تحریک ِخلافت کےایک سو سال
ایک فراموش کردہ سبق جسے پھر یاد کرنے کی ضرورت ہے
افروز عالم ساحل
آج سے ٹھیک 100 سال پہلے 19 مارچ 1920 کو پورے ہندوستان میں ’یوم خلافت‘ منایا گیا۔ اس موقع پر بمبئی میں ایک عوامی جلسہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت میاں محمد حاجی جان محمد چھوٹانی نے کی تھی۔ اس جلسہ میں تقریباً 30 ہزار لوگ موجود تھے جن میں مسلمان، ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ شامل تھے اور شوکت علی اور گاندھی جی بطور خاص حاضر ہوئے تھے۔ اس جلسہ میں ایک قرار داد منظور کی گئی جسے گاندھی جی نے پیش کیا تھا۔ اس قرار داد میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ بمبئی کے ہندووں مسلمانوں اور دیگر شہریوں کا یہ عوامی جلسہ برطانیہ اور سارے ہندوستان کے مسلمانوں کے دل کو مجروح کرنے کے مقصد سے جاری تشدد اور غیر ذمہ دارانہ تحریک کے تئیں شدید مخالفت کا اظہار کرتا ہے۔ اس تجویز میں خلافت کمیٹی نے یہ تجویز منظور کی کہ اگر خلافت کے مسئلہ کو کسی اور ڈھنگ سے حل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا نتیجہ آخرکار یہ نکلے گا کہ لوگ حکومت سے تعاون کرنا مکمل طور بند کردیں گے۔ اس قرار داد میں اور بھی اہم تجاویز شامل تھیں۔
ان تجاویز پر گاندھی جی نے کافی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ’یہ میرے لیے بے حد خوشی کی بات ہے کہ مجھے اس خوش آئند اجلاس کی واحد قرار داد پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔’ اس کے بعد گاندھی جی نے اس تجویز کے چار حصوں پر تفصیل سے اپنی بات رکھی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ گاندھی جی کا حکومت سے عدم تعاون کا پروگرام عوام کے سامنے پہلی مرتبہ 26 جنوری1920 کو میرٹھ میں منعقدہ خلافت کانفرنس میں متعارف کرایا گیا تھا۔ 29 فروری 1920 کو ٹاؤن ہال کلکتہ میں منعقدہ دوسری کانفرنس میں مولانا آزاد نے اپنے صدارتی خطبہ میں اس پروگرام کو مسلمانوں کی جانب سے منظور کرنے کی سفارش کی۔
بمبئی کے اس عوامی جلسہ کے ساتھ ملک کے تمام بڑے شہروں، اضلاع، قصبوں اور دیہاتوں تک میں ’یوم خلافت’ بڑے جوش وخروش سے منایا گیا۔ ہر جگہ عوامی جلسے منعقد کیے گئے۔ مکمل ہڑتال کی گئی۔ یہ جلسے تمام ہندوستان میں گویا ستیہ گرہ کے ریہرسل تھے جو پورے امن وامان کے ساتھ ہر جگہ منعقد ہوئے۔
حالانکہ اس سے قبل پورے ہندوستان میں 17 اکتوبر 1919 کو ترکی کے خلیفہ کے لیے ’یوم دعا’ منایا گیا۔ اس دن کو بھی کئی مصنفوں نے ’یوم خلافت‘ کا ہی نام دیا ہے۔ اس موقع پر بھی گاندھی جی نے کافی اہم تقریر کی۔ انہوں نے خلافت کی اہمیت پر زور دیا اور صاف لفظوں میں کہا کہ میں جانتا ہوں آج آپ کے لیے خلافت ہی سب کچھ ہے اور ہندو اس تحریک میں آپ کے ساتھ ہیں۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ اس تحریک کے معاملے میں سنجیدہ ہیں؟ اگر آپ سنجیدہ ہیں تو خدا یہ دعائیں ضرور سنے گا اور اگر آپ کے مطالبات جائز ہیں تو آپ کو ان کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسی دن سے ہی خلافت کمیٹی کے لیڈروں اور گاندھی جی کے درمیان روابط بڑھنے شروع ہوئے اور گاندھی جی کا نمایاں کردار نظر آنے لگا۔
محمد عدیل عباسی اپنی کتاب ’تحریک خلافت’ میں لکھتے ہیں ’آل انڈیا مسلم کانفرنس لکھنو کے بعد وزیر اعظم برطانیہ لائڈ جارج نے لارڈمیر کی دعوت میں ایک تقریر کی جس سے یہ اندازہ ہوا کہ وزیر اعظم برطانیہ اب اپنے وعدوں سے انحراف کرنے والے ہیں۔ اس تقریر نے مسلمانوں میں بہت جوش بھر دیا۔
اس کے بعد 23 نومبر 1919ء کو خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس دہلی میں ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت بنگال کے فضل الحق کر رہے تھے، گاندھی جی بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ اس اجلاس میں صرف خلافت کمیٹی کے نمائندے شریک کیے گئے جو تمام صوبوں سے آئے تھے۔ سندھ، رنگون، بنگال اور بہار، صوبہ متحدہ وغیرہ کی خلافت کمیٹیوں نے ہندو احباب کو اپنا نمائندہ بنا کر بھجوایا تھا تاکہ وہ مسئلہ خلافت پر اپنے مقامی مسلمانوں کی نمائندگی کریں۔ شیعہ حضرات بھی اس میں شریک تھے۔
9 جون 1920 کو الہٰ آباد میں خلافت کمیٹی کا جلسہ ہوا جس میں یہ طے پایا کہ وائسرائے کو ایک ماہ کی نوٹس دی جائے کہ وہ خلافت کے مسئلہ کو ایک مذہبی مسئلہ کی حیثیت سے قبول کریں ورنہ ہم ترک موالات پر مجبور ہوں گے۔ اس کے بعد ہی خلافت کمیٹی کا ایک وفد تشکیل دیا گیا جو چار اشخاص پر مشتمل تھا۔ ان چار اشخاص میں مولانا شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد، مظہر الحق اور یعقوب حسن شامل تھے۔ یہ وفد 1920 کے جون کے آخر میں وائسرائے ہند سے ملا اور صاف طور پر کہا کہ خلافت کا مسئلہ ہم مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی مسئلہ ہے اس لیے آپ ہوم گورنمنٹ پر دباو ڈالیں کہ وہ معاہدہ صلح ترکی میں ہمارے مطالبات کے مطابق مناسب ترمیمات کرے ورنہ ہم مجبور ہوں گے کہ یکم اگست 1920 سے ترک موالات کی تحریک شروع کر دیں۔ قاضی محمد عدیل عباسی لکھتے ہیں، ’یہ پہلا الٹی میٹم تھا، جو حکومت برطانیہ کی ’وفادار رعایا’ نے اپنے آقاؤں کو دیا۔ گویا طوق غلامی اتار پھینکا اور آزاد انسانوں کی حیثیت سے حکومت کے بالمقابل کھڑے ہوکر چیلنج دے دیا۔ اب طبل جنگ بجنے کی دیر تھی۔’
22 جون 1920 کو مہاتما گاندھی نے بھی وائسرائے ہند سے اپیل کی جس میں کہا کہ میں نے لندن میں انڈین والنٹیرس کو ایمبولنس کور وغیرہ میں محنت و جانفشانی سے بھرتی کرائی اور ہمیشہ برطانیہ کا وفادار رہا۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ مسئلہ خلافت کو مسلمانوں کی مرضی کے مطابق کرادیجیے۔ اب بھی وقت باقی ہے ورنہ میں پہلا شخص ہوں گا جو آپ کے خلاف علم بغاوت بلند کروں گا۔ اس طرح یکم اگست 1920 کو پورے ہندوستان میں تحریک عدم تعاون کی شروعات ہوئی۔ سب سے پہلے مہاتما گاندھی نے حکومت کو اپنے تمغہ جات اور خطابات کی واپسی کا اعلان کیا۔غرض پورا ہندوستان جاگ چکا تھا۔ ۔خلافت تحریک کی ایک خاص بات یہ تھی کہ مسلمانوں نے اپنے ہم وطن ہندو بھائیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو اس بات کا قائل کرا لیا تھا کہ خلافت مسلمانوں کے لیے ایک دینی فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ ہر حال میں اس کا احیا چاہتے ہیں لیکن ماضی کا یہ روشن باب اب نگاہوں سے اوجھل ہو چکا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے ہندستان کے مسلمان اس فراموش کردہ سبق کو پھر سے یاد کریں۔ اور صرف مسلمانانِ ہند ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے لیے تحریک چلانے اور دنیا کو اس کی افادیت سے واقف کروانے اور فیض پہنچانے کی ضرورت ہے۔