2024 کے انتخابات میں مسلمان بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔۔۔

ملک کے 288پارلیمانی حلقوں میں مسلم ووٹ اثر انداز ہوسکتے ہیں

ایم آصف اقبال، مہاراشٹر

سیاسی بے شعوری، جذباتیت اور حکمت عملی کے فقدان نے مسلمانوں کو بے وزن بنا دیا ہے۔ اتحاد ضروری
ملک میں مسلمان تہذیبی ثقافتی و دینی لحاظ سے ایک منفرد اور مضبوط اکائی ہیں تاہم حقیقت کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں بیس کروڑ کی کثیر آبادی کی حامل ملت اسلامیہ سیاسی حیثیت سے منظر نامے کے افق سے بڑی حد تک غائب نظر آتی ہے بلکہ الفاظ کی چبھن کا احساس نہ ہو تو یہ کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے کہ حاشیہ بر دار بن چکی ہے۔ اس انحطاط وزوال کے کئی پیچیدہ وجوہات و مضمرات ہو سکتے ہیں لیکن بعض وجوہات میں سے ایک اہم و بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد ہر دور کی حکومتوں نے (جس کے قیام میں مسلمانوں کا کلیدی کردار رہا ہے) غیر اعلان شدہ منصوبہ بند اور مسلم مخالف حکمت عملی کے تحت منصوبہ ساز رہنماؤں نے تدریجاٌ کچھ اس طرح مکارانہ خاموشی کے ساتھ ملکی سیاست کی بساط سے کنارہ کشی اختیار کی کہ وہ عددی اعتبار سے با اثر ہونے کے باوجود بے وزن ہوکر رہ گئے ہیں۔ لہٰذا انہیں سیاسی، سماجی، تعلیمی و مذہبی غرض کہ ہر میدان میں اپنے تحفظ و بقاءکے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس انحطاط و تنزلی کے لیے دوسری وجہ مسلمانوں کی اپنی سیاسی بے شعوری ضرورت سے زیادہ جذباتیت، کم علمی، آپسی انتشار، نفسیاتی خوف اور بعض اپنے ہی موقع پرست سیاسی رہنماؤں کے کمال کا بھی بڑا دخل ہے۔ آزادی کے بعد پچھتر سالہ طویل سفر کے دوران مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں تو بتدریج اضافہ ہوتا رہا جس کے نتیجے میں مسلمان لازمی طور سے اقتدار کی سیاست میں مضبوط پوزیشن اختیار کرنا چاہیے تھا لیکن ابھی تک کی تاریخ و شواہد سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ سیاسی شطرنج کی بساط پر بے وقعت ہی ثابت ہوئے ہیں۔
سیاسی اتار چڑھاؤ اور حکومتوں کے آنے جانے کے مطالعہ وتجزیے کے بعد یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ جن حکومتوں کی بنیادیں قائم کرنے اور اسے مضبوط بنانے میں مسلمانوں کی بے لوث محنتیں کار فرما رہی ہیں ان حکومتوں سے انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ اقتدار میں مناسب حصے داری تو دور ان کے سامنے پہاڑ جیسے سنگین مسائل مثلا مسلم پرسنل لا، فرقہ وارانہ فسادات کا لامتناہی سلسلہ، تعلیمی اداروں کے اقلیتی کردار کا مسئلہ، دینی مدارس پر شب خون مارنا، اردو زبان کا مسئلہ، یکساں سول کوڈ، مساجد، اوقاف اور بابری مسجد کے مسئلہ کے ساتھ ہی روزگار اور تحفظ وغیرہ کے انبار کھڑے کیے گئے تاکہ وہ اقتدار کی سیاست سے دور رہیں۔ ڈر و خوف اور بے بسی کی صورت حال کو ہمیشہ برقرار رکھنے کی کوششیں کی گئیں نتیجتاً مسلمان نام نہاد سیکولرازم کی حمایت میں قطار در قطار ووٹ پول کرنے والا گروہ بن گیا۔ مسلمانان ہند کی سیاسی سماجی تعلیمی اور معاشی صورتحال کو سچر و دیگر کمیٹیوں کی رپورٹوں نے بہتر طریقے سے واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کو آئینہ دکھایا ہے۔
تمام سازشوں منصوبوں اور خفیہ حکمت عملیوں کے باوجود تصویر کا دوسرا خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں حوصلہ بڑا ہے اور پہلے کی بہ نسبت سیاسی و تعلیمی بیداری اور قوت فکر میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے اور وہ عملی اعتبار سے مختلف پلیٹ فارموں سے مثبت جدوجہد دکھائی دینے لگے ہیں۔ اس جہدِ مسلسل کے ثمرات مستقبل میں کیا اور کس طرح بر آمد ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم، پیدا ہونے والی بیداری مثبت انداز سے انگیز کرنے کے ساتھ ہی ذی شعور افراد کو سیاست سے وابستہ ہو کر باہمی امداد کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
2024، ملک میں عام پارلیمانی انتخابات کا سال ہوگا۔ یہ انتخابات آزاد بھارت کی تاریخ میں اس لیے بھی اہم ہوں گے کیونکہ نفرتی ماحول اپنے عروج پر ہے، ملک کی فلاح وترقی کے لیے قانون سازی کرنے والی پارلیمنٹ سے لے کر سڑکوں تک حالات کو بدتر بنانے کی سازشیں اور کوششیں ہو رہی ہیں۔ پچھلے دنوں ہونے والے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے دوران بی جے پی کے ایک رکن نے بہوجن سماج پارٹی کے رکن دانش علی کو انتہائی مغلظات بک کر پارلیمنٹ وآئین کی توہین کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ امریکی حکومت کی ہیومن رائٹ کمیٹی کی مذہبی آزادی پر جاری ایک رپورٹ (15؍ مئی 2022) کےمطابق ’بھارت میں مذہبی آزادی کی صورت حال انتہائی خراب تر ہے بلکہ نسل کشی کے جن دس مراحل کا ذکر کیا گیا ان میں سے آٹھ مراحل گزر چکے ہیں اور نواں اور دسواں مرحلہ نسل کشی کا باقی رہ گیا  ہے۔ بہرحال ملک میں اپریل و مئی 2024 کے درمیان عام انتخابات کا ہونا طے ہے حالانکہ اس سے قبل بھی تاریخوں کے اعلان کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے اسی کے پیش نظر ملکی وہ ریاستی سطح کی تمام پارٹیاں پیش بندی میں مصروف ہو چکی ہیں اور عوام کے مزاج اور ووٹروں کے رجحانات جاننے کے عمل میں تیزی دکھائی دے رہی ہے۔ پارٹیوں کی تمام تر کوششیں اقتدار کو حاصل کرنے کے لیے ہیں تاکہ فلاح وبہبودی کے دعوؤں کےساتھ اپنی اپنی پارٹیوں برادریوں و خاندانوں کے مستقبل کو سنوارا جاسکے۔
ایک طرف سخت گیر ہندوتوا کے رتھ پر ترشول دھاری بھارت ماتا کے سپوتوں کا بی جے پی کی رہنمائی میں این ڈی اے کا گٹھ جوڑ ہے تو دوسری جانب نرم ہندوتوا اور محض صفحہ قرطاس پر تحریر ’سیکولرزم‘ کی راہ پر گامزن کانگریس پارٹی اور اس کی حامی جماعتوں کا الائنس INDIA ہے جو بظاہر نفرت کے خلاف جدوجہد کے اعلان کے سہارے اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دونوں اتحادیوں کے پاس عوام کی ترقی و  خوشحالی کے لیے فی الحال تو کوئی مضبوط روڈ میاپ نظر نہیں آرہا ہے بلکہ دونوں الائنس اپنے طے شدہ نفرت و محبت کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ نفرت و محبت کی نورا کشتی کے کھیل میں عوام کی فلاح و بہبود سے وابستہ ایشوز کہیں درکنار ہو کر نہ رہ جائیں۔
ان دونوں الائنسوں میں ملکی سطح کی پارٹیوں کے علاوہ ریاستی و علاقائی سطح کی نسلی وہ خاندانی پارٹیاں بھی شامل ہیں جو اپنے علاقائی مفادات کا واسطہ دے کر اپنی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتی ہیں اور اپنے سے وابستہ اہم طبقات (مسلمانوں ،آدیوسی اور دلتوں کو چھوڑ کر) کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی اپنی پالیسیاں مرتب کرنے میں منہمک ہیں۔ لیکن مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے مستقبل سے متعلق کوئی واضح و مثبت لائحہ عمل ملک کی کسی بھی پارٹی کے پاس موجود نہیں ہے بلکہ اہم جماعتیں تو مسلمانوں کا ذکر کرنے سے بھی پرہیز کر رہی ہیں۔ پارٹیوں کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو عضوئے بے کار سمجھتے ہوئے سیاسی معاملات انہیں سے بڑی حد تک کنارہ کش کر دیا ہے۔ آئندہ منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بیس کروڑ کی حامل ملت اسلامیہ بھی شریک ہوگی جو کسی بھی پارٹی کی تقدیر سازی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جمہوری طرز حکومت میں انصاف کا تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ ملک میں آباد تمام قابل لحاظ طبقات کو ان کی آبادی کے تناسب کے اعتبار سے نمائندگی فراہم کی جائے تاکہ ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی اس کے نفاذ و عمل آوری میں آسانیاں پیدا ہوں لیکن اقتدار کو چلانے والی پارٹیوں نے سماجی انصاف کے تقاضوں پر مکمل طور سے عمل کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کے امکانات نظر آرہے ہیں۔
مسلمانوں کے ملک کے قریہ قریہ میں پھیلی ہوئی آبادی کے تناسب  کے لحاظ سے ملک کی پارلیمنٹ میں 76 مسلم اراکین کی شمولیت مطلوب ہے تاہم کسی بھی دور حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کے تناسب کے مطابق دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ میں مختلف پارٹیوں سے محض ستائیس نمائندے ہی ہیں جن کا فیصد صرف چار بنتا ہے۔ ایک تجزیہ کے مطابق 1952 تا 1977 کے درمیان ملکی اقتدار پر کانگریس کا قبضہ رہا ہے تاہم اس دوران بھی مسلم نمائندگی کے گراف کا فیصد دو تا سات کے درمیان ہی رہا ہے۔
مسلم سیاسی صورت حال کا افسوسناک  پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں کل چھتیس ریاستیں ہیں جن میں سے پچیس ریاستوں میں ایک بھی مسلم ممبر پارلیمنٹ منتخب نہیں ہوسکا ہے۔ 2019 میں ستائیس ارکان منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ سکے ہیں جن گیارہ ریاستوں سے مسلم اراکین الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے ان میں سے آسام دو  بہار دو، جموں و کشمیر تین، کیرالا تین، مہاراشٹر ایک، پنجاب ایک، تمل ناڈو ایک، تلنگانہ ایک، اتر پردیش چھ، لکشدیپ سے ایک اور مغربی بنگال سے چھ نمائندے ہیں۔
ملک میں بیس کروڑ آبادی اپنے آپ میں ایک اثر رکھتی ہے لیکن اثر دار اکائی کو کس طرح سیاسی لحاظ سے کمزور کیا گیا اس کی  کرونولوجی Chronology کو سمجھے بغیر حقیقت کا ادراک ممکن نہیں ہے۔ کانگریسی دور حکومت 2008 میں پارلیمنٹ و ریاستی اسمبلیوں کے حد بندی Delimitation کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ موجودہ لوک سبھا و اسمبلیوں کی حد بندی اسی کمیشن کی دین ہے۔ اس کمیشن نے نہایت عیاری کے ساتھ مسلمانوں کے ’پر نوچنے‘ کا کام کیا ہے۔ حد بندی کمیشن نے دو کام خصوصیت کے ساتھ انجام دیے ہیں، اول مسلم اضلاع و علاقوں کو غیر منصفانہ طریقے سے تقسیم کر کے مسلمانوں کی انتخابی قوت کو کمزور کیا گیا ہے۔ دوم مسلم اکثریت والے پارلیمانی و ریاستی اسمبلیوں کے بعض حلقوں کو شیڈول کاسٹ و شیڈول ٹرائب کے لیے ریزرو کر کے مسلمانوں کا راستہ کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جن پارلیمانی مسلم اکثریت و اثر رکھنے والے حلقوں پر تیشہ چلایا گیا ان میں تلنگانہ کی کریم نگر پینتیس فیصد، اتر پردیش کی نگینہ اور بلند شہر بالترتیب چوالیس اور چوبیس فیصد بہار کی گوپال گنج اٹھارہ فیصد، آسام کی سلچر پینتیس فیصد سے زائد تلنگانہ کی عادل آباد، بہار کی گوپال گنج، مغربی بنگال کی جئے نگر گجرات کی کچھ و احمد آباد مغرب وغیرہ کی نشستیں شامل ہیں۔
مسلمان پہلے ہی سیاسی بھنور میں پھنسا کر رکھے گئے تھے کہ اب خواتین کے لیے تینتیس فیصد ریزرویشن کا بل پارلیمنٹ میں منظور کر لیا گیا ہے۔ حکومت کے اعلان کے مطابق ملک کی مردم شماری اور حلقوں کی حد بندی کے بعد خواتین ریزرویشن بل کا نفاذ عمل میں آئے گا۔ خواتین ریزرویشن کی ضرب کن کن حلقوں پر پڑتی ہے یہ تو مستقبل میں ہی واضح ہوگا تاہم، جس وقت بھی بل پر عمل آوری کا آغاز ہوگا خواتین کے لیے 180 نشستیں محفوظ ہو جائیں گی۔ جبکہ پہلے سے شیڈول کاسٹ شیڈول ٹرائب طبقات کے لیے ریزرویشن موجود ہے۔ ریزرویشن کے مطابق شیڈول کاسٹ کے لیے 84 نشستیں ہے اور قبائلی طبقات کے لیے 47 نشستیں محفوظ ہیں دونوں ملا کر 131 سیٹوں پر پسماندہ طبقات کے نمائندے منتخب ہوکر پارلیمنٹ ہاؤس میں پہنچتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فی الحال شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کو حاصل ریزرویشن اور مستقبل میں خواتین کو ملنے والے ریزرویشن کی کل تعداد 311 ہو جائے گی۔ اس حساب سے مسلمان کس صف میں ہوں گے یہ اندازہ لگانا کوئی دشوار کام نہیں ہے۔
مذکورہ تمام ریشہ دوانیوں اور مسائل کے باوجود مسلمانوں کی انتخابی قوت کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے۔ ملک کے پارلیمانی حلقوں میں مسلم ووٹوں کے تناسب سے یہ خوش آئند و حوصلہ افزا حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی بھرپور قوت مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔
اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ ملک میں چار پارلیمانی حلقوں میں مسلم ووٹوں کی تعداد پچانوے فیصد سے زائد ہے جن میں اننت ناگ، بارہ مولہ، سری نگر اور لکشدیپ شامل ہیں جبکہ سات حلقوں میں ساٹھ تا ستر فیصد، دوسرے سات حلقوں میں پچاس تا ساٹھ فیصد، بارہ حلقوں میں چالیس تا پچاس فیصد، چھبیس حلقوں میں تیس سے چالیس فیصد اور بیالیس حلقوں میں بیس تا تیس فیصد مسلم ووٹنگ کا تناسب موجود ہے جبکہ 145 نشستوں پر دس تا پندرہ فیصد اور 228نشستوں پر مسلم ووٹ اثر انداز پوزیشن میں ہیں۔
2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو 303 سیٹوں کے ساتھ کُل229078261 (37.29) ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ کانگریس پارٹی باون نشستوں کے ساتھ 119494952 (19.45) ووٹ پانے میں کامیاب ہوئی تھی دیگر علاقائی پارٹیوں کی تفصیلات علیحدہ ہیں۔
آئندہ پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کو سیاسی بصیرت، ہوشمندی، شعوری اتحاد کے ساتھ منصوبہ بند حکمت عملی سے انتخابی سیاست میں مثبت جدوجہد کو تیز کرتے ہوئے اقتدار میں باوقار حصہ داری کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی تاکہ مسلمانوں کا بھی باوقار سیاسی طبقات میں شمار ہو اور وہ بھی ملک کی ہمہ جہتی ترقی میں اہم رول ادا کر سکیں۔

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 نومبر تا 2 دسمبر 2023