اداریــــہ

جشن و سرور کی بھینٹ چڑھتا معاشرہ

گزشتہ دنوں ہم نے سال 2022 کو الوداع کہا اور 2023 کا استقبال کیا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں لوگوں نے نئے سال کا جشن منایا۔ مختلف مواقع پر منائے جانے والے جشن و تقریبات دراصل کسی بھی معاشرے کی سماجی واخلاقی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ خوشی و مسرت کے موقع پر اگر لوگ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکیں اور مختلف سماجی و اخلاقی اقدار کو پامال کریں تو یہ اس سماج اور اس کے ذمہ داروں کے لیے غور وفکر کا مقام ہو گا۔ عصر حاضر کا سرمایہ دارانہ نظام معیشت اور اس کے اہم کھلاڑی ہر ایسے موقع کو دولت بٹورنے کا ذریعہ بناتے ہیں چنانچہ گزشتہ چند برسوں کے دوران مختلف ایام کی تقریبات کی طرح سال نو کے جشن کو بھی مکمل طور پر صارفیت سے جوڑ دیا گیا ہے اور اس موقع پر تفریحات کی خبیث شکلوں کو مقبول عام بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس موقع پر تمام ہی بڑے شہروں میں سال نو کی غیر اخلاقی تقاریب کی دھوم رہی۔ اس موقع پر مختلف جرائم میں اضافہ ہوا، نوجوانوں کی جانب سے لاقانونیت کے مظاہر جابجا دیکھنے میں آئے اور شراب پی کر گاڑی چلانے کے واقعات و حادثات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔
مختلف ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس سال کیرالا میں شراب کی فروخت نے سابق کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور صرف ایک دن میں 100 کروڑ روپے کی شراب فروخت ہوئی۔ راجستھان میں 111 کروڑ روپے، آندھرا پردیش میں 82 کروڑ روپے اور تلنگانہ میں 171 کروڑ روپے کی شراب فروخت ہوئی ہے۔ کثرت سے شراب کے استعمال کے ساتھ ساتھ عریاں و بے حیا قسم کے رقص و سرود کی محفلوں کا پورے ملک میں بازار گرم رہا۔ تفریح گاہوں اور کلبوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے بھی کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔
شراب پی کر گاڑی چلانے کی وجہ سے مختلف ریاستوں میں بے شمار حادثات ہوئے۔ ان میں سب سے دردناک دہلی کا وہ حادثہ ہے جس میں پولیس کے مطابق ایک نوجوان لڑکی کی اسکوٹر کو رات کے اندھیرے میں ایک کار نے ٹکر دے دی، اس حادثے میں لڑکی کے کپڑے کار کے پہیوں میں پھنس گئے اور اس کا جسم کئی کلو میٹر تک سڑک پر گھسیٹا جاتا رہا جس میں اس لڑکی کی موت واقع ہو گئی۔ کار میں سوار نشے میں بدمست نوجوانوں کو یہ پتہ بھی نہیں چلا کہ ان کی اس حرکت کی وجہ سے ایک انسان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ہے۔
ملک عزیز میں سال نو کے جشن کے نام پر اس طرح کی بےہودگی، جرائم و حادثات اور لاقانونیت کے واقعات ہم سب کے لیے غور وفکر کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ کب تک ہم اپنے نوجوانوں کے اخلاق اور ان کی صلاحیتوں کو سرمایہ داروں کی نہ ختم ہونے والی ہوس کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے۔صاحب اقتدار گروہ کو تو بس اپنے آپ کو اقتدار پر باقی رکھنے کی فکر ہے۔ وہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ ملک کے عوام، بالخصوص ان کا نوجوان طبقہ اسی طرح کی بدمستیوں میں غرق اور سوچنے سمجھنے اور غور وفکر کی صلاحیتوں سے محروم رہے تاکہ ان کی غلط کاریوں پر کوئی سوال نہ اٹھا سکے اور وہ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتے رہیں۔
اس طرح کے مواقع اہل اسلام کو بھی اپنی منصبی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہیں کہ ان کو دراصل سماج سے برائیوں کے خاتمے اور بھلائیوں کے فروغ کے لیے ہی پیدا کیا گیا تھا۔ وہ انسانوں کو برائیوں کے دلدل میں پھنسا ہوا دیکھ کر کیسے چین سے رہ سکتے ہیں۔ وہ تو ایک ایسے دین کے پیرو ہیں جو زمین پر ہر قسم کی برائی کا خاتمہ چاہتا ہے۔ وہ اس نبی کے ماننے والے ہیں جس نے یکا و تنہا پوری دنیا سے برائیوں کو اکھاڑ پھینکنے کا کام کیا تھا۔ جس کا فرمان ہے کہ اگر تم برائی کو دیکھو تو اپنے ہاتھ سے روکو، یہ نہ کر سکو تو اپنی زبان سے روکو اور یہ بھی نہ کر سکو تو اپنے دل میں اس کو برا سمجھو اور اس کے خاتمے کی تمنا کرو اور یہ ایمان کا سب سے کم ترین درجہ ہے۔ درحقیقت مسلمان پیدا ہی اسی لیے کیا گیا ہے کہ وہ زندگی کے دریا کو اس غلط راستے سے موڑ کر اس راستے پر رواں کردے جو اس کے نزدیک سیدھا راستہ ہے۔ ملک عزیز میں رہنے والے بیس کروڑ مسلمانوں میں سے چند فیصد مسلمان بھی اگر ان برائیوں کے خلاف صف آرا ہو جائیں تو ملک سے ان برائیوں کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے مسائل اور خوف و اضطراب کے خودساختہ خول سے باہر نکل آئیں اور اقدامی طور پر ملک کی تعمیر کے لیے اپنی توانائیاں لگانے کے لیے تیار ہو جائیں۔