2024عالمی سطح پر جمہوری اقدار کا امتحان

70 ممالک میں منعقد ہونے والے انتخابات بہت کچھ بیان کریں گے

اسد مرزا

جمہوریت اور تانا شاہی کی جنگ میں دائیں بازو کا برتر موقف، خطرے کی علامت
دنیا بھر سے لگ بھگ 70 ممالک جن کی کل آبادی 3.7 بلین سے زیادہ ہے، یا عالمی آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہے، آنے والے سال میں صدارتی یا ایوانِ پارلیمان کے انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان انتخابات کے فیصلے لوگوں کی زندگیوں اور ایک ایسی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کرسکتے ہیں جو کہ حالیہ عرصے میں ایک ہنگامہ خیز وقت سے گزر رہی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ، سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھارت، سب سے بڑا تجارتی بلاک یورپی یونین، سب سے بڑا مسلم ملک انڈونیشیا، سب سے بڑا ہسپانوی بولنے والا ملک میکسیکو اور وہ علاقہ یعنی تائیوان جو اس صدی کی دو سوپر پاوروں کے درمیان تصادم کے سب سے بڑے خطرے کی علامت ہے، 2024 میں اپنے ہاں انتخابات کرائیں گے۔جبکہ پس منظر میں یوکرین اور غزہ کے خلاف وحشیانہ جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔
جغرافیائی سیاسی سطح پر یہ انتخابات پوری دنیا پر گہرا اثر چھوڑ سکتے ہیں۔ اس میں امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی، تائیوان میں ان امیدواروں کی مسلسل تیسری فتح جسے بیجنگ اپنا مخالف سمجھتا ہے، یا یورپی یونین میں انتہائی دائیں بازو کا مضبوط عروج، ان سب کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔ان انتخابات کے علاوہ اور بھی بہت سے متعلقہ آئندہ انتخابات ہیں۔ یہ پاکستان کے ایوان پارلیمان کے انتخابات سے لے کر ایران کے انتخابات تک پھیلے ہوئے ہیں۔
2024 کے بڑے انتخابات کی صورتحال دنیا میں جمہوریت کے لیے ایک اہم امتحان ہوگی۔ مختلف تھنک ٹینکس اور دیگر ریسرچ ادارے عالمی سطح پر جمہوری معیار میں گراوٹ کی نشاندہی کرنے پر متفق ہیں، جس کے زیر اثر متعدد انتہائی بے توقع نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
2024 میں یورپی پارلیمنٹ تمام 27 رکن ممالک میں انتخابات کرائے گی۔ نتائج نئے ایوان کی تشکیل کریں گے، ممکنہ نئی قانون ساز اکثریت کے ساتھ جو EU کی قیادت کو متاثر کرے گی۔ان انتخابات کے بارے میں مبصرین کی رائے ہے کہ اس مرتبہ دائیں بازو کی جماعتیں بہتر قبولیت پاسکتی ہیں۔ امریکی پولیٹیکو میگزین کی طرف سے کرائے گئے سروے کے مطابق اوسطاً دو انتہائی دائیں بازو کے بلاکوں میں اضافے اور روایتی یورپی قدامت پسندوں، جن میں سوشل ڈیموکریٹس، لبرل اور گرینز کی حمایت میں کمی کی نشاندہی ہورہی ہے۔ دسمبر کے آغاز میں، پولیٹیکو کی طرف سے سیٹ پروجیکشن میں، انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کے درمیان 720 میں سے صرف 20 سیٹوں کا فاصلہ تھا۔
اگر ہم گلوبل ساؤتھ کا رخ کریں تو پاکستان اور بھارت میں جہاں قوم پرستی اور جمہوری تناؤ اپنے عروج پر ہے وہاں کے نتائج غیر متوقع تو نہیں ہوں گے لیکن ان دونوں ملکوں کے مستقبل کے لیے بہت بڑے سنگ میل ثابت ہوسکتے ہیں۔حالیہ برسوں میں بھارت نے کافی اقتصادی ترقی کی ہے اور اپنے جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کو بہتر بنایا ہے، لیکن ہندو قوم پرستی کے لیے اس کا زور اقلیتوں، خاص طور پر تقریباً 200 ملین مسلمانوں اور 200 ملین دلتوں، جن کا تعلق نچلے طبقے سے ہے، ان کے تئیں تحفظات کے بارے میں بہت زیادہ خوف محسوس کیا جا رہا ہے، وزیر اعظم مودی کے طرز حکومت کو ان کے گھریلو مخالفین اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے جمہوریت کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا ہے۔یہ انتخابات انہیں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کا موقع دے سکتے ہیں جو کہ 2014 سے برسر اقتدار ہیں اور ان سے یہ ایک ایسی پیش رفت ثابت ہوسکتی ہے جو کہ بھارت کو اس کے آئین کی سیکولر اور جامع منطق سے دور کرنے کی سمت لے جائے۔
اس کے ساتھ ہی 2024 میں پاکستان میں بھی ایوانِ پارلیمان کے لیے یعنی ایک نئے وزیر اعظم کو چننے کے لیے انتخابات ہونے والے ہیں، ساتھ ہی چار صوبائی اسمبلیوں میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان سنگین معاشی بحران اور سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور قتل کی کوششوں سمیت اعلیٰ سیاسی تناؤ سے دوچار ہے۔ اگست میں پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد انتخابات 90 دن کے اندر ہونے چاہیے تھے، لیکن اسے دو بار ملتوی کیا جا چکا ہے۔ وہ اب فروری میں شیڈول ہیں۔ تقریباً 240 ملین باشندوں پر مشتمل اس ملک میں نہ صرف اپنے جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے بلکہ چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے بھی بہت زیادہ تزویراتی گہرائی ہے۔اس کے علاوہ بھارت کے دوسرے پڑوسی بنگلہ دیش میں بھی ایوانِ پارلیمان کے انتخابات ہونے والے ہیں، جہاں پر دو پرانے حریف آمنے سامنے ہیں اور ملک
اپنے یہاں اقتصادی مسائل کی وجہ سے کافی فسادات کا سامنا کر رہا ہے۔ امید ہے کہ وہاں حزبِ اختلاف اس مرتبہ برسرِ اقتدار آجائے گا۔
دوسری جانب انڈونیشیا سے لے کر جنوبی افریقہ تک، 2024 میں بہت سے دوسرے دلچسپ انتخابات بھی ہوں گے۔ میکسیکو میں صدر آندرس مینوئل لوپیز اوبراڈور کا مینڈیٹ ختم ہو جائے گا۔ساتھ ہی انڈونیشیا میں جوکووڈوڈو جو کہ بطور صدر اپنی دوسری مدت ختم کر رہے ہیں وہ اپنی جگہ اپنے بیٹے کو صدر بنانا چاہتے ہیں۔
اگلے سال برطانیہ میں بھی انتخابات ہونے کا امکان ہے، کیونکہ آخری تاریخ جنوری 2025 میں آتی ہے۔ برسرِ اقتدار کنزرویٹیو پارٹی کا مقابلہ لیبر پارٹی سے رہے گا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اقتصادی پالیسی میں فرق کافی زیادہ ہے اور اس میں تضادات ہیں کہ ہر فریق UK-EU تعلقات کو کس طرح دیکھتا ہے، لیکن نتائج سے قطع نظر اس میں خاطر خواہ تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔
افریقی براعظم کی دوسری سب سے بڑی معیشت جنوبی افریقہ میں بھی انتخابات ہوں گے۔ افریقن نیشنل کانگریس ANC)1994) سے بلا تعطل اقتدار میں رہنے کی وجہ سے شدید زوال کا شکار ہے۔ پھر بھی بدعنوانی کے سنگین واقعات کے باوجود یہ ممکن ہے کہ منڈیلا کی پارٹی حکومت جاری رکھے۔ اس کے ساتھ ہی ایران میں ایوانِ پارلیمان کے انتخابات ہوں گے جہاں کا اقتدار بنیادی طور پر صدر کے بجائے سپریم لیڈر کے پاس رہتا ہے۔ لیکن یہ انتخابات ایک ایسی حکومت کے لیے امتحان ثابت ہوں گے جو عوامی عدم اطمینان کا شکار ہے۔
مغربی ممالک میں ریسرچ ادارے Ipsos کے رائے عامہ کے سروے میں وسیع پیمانے پر یہ پایا گیا کہ موجودہ جمہوری نظام امیر اور طاقتور کے حق میں ہے جو کہ باقی سب کو نظر انداز کرتا ہے۔
مجموعی طور پر تبدیلی ہو یا نہ ہو، یورپ 2024 میں آسٹریا، بیلجیم، کروشیا اور فن لینڈ کے ساتھ ساتھ جون میں یورپی پارلیمنٹ کے لیے انتخابات دیکھے گا۔ خوف ہے کہ وہ قوم پرست (یعنی کہ مہاجر مخالف) انتہائی دائیں بازو کی زینوفوبک پارٹیوں کی طرف سے مزید پیش رفت ہوسکتی ہے، جیسا کہ حال ہی میں اٹلی، نیدرلینڈز اور سلوواکیہ میں دیکھا گیا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو آج عالمی سطح پر ہم ایک ایسے وقت سے گزر رہے ہیں جہاں پر زیادہ تر جمہوری اقدار والے ممالک میں جمہوریت کے حقوق مختلف طریقوں سے پامال کیے جارہے ہیں۔ ان میں حق آزادی اظہار رائے کا اصول جو جمہوریت کو مکمل طور پر کام کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے اس پر بھی حملہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ ملکوں میں نفرت انگیز تقاریر، غلط معلومات، انتہا پسندی اور عوامی خلفشار سمیت متعدد خطرات سے نمٹنے کے لیے نئی نئی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جو کہ جمہوری اصولوں کے بالکل خلاف ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا بیانیہ تیار کیا جارہا ہے جو اکثر و بیشتر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے، اس کو اپنے ہم نوا میڈیا کے ذریعے بطور سچ پیش کیا جاتا ہے۔ حالیہ عرصے میں اس کا ثبوت ہم غزہ کی جنگ میں دیکھ ہی رہے ہیں۔ اگر اسی طرح کی طاقتیں ان 70 ممالک میں دوبارہ برسر اقتدار آتی ہیں جن میں دائیں بازو کی منفی طاقتوں کو اور زیادہ فروغ ملتا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ سال 2024 عالمی سطح پر جمہوریت کے ناکام ہونے کا سال ثابت ہو سکتا ہے۔ خدا نہ کرے۔
(مضمون نگار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024