1980 مراد آباد فسادات: آر ایس ایس اور بی جے پی کو کلین چٹ دینے والی عدالتی تحقیقاتی رپورٹ کو 40 سال بعد اتر پردیش اسمبلی میں پیش کیا گیا
نئی دہلی، اگست 9: ایک ریٹائرڈ جج کے ذریعے اتر پردیش کے مراد آباد ضلع میں بڑے پیمانے پر ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کے تقریباً 40 سال بعد ریاستی حکومت نے منگل کو اسمبلی میں اپنے نتائج پیش کیے۔
13 اگست 1980 کو مراد آباد میں فسادات پھوٹنے کے بعد کم از کم 83 افراد ہلاک اور 112 زخمی ہوئے تھے۔ تشدد بعد میں ضلع کے دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ سنبھل، علی گڑھ، بریلی اور الہ آباد (اب پریاگ راج) تک پھیل گیا تھا۔ تشدد کے واقعات 1981 کے اوائل تک جاری رہے۔
اس وقت اتر پردیش میں وی پی سنگھ کی قیادت میں کانگریس کی حکومت تھی اور اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں۔ وی پی سنگھ 1989 میں جنتا دل لیڈر کے طور پر وزیر اعظم بنے۔
29 نومبر 1983 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس (ریٹائرڈ) ایم پی سکسینہ نے تشدد پر اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ تاہم اس رپورٹ کو پبلک نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کی سفارش کی بنیاد پر کوئی کارروائی کی گئی۔
اس رپورٹ میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، بھارتیہ جنتا پارٹی اور مقامی انتظامیہ کو کلین چٹ دے دی گئی ہے۔ اس میں انڈین یونین مسلم لیگ کے رہنما شمیم احمد اور حامد حسین نامی شخص کو فسادات بھڑکانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ تاہم اس میں کہا گیا ہے کہ عام مسلمان تشدد کے ذمہ دار نہیں ہیں۔
یہ تشدد اس وقت شروع ہوا جب یہ افواہیں پھیل گئیں کہ مراد آباد کے عیدگاہ میدان میں خنزیروں کو چھوڑا گیا ہے، جہاں مسلمانوں کا ایک گروپ عید کی نماز ادا کر رہا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس کے بعد مسلم کمیونٹی کے ارکان نے پولیس اسٹیشنوں اور ہندوؤں پر حملہ کیا۔
ریٹائرڈ جج نے کہا ’’اس عمل نے بدلے میں ہندوؤں کو جوابی کارروائی کرنے پر مجبور کیا اور صورت حال کو فرقہ وارانہ فسادات میں بدل دیا۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’چونکہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد تشدد میں ماری گئی، لہٰذا یہ واقعات 13 اگست 1980 کے بعد بھی جاری رہے۔‘‘
جسٹس (ریٹائرڈ) سکسینہ نے کہا کہ یہ تشدد مسلم کمیونٹی کے ایک حصے میں ’’قیادت کے جھگڑے‘‘ کی وجہ سے ہوا تھا۔
انکوائری میں کہا گیا کہ فسادات پر قابو پانے کے لیے پولیس اور صوبائی مسلح کانسٹیبلری کی طرف سے فائرنگ ’’قانونی طور پر مناسب‘‘ تھی اور مقامی انتظامیہ نے امن برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کیے تھے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ’’مسلمانوں کو الیکشن میں ووٹ بینک سمجھنے کی عادت‘‘ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ انتظامیہ کو ’’فرقہ وارانہ طور پر حساس علاقوں میں ایسے پیشہ ور مجرموں‘‘ پر نظر رکھنی چاہیے جن کی بدامنی پھیلانے کی تاریخ ہے۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے منگل کو کہا کہ تمام جماعتوں کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا ’’عام لوگ جان لیں گے کہ کون فسادات کا پرستار ہے، کون اس کی حمایت کرتا ہے اور کون فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف لڑتا ہے۔‘‘
تاہم مرادآباد سے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ایس ٹی حسن نے کہا کہ رپورٹ میں شمیم احمد اور حامد حسین کو غلط طور پر مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔
انھوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ بی جے پی حکومت نے لوک سبھا انتخابات سے قبل رائے دہندوں کو پولرائز کرنے کے لیے یہ رپورٹ پیش کی ہے۔ حسن نے کہا ’’بی جے پی کی سازش کامیاب نہیں ہوگی کیوں کہ یوپی کے لوگوں نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کے اتحاد کی حمایت کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔‘‘