
یو پی کے اضلاع میں ہولی کے دن مساجد اور مزاروں کو پردے سے ڈھکا جانا جمہوریت کے خلاف
گنگا جمنی تہذیب؛ رواداری کے لیے مسلمانوں کا جمعہ کی نماز کے اوقات میں تبدیلی تو دلی میں نمازیوں پر پھولوں کی بارش
محمد ارشد ادیب
نفرت کی انتہا:ہولی کے موقع پر شر پسندوں نے بریلی کے ڈپٹی ایس پی کا بنگلہ نذر آتش کر ڈالا
سہارن پور میں گاؤ رکھشکوں کا کھل گیا پول۔ ہندو تنظیم کا بانی گرفتار
بہار کے بودھ گیا میں بی ٹی ایکٹ کے خلاف تحریک تیز، برہمنوں کی اجارہ داری ختم کرنے کا مطالبہ
شمالی ہند میں ہولی کے موقع پر رنگوں کا تیوہار روایتی جوش و خروش سے منایا گیا۔ اگرچہ کئی مقامات پر ماحول کو خراب کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اکثر مقامات پر مسلمانوں کی سمجھداری اور انتظامیہ کی مستعدی سے ہولی اور رمضان کا دوسرا جمعہ ایک ساتھ ہونے کے باوجود ماحول پر امن رہا، جبکہ بریلی میں شر پسندوں نے ڈپٹی ایس پی کا بنگلہ نذر آتش کر دیا۔ ڈپٹی ایس پی یشپال سنگھ نے کوتوالی تھانے میں اطلاع دے کر مقدمہ درج کرایا ہے۔ ان کے مطابق وہ بہیڑی علاقے میں گشت پر تھے، اس دوران کچھ شر پسندوں نے ان کے سرکاری بنگلے کو پٹرول ڈال کر جلا دیا۔ اس واردات میں ان کے ریوالور کی کارتوس میگزین، قیمتی دستاویز اور نجی گاڑی سمیت لاکھوں روپے کا گھریلو سامان جل کر راکھ ہو گیا۔ ہولی پر سیکیورٹی کے پختہ انتظامات کا دعویٰ کرنے والی یو پی پولیس اپنے اعلیٰ عہدے دار کے سرکاری بنگلے کی بھی حفاظت نہیں کر سکی، جبکہ یہ بنگلہ بریلی کی پرانی جیل روڈ پر ایس پی آفس سے صرف چند فرلانگ کی دوری پر واقع ہے۔ اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پختہ سیکیورٹی کے انتظامیہ کے دعوؤں میں کتنی سچائی ہے؟
یو پی میں مسلمانوں کی عبادت گاہیں پردوں سے ڈھکنے پر اٹھے سوالات؟
ہمارے ملک میں تیوہار چاہے ہندوؤں کا ہو یا مسلمانوں یا عیسائیوں کا، سبھی تیوہار آپسی بھائی چارے اور خوشیوں کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔ ملک کا دستور بھی سیکولر روایات کی پاسداری کرتا ہے۔لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے سیاست نے منافرت کا ایسا رنگ گھولا گیا ہے کہ خاص کر یو پی میں ہولی کے موقع پر کئی شہروں میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو پردوں سے ڈھکنا پڑ رہا ہے۔ اس طرح کا سب سے پہلا معاملہ شاہجہاں پور سے شروع ہوا تھا جہاں لاٹ صاحب کے روایتی جلوس کے لیے کئی برسوں سے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو حفاظت کے مد نظر پردے سے ڈھانپا جاتا رہا ہے۔ اس جلوس میں کسی ہندوستانی شہری کو انگریز لاٹ صاحب بنا کر گدھے یا بھینسا گاڑی پر بٹھا کر پورے شہر میں گھمایا جاتا ہے۔ اس دوران لاٹ صاحب کے گلے میں جوتوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں اور راستے میں پھولوں کے بجائے جوتے چپلوں سے ان کی خاطر مدارات کی جاتی ہے۔ انگریزوں کی مخالفت میں شروع کیے گئے اس جلوس میں رفتہ رفتہ مسلم دشمنی کا جذبہ سرایت کر گیا جس کے سبب ہندو مسلم منافرت پھیلنے لگی۔ کچھ سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسے روکنے کی کوشش بھی کی لیکن ضلع انتظامیہ روایت کے نام پر اس کا دفاع کرتی رہی۔ کئی موقعوں پر مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر رنگوں کے ساتھ کیچڑ پھینکنے کے واقعات بھی پیش آئے جس کے بعد مسجدوں اور درگاہوں کو پردے سے ڈھکنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس سال بھی ایک مسجد میں جوتے پھینک کر ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی جسے کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ہولی کے موقع پر اتر پردیش کے تقریباً 12 شہروں تک یہ سلسلہ دراز ہو گیا، بریلی سہارنپور، مراد آباد، سنبھل اور علی گڑھ میں مسجدوں اور مزاروں کو پردے سے ڈھکے جانے کی اطلاعات ہیں۔ سنبھل میں ہولی کے موقع پر ایک ہزار سے زائد افراد کو احتیاطاً حراست میں لیا گیا ہے۔ اس پر سیکولر جماعتوں اور دانشوروں کی جانب سے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق عبادت گاہوں کو ڈھکنے کی روایت دستور کے ساتھ ہماری مشترکہ تہذیب اور سیکولر روایت کے منافی ہے۔ اس طرح کے واقعات سے پوری دنیا میں ہمارے ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے۔ کرشن کانت نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا "سیکڑوں سال کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے جبکہ ہندو تہوار کے موقع پر مسلم آبادی میں ان کے مذہبی مقامات کو پردے سے ڈھانکا گیا ہے۔ ایسا تو انگریزوں کے دور میں بھی نہیں ہوا تھا اور نہ ہی مغلیہ عہد میں ہوا تھا۔
مسلمانوں کا جمعہ کی نماز کے اوقات میں تبدیلی
لکھنؤ کے اسلامک سنٹر آف انڈیا سے ہولی کی مد نظر جمعہ کی نماز میں تاخیر کرنے کی اپیل پر پرانے لکھنو کی ہولی کمیٹیوں نے اپنا جلوس تھوڑا پہلے ختم کر دیا جس کے بعد دلی اور اتر پردیش کے کئی شہروں میں اسی طرح کی مذہبی رواداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کا برادران وطن نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔ اجے شکلا نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا” چلو ایسا کریں کہ مل جل کر بانٹ لیں خوشیاں… ادھر جمعہ پڑھیں گے ہم ادھر ہولی منانا تم…
لکھنو میں بالکل یہی ہوتا تھا ہمارے والد صاحب بطور پولیس افسر اسی انداز سے ہولی دیوالی اور کرسمس پر سماج کو جوڑ کر پیار سے لا اینڈ آرڈر سنبھالتے تھے مگر اب تو اپنی ڈیوٹی نبھانے والے پولیس افسر کی ہمیں الگ سے پہچان کر کے تعریف کرنی پڑتی ہے کیونکہ پولیس افسر اپنی ڈیوٹی نفرت پھیلانا اور تشدد کو عام کرنا سمجھنے لگے ہیں‘‘ اس پر ایک صارف نے تبصرہ کیا ’’یہ ہوئی نا بات یہی اصلی بھارت ہے‘‘ ڈاکٹر مونیکا سنگھ نے اپنی وال پر دیوا شریف کا ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’نفرت کے دور میں مسلمانوں کا ایک پیغام، پہچان کے دکھاؤ کون ہندو کون مسلمان‘‘ دراصل ہولی اور عید گنگا جمنی تہذیب کی علامات ہیں انہیں مذہبی رواداری کے ساتھ منائے جانے میں سب کی بھلائی ہے۔
دلی میں نمازیوں پر پھولوں کی بارش
شمالی بھارت میں ایکا دکا واقعات اور نفرتی بیان بازی کے درمیان ہولی کا سب سے خوبصورت منظر دلی کے سیلم پور علاقے میں دیکھنے کو ملا جب اس علاقے میں ہولی کھیلنے والوں نے جمعہ کی نماز پڑھ کر لَوٹنے والے نمازیوں پر پھولوں کی بارش کی۔ سیلم پور کا یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا جس پر لوگوں نے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ پنڈت سنیل شکلا نام کے صارف نے لکھا ’یار محبت سے انکار ہوتا تو آج ہندوستان میں ایک بھی غیر ہندو نہیں رہتا۔ ہندوؤں کو کسی کے تیوہار کو بگاڑنے کا شوق نہیں ہے، نمازیوں پر رنگ ڈال کر خوشی نہیں ملے گی وہ تو پھولوں سے ہی ہولی کھیل کر ملے گی۔‘‘ فرح خان نے اس پر تبصرہ کیا ’’صرف چند لوگ نفرت کرنے والے ہیں بھائی! باقی آپ جیسے کروڑوں لوگوں کے دلوں میں آج بھی محبت باقی ہے‘‘
سنبھل کی جامع مسجد میں رنگ و روغن کی اجازت سے مسلمان مطمئن
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے سنبھل کی شاہی مسجد میں رنگ روغن کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت عالیہ نے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچائے بغیر مناسب روشنی کا نظم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ کورٹ نے اے ایس آئی کے ان الزامات کو بھی مسترد کر دیا جن میں مسجد کمیٹی پر 1927 کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا۔ عدالت نے محکمہ آثار قدیمہ اور حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا اگر مسجد انتظامیہ نے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی تو اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟ یہ تو اے ایس آئی کے افسروں کی لاپروائی ہے۔ عدالت نے ان کی جانب سے ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین کو دلائل پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جس کے سبب انہیں عدالت میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالت کے حکم کے مطابق مسجد انتظامیہ کمیٹی کو ایک ہفتے کے اندر رنگ روغن کے ساتھ لائٹنگ کا انتظام کرنا ہوگا اور اے ایس آئی کو اس کے اخراجات ادا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بی جے پی سنبھل کے بہانے ایودھیا کی طرز پر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن عدالت کے تلخ رویے سے اس کے ارادوں پر پانی پھر سکتا ہے۔
سہارنپور میں گاؤ رکھشکوں کا پردہ فاش۔ پولیس نے کیا گرفتار
سہارن پور پولیس نے گائے کے تحفظ کی آڑ میں فرقہ وارانہ فساد کرانے کی سازش کا پردہ فاش کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہندو یودھا پریوار کے وش کامبوج نے مردہ جانوروں کے سر اور ہڈیوں کو رکھ کر امبالا ہائی وے کو جام کر دیا۔ کامبوج نے اپنے دوست ٹیپو قریشی سے 50 ہزار روپے لے کر گاؤکشی کا ڈرامہ رچایا اور امبالہ شاہراہ پر ٹریفک کو روک دیا۔ پولیس نے مستعدی دکھاتے ہوئے کامبوج کو حراست میں لے لیا جہاں پوچھ تاچھ سے پتہ چلا کہ اس نے منصوبہ بند طریقے سے دو قریشیوں کی کاروباری رقابت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کی کوشش کی۔ اس کام میں کامبوج کے قریشی دوست ٹیپو نے 50 ہزار روپے کے ساتھ مردہ جانوروں کی کھوپڑیاں اور ہڈیاں بھی فراہم کیں۔ پولیس نے کامبوج کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے جبکہ اس کے مددگار ٹیپو قریشی کی تلاش جاری ہے۔ پولیس انسپکٹر نریندر شرما کے مطابق وش کامبوج نے ہندو یودھا نام سے ایک تنظیم بنائی ہے جس سے کئی نوجوان وابستہ ہیں۔ اس کے قبضے سے ایک آڈیو کلپ بھی برآمد ہوئی ہے جس میں پوری سازش کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ کامبوج جانوروں کے تاجروں سے طویل عرصے سے رابطے میں ہے اور وہ انہیں گرفتار کرانے کی دھمکی دے کر رقم وصول کرتا تھا۔ یہ تنظیم ہریانہ کے میوات سے لے کر مغربی اتر پردیش کے سیانہ تک سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی ہندو تنظیموں سے جڑے کئی نوجوان گاؤکشی کرانے کے الزام میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ یہ مبینہ طور پر گائے کے تحفظ کے نام پر گوشت کے تاجروں سے ناجائز وصولی کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے گاؤ کشی کا الزام لگاتے ہیں۔ صحافی آس محمد کیف نے اپنی ایکس پوسٹ میں اس واردات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’گندا ہے مگر دھندہ ہے۔ یہ ایک ہندو تنظیم کا لیڈر وش کامبوج، ویسے اسے وِش یعنی زہر لکھا جا سکتا ہے اس نے کم و بیش ویسا ہی کام کیا ہے۔ خیر، سہارنپور پولیس نے وش کو اینٹی وینم انجیکشن لگا دیا ہے جبکہ اس کے دوست ٹیپو قریشی کو پولیس سرگرمی سے تلاش کر رہی ہے۔‘‘
پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں ہندو نوجوان گرفتار
یو پی اے ٹی ایس نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں رویندر سنگھ نام کے نوجوان کو آگرہ سے گرفتار کیا ہے۔یہ نوجوان فیروزآباد آرڈیننس فیکٹری میں چارج مین تھا اور فیکٹری کی خفیہ معلومات نیہا نام کی ہینڈلر کو فراہم کرتا تھا۔ اسحاق احمد نام کے صارف نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’اے ٹی ایس نے آگرہ کے رویندر سنگھ کو گرفتار کیا ہے، اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ کیا اس کے گھر پر بلڈوزر چلے گا؟ اس پر بلیک اینڈ وہائٹ جیسے ٹی وی شوز پر کوئی مباحثہ ہوگا؟ واضح رہے کہ ان دنوں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے میڈیا میں دن رات پروپیگنڈا خبریں چلائی جاتی ہیں لیکن جب کوئی غیر مسلم کسی جرم میں گرفتار ہوتا ہے تو میڈیا خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ یہی آج کی سچائی ہے۔‘‘
بہار میں سیاسی ہلچل کے درمیان بودھوں کی تحریک تیز
بہار میں اسمبلی انتخابات کے مد نظر سیاسی اتھل پتھل کے درمیان بودھ گیا میں واقع مہا بودھی ٹمپل سے متعلق بی ٹی ایکٹ 1949 کا مسئلہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ بہار اسمبلی میں آر ای ڈی نے ایکٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ بودھ عقیدے کے ماننے والے گزشتہ 12 فروری سے احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں، اس دھرنے کو ایک مہینے سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن حکومت کی طرف سے اس مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں کوئی پہل نہیں ہوئی ہے۔ بودھ تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ بی ٹی ایکٹ سے ہندو اور برہمنوں کی بالادستی ختم کی جائے۔ دراصل بی ٹی ایکٹ کی مجلس عاملہ میں ضلع کلکٹر سمیت دس افراد ہوتے ہیں ان میں صرف چار بودھ ہوتے ہیں باقی ہندو اور دوسرے ہوتے ہیں۔ ایسے میں بودھوں کا کہنا ہے کہ اپنے مرکز عقیدت بودھ وہار کے انتظامات میں بھی وہ اقلیت میں ہیں اس میں بھی ہندو برہمنوں کی اجارہ داری اور بالا دستی قائم ہے۔ آزادی کے بعد نیا دستور نافذ ہو گیا لیکن اس ایکٹ کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ واضح رہے کہ مہا بودھ ٹمپل یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ پوری دنیا سے بودھ عقیدت مند اس مرکز کی زیارت کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بودھ عقیدے کے مطابق گوتم بدھ کو اسی مقام پر عرفان حاصل ہوا تھا۔ صحافی ہنس راج مینا نے اپنی ایکس پوسٹ میں اس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’مسلمانوں سکھوں اور عیسائیوں کے بعد بودھوں کے بھی رونے کی باری آگئی ہے، سبھی کا دھیرے دھیرے نمبر آئے گا، بس اپنی باری کا انتظار کریں۔ یاد رہے کہ وقف ترمیمی بل میں بھی اسی طرح کی تجاویز شامل کی جا رہی ہیں جس سے اوقاف کے انتظام و انصرام میں غیر مسلم افسروں کا عمل دخل بڑھ جائے گا جس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے۔‘‘
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025