!بھارتی طیارے نا قابل پرواز: بھارت کی طیارہ مرمت صنعت خطرے میں133

ایم آر او شعبہ خستہ حالی کا شکار، نیتی آیوگ کی رپورٹ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

0

زعیم الدین احمد

2031تک 4 بلین ڈالر ایم آر او مارکیٹ کا ہدف مگر موجودہ انفراسٹرکچر ازحد بے بس
جب بھی آپ ہوائی جہاز میں سوار ہوتے ہیں تو آپ کو صرف مسافت، پرواز کے اوقات اور آرام دہ سیٹوں کی فکر ہوتی ہے مگر اس کے پس پردہ ایک ایسی دنیا ہے جو خاموشی سے اپنا کام کرتی ہے، جس پر ہمارے ہوائی سفر کا دار و مدار ہوتا ہے اور وہ ہے طیاروں کی مرمت، اس کی دیکھ بھال اور جانچ کا عمل، جسے ایوی ایشن کی زبان میں ایم آر او یعنی (Maintenance, Repair and Overhaul) کہا جاتا ہے۔
حال ہی میں نیتی آیوگ کی ایک رپورٹ نے اس عمل سے متعلق ایک تشویش ناک تصویر پیش کی ہے، وہ یہ کہ ہندوستان کے تقریباً 16 فیصد مسافر طیارے، یعنی 133 جہازوں کو پرواز کرنے سے فارغ کیا جا چکا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی کمپنی انڈیگو ائیرلائنس ہے جس کے تقریباً 60 سے 70 جہاز 30 جنوری 2025 تک پرواز سے باہر ہو چکے ہیں۔ اسی طرح گو ائیر لائنز کو 2023-24 کے مالی سال میں اپنے آدھے بیڑے کو پروازوں سے باہر کرنا پڑا۔ یہ صورت حال صرف تکنیکی ناکامی یا پرزوں کی عدم دستیابی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسے نظام کا آئینہ دار ہے جو از خود خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے۔
دبئی بمقابلہ بھارت: زمینی حقیقت
اس کہانی کا ایک اور رخ بھی ہے۔ ابھیرام سنگھ جو پہلے ایک فلائٹ ٹیکنیشن کے طور پر بھارت میں کام کرتے تھے، آج کل دبئی میں ایمیریٹس میں ملازمت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق دونوں جگہوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ "بھارت میں طیارے کی صرف ایک بار جانچ کی جاتی ہے، وہ بھی ہوائی بیس پر۔ جبکہ دبئی میں ہر طیارے کی تین سے چار مرتبہ جانچ کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بھارت میں انجینئروں کی موقع پر موجودگی بھی یقینی نہیں ہوتی”۔
یہ تبصرہ صرف ایک انفرادی تجربہ نہیں، بلکہ یہ مجموعی طور پر ہندوستانی ایوی ایشن سیکٹر کے انحطاط کو بیان کرتا ہے۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ سپلائی چین کے مسائل، انجن فیلیور اور مہارت کی کمی نے بھارت کی ہوا بازی کی صنعت کو شدید متاثر کیا ہے۔
ایم آر او: ایک بڑھتی ہوئی صنعت، مگر کم زور بنیادوں پر
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام مسائل کے باوجود حکومت ہند ایم آر او شعبے میں خود کفیل بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ نیتی آیوگ کا اندازہ ہے کہ بھارت 2031 تک ایم آر او سیکٹر میں 4 بلین امریکی ڈالر تک کی ترقی حاصل کر لے گا جو 2021 میں 1.7 بلین ڈالر تھی۔ یہ ایک اوسطاً 8.9 فیصد سالانہ ترقی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر حکومت کی خواہش ہے کہ 2040 تک 90 فیصد ایم آر او ضروریات کی تکمیل بھارت میں ہی ہو جائے۔
ایسے خواب دیکھنا اگرچہ خوش آئند ہے مگر ان کی تکمیل کے لیے موجودہ انفراسٹرکچر، مہارت، تربیت اور نگرانی کے نظام کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بیشتر بھارتی ایئرلائنز اپنی انجن یا بھاری مینٹنینس کی خدمات غیر ملکی کمپنیوں سے حاصل کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف زر مبادلہ کا نقصان ہوتا ہے بلکہ مقامی ہنر اور ٹیکنالوجی کی ترقی بھی سست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔
مینٹنینس کے مختلف مراحل
طیارے کی مرمت کا عمل کوئی سادہ کام نہیں ہے۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق، ایم آر او کا دائرہ چار بڑے زمروں پر مشتمل ہوتا ہے:
لائن مینٹنینس: روزمرہ پرواز کے دوران کیا جانے والا معائنہ۔
کمپوننٹ مینٹنینس: انجن اور لینڈنگ گیئر، وغیرہ جیسے اجزاء کی مرمت۔
ہیوی مینٹنینس اور موڈیفکیشن: جس میں طیارے کو تقریباً 30 دن تک پرواز سے باہر رکھا جاتا ہے۔
نجن مینٹنینس: ہر تین سے چار ماہ میں کی جانے والی جانچ۔
اس کے علاوہ حادثاتی یا غیر متوقع خرابیوں کی صورت میں تقریباً 10 مختلف اقسام کی غیر مجوزہ جانچ بھی کی جاتی ہے۔
اخراجات، معیار اور کارپوریٹ ترجیحات
رپورٹ کے مطابق بھارتی ایئرلائنز اپنے کل محصولات کا 12 سے 15 فیصد طیارے کے مینٹیننس پر خرچ کرتی ہیں۔ یہ ایک خطیر رقم ہے مگر اس کے باوجود نتائج تشویش ناک ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مرمت کا عمل زیادہ تر آؤٹ سورس کیا جاتا ہے یا پھر اخراجات میں کمی کے لیے معیاری جانچ پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔
یہی سمجھوتے کسی بڑے فضائی حادثے کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے صرف مالی منصوبہ بندی کافی نہیں بلکہ حفاظت اور معیار کو اولین ترجیح دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
سیاست، پالیسی اور فضائی سلامتی
جب نیتی آیوگ جیسے ادارے ترقی کے ہدف طے کرتے ہیں تو وہ عموماً انویسٹمنٹ، ملازمتوں اور عالمی مارکیٹ میں مقام کے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔ مگر سلامتی، تربیت اور نگہداشت جیسے پہلوؤں کو اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ پہلو ہیں جو انسانوں کی جان سے راست تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ان کا خیال نہ رکھا گیا تو ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہوں گے۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟
ہندوستان کے ایوی ایشن سیکٹر کے سامنے اس وقت دو راستے ہیں: یا تو وہ موجودہ نظام میں چھوٹے موٹے اصلاحات کرتے ہوئے عالمی دوڑ میں پیچھے ہی پڑا رہے یا پھر وہ فضائی سلامتی، انجینئرنگ معیارات اور ملازمین کے حالات کو بہتر بنا کر ایک خود کفیل، محفوظ اور اخلاقی طور پر ذمہ دار ہوا بازی کی صنعت کا نمونہ پیش کرے۔
اس کے لیے محض سرمایہ کاری کافی نہیں بلکہ ایک نظریاتی تبدیلی، شفافیت، مزدور دوست پالیسی اور تکنیکی دیانت داری کی بھی ضرورت ہے تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ ہندوستانی فضاء میں صرف طیارے نہیں، بھروسا بھی پرواز کرتا ہے۔
نیتی آیوگ کی رپورٹ بظاہر ترقی کا روڈ میاپ دکھاتی ہے مگر اس کے بین السطور میں ایک ہنگامی پیغام بھی پوشیدہ ہے: اگر طیارے مسلسل پروازوں سے ہٹتے رہیں، انجینئرز دبئی فرار ہوتے رہیں اور سلامتی کو تجارتی فائدے پر قربان کیا جاتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب بھارت ایم آر او ہب بننے کے بجائے ایوی ایشن حادثات کا مرکز بن جائے گا۔
ہمارے سامنے سوال یہ نہیں کہ کتنے جہاز پروازوں سے ہٹے بلکہ یہ ہے کہ ہمارا طیارہ ساز نظام کب زمین پر اترے گا—احتساب کے لیے، اصلاح کے لیے اور محفوظ پروازوں کے لیے۔ کیونکہ آسمان کا سفر تبھی خوب صورت ہوتا ہے جب زمین پر اس کی تیاری دیانت داری کے ساتھ کی جائے۔
***

 

***

 ہندوستان کے ایوی ایشن سیکٹر کے سامنے اس وقت دو راستے ہیں: یا تو وہ موجودہ نظام میں چھوٹے موٹے اصلاحات کرتے ہوئے عالمی دوڑ میں پیچھے ہی پڑا رہے یا پھر وہ فضائی سلامتی، انجینئرنگ معیارات اور ملازمین کے حالات کو بہتر بنا کر ایک خود کفیل، محفوظ اور اخلاقی طور پر ذمہ دار ہوا بازی کی صنعت کا نمونہ پیش کرے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025