یورپ نظریاتی اور داخلی بحران سے دوچار

فرانس و برطانیہ کے عوام نے اسلاموفوبیا کے شکار سخت گیروں کے مقابلے میں معتدل سیاسی جماعتوں کا انتخاب کیا

نور اللہ جاوید، کولکاتا

یہ صرف ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے ، انتہاپسندجماعتوں کے عروج کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں
بھارت کی انتہا پسنداور یورپ کی انتہا پسند جماعتوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں
مایوس دنیا کی رہنمائی کے لیے مسلمانوں کی نئی نسل کی نظریاتی تربیت اور ان میں داعیانہ کردار پیدا کرنے کی ضرورت
اب جب کہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اس لیے کسی بھی ملک کے قومی انتخابات اور اس کےنتائج اس کا داخلی معاملے نہیں رہے،بلکہ طاقت کے مراکز میں ہونے والی تبدیلیوں سے دوسرے ممالک اور اس کے عوام بھی متاثرہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج پر پوری دنیا میں بات ہورہی ہے۔مختلف ممالک اپنے اپنے نظریہ سےان انتخابات کے نتائج کا تجزیے کررہے ہیں ۔بھارت میں بھی ان دونوں ملکوں کے نتائج سے دائیں بازو کی جماعتیں اور ان کے ہم نوا صحافی و تجزیہ نگار پریشان ہیں اور یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بھارت میں بھی اسی طرز کی جیت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر ناکامی ہاتھ لگی۔
دراصل ان دونوں ممالک میں انتخابات کے نتائج ایک ایسے وقت آئے ہیں جب یورپ وسیع پیمانے پردائیں بازوکی جماعتوں کی گرفت میں ہے۔ بعض تجزیہ نگار اس کو دائیں بازو کی مقبولیت میں اضافے کا نام دیتے ہیں۔گزشتہ مہینے جون میں ہی یورپی انتخابات میں سخت گیر دائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والےامیدوار بڑی تعداد میں یورپی یونین کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔یورپی یونین کے انتخابات کے نتائج اس قدر حیران کن تھے کہ یورپی ممالک کے عوام اور سیاسی جماعتیں ششدر رہ گئیں ۔اس کے بعد نیدرلینڈز میں اسی ہفتے انتہائی دائیں بازو کی شخصیات پر مشتمل حکومت تشکیل دی گئی۔ اٹلی میں فاشسٹ جنگ کے وقت کے رہنما بینی ٹو مسولینی کے دور سے زیادہ دائیں بازو کے لیڈروں نے جیت حاصل کرکے اقتدار حاصل کی ہے۔ جارجیا میلونی اسی پارٹی کی قیادت کرتی ہیں اور اس وقت اٹلی کی وزیر اعظم ہیں۔اس کے علاوہ ہنگری اور پولینڈ میں دائیں بازو کی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں ۔اس کے بعد سے ہی دیگر یورپی ممالک میں دائیں بازو کے عروج کے امکانات کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں ۔دائیں بازو کی جماعتوں نے کس قدریورپ کی سیاست کو متاثر کیا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نےقبل از وقت پارلیمانی انتخابات کا اعلان کردیا۔اور پہلے دور کے انتخابی مرحلے میں یورپی یونین کے انتخاب میں بڑی جیت حاصل کرنے والے انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی نےپیش گوئی کے مطابق سب سے بڑی پارٹی بننے میں کامیاب ہوگئی ۔’نیشنل ریلی‘ کے قائد مارین لی پین سخت گیر موقف رکھنے والے لیڈر ہیں ۔نیشنل ریلی اور اس کے سربراہ مارلی پین اول دن سے ہی تنازعات میں رہے ہیں ۔نیشنل ریلی، تارکین وطن، اسلام، عوامی طور پرحجاب پہننے، اسکولوں میں مسلمان بچوں کے لیے خنزیر کے گوشت سے پاک کھانے کی فراہمی، یورپی یونین میں فرانس کی رکنیت وغیرہ کی مخالفت کرتی رہی ہے ۔ پہلے مرحلے میں ریلی پین نے 33فیصد سیٹیں حاصل کی تھی تاہم فرانسیسی انتخابی قانون کے مطابق اگر کوئی امیدوار کسی بھی حلقے میں 50 فیصد سے کم ووٹ حاصل کرتا ہے تو انتخابات دوسرے مرحلے میں چلےجائیں گے اور 12.5فیصد ووٹ سے زائد ووٹ حاصل کرنے والے تمام امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہوگا ۔چوں کہ فرانس کی ایسی 85فیصد سیٹیں تھیں جہاں پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے والوں نے 50فیصد سے کم ووٹ حاصل کیے تھے اور اب جب کہ 4جولائی کو دوسرے مرحلے کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے اس میں نیشنل ریلی تیسری پوزیشن پر پہنچ گئی ۔جب کہ بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد نیو پاپولر فرنٹ نے180سیٹوں کے ساتھ پہلے نمبرپر رہا ۔ فرانسیسی صدر میکرون کا سیاسی اتحاد ’’ٹوگیدر‘‘ دوسری پوزیشن پر ہے ۔انتخابات شروع ہونے سے قبل دعویٰ کیا جارہا تھا کہ نیشنل ریلی اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائے گی اور وزارت عظمیٰ حاصل کرلے مگر پہلے مرحلے میں سبقت حاصل کرنے کے بعد دوسرے مرحلے میں تیسری پوزیشن پر پہنچ گئی۔اگرچہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے نیشنل ریلی نے زیادہ ووٹ اور سیٹیں حاصل کی ہیں مگر اقتدار تک نہیں پہنچ سکی۔
دراصل یورپی یونین اور اب فرانس کے پہلے مرحلے میں نیشنل ریلی کی کامیابی کے بعد فرانس کی اہم شخصیات جن میں کھیل کی دنیا سے وابستہ افراد ، تھیٹر اور دیگر اہم شعبوں کی شخصیات شامل ہیں، وہ سامنے آئیں اور انہوں نےعوام کو انتہا پسندی کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے اپیل کی کہ فرانس کو انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے میرین لی پین کی’’نیشنل ریلی‘‘کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کو ووٹ دیں۔اس طرح کی اپیل کرنے والوں میں فرانس کی قومی فٹ بال ٹیم کے سپر سٹار Kylian Mbappé بھی شامل ہیں۔یہی وہ چیز ہے جو فرانس میں فنون لطیفہ اور دیگر اہم شعبوں سے وابستہ شخصیات کو بھارت میں فلم ، ادب و ثقافت اور دیگر اہم شعبوں سے وابستہ افراد سے ممتاز کرتی ہے ۔بھارت میں مسلم مخالف واقعات میں تیزی سے اضافہ ہونے کے باوجود کھیل اور فلمی دنیا سے وابستہ شخصیات خاموش ہیں اور کسی میں اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ بالی ووڈ، ہندوتوکے آگے نہ صرف سرنگوں ہے، بلکہ مسلم مخالف فلموں کی ہوڑ میں لگی ہوئی ہے ۔
برطانیہ میں گزشتہ 14برسوں تک اقتدار میں رہنے والی کنزرویٹو پارٹی کو بائیں بازو کی جماعت لیبر پارٹی کے ہاتھوں کراری شکست کا سامنا کرناپڑا ۔کنزرویٹو پارٹی یورپ کی دیگر ممالک کی طرح انتہائی سخت نہیں ہے۔مگر امیگریشن کے معاملے میں اس کا موقف سخت ہے۔برطانیہ میں حالیہ دہائیوں میں انتخابی مہم کے دوران امیگریشن ایک انتہائی متنازع مسئلہ رہا ہے۔یورپ کے دیگر ممالک کے علاوہ آسٹریلیا ، امریکہ اور خود بھارت میں بھی امیگریشن کے مسئلہ پرانتہاپسندانہ اور مذہبی تعصب پر مبنی سوچ ابھرکر سامنے آئی ہے۔سابق وزیر اعظم اور کنزرویٹو پارٹی کے رہنما رشی سونک اور موجودہ وزیر اعظم اور لیبر پارٹی کے رہنما کے درمیان ٹیلی ویژن پر ہونے والی بحث میں امیگریشن کا موضوع نمایاں رہا ۔برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم مسٹر اسٹارمر نے سونک کی قیادت میں مہاجرین کو روانڈا بھیجنے کے کنزرویٹو حکومت کے منصوبے پر تنقید کی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ اگر ان کی پارٹی الیکشن جیتتی ہے تو اس منصوبے کو ختم کر دیا جائے گا۔ بالآخر، لیبر پارٹی نے برطانیہ میں الیکشن جیت لیا اور مسٹر سٹارمر نے مہاجرین کو روانڈا بھیجنے کے منصوبے کو منسوخ کر کے اپنا وعدہ پورا کیا۔ نومنتخب وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے اگرچہ فلسطین میں جنگ بندی کی وکالت کی ہے مگر انہوں نے بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم دہرایا ہے۔اس موقف کی وجہ سےکئی علاقوں میں لیبر پارٹی کے امیدواروں کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے مقابلے میں فلسطین کی حمایت کرنے والے آزاد امیدواروں نے جیت حاصل کی ہے۔ٹونی بلیئر کا تعلق اسی لیبر پارٹی سے ہے جو عراق اور افغانستان میں بے گناہ شہریوں پر ہزاروں ٹن ہائیڈروجن بم گرانے میں سابق امریکی صدر جارج بش کے ساتھ شریک مجرم ہیں ۔ٹونی بلیئر اور جارج بش نے مل کر عراق میں غیر قانونی ہتھیار کا معاملہ اٹھاکر عراق کو تباہ وبرباد کردیا ۔تاہم کنزرویٹو پارٹی کے مقابلے میں حقوق انسانی کی پاسداری اور امیگریشن کے مسئلہ پر نرم ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا فرانس اور انگلینڈکے حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد یہ نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کے عروج کا سلسلہ رک جائے گا یا انگلینڈاور فرانس میں ناکامی کے باوجود دائیں بازو کی جماعتوں کے عروج کا سلسلہ جاری رہے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ دائیں بازو کی جماعتوں کے عروج کے نتیجے میں یورپ کی سیاست اور دنیا کے دیگر ممالک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔تیسرا سوال یہ ہے کہ آخر یورپ میں جس نے کئی دہائیوں سے چلی آرہی سخت گیری، نیشنل ازم اور مذہبی انتہاپسندی کی راہ ترک کرکے اعتدال پسندی، رواداری ، ہم آہنگی اور معاشی ترقی کا سفرشروع کیا تھا، وہاں قوم پرستی ، انتہاپسندی اور عدم رواداری کے جذبات کیوں فروغ پارہے ہیں؟
اس وقت یورپی ممالک میں جاری سیاسی بیان بازی کو دیکھا جائے تو فی الحال یورپ تقسیم سے دو چار ہے ۔ایک طرف پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونالڈ ٹسک ہیں جنہوں نے فرانسیسی پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مارین لی پین کی ’’نیشنل ریلی‘‘ کی جیت کو’’خطرناک موڑ‘ قرار دیا تھا اور دوسری طرف اسپین میں سوشلسٹ حکومت کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیزہیں جنہوں نے برطانیہ میں لیبر پارٹی کی جیت اور فرانس میں بائیں بازوکے اتحاد کی جیت کو ترقی یافتہ معاشرہ کی سوچ کی عکاس قرار دیا ۔وہیں جرمنی ایک ایسا ملک ہے جو جانتا ہے کہ پوری کمیونیٹی سے نفرت اور اس کو شیطانیت کے لیے مورد الزام ٹھیرادینے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔وہاں بھی انتہائی دائیں بازو کی الٹرنیٹیو فار جرمنی (AfD) یورپی یونین کے انتخابات میں دوسرے نمبر ہے۔یہ وہی جماعت ہے جس نے 2017 کے وفاقی انتخابات کے دوران اپنے منشور کے ایک پورے باب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جرمنی کا تعلق اسلام سے نہیں ہے اور جہاں اسلام ایک اجنبی مذہب ہے۔یورپ میں اس وقت تیزی سے مسلم مخالف جذبات ابھر رہے ہیں اور پاپولزم کی سیاست نے اس جذبے کو مزید فروغ دیا ہے۔ جون میں یورپی یونین کے 27 رکن ممالک میں ہونے والے یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی کامیابی پر معروف فرانسیسی میگزین، Le Monde Diplomatique نے اپنے جون 2024 کے شمارے میں ان انتخابات کے نتائج پر Shift Toward Borderless Far Right کے عنوان سے تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہےکہ آخر یورپ میں دائیں بازوں کی جماعتیں عروج کیوں حاصل کررہی ہیں۔
اسکاٹ لینڈ کے سابق وزیر اعظم حمزہ یوسف کا مشہور برطانوی اخبار ’’دی گارجین ‘‘ میں I was the first Muslim leader of a western democracy And I say Islamophobia has poisoned our politicsکے عنوان سے ایک طویل مضمون لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ دنیا میں بہت سے لوگ پاپولزم کے عروج پر بجا طور پر ماتم کرتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اس حقیقت کا سامنا کرنے کو تیار ہیں کہ مسلمانوں سے نفرت ہی یورپ اور مغرب میں پاپولزم کو آگے بڑھا رہی ہے۔2024 میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی انتخابات میں حصہ لے گی۔ بہت سے ممالک پہلے ہی انتخابات میں جا چکے ہیں، اور بہت سے ممالک میں ہونے والے ہیں خاص طور پر پورے یورپ میں، سب سے زیادہ فائدہ ان لوگوں نے حاصل کیا ہے جو مسلمانوں کو بدنام کر کے روزی کماتے ہیں۔میں فخر کے ساتھ ایک مغربی مسلمان ہوں۔ مجھے کسی بھی مغربی جمہوریت کا پہلا مسلم رہنما ہونے کا بڑا اعزاز احاصل ہوا ہے، اور پھر بھی ساتھی مسلمانوں کو یہ باور کرانا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ یورپ کو ہمارے وجود سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔حمزہ یوسف اپنے اس مضمون میں یورپی معاشرے میں پھیل رہی انتہا پسندی کے لیے سیاست دانوں کو ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔برطانیہ کے حالیہ انتخاب میں تیسری پوزیشن پر رہنے والی پارٹی نائیجل فارینج ریفارم یوکے (Nigel Farage’s Reform UK )سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فاریج انتخابی مہم کے دوران کہا ہے کہ مسلمان برطانوی اقدار میں شریک نہیں ہیں۔ 2015 میں انہوں نے کہا تھا کہ لوگوں کو مسلمانوں سے ’’پانچویں کالم‘‘ کا خوف ہے۔ 2013 میں اس نے مشورہ دیا کہ مسلمان تارکین وطن ’’ہمیں لینے کے لیے یہاں آرہے ہیں۔ فاریج سات بار منتخب ہونے میں ناکام رہے اور اس حقیقت سے قطع نظر کہ اس نے مذہبی اور نسلی کشیدگی کے شعلوں کو بھڑکا کر زندگی گزاری ہے، برطانوی میڈیا ان کو پلیٹ فارم مہیاکرانےکے جنون میں مبتلا نظر آتا ہے۔ ہم نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اہم عالمی چیلنجوں کا سامنا کیا ہے ،ایک عالمی مالیاتی بحران، ایک وبائی بیماری، تنازعات اور انتہائی موسمیاتی واقعات۔ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہنے والے سیاست دانوں نے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے دوسرے کے سراس کومونڈھنے کی کوشش کی تو ان کے لیے مسلمان آسان ہدف رہے۔اب اسلاموفوبیا اتنا قابل قبول ہوچکا ہے کہ اب وہ بمشکل ہی اسے چھپانے کی زحمت نہیں کرتے۔ برطانیہ کی سابق وزیر داخلہ سویلا بریورمین کی مثال لے لیجیے، جو کھلے عام ایک اخباری کالم لکھتی ہیں کہ ’’اسلام پسند، انتہا پسند اور سام دشمن ذمہ دار ہیں‘‘۔انتہائی دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مرکزی دھارے میں آنے کے نتیجے میں، مسلمان جن کی میں بات کرتا ہوں خوف زدہ ہیں، اور ان میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ ان کا مستقبل کہاں ہے۔انتہائی دائیں بازو کے لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمان یورپ چھوڑ دیں’’گھر واپس چلے جائیں‘‘ تاہم، ہمارے پاس ان ممالک کے علاوہ کوئی گھر نہیں ہے جہاں ہم پیدا ہوئے ہیں، رہتے ہیں، اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں، کام کرتے ہیں، اپنے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ آخر یورپ میں اس فکری و نظریاتی بحران کی وجوہات کیا ہیں؟ افغان نژاد صحافی ڈاکٹر ضیاء نظام کہتے ہیں کہ فسطائی جماعتوں کی کامیابی کا اہم عنصر اسلاموفوبیا ہے۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے نقل مکانی کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے علاوہ، سیکیورٹی اور اقتصادی حالات کے حوالے سے عوام میں وسیع پیمانے پر عدم اطمینان نے مغربی ممالک میں پاپولرزم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج، پاپولزم اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو یورپی ممالک اور ریاستہائے متحدہ میں عوام کی طرف سے اس قدر حمایت اور حمایت حاصل ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں نسلی برتری کے تصورات پر مبنی ہیں اور نسلی، ثقافتی اور مذہبی امتیاز کا پرچار کرتی ہیں۔ یورپ میں تارکین وطن کی ایک قابل ذکر اکثریت مسلمانوں کی ہے، غیر ملکی اور تارکین وطن مخالف جماعتیں اسلام مخالف بیان بازی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ کچھ انتہا پسند جماعتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کا مشن یورپ کی اسلامائزیشن کا مقابلہ کرنا ہے۔انتہائی دائیں بازو کی کٹر جماعتیں عوام کو مبہم وعدوں اور اشتعال انگیز بیان بازی سے دھوکہ دے کر ووٹ حاصل کرنے کے لیے پاپولسٹ پالیسیاں اپناتی ہیں۔ آج ان کے رہنما تمام سماجی مسائل کو نسلی اور مذہبی معاملات سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔فی الحال دائیں بازو کے پاپولسٹ گروہ اٹلی، ہنگری اور سلوواکیہ جیسے ممالک کے سیاسی منظر نامے پر حاوی ہیں، اور امکان ہے کہ وہ مستقبل میں فرانس اور امریکہ میں اقتدار میں آ سکتے ہیں۔
برگروئن انسٹیٹیوٹ یورپ کے ڈائریکٹر، لورینزو مارسیلی، دائیں بازو کی جماعتوں کے عروج کو کساد بازاری، افراط زر میں اضافہ اوربڑے تارکین وطن کی آمد سے جوڑے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں ایک حد تک سچائی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یورپ کساد بازاری سے نکل چکا ہے، معیشت اگر تیزرفتار نہیں ہے تو سکڑبھی نہیں رہی ہے۔دائیں بازو کے عروج پر یہ تجزیہ پیش کیا جاتا ہے کہ یورپی عوام تارکین وطن کی مسلسل آمد اور یکساں ثقافت کے خاتمے پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ یقیناً یورپ میں نسل پرستی ہے، اور کثیر الثقافتی معاشرے کی تعمیر بلا معاوضہ نہیں آتی۔ مگر یہ ناکافی وضاحت ہے۔وہ مقامات جہاں تارکین وطن سب سے زیادہ آباد ہیں ان میں لندن، پیرس یا میلان جیسے کاسموپولیٹن شہر ہیں۔مگر ان شہروں میں انتخابات کے دوران انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا اسکور سب سے کم ہے۔ وہ علاقے جہاں تارکین وطن کی تعداد سب سے کم ہے وہاں دائیں بازو کی جماعتیں سب سے زیادہ کامیابی حاصل کرتی ہیں ۔یورپ میں کہیں پر لوگ یہ نہیں کہتے کہ تارکین وطن کی آمد سے ان کی نوکریاں چھن گئیں بلکہ اس وقت یورپ کو آبادیاتی کمی کا سامنا ہے، یہاں تک کہ دائیں بازو کی حکومتیں بھی زیادہ تارکین وطن کے لیے صنعت کے دروازے کھولنے کی باتیں کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر، اٹلی کی دائیں بازو کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے حال ہی میں غیر ملکی کارکنوں کے لیے ورک ویزوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔لورینزو مارسیلی کہتے ہیں کہ برطانیہ اور فرانس میں دائیں بازو کی ناکامی کے باوجود اس کی امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ ان کا عروج رک جائے گا کیوں کہ آج یورپ تیزی سے پسماندہ ہورہا ہے۔ یہ عالمی معیشت کے اہم شعبوں میں تکنیکی طور پر پیچھے ہے۔ چینی برقی گاڑیاں جرمن کی جگہ لے رہی ہیں۔ یہ جغرافیائی طور پر منتشر اور عسکری طور پر کمزور ہے۔یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے بے بس ہیں ۔یورپی عوام نفسیاتی طور پر متاثر ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ ان کی نسلی برتریت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ عالمی درجہ بندی میں سال بہ سال گراوٹ دیکھ رہے ہیں۔زوال اور انحطاط کا یہی وہ احساس ہے جو قوم پرستی کے رجحان کو پروان چڑھارہا ہے۔ یورپ کی عصری قوم پرستی 20ویں صدی کی فاشزم کی توسیع پسندانہ، نوعمر قسم کی نہیں ہے۔ یہ صوبائیت، تنزلی اور تھک جانے والوں کی قوم پرستی ہے۔اگر تارکین وطن اور اقلیتیں انتہائی دائیں بازو کا ترجیحی ہدف ہیں تو یہ ان لوگوں کی شناخت کے ذریعے کمیونٹی کی تعمیر کی پرانی حکمت عملی ہے۔اس وقت قوم پرستی پوری دنیا میں عروج پر ہے۔ مشرق میں بھارت اور چین اور مغرب میں برازیل اور امریکہ میں۔ بدگمانی، خوف اور اضطراب کا یہ ایک محور ہے۔ یہ وہ مشترکہ عصری انسانی حالت ہے جس کا قوم پرستی ایک جھوٹا لیکن تنگ ذہنوں کو قائل کرنے والا جواب فراہم کرتی ہے۔ آج کی عظیم تکنیکی، سماجی اور جغرافیائی سیاسی تبدیلیاں پوری دنیا میں پہلے رویوں کے عروج کو متحرک کررہی ہے۔یہ ایک خوفناک دنیا کا صرف ایک خوفناک حصہ ہے جسے ایک نامعلوم اور غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ لورینزو مارسیلی جس قوم پرستی کی بات کررہے ہیں یہ وہی قوم پرستی ہے جو بھارت میں اس وقت عروج پر ہے۔یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ بھارت میں قوم پرستی کا تعلق شہریوں سے نہیں بلکہ مخصوص مذہب کے ایک خاص نظریہ سے ہے۔جسے ہندتو کہا جاتا ہے، قطع نظر اس سے کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اس نظریہ کو شدید نقصان پہنچاہے ۔یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس کے انتخابات کے نتائج نے بھارت میں انتہاپسندی اور ہندتو کے حامیوں کو بے چین کردیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انگلینڈاور فرانس میں دائیں بازو کی شکست کو کیا بھارت کی انتہا پسند جماعتیں آر ایس ایس اور بی جے پی اپنی شکست کے طور پر کیوں دیکھ رہی ہیں؟ دراصل حالیہ برسوں میں بالخصوص کنزرویٹو پارٹی کے دور اقتدار میں برطانیہ میں ہندو دائیں بازو جماعتوں نے برطانوی معاشرے میں تیزی سے اثر ورسوخ حاصل کیا تھا۔گزشتہ سال بھارت اور پاکستان کے میچ کے بعد لیسٹر میں فرقہ وارانہ فساد اس عروج کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔لیسٹر میں کنزرویٹو پارٹی کےاراکین کھلے عام ہندتو کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔برطانیہ کے حالیہ انتخاب میں برطانیہ میں ہندوؤں کی اشرافیہ کی جماعت ’’انسائٹ یوکے‘‘ نے ’’ہندو منشور‘‘ پیش کیا اور سیاسی جماعتوں سے اس کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا۔اگرچہ برطانیہ میں ہندوؤں کی کئی دیگر جماعتوں نے اس منشور کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دراصل اس منشور کے ذریعہ اظہار خیال کی آزادی کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ برطانیہ میں بھارت کے ہندتو سیاست کے خلاف آواز بلند نہ کی جائے ۔برطانیہ میں ہندتو کی طاقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے تقریباً ایک دہائی قبل ذات پات کے امتیاز کے خلاف قانون سازی کو روکنے میں کامیاب رہی۔جب کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ اسٹڈی میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازات کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں مگر ہندوتوا تنظیموں نے ذات پات کے خلاف قانون کے خلاف اس قدر آواز بلند کردی کہ اسے ختم کر دیا گیا اور آخرکار اسے روک دیا گیا۔ روایتی طور پر، جنوبی ایشیائی باشندے لیبرپارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ کارنیگی کے 2021 میں شائع ہونے والے ایک مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت اب کنزرویٹو پارٹی کی حمایت کرتی ہے۔ سکھوں اور مسلمانوں کی اکثریت لیبر کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔ اوورسیز فرینڈز آف دی بی جے پی تنظیم نے کنزرویٹو پارٹی کے لیے مہم چلائی۔تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ برطانیہ میں مقیم تمام ہندوشہری ہندتو اور بی جے پی کے حامی ہیں ۔(چارٹ میں دیکھا جاسکتا ہے)
یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے انتخابی نتائج نے بھارت کی دائیں بازو کی جماعتوں کو مایوس کیا ہے۔بھارت میں انتہاپسندی اور یورپی ممالک کی انتہاپسندی میں بنیادی فرق کیا ہے؟ بھارت کے حالیہ انتخاب میں تمام کوششوں کے باوجود ہندوتو جیسے سخت گیر نظریہ کے حاملین کو اقتدار سے بے دخل کیوں نہیں کیا جاسکا۔بھارت میں مقیم انگریزی صحافی سرور احمد کہتےہیں کہ پانچ ہفتوں میں چار انتخابی نتائج کو قریب سے دیکھنے سےمعلوم ہوتا ہے کہ بھارت دوسروں سے کتنا مختلف ہے۔ یہاں معاشرے کے کم پڑھے لکھے اور کمزور طبقے نے اپنے بالغ حق رائے دہی کے استعمال میں اعلی تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں زیادہ پختگی کا مظاہرہ کیا جو زیادہ تر اکثریتی سیاست کی بیان بازی کے یرغمال بنے رہے۔جبکہ فرانس میں ماہرین تعلیم، سائنسی برادری، میڈیا پرسنز، محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ کھیل کی دنیا کی ممتاز شخصیتیں بالخصوص فٹبالرز، دائیں بازو کو روکنے کے لیے کھڑے ہوگئے ۔ فرانس کی بائیں بازوکی جماعتوں نے اپنے اختلافات کو کم کیا اور دائیں بازو کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ہاتھ ملایا۔ بائیں بازو اور سنٹرل حامی جماعتوں نے ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کے لیے اپنے دو سو سے زیادہ امیدواروں کو میدان سےہٹالیا۔لیبر پارٹی کے رہنما اسٹارمر نے غزہ تنازع کے دوران اسرائیل کی حمایت کی جس کی وجہ سے انہیں مسلمانوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود، سابق لیبر لیڈر جیریمی کوربن نے، جو اب آزاد ہیں، فلسطینی کاز کی مسلسل و بھرپور حمایت کا مظاہرہ کیا ہے۔تاہم، اسٹارمر نے انتخابی مہم کے دوران یہ بھی وعدہ کیا کہ ان کی حکومت فلسطین کو تسلیم کرے گی۔
اس کے برعکس بھارت میں اگر بی جے پی اقتدار میں واپس آئی ہے تو زیادہ تر یہ شہری اور دیہی اشرافیہ کے کردار کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جو زیادہ تر تعلیم یافتہ و نام نہاد اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرکزی دھارے کے میڈیا نے جس میں ان اعلیٰ ذاتوں کا غلبہ ہے، حکومتی لائن کی آنکھیں بند کر کے حمایت کی۔ بہت سے کالم نگاروں اور بااثر شخصیتوں نے ایسا ہی کیا۔ جب گھروں کو بلڈوز کیا گیا اور یہاں تک کہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کے ذریعہ جنسی ہراسانی کے خلاف بین الاقوامی شہرت کی حامل خواتین پہلوانوں نے احتجاج کیاتو دہلی کی سڑکوں پر انہیں مارا پیٹا گیا ۔ڈاکٹروں، انجینئروں، ماہرین تعلیم، سائنسدانوں، مارکیٹ پروفیشنلز، فلم اور کھیلوں کی شخصیات وغیرہ نے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر آنکھیں بند کر لیں۔ چند بلاگروں، یوٹیوبروں اور آزاد مصنفین کو چھوڑ کر سبھی خاموش تماشائی بنے رہے۔فرانس میں بائیں بازو کی جماعتوں اور سنٹرل جماعتوں نے اپنے اختلافات جو شدید سخت نوعیت کے ہیں اور نظریاتی اختلافات کو دفن کر دیا۔مگر بھارت میں سیکیولراقدار کی حامل کہلائی جانے والی جماعتیں چاہے جنتادل یو ہو یا تلگو دیشم اور دیگر جماعتیں ہوں، سب کی سب مفادات کی شکار ہوگئیں اور اپنے نظریہ سے دست برداری اختیار کرلی۔ آزاد خیال اور سیکولر اعلیٰ ذات کے اشرافیہ اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر بھارت میں اقلیتوں کے خلاف حملے ہورہے ہیں اور نفرت کا ماحول ہے تواس کے لیے وہ بھی ذمہ دار ہیں ۔ اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش جیسی اعلیٰ ذاتوں کی اکثریت والی ریاستوں میں بی جے پی نے کلین سویپ کیا جب کہ جھارکھنڈ میں تمام پانچ درج فہرست قبائل کی مخصوص نشستوں پر بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ راجستھان میں ایس ٹی اور یہاں تک کہ ایس سی نے بی جے پی کو مسترد کردیا۔ اترپردیش میں، اگر این ڈی اے 36 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تو یہ کامیابی زیادہ تراعلیٰ ذاتوں کی بنیاد پر ملی جو آبادی کا پانچواں حصہ ہیں۔ اگر وہ بھی دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کی طرح انڈیا اتحاد کے امیدواروں کو ووٹ دیتے تو بی جے پی کا صفایا ہی ہوجاتا۔ دہلی، بنگلورو، احمد آباد، بھوپال وغیرہ جیسے اعلیٰ تعلیم والے شہروں میں بھگوا پارٹی نے ملک کے پسماندہ علاقوں کے مقابلے میں بہت اچھا مظاہرہ کیا۔ یورپ میں انتہائی پسندی اور قوم پرستی کے رجحانات دیہی علاقوں میں جڑ پکڑرہے ہیں اور یورپ کے برعکس بھارت میں اعلیٰ طبقوں میں ہندتو کی جڑیں مضبوط ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ یورپ ہو یا بھارت، انتہاپسندی اور نفرت انگیز قوم پرستی کے جذبات کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ پہلے جائزہ لیا جائے کہ انتہاپسندی اور الٹرا قوم پرستی کے نقصانات کیا ہیں اورماضی میں دنیا نے اس کی کیا قیمت چکائی ہے؟ دوسرے یہ کہ سیاسی جماعتوں اوراداروں کی ذمہ داری ہےکہ وہ حقیقی مسائل کا ادارک کریں اور پاپولزم کی راہ اختیار کرنے کے بجائے بحران سے نمٹنے کی کوشش کریں ۔یورپ میں تارکین وطن کی برادریوں اور مغرب میں سرگرم اسلامی اداروں اور بھارت میں مسلم تنظیموں و اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم نوجوانوں کی تربیت کریں ، ان میں دین کا فہم اور داعیانہ کردار پیدا کیا جائے تاکہ مسلمانوں کے تئیں جو نفرت کا ماحول پید کردیا گیا ہے اس کا خاتمہ ہوسکے۔نئی نسلوں میں انتہا پسندی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بھی کام کیا جانا چاہیے تاکہ مسلم نوجوان پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔

 

***

 فرانس کو انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے میرین لی پین کی’’نیشنل ریلی‘‘کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کو ووٹ دیں۔اس طرح کی اپیل کرنے والوں میں فرانس کی قومی فٹ بال ٹیم کے سپر سٹار Kylian Mbappé بھی شامل ہیں۔یہی وہ چیز ہے جو فرانس میں فنون لطیفہ اور دیگر اہم شعبوں سے وابستہ شخصیات کو بھارت میں فلم ، ادب و ثقافت اور دیگر اہم شعبوں سے وابستہ افراد سے ممتاز کرتی ہے ۔بھارت میں مسلم مخالف واقعات میں تیزی سے اضافہ ہونے کے باوجود کھیل اور فلمی دنیا سے وابستہ شخصیات خاموش ہیں اور کسی میں اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ بالی ووڈ، ہندوتوکے آگے نہ صرف سرنگوں ہے، بلکہ مسلم مخالف فلموں کی ہوڑ میں لگی ہوئی ہے ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024