یہ ملک کی جمہوری تاریخ میں مسلمانوں کیخلاف نفرت کی انتہا ہے
پارلیمنٹ میں رمیش بدھوڑی کے ذریعہ ایم پی کنور دانش علی کے خلاف کئے گئے نازیبا تبصرہ پر جمعیۃ علمائے ہند نے شدید مذمت کی
نئی دہلی، 24ستمبر :۔
پارلیمنٹ میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کے ذریعہ مسلم رکن پارلیمان کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور دہشت گرد کہے جانے پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشدمدنی نے سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کی جمہوری تاریخ میں ایک شرمشار کردینے والا پہلا واقعہ ہے۔
انہوں نے اخبار نے نام جاری ایک بیان میں کہاکہ گزشتہ روز پارلیمنٹ میں حکمراں پارٹی کے ایک ممبرکے ذریعہ جس طرح ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کے لئے غیر پارلیمانی زبان کا استعمال ہوا یہاں تک کہ اسے کھلے عام دہشت گرد اور دیگر انتہائی قابل اعتراض الفاظ کا استعمال اور پارلیمنٹ کے باہر دیکھ لینے کی دھمکی دی گئی یہ شرمناک اور جمہویت پر دھبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی بہت سے ایشوز پر پارلیمنٹ میں انتہائی گرماگرم اورتلخ بحثیں ہوتی رہی ہیں لیکن کسی منتخب نمائندہ کے خلاف کسی دوسرے ممبر نے ایسے ناپاک اور غیر جمہوری الفاظ کا استعمال کبھی نہیں کیا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ یہ جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت کی انتہاہے جو اب جمہوریت کے ایوان تک جا پہنچی ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جب مذکورہ ممبر ایسی ناپاک اور غیر پارلیمانی زبان بول رہا تھا تو حکمراں جماعت کے کسی ممبر نے اسے نہیں روکا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہیٹ اسپیچ نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ تھی اور ایوان کے اسپیکر کو فورا اس کا نوٹس لینا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اگر اپوزیشن کے کسی ممبر نے ایوان میں ایسی زبان کا استعمال کیا ہوتا تو اسے اسی وقت ایوان سے باہر نکال کر اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا اور الیکٹرانک میڈیا اس پر ایک طوفان کھڑا کر دیتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کے خلاف اس طرح کی زبان کا استعمال یہ باور کراتا ہے کہ عام مسلمانوں کو تو جانے دیں اب مسلمانوں کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ اگر آج کے نئے ہندوستان کی یہی تصویر ہے تو یہ بہت خطرناک اور مایوس کن ہے۔ سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقریر کے خلاف از خود نوٹس لیکر کارروائی کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں اور اس کی بنیاد پر بعض معاملوں میں کارروائی بھی ہوئی ہے لیکن چونکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کا ہے اس لئے کارروائی کا مکمل اختیار اسپیکر کے پاس ہے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ اسپیکر کی یہ آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ ممبر کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم دیں۔