یو آئی ڈی اے آئی نے حیدر آباد میں تین مسلم آدھار کارڈ حاملین کو شہریت ثابت کرنے کا حکم دیا

حیدرآباد، 19 فروری: شہر کے کم از کم تین مسلم باشندوں کو آدھار کارڈ آفس نے نوٹس دیے ہیں اور انھیں ہدایت دی کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ ہندوستانی شہری ہیں اور جعلی ذرائع سے آدھار نمبر حاصل نہیں کیا ہے۔

3 فروری کو دیے گئے نوٹس کے مطابق ان افراد کو اس لیے طلب کیا گیا ہے کیونکہ اتھارٹی کے حیدرآباد میں علاقائی دفتر کو "شکایت/الزام” موصول ہوا ہے کہ وہ ہندوستانی شہری نہیں ہیں اور انھوں نے "جھوٹے بہانہ” کے ذریعہ اور جھوٹے دستاویزات جمع کر کے آدھار حاصل کیا ہے۔

نوٹس میں دعوی کیا گیا ہے کہ حیدرآباد کے علاقائی دفتر نے اس الزام کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے اور ان تینوں کو 20 فروری کو انکوائری آفیسر امیتا بندرو کے سامنے طلب کیا ہے تاکہ وہ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے اصل دستاویزات پیش کریں۔ اگر وہ ذاتی طور پر پیش ہونے اور دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ان کے آدھار نمبر غیر فعال کردیے جائیں گے۔ تاہم نوٹس میں ان دستاویزات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے جن کو شہریت کا ثبوت سمجھا جائے گا۔

ایک بیان میں حکومتی ادارہ نے کہا کہ سماعت مئی تک ملتوی کردی گئی ہے "چونکہ ان کو [ان تینوں جواب دہندگان] کو ان کے اصل دستاویزات جمع کرنے میں مزید کچھ وقت لگ سکتا ہے، جیسا کہ ریاستی پولیس کے ذریعہ مطلع کیا گیا ہے۔”

آدھار ایکٹ 2016 کے تحت آدھار نمبرز کسی فرد کی رہائش گاہ سے منسلک ہوتے ہیں، شہریت سے نہیں۔ ہندوستان کے تمام باشندے، غیر ملکی شہریوں سمیت، اگر وہ ہندوستان کی منفرد شناختی اتھارٹی کے ساتھ اندراج کے لیے درخواست دینے سے قبل 182 دن سے زیادہ عرصہ سے ہندوستان میں مقیم ہیں تو وہ آدھار کے اہل ہیں۔

تینوں متاثرین کے وکیل مظفر اللہ خان شفاعت نے پوچھا "تو کس اتھارٹی کے ساتھ یو آئی ڈی اے آئی لوگوں سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کہہ رہی ہے؟ آدھار کے قواعد کے مطابق اگر یو آئی ڈی اے آئی کو پتہ چلتا ہے کہ کسی نے جعلسازی سے آدھار کو حاصل کیا ہے تو وہ اس نمبر کو غیر فعال کردیں گے اور اصل دستاویزات کے ثبوت طلب کریں گے، نہ کہ شہریت کے ثبوت طلب کریں گے۔”

شفاعت کے مطابق اس کے مؤکل ان پڑھ ہیں، جن کا تعلق محنت کش طبقے کے خاندانوں سے ہے اور وہ اسی علاقے کے رہائشی ہیں۔ وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں اور اب وہ دستاویزات اکٹھا کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں جس سے انھیں امید ہے کہ وہ ثابت کریں گے کہ وہ ہندوستانی ہیں۔

یو آئی ڈی اے آئی نے دعوی کیا ہے کہ نوٹس ایک "معمول کے معیار میں بہتری کے عمل” کا حصہ تھے جو باقاعدگی سے جاری ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ "ان نوٹسوں کا شہریت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور آدھار نمبر کی منسوخی کسی بھی رہائشی کی قومیت سے متعلق نہیں ہے۔” مزید کہا کہ "بعض اوقات آدھار نمبر کو منسوخ کرنا ضروری ہوجاتا ہے جب پتہ چلا کہ کسی باشندے نے غلط بایومیٹرکس یا دستاویزات پیش کرکے اسے حاصل کیا ہے۔”

سرکاری ادارہ نے واضح کیا کہ آدھار "شہریت کے دستاویز” نہیں تھے اور آدھار ایکٹ کے تحت یہ حکم دیا گیا ہے کہ یو آئی ڈی اے آئی "آدھار کے لیے درخواست دینے سے قبل ہندوستان میں کسی شخص کی رہائش کا پتہ لگاتا ہے”۔ اتھارٹی نے بتایا کہ حیدرآباد میں اس کے علاقائی دفتر کو یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ 127 افراد نے "جھوٹے بہانہ” پر آدھار حاصل کیا ہے اور ابتدائی تفتیش میں انھیں غیر دستاویزی تارکین وطن کا پتہ چلا ہے۔

واضح رہے کہ یہ نوٹس دسمبر میں منظور ہونے والے شہریت ترمیمی قانون اور شہریوں کے قومی اندراج کے خلاف احتجاج کے دوران سامنے آئے ہیں۔ اس ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی چھ اقلیتی مذہبی جماعتوں کے مہاجرین کو شہریت فراہم کی گئی ہے بشرطیکہ وہ چھ سال ہندوستان میں مقیم ہوں اور 31 دسمبر 2014 تک اس ملک میں داخل ہوں۔ اس کے ساتھ ہی حکومت غیرقانونی تارکین وطن کی شناخت کے لیے ہندوستان بھر میں ایک نیشنل رجسٹر آف سٹیزن چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے نقادوں کو خدشہ ہے کہ این آر سی کے ساتھ ملحقہ ترمیم شدہ شہریت کے قانون کا مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے غلط استعمال کیا جائے گا۔