1975 کی ایمرجنسی بمقابلہ 2025کی سنسرشپ

ایمرجنسی کو یاد کرتے ہوئے غیراعلانیہ ایمرجنسی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا

0

شہاب فضل، لکھنؤ

اختلاف رائے اور احتجاج پر سخت کارروائی ایمرجنسی کا عکس
میڈیا کے ایک حلقہ نے حکومت کو آئینہ دکھایا، جمہوری اداروں کی آزادی اور ان کے استحکام پر زور
بھارت کے عوام خصوصاً آج کے نوجوانوں کو 25جون 1975کے نفاذِ ایمرجنسی کی یاد دلانے اور اس کے نتیجہ میں اندرا گاندھی کی قیادت والی کانگریسی حکومت کی ‘کارروائیوں’ پر بحث و مباحثہ کرنے اور کانگریس پارٹی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے مقصد سے نریندر مودی حکومت نے 25جون کو ’سنودیدھان ہتیا دیوس‘ کے طور پر ملک گیر سطح پر منانے کا اعلان کیا۔ اس دن جگہ جگہ تمام طرح کے پروگرام، سیمینار، پینل مباحثے وغیرہ ہوئے۔ ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بھی ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ اس دن سیمینار منعقد کرائیں اور ایمرجنسی (25 جون 1975 تا 21 مارچ 1977) جیسی کارروائی کے مضمرات و عواقب پر گفتگو کریں۔ اس دن کے نام پر پرنٹ میڈیا میں بھی کثرت سے مضامین و تبصرے شائع کیے گئے اور ٹی وی چینلوں پر ڈبیٹ ہوئے۔ مرکزی کابینہ نے ایمرجنسی کی تنقید کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی اور ان لوگوں کی تعریف کی جو ملک میں 21مہینے تک نافذ رہنے والی ایمرجنسی کی مخالفت کرتے ہوئے جیل گئے۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ بی جے پی (سابقہ جن سنگھ) اور اس کی تائیدی تنظیموں کی طرف سے یہ دعوے کیے جارہے ہیں کہ ایمرجنسی کی مخالفت میں وہ پیش پیش تھے۔
کارپوریٹ میڈیا کے بالمقابل متبادل میڈیا نے ایمرجنسی پر بحث و تمحیص کے دوران مودی حکومت کے دور میں بالعموم اور ‘ڈبل انجن کی سرکار’ والی چند ریاستوں میں بالخصوص، غیراعلانیہ ایمرجنسی جیسے حالات کی نشاندہی کی اور سرکاری ایجنسیوں اور مختلف تعزیری قوانین کے بے محابا اور غیرضروری استعمال کو جمہوریت کے لیے سمّ قاتل قرار دیا۔
ایمرجنسی پر پربھاس جوشی کی چشم کشا تحریر
آئی آئی ٹی ممبئی کے سابق استاد اور فرقہ پرستی کے خلاف اپنی دھاردار تحریروں اور تقریروں کے لیے مشہور رام پنیانی نے اپنے ایک اخباری کالم میں جن ستّا کے بانی مدیر، معروف صحافی آنجہانی پربھاس جوشی کے ایک مضمون کے یہ جملے نقل کیے ہیں کہ ’’اس وقت کے آر ایس ایس سربراہ بالا صاحب دیورس نے اندرا گاندھی کو ایک خط لکھ کر سنجے گاندھی کے بیس نکاتی پروگرام کی عمل آوری میں مدد کی پیشکش کی تھی۔ یہ ہے آرایس ایس کا اصلی کردار۔۔۔۔۔۔ آپ اس میں ایک پیٹرن دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایمرجنسی کے دوران بھی آر ایس ایس اور جن سنگھ سے وابستہ کئی افراد نے جو رہا کیے گئے معافی نامے پر دستخط کیے۔ وہ معافی نامے لکھنے والے اولین لوگوں میں سے تھے۔ صرف ان کے چند رہنما جیل میں رہے۔ اٹل بہاری واجپئی، ایل کے اڈوانی اور ارون جیٹلی بھی۔ آر ایس ایس نے ایمرجنسی کے خلاف کوئی جدوجہد نہیں کی۔ تو پھر بی جے پی اس کا کریڈٹ کیوں لینا چاہتی ہے؟ اس یاد کو اپنا تمغہ کیوں بنانا چاہتی ہے؟۔۔۔۔ دراصل ایمرجنسی میں سوشلسٹوں نے مزاحمت کی تھی اور انہوں نے ہی اس میں قربانیاں بھی دیں۔
پربھاس جوشی نے ایمرجنسی کے ستم خود جھیلے اور اس دور کے واقعات کے وہ عینی شاہد رہے ہیں۔ یہ مضمون بعنوان ’’آر ایس ایس اینڈ ایمرجنسی‘‘ ایمرجنسی کی پچیسویں سالگرہ پر انگریزی ہفت روزہ ‘تہلکہ’ میں جولائی 2005 میں شائع ہوا تھا، جس میں آر ایس ایس کے حقیقی کردار کی نشاندہی کی گئی ہے اور جسے بطور حوالہ متعدد مضامین میں استعمال کیا گیا ہے۔ جوشی نے لکھا ہے کہ آر ایس ایس پر جب کبھی بھی پابندی لگی تو اس نے ہمیشہ سمجھوتہ کیا اور کبھی مزاحمت نہیں کی۔ ’’جب 1942 میں برطانوی راج نے یہ حکم جاری کیا کہ کسی بھی رضاکار تنظیم کو نیم فوجی سرگرمیوں میں شامل رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو آر ایس ایس نے اسے بخوشی منظور کرلیا۔ اس وقت کے سرسنگھ چالک گولوالکر نے آر ایس ایس کے ملٹری شعبہ کو ختم کردیا اور یہ کیفیت جوں کی توں باقی ہے۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے آزادی کی جدوجہد میں کبھی حصہ نہیں لیا۔ انہوں نے بھارت چھوڑو تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد سردار پٹیل نے اس پر پابندی لگادی۔ گولوالکر نے فوراً ہی سمجھوتہ کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ‘تعمیری کام‘ کریں گے۔جوشی کا یہ مضمون ملک کی موجودہ سیاست اور قومی سیاسی منظرنامہ کی تفہیم کے لیے آج بھی بہت موزوں اور کارآمد ہے۔
ماضی کی ایمرجنسی سے سبق لینے اور حال کی جمہوریت کے تحفظ پر زور
انڈین ایکسپریس میں سہاس پلشیکر نے ایمرجنسی پر 25 جون کوشائع شدہ اپنے ایک کالم میں لکھا ’’سیاسی جبر کےعلاوہ 1975-77کی ایمرجنسی کی ایک خاص بات وہ نیوز بلیٹن اور رپورٹنگ تھی جس کے ذریعہ یہ بتایا جاتا تھا ملک میں ہر جگہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ آج جب ایمرجنسی کو یاد کیا جا رہا ہے تو لیڈر کا نام اور اس کی تصویر وہی کہانی بیان کرتی ہے جیسا 50 برس قبل تھا۔
وکاس سے لے کر چیتوں کی صحت تک سب کچھ لیڈر کی بدولت ہے۔ اس واقعہ کی پچاسویں سالگرہ مناتے ہوئے یہ مشابہت ہمارے لیے فکرمندی کا باعث ہونی چاہیے ۔ ایمرجنسی کو یاد کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوریتیں دو اہم عناصر سیاسی قیادت اور ادارہ جاتی آزادی کے درمیان توازن کے ساتھ چلتی ہیں۔ اس پہلو سے آج کے حالات کا ہمیں تجزیہ کرنا چاہیے اور احتساب کرنا چاہیے کیونکہ ایمرجنسی کے دور کی حرکات آج پھر دہرائی جارہی ہیں اور ملک میں آج بھی ایمرجنسی کی کیفیت ایک معمول بن گئی ہے۔
ایمرجنسی کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے تقریباً سبھی اخبارات نے یاد دلایا کہ کس طرح اپوزیشن کے سیاستدانوں کو نشانہ بنایا گیا، صحافت کا گلا گھونٹا گیا، اخباروں کے دفاترکی بجلی کاٹ دی گئی اور تقریباً دو سو صحافیوں اور سیکڑوں سماجی کارکنوں کی گرفتاری کی گئی۔
26 جون کو نیوز لانڈری پورٹل پر شریمتی کلپنا شرما کا ایک کالم شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے شہری ترمیمی بل کی خلاف تحریک کے دوران سال 2020 میں سماجی کارکن عمر خالد کی گرفتاری، سخت قوانین کے تحت مقدمے اور ٹرائل کے بغیر جیل میں محصوری، اکتوبر 2020 میں ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی عصمت دری اور قتل کی رپورٹنگ کے لیے دہلی سے آنے والے صحافی صدیق کپّن کی گرفتاری اور کچھ دیگر صحافیوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ سابقہ ایمرجنسی اور موجودہ غیراعلانیہ ایمرجنسی میں کئی ناحیوں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور ایمرجنسی کی سالگرہ مناتے ہوئے ہمیں ماضی کے واقعات پر کسی پارٹی کو ہدف تنقید بنانے کے بجائے موجودہ وقت میں اسے دہرائے جانے سے روکنے کی تدابیر کرنی چاہئیں۔ انہوں نے بھارتی میڈیا کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایمرجنسی کے دور میں میڈیا اداروں کو حکومت کی طرف سے رہنما ہدایات ملتی تھیں، اگر حکام کو یہ لگتا تھا کہ ان کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو پبلیشر پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا یا اس کی گرفتاری ہوتی تھی اور پرنٹنگ پریس کو مہربند کردیا جاتا تھا یا اخبار کو حکومت اور پبلک سیکٹر کے اداروں سے اشتہارات ملنے بند ہوجاتے تھے تاکہ وہ حکومت کے تابعدار ہوجائیں۔ کیا یہ مانوس سا نہیں لگتا؟ کیا موجودہ حکومت بھی اسی روش پر گامزن نہیں ہے؟
شریمتی شرما نے ہمت ویکلی، اوپینین، فریڈم فرسٹ اور جنتا ویکلی جیسے قدرے غیرمعروف اخبارات کا ذکر کیا ہے جنہوں نے ایمرجنسی کے دور میں مزاحمت کی تھی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ آج جب مین اسٹریم میڈیا ادارے حکومت کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں اور اسی کے مطابق بیانیہ تشکیل دینے میں مصروف نظر آتے ہیں تو چھوٹے آزاد ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور میڈیا پورٹلز ہی حکومت سے سوالات کررہے ہیں اور صحافت کی لاج رکھے ہوئے ہیں ’’المیہ یہ ہے کہ آج ہم یہ افسوس کررہے ہیں کہ پچاس سال قبل اندرا گاندھی نے یہ سب کیا تھا‘‘۔
انڈین ایکسپریس میں ہی 25 جون کو کومی کپور کا ایک کالم شائع ہوا جس میں انہوں نے ایمرجنسی کے دنوں میں اخبار کے ساتھ بطور رپورٹر اپنی وابستگی کے حوالے سے ایمرجنسی کے اعلانیہ کے بعد کے واقعات تفصیل سے بیان کیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ انکم ٹیکس سمیت تمام محکمے اخباروں کے خلاف کارروائی کے لیے ہمہ وقت پرجوش رہتے تھے۔ اخبار کی کنٹری بیوٹر ایڈیٹر شریمتی کپور ’’دی ایمرجنسی‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھ چکی ہیں۔
ہندی اخبار ’ہندُستان‘ نے 25 جون کو ‘آفت کال کی یاد’ کے عنوان سے اپنے اداریہ میں یہ سوال اٹھایا ہے ’’کیا آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے جمہوری ادارے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں ؟ اگر ہوئے ہوتے تو ڈیموکریسی انڈیکس میں ہماری تصویر اتنی خراب نہیں نظر آتی۔ اِس سال 179 ملکوں کی اس فہرست میں ہم 100ویں نمبرپر ہیں۔ جمہوریت کا مطلب صرف الیکشن اور اقتدار کی رکاوٹ کے بغیر منتقلی نہیں ہوتا، اس کے ہر ایک ادارے کے طرز عمل میں اس کی خوبی نظر آنی چاہیے۔ ہمارے آئین سازوں نے وسیع ملک کے اتحاد اور سالمیت کو دیکھتے ہوئے مرکز کو کافی اختیارات دئے ہیں، مگر ایسا کرتے ہوئے بھی انہوں نے عدلیہ اور مقننہ کو اس پر قابو میں رکھنے والے اختیارات عطا کیے۔ ایمرجنسی اس توازن کو بگاڑنے کی ہی ایک ناکام کوشش تھی۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ جمہوریت کے سبھی ستون اپنے اپنے دائرہ میں کام کریں۔ ایک دوسرے کے اختیارات پر ضرب لگانے سے نہ صرف انارکی بڑھتی ہے بلکہ اس سے رخنہ پیدا ہوگا، وہ ملک کی ترقی کو روکے گا۔ ایمرجنسی سے آج یہی سبق لینے کی ضرورت ہے‘‘۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر بھی ایمرجنسی اور اس کے نقوش پر تیزوتند بحثیں دیکھنے کو ملیں اور کچھ لوگوں نے ’’سمویدھان ہتیا دیوس‘‘ میں سمویدھان کے ساتھ ہتیا کا لفظ جوڑے جانے پر اپنی ناراضگی کا بھی اظہار کیا۔ بہرحال آزادی اظہار رائے کے حامیوں اور جمہوری اصولوں کے علمبرداروں نے اس موقع کا استعمال کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو آگاہ کیا کہ 1975 کی ایمرجنسی کو یاد کرتے ہوئے اس کی نقل کرنے سے اسے باز رہنا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025