یوپی کے بعد بہار میں بھی حلال مصنوعات پر پابندی کا مطالبہ

مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو لکھا خط ، حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کی فروخت پر فوری پابندی لگانے کا مطالبہ کیا

نئی دہلی ،23نومبر :۔

اتر پردیش میں حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کی فروخت پر پابندی عائد کی جا چکی ہے ،یو پی کے بعد گوا میں بھی شدت پسندوں نے پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے آواز بلند کی ہے ۔حلال مصنوعات کے خلاف پابندی کا مطالبہ اب بہار میں بھی کیا جانے لگا ہے ۔

بی جے پی کے اشتعال انگیز بیان بازی کے لئے مشہو ر رہنما اور مرکزی وزیر گرج راج سنگھ نے اتر پردیش کی طرح ہی بہار میں بھی حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کی فروخت پر فوری پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے نام لکھے ایک خط میں انھوں نے حلال سرٹیفکیشن اور سماجی طور پر تفریق آمیز و دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ممکنہ شراکت داری کے درمیان مبینہ رشتوں کے بارے میں فکر کا بھی اظہار کیا ہے۔

حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کے تعلق سے گری راج سنگھ نے زور دے کر کہا ہے کہ اس طرح کا سرٹیفکیشن، جس کا اسلامی پیمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، مذہب سے غیر متعلقہ مصنوعات کا اسلامینائزیشن کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انھوں نے اداروں پر حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے میں خود اتھارٹی بننے کا الزام بھی عائد کیا۔ خط میں انھوں نے لکھا کہ ’’حلال سرٹیفکیشن اور بزنس کے پیچھے کوئی بڑی سازش ہونے کا اندیشہ بے بنیاد نہیں ہے۔‘‘

اتر پردیش حکومت کے ذریعہ حلال سرٹیفکیشن کے خلاف حالیہ کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے گری راج سنگھ نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ریاست میں اسی طرح کا مضبوط قدم اٹھانے کی گزارش کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ بہار جیسی بڑی ریاست میں بھی حلال مصنوعات کے نام پر جس طرح کا جہاد چل رہا ہے، اس پر پابندی لگا کر ایسے تخریب کار اور سازشی عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔‘‘

واضح رہے کہ اتر پردیش حکومت نے حال ہی میں برآمدات کے لیے تیار مصنوعات کو چھوٹ دیتے ہوئے ڈیری، لباس اور دواؤں سمیت کچھ حلال سرٹیفائیڈ مصنوعات کے ڈسٹریبیوشن اور فروخت پر فوری اثر سے پابندی لگا دی ہے۔ مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے گزشتہ منگل کے روز اس قدم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ فوڈ سرٹیفکیشن صرف سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ کیا جانا چاہیے، نہ کہ غیر سرکاری اداروں کے ذریعہ۔ حالانکہ اتر پردیش کے ذریعہ کی گئی کارروائی کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے آواز بھی بلند کر دی ہے۔ اور قانونی چارہ جوئی کا اشارہ کیا ہے۔