یکساں سِول کوڈ : حقیقت اور مطالبات

خواتین کے حقوق کی دہائی ایک فریب کے سوا کچھ نہیں

0

سمیہ بنت عامر خان

انسان ہمیشہ سے محبت اور امن کا خواہاں رہا ہے، لیکن اس کے باوجود دنیا کے مختلف خطوں میں نفرت کی ایسی آگ بھڑک چکی ہے جس نے پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ نفرت کبھی رشتوں میں بغض و حسد کی صورت میں پروان چڑھتی ہے، تو کبھی ووٹ بینک کی نفرت انگیز سیاست کی بدولت ہندو مسلم تہذیب کے درمیان خلیج پیدا کرتی ہے۔ اسی سیاست کے زیرِ اثر گزشتہ چند دہائیوں میں ہمارا ملک ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
قتل و غارت، لڑائی جھگڑے اور شر و فساد جیسے منفی عناصر نے ملک و معاشرے سے اخلاقیات کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس اخلاقی زوال کا سب سے بڑا سبب نفرت کا وہ بیج ہے جو اس حد تک جڑ پکڑ چکا ہے کہ ہماری سوچ کا حصہ بن گیا ہے—”انسانیت کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے!”
آج آزاد ہندوستان اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ خطرے میں صرف مسلمان یا دلت نہیں بلکہ پورا ہندوستان ہے—ہندوستان کا آئین، جمہوریت اور اس کا مستقبل۔ وہ آئین جسے جنگِ آزادی کے جاں نثاروں نے اپنے خون سے سینچا تھا، اور ایک ’سیکولر، جمہوری ریپبلک‘ کی بنیاد رکھی تھی، آج اسی ریپبلک کی جڑوں میں نفرت کا تیزاب انڈیلا جا رہا ہے۔
اس سیکولر چمن میں ‘یونیفارم سِول کوڈ’ جیسے بیج بو کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں۔ یونیفارم سِول کوڈ دراصل قوانین کا ایسا مجموعہ ہے جو شادی، وراثت اور گود لینے جیسے معاملات میں مختلف مذاہب کے ذاتی قوانین کا متبادل ہوگا۔
مودی سرکار کا مؤقف ہے کہ "ایک ملک میں ایک ہی قانون ہونا چاہیے، جس طرح ایک گھر میں الگ الگ قانون ہو تو گھر نہیں چلتا، اسی طرح ایک ملک میں بھی مختلف قوانین نہیں چل سکتے۔” ان کا اشارہ مسلم پرسنل لا جیسے قوانین کی طرف ہے۔ مگر یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہندوستانی قوانین میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب اور قبائل کے رسوم و رواج کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔
قارئینِ کرام! ہمارا ہندوستان ایک تکثیری معاشرہ ہے جہاں مختلف مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں کے حامل لوگ بستے ہیں۔ ہندوستانی آئین کی دفعات 25 سے 29 ہر شہری کو مذہبی آزادی، اس پر عمل اور اس کی تبلیغ کا مکمل حق عطا کرتی ہیں۔ تہذیبی اقلیتوں کو اپنی تہذیب اور شناخت برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔
دفعہ 44 اگرچہ یکساں سِول کوڈ کے نفاذ کی اجازت دیتا ہے، لیکن یہ اسی وقت نافذ کیا جا سکتا ہے جب تمام طبقات اس پر متفق ہوں۔ بصورتِ دیگر، یہ اقدام دفعات 25 سے 29 سے متصادم ہو جائے گا، جو ہر شہری کو انفرادی مذہبی و تہذیبی آزادی فراہم کرتے ہیں۔
جب ہندوستان آزاد ہوا اور ملک کا نیا دستور بنا، تو اس میں مسلم پرسنل لا کو قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ دستور ساز اسمبلی میں صاف طور پر یہ اعلان کیا گیا تھا کہ مسلم پرسنل لا میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ لیکن آج اسی ملک میں مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے اور یونیفارم سول کوڈ کی بات کی جا رہی ہے۔
یونیفارم سِول کوڈ یا یکساں شہری قانون سے مراد وہ قوانین ہیں جو کسی مخصوص خطے میں آباد لوگوں کی سماجی اور عائلی زندگی کے لیے بنائے گئے ہوں۔ ان قوانین کے تحت ہر فرد کی شخصی اور خاندانی زندگی جیسے شادی، طلاق اور وراثت وغیرہ کو اس کے مذہب اور رسم و رواج کے مطابق نہیں بلکہ ایک ہی قانون، یعنی یونیفارم سِول کوڈ کے تحت حل کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت نکاح اور طلاق جیسے امور بھی انجام دیے جاتے ہیں۔ یعنی سِول کوڈ میں وہ تمام امور شامل ہیں جو پرسنل لا سے متعلق ہیں۔
مسلم پرسنل لا کے حوالے سے تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو آزادی سے قبل بھی اس پر بحث و مباحثہ ہو چکا تھا۔ 1963 میں حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دینے کی کوشش کی تھی جس کا مقصد مسلم پرسنل لا میں تبدیلی پر غور کرنا تھا۔ تاہم مسلمانوں کی مخالفت کے نتیجے میں یہ کمیشن تشکیل نہیں پایا۔ وزیر قانون نے پارلیمنٹ میں یہ کہہ کر بحث ختم کر دی کہ حکومت اس وقت مسلم پرسنل لا میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کو مناسب نہیں سمجھتی۔ یہ جملہ اس بات کا غماز ہے کہ مسئلہ ختم نہیں ہوا اور نہ ہی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی۔ حالات سازگار نہیں ہیں، اس لیے اس پالیسی پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح 1972 میں مرکزی وزیر قانون مسٹر گوکھلے نے پھر اس پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے Adoption of Children Bill 1972 کو پیش کیا اور پارلیمنٹ میں کہا: ’’یہ مسودہ قانون یونیفارم سِول کوڈ کی طرف ایک مضبوط قدم ہے۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مسلسل یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی خواہش مند رہی ہے۔
کچھ لوگ انتہاپسندوں کی صورت میں قوت کے سہارے یونیفارم سِول کوڈ کے نفاذ کی حمایت کرتے ہیں، تو کچھ اصلاحات کے نام پر اس کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ مغربی خیالات اور مغربی طرزِ تعلیم و تربیت کے زیرِ اثر، ہندوستانی دستور کے فریم ورک میں اسلامی شریعت کو فرد کا ذاتی معاملہ تو سمجھا جا سکتا ہے، لیکن قانون کے طور پر نہیں۔
یونیفارم سِول کوڈ سے مسلمانوں کے اختلاف کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ قانون مذہبی تعلیمات کے متضاد ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد عائلی اور شخصی زندگی میں قرآن و سنت کے احکامات سے انکار کرنا پڑے گا، جس کے نتیجے میں حلال و حرام کے تصورات کا خاتمہ ہو جائے گا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے کچھ تہذیبی امتیازات، رسم و رواج اور جغرافیائی حالات پر مبنی ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے بھی تہذیبی امتیازات ہیں جو مذہبی تعلیمات پر مبنی ہیں۔
اگر یونیفارم سِول کوڈ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ مسلم خواتین کے حق میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ مثلاً، اگر مرد سے طلاق کا حق چھین لیا جائے تو عورت پر ظلم کرنے والا شوہر، جو بچوں کی کفالت کے قابل نہ ہو، تو عورت کو اس ظلم کو سہنا پڑے گا۔
قارئینِ کرام! کیا ایک عورت کا اس طرح کے ظلم کو سہنا درست ہو گا؟ فرض کریں، طلاق ایک سنگین معاملہ ہے، لیکن عورت کے لیے ایک راستہ کھلا رہتا ہے جس کے ذریعے وہ طلاق کے ذریعے ظلم سے نجات پا سکتی ہے۔
بیویوں کی تعداد ایک اہم نقطہ ہے، خصوصاً جب کوئی شخص اولاد سے محروم ہو یا اس کی بیوی کسی مستقل بیماری میں مبتلا ہو، تو اسے دوسری شادی کی اجازت ہونی چاہیے۔ یونیفارم سول کوڈ اس بات پر بھی ضرب لگاتا ہے۔ ہماری حکومت تعداد ازدواج پر پابندی کی قائل ہے، جبکہ ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ کی مکمل اجازت دیتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ ’’گُڑ کھائیے اور گُلگلوں سے پرہیز کیجیے‘‘، حالانکہ ’’لیو ان ریلیشن شپ‘‘ موت کے مترادف ہے۔ جبکہ ہم یہ دیکھتے آ رہے ہیں کہ کس طرح کئی لڑکیاں اس رشتے کی بدولت موت کے گھاٹ اتر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ، یونیفارم سول کوڈ کے مطابق یہ قانون عورتوں کو مرد کے برابر حصہ دلانے کے مترادف ہے۔ یوں تو عورت کا مرد کے برابر حصہ دینے کا نعرہ خوش کن لگتا ہے، لیکن جب ہم اس کی جڑ تک پہنچتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مرد کے فرائض میں ماں باپ، بچے، بھائی بہن کی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ رہائش، کھانا، کپڑے، تعلیم، علاج وغیرہ، یہ سب بڑی ذمہ داریاں ہیں، جبکہ عورت پر مال کمانے اور خرچ کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
اگر حکومت کو خواتین کی بھلائی کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر عورتیں سماج میں بے شمار مسائل سے دوچار ہیں۔ ان مسائل کو حل کیوں نہیں کیا جاتا۔ آئے دن زنا بالجبر کی وارداتیں ہو رہی ہیں، جہیز کے نام پر عورتوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے اور بیواؤں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ان تمام مسائل کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔
سیکولر ریاست کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ریاست کے کونے کونے میں پائے جانے والے مذہبی نقوش مٹا دیے جائیں، بلکہ سیکولرزم کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا، وہ کسی مذہب کی طرف دار نہیں ہوگی، اور کسی بھی مذہب کے درمیان امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ ہر فرد کو مذہب کے انتخاب کی آزادی ہوگی۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر ہندوستان کے دستور کی تشکیل کی گئی ہے۔
ملک کے لیے اتحاد و اتفاق اور قومی یکجہتی بہت ضروری ہے، اور ہندوستان میں آباد مختلف فرقوں کے درمیان دوستی کے جذبے کو فروغ دینا بہترین ملکی خدمت ہے۔ لیکن قومی یکجہتی کو سیاسی استحصال کے لیے استعمال کرنا بدترین قسم کی وطن دشمنی ہے۔
قانون سازی ایسی ہونی چاہیے کہ اس ملک میں آباد تمام مذہبی، تہذیبی اور لسانی اکائیاں اپنی انفرادیت کو محفوظ سمجھیں اور اس قانون کے دائرے میں رہ کر وہ ملک کے استحکام اور ترقی میں پرسکون اور باعمل شہری کی حیثیت سے حصہ لے سکیں۔ لیکن اگر مختلف تہذیبی، لسانی یا مذہبی اکائیاں کسی قانون کے ذریعے اپنی انفرادیت کو مٹتا ہوا محسوس کریں گی تو ان میں رد عمل پیدا ہوگا۔ ایسی صورت میں یونیفارم سِول کوڈ قومی یکجہتی کا ذریعہ نہیں بن سکے گا، بلکہ یہ قومی انتشار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
***

 

***

 قانون سازی ایسی ہونی چاہیے کہ اس ملک میں آباد تمام مذہبی، تہذیبی اور لسانی اکائیاں اپنی انفرادیت کو محفوظ سمجھیں اور اس قانون کے دائرے میں رہ کر وہ ملک کے استحکام اور ترقی میں پرسکون اور باعمل شہری کی حیثیت سے حصہ لے سکیں۔ لیکن اگر مختلف تہذیبی، لسانی یا مذہبی اکائیاں کسی قانون کے ذریعے اپنی انفرادیت کو مٹتا ہوا محسوس کریں گی تو ان میں ردعمل پیدا ہوگا۔ ایسی صورت میں یونیفارم سول کوڈ قومی یکجہتی کا ذریعہ نہیں بن سکے گا، بلکہ یہ قومی انتشار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025