کے انتخابات مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ2024

سیکولر پارٹیوں کی حمایت کے ساتھ ہی’ مسلم قیادت ‘ پر توجہ دینا ضروری

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

حکومت خواہ جس کی بھی بنے ملی مسائل کو نظراندازکیے جانے سے بچایا جائے
ہندوستان میں 2024 کے عام انتخابات کے نتائج نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ عام ووٹر حتمی کنگ میکر ہے، جو جمہوریت میں یقین رکھتا ہے اور آسانی سے سرکاری نظام کے داؤ پیچوں کے جھانسے میں نہیں آتا ہے اور مزید یہ کہ ملک کے 67فیصد سے بھی زائد عوام آج بھی بی جے پی مخالف ہیں۔
بی جے پی جس اعتماد کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی رہنمائی میں 2024 میں انتخابی میدان میں اتری تھی اس کو عام ووٹروں نے توڑ دیا اور ساتھ ہی ملک کو مزید عدم برداشت اور اکثریت پرستی کی کھائی میں گرنے سے بچا لیا۔ یہ سب تب ہوا جب ایک کا خدمت گزار میڈیا کے باوجود، جو پوری انتخابی مہم کے دوران حکم راں جماعت کا ترجمان بنا رہا اور جس نے ایک بار یہ انتخابی عمل ختم ہونے کے بعد مودی کے نعرے ’اب کی بار 400 پار‘ کے مطابق پیشن گوئی کرنا شروع کردی تھی۔ اور جب انتخابات کے حقیقی نتائج آنا شروع ہوئے تو اسی میڈیا نے محض چار گھنٹوں میں اپنے سُر بدلنے شروع کر دیے۔
ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ 2014 اور 2019میں جو مرکزی حکومت بنی تھی وہ بی جے پی کی حکومتیں نہیں تھیں بلکہ این ڈی اے کی قیادت والی حکومتیں تھیں اور بی جے پی نے دانستہ طور پر اسے بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے طور پر پیش کیا حالانکہ وہ این ڈی اے کی سب سے بڑی پارٹی تھی۔ دوسری بات یہ کہنا کہ بی جے پی کو آنے والے نتائج کا کوئی اندازہ نہیں تھا، یہ بھی ایک غلطی ہوگی۔ یہ اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابی عمل کے پہلے دو مرحلوں کے فوراً بعد پی ایم مودی نے فوری طور پر اپنے سُر اور اپنی حکمت عملی بدل لی اور اپنی تقریروں کے ذریعے فرقہ پرستی کے بیج بونے کے اپنے پرانے طریقے کا سہارا لینا شروع کر دیا، اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا، روئے دھوئے اور خود کے بھگوان ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا لیکن انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ ان کے سارے پینترے انہی کے خلاف کام کرگئے۔
مزید برآں، ضروری بات یہ ہے کہ ان عوامل کا تجزیہ کیا جائے جو بی جے پی کی شکست کے ذمہ دار ہیں، اور اس حقیقت کو بھی ثابت کر دیں کہ ہندوستانی مسلمان یکساں طور پر ووٹ نہیں دیتے ہیں۔مزید یہ کہ اس مرتبہ 78مسلم امیدوار میدان میں تھے جن میں سے 24مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جبکہ 2019کے انتخابات میں 115 مسلم امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور 26ہی فتح یاب ہوئے تھے۔
2024 میں جیتنے والے مسلم امیدواروں کی جیت کی ایک وجہ کانگریس کی رہنمائی میں تشکیل دیا گیا ‘انڈیا’ اتحاد ہے۔ پچھلے انتخابات میں مسلمانوں نے عام طور پر سماج وادی پارٹی یا کانگریس کو ووٹ دیا تھا نتیجے میں مسلم ووٹ کانگریس اور ایس پی کے درمیان تقسیم ہوئے، کیونکہ وہ الگ الگ لڑے تھے۔ لیکن اس بار ایس پی اور کانگریس ساتھ رہے، اس لیے مسلم ووٹ منقسم نہیں ہوئے اور نتیجہ خیز رہے۔ اس کے برعکس ایسے 24انتخابی حلقے ہیں جہاں پر مایاوتی کی بی ایس پی نے انتخابات کا فیصلہ بی جے پی کے حق میں کروایا۔
اس بار مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہد کی وجوہات تلاش کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے مثلاً رام مندر اور تمام شعبوں میں ہندتو کے بیانیے وغیرہ۔ پالیسی کی سطح پر سی اے اے اور این آر سی پر مودی حکومت کے اقدامات کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے تھے۔ بہت سے لوگوں نے ان اقدامت کے ذریعے مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی سرکاری چال کے طور پر دیکھا۔ اس کے علاوہ اس دور میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہونے والے لنچنگ کے واقعات نے بھی بی جے پی کے خلاف ماحول بنانے میں کام کیا۔
چوٹ اور بیگانگی کا نتیجہ واضح طور پر ووٹنگ کے انتخاب کو متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، مغربی بنگال میں، سی اے اے کے نفاذ سے بی جے پی کو ہندو پناہ گزینوں کی اکثریت والے سرحدی اضلاع میں اپنے ووٹ کی بنیاد کو مضبوط کرنے میں مدد ملی، لیکن اس کے نتیجے میں ممتا بنرجی اور ٹی ایم سی کے پیچھے مسلم ووٹوں کی اکثریت نے مستعدی سے انہیں حمایت دے کرٹی ایم سی کو فتح دلائی۔ مہاراشٹر میں، خاص طور پر ممبئی میں، مسلمان شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے دھڑے کی طرف جھکتے ہوئے نظر آئے، جو اس کے پرانے دشمن کی میراثی پارٹی ہے،لیکن اس مرتبہ وہ بی جے پی کے اتحاد میں شامل نہیں تھی اس لیے مسلمانوں نے اس کے امیدواروں کی حمایت کی ۔
بہر حال، اگرچہ آپ کو خوشی محسوس ہو سکتی ہے کہ اتنے سارے مسلم امیدوار جیت گئے، لیکن یہ لمحہ نام نہاد مسلم مذہبی، سیاسی اور سماجی رہنماؤں اور یہاں تک کہ عام مسلمانوں کو بھی توقف اور غور و فکر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، چاہے بی جے پی کا نقصان ان کی وجہ سے ہوا ہے یا نہیں ۔
اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر بی جے پی پارٹیوں نے بی جے پی کے پیچھے ہندو ووٹروں کے اکٹھے ہونے سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو بہت زیادہ انتخابی ٹکٹ دینے سے گریز کیا۔
مزید برآں، کانگریس پارٹی، سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل، ترنمول کانگریس پارٹی، دراوڑ منیترا کزگم اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) تمام بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے انتخابی منشور کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر نے لفظ ’مسلمان‘ اپنے منشوروں میں استعمال نہیں کیا۔ساتھ ہی وہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔ سماج وادی پارٹی نے انتخابی مہم کے لیے ایک نئی کیچ لائن بنائی: پچھڑا، دلت اور الپاسنکھیک یعنیPDA اور اپنی مسلم نواز تصویر سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ کانگریس پارٹی نے جو ہندوستانی اتحاد کی قیادت کرتی ہے، اس نے بھی اپنے منشور میں لفظ’ مسلم‘ استعمال کرنے سے گریز کیا۔ اس کا فوکس سماجی مساوات اور ملازمتوں اور دیگر سرکاری اداروں میں غیر مراعات یافتہ ذات کے ہندوؤں کی نمائندگی کرنے پر رہا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے ہندو اکثریتی دباؤ نے مسلم مسائل کو عوامی گفتگو اور منظر نامے سے یکسر غائب کر دیا ہے۔
مختلف سیاسی پارٹی کے امیدواروں اور رائے دہندگان کی حیثیت سے مسلمانوں سے بی جے پی کی نفرت کے زیادہ واضح سوال میں نہیں جانا چاہیے، لیکن نتائج سے ہمیں یہ سوچنا ضروری ہوجاتا ہے کہ ملک کی آزادی کے 77ال بعد ہندوستانی مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟کیا وہ سیاسی، معاشی، تعلیمی یا سماجی طور پر کامیاب ہوئے ہیں یا مسلسل نیچے کی طرف جارہے ہیں؟درحقیقت وہ مسلم قوم کے لیے مثبت اقدامات یعنی کہ Affirmative Actionکی تلاش میں یکے بعد دیگرے حکومتوں کو تشکیل دینے میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ،لیکن ایک قوم کے طور پر دوسری قوموں کے مقابلے میں ترقی حاصل کرنے کے لیے اپنے طور پر وہ کچھ کرتے نظر نہیں آ رہے ہیں اور اسی میں ان کی زبوں حالی کا راز چھپا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سیاسی طور پر مسلمانوں کو کل ہند سطح پر ایک سیاسی پارٹی کی شکل میں ایک مضبوط اور مربوط آواز نہیں مل سکی ہے۔ ناقدین ایسے کسی اقدام کو یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ 15تا 20سیٹیں جیت کر بھی آپ کو کیا ملے گا۔لیکن ان لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس وقت 16 سیٹوں کے ساتھ چندرابابو نائیڈو، 13 سیٹوں کے ساتھ نتیش کمار اور 7 سیٹوں کے ساتھ ایکناتھ شندے مرکزی حکومت بنانے کے کام میں کنگ میکر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تو کیا مسلمانوں کو توقف اختیار کر کے ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے کی ضرورت پر غور کرنا چاہیے یا نہیں؟ موجودہ حالات میں ہم اپنے مقامی مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کی پیروی علاقائی اور صوبائی سطح پر کرتے رہیں، اور صرف یہ سوچ کر کہ اس سے کیا ہوگا کوئی بھی مثبت حکمت عملی نہ اپنائیں اور نہ ہی کوئی عملی کاوش کریں اور دوسروں کے مرہونِ منت رہیں اس سے بہتر یہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلم امت ایک مشترکہ تشخص پیدا کریں اور مسلم قیادت کو مقامی اور مرکزی سطح پر مضبوط بنانے کی بھی کوشش کریں، یہی حالات کا تقاضا اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جون تا 22 جون 2024