفوظ نہیں ہیں۔
نئی دہلی میں مقیم سیکورٹی محقق اور تکنیکی ماہر کرن سینی بتاتے ہیں کہ 2010 میں سیکیورٹی محقق ہری کے پرساد، جے ایلکس ہالڈرمین اور روپ گونگ گریجپ پر مشتمل گروپ نے دوسری نسل کی ای وی ایم مشین کو دو الگ الگ طریقے سے ہیک کرکے ای وی ایم مشین کے محفوظ ہونے کی قلعی کھول دی اور مشین میں موجود کمزوریوں کو سامنے لایا ہے۔بعد میں ہری کے پرساد کو چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جب کہ ای وی ایم کی دوسری نسل کو مرحلہ وار ختم کردیا گیا ہے۔ پرساد نے ہندوستانی انتخابات میں زیادہ شفافیت اور تحفظ کی وکالت جاری رکھتے ہوئے 2019 میں اپنی تحقیق میں دعویٰ کیا کہ تیسری نسل کی ووٹنگ مشینیں بھی ہیکنگ کا شکار ہوسکتی ہیں۔ جمہوریت کے ان اہم آلات کی مسلسل چوکسی اور جانچ پڑتال کی ضرورت پر انہوں نے کافی زور دیا ہے۔
امریکی شہر لاس ویگاس، نیواڈا میں ہر سال دنیا بھر کے ہیکرز اور سیکیورٹی پیشہ ور افراد کا سب سے بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے۔ووٹنگ ولیج نے برسوں سے کانفرنس کے شرکاء کو ووٹ ڈالنے اور گنتی کی مشینوں کی مختلف اقسام اور ماڈلز میں سیکیورٹی کے کمزوریوں کو آزمانے اور ان سے پردہ اٹھانے کی دعوت دی ہے۔ ووٹنگ ولیج میں ووٹنگ مشینوں میں حفاظتی کمزوریوں کی نشاندہی کی بہت سی کوششیں کامیاب رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک 11 سالہ نوجوان نے، جس کا نام ایمریٹ بریور ہے، 2018 میں ووٹنگ ولیج میں ایک خاص قسم کی ووٹنگ مشین کو ہیک کرکے سب کو چونکا دیا تھا۔بھارت جیسے کثیر رقبہ، کثیر آبادی اور کثیر جماعتی  والےملک میں انتخابی عمل کو مکمل کرانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔روایتی بیالٹ پیپرز کے مقابلے انتخابی عمل میں ای وی ایم کے استعمال کے بہت سے فوائد ہیں۔اس سے ووٹنگ کا عمل آسان اور گنتی بھی آسان ہو جاتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی ان مشینوں کے ساتھ بغیر کسی تکنیک کے بآسانی چھیڑ چھاڑ کرسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ای وی ایم مشین پر اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے تمام انتخابات میں وی وی پی اے ٹی مشینوں کا استعمال کرنے کی ہدایت دی تھی۔اس کے بعد الیکشن کمیشن نے کئی حلقوں میں وی وی پی اے ٹی مشینیں لگائیں۔ تاہم اس نظام کی افادیت پر یقین نہ ہونے کے باعث الیکشن کمیشن نے خود ہی پیپر ٹریل مشین کی کارکردگی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا، جو ووٹر کو رسید دیتی ہے، اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ ووٹ اسی امیدوار کے حق میں گیا جس کے نام کا بٹن دبایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں ای وی ایم مشین کی شفافیت سے بالخصوص ای وی ایم کے سورس کوڈ کو ظاہر کرنے سے متعلق عرضیوں پر چند مہینے قبل سپریم کورٹ کی تین ججوں پر مشتمل بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس چند چوڑ کر رہے تھے، اس بنیاد پر سماعت سے انکار کر دیا کہ ای وی ایم کے سورس کوڈ کو ظاہر کرنے سے شرپسند عناصر کو مشینوں کی حفاظت میں رکاوٹ ڈالنے کا موقع ملے گا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بڑے پیمانے پرتنقید کی گئی اور سوال کیا گیا کہ کیا راز داری کو ترجیح دینے سے کوئی نظام محفوظ ہوجائے گا؟ سپریم کورٹ نے جن دو وجوہ سے ان عرضیوں کی سماعت سے انکار کیا، ماہرین ان ہی وجوہ پر تنقید کر رہے ہیں۔ تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں پہلے یہ کہا کہ عدالت کے سامنے کوئی ایسا مواد موجود نہیں تھا جس سے یہ ظاہر ہو کہ الیکشن کمیشن اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہا ہے۔ دوسرا، سورس کوڈ کو ظاہر کرنے سے ای وی ایمز میں حفاظتی کمزوریوں کو بے نقاب کرکے انتخابی عمل کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور بدنیت افراد اس کا استحصال کرسکتے ہیں۔
ملک کے مشہور وکیل اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل مشہور انگریزی ویب سائٹ ’’دی وائر‘‘ کو انٹرویو دیتے کہتے ہیں کہ ای وی ایم مشین کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں آسانی سے یہ معلوم کرلیتی ہیں کہ کس علاقے میں اس کے حق میں ووٹنگ ہوئی اور کس علاقے میں نہیں ہوئی۔اس کی وجہ سے ووٹنگ کے عمل کو راز میں رکھنے کے حق کو نقصان پہنچتا ہے۔ دوسرا یہ کہ علاقے کی ترقی بھی متاثر ہوتی ہے۔ کپل سبل کہتے ہیں کہ ان سب کی روشنی میں عدلیہ اور انتخابی اتھارٹی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ای وی ایم کے آڈٹ کے عمل اور سورس کوڈ کے افشاء کے بارے میں اپنے موقف کا از سر نو جائزہ لے۔ راز داری پر شفافیت کو ترجیح دے کر، عدلیہ اور الیکشن کمیشن جمہوری نظام میں اعتماد پیدا کرنے میں مدد کرسکتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ مستقبل کے انتخابات منصفانہ اور درست طریقے سے منعقد ہوں۔ مداخلت یا ہیرا پھیری کی ممکنہ کوششوں سے حفاظت کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کے ساتھ انتخابی عمل میں شفافیت کی راہ میں صرف ای وی ایم مشین ہی رکاوٹ نہیں ہے بلکہ کئی ایسے اہم شعبے ہیں جن میں بجائے خود شفافیت کی ضرورت ہے۔الیکشن کمیشن بطور ادارہ اپنی آزادی اور خود مختاری کو بچانے میں ناکام ثابت ہوتا جا رہا ہے۔ وہ حکم راں طبقے کی جانب سے کی جانے والی ہے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کی جرأت کرنے سے بھی قاصر نظر آیا ہے۔راجیہ میں منظورہ ترمیمی بل اگر قانون کا درجہ حاصل کرلیتا ہے تو من پسند افسروں سے شفافیت اور آزادانہ کام کرنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔بھارت کے انتخابی عمل میں شہریوں کی عدم شراکت داری بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔2019 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران کل 912 ملین اہل ووٹروں میں سے، صرف 67 فیصد کے قریب ووٹروں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔یہ کسی عام انتخابات میں اب تک ہونے والے ووٹوں کا سب سے زیادہ فیصد تھا۔ جس پارٹی نے اکثریت حاصل کی اس نے کل ٹرن آؤٹ میں سے 37 فیصد ووٹ حاصل کیے جو کہ کل اہل ووٹوں کا صرف 25 فیصد ہے۔ تقریباً 30 کروڑ اہل ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی کا استعمال نہیں کیا۔
الیکٹرولر بانڈز، الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کی تقرری میں حکومت کی بالادستی، ای وی ایم مشین پر اٹھنے والے شکوک و شہبات اور نوجوانوں کی ووٹنگ کے عمل میں عدم دلچسپی کئی ایسے اہم مسائل ہیں جن کی وجہ سے انتخابی عمل مکمل طور پر شفاف اور آزادانہ نہیں ہوسکا ہے۔جمہوریت میں عوام کی شرکت، شمولیت اور حصہ داری لازمی ہے۔اس کے بغیر منتخب کیے گئے حکم راں جماعت سے جواب دہی کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تاہم، یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب سیاسی جماعتیں متحد ہوکر شفافیت کے لیے کام کریں گی۔
***

 

***

 انتخابی عمل میں شفافیت کی راہ میں صرف ای وی ایم مشین ہی روکاوٹ نہیں ہے بلکہ کئی ایسے اہم شعبے ہیں جن میں بجائے خود شفافیت کی ضرورت ہے۔الیکشن کمیشن بطور ادارہ اپنی آزادی اور خودمختاری کو بچانے میں ناکام ثابت ہوتا جارہا ہے۔وہ حکمراں طبقے کی جانب سے کی جارہی ہے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کی جرأت کرنے سے بھی قاصر نظر آیا ہے۔راجیہ میں منظورہ ترمیمی بل اگر قانون کا درجہ حاصل کرلیتا ہے تو من پسند افسران سے شفافیت اور آزادانہ کام کرنے کی امیدنہیں کی جاسکتی ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023