ہندوستان کو ’’انتہا پسند ہندوؤں کا مقابلہ کرنا چاہیے اور مسلمانوں کا قتل عام روکنا چاہیے‘‘: ایرانی رہنما

نئی دہلی، مارچ 06: جمعرات کو ایران کے اعلیٰ رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک سخت الفاظ کے بیان میں ہندوستانی انتظامیہ سے "مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے” اور "انتہا پسند ہندوؤں کا مقابلہ کرنے” کی اپیل کی ہے۔ گذشتہ ہفتے دہلی کے کچھ حصوں میں فرقہ وارانہ تشدد کو جنم دینے والے شہریت ترمیمی قانون پر ہندوستان متعدد بیرونی ممالک اور تنظیموں کی طرف سے تنقید کے نشانے پر ہے۔ اس تشدد میں کم از کم 53 افراد کی ہلاکت کا دعوی کیا گیا ہے۔

خامنہ ای نے ایک ٹویٹ میں کہا "ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل عام پر پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل غمزدہ ہیں۔ ہندوستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ عالم اسلام سے ہندوستان کی تنہائی کو روکنے کے لیے انتہا پسند ہندوؤں اور ان کی جماعتوں کا مقابلہ کریں اور مسلمانوں کا قتل عام بند کریں۔”

 

منگل کے روز ہندوستان ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کے دہلی تشدد پر تبصرے کے بعد ہندوستان نے ایران کے سفیر کو طلب کر کے اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔

پیر کے روز ایک ٹویٹ میں ظریف نے دہلی کے کچھ حصوں میں ہونے والے تشدد کو "ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کی لہر” قرار دیتے ہوئے ہندوستانی حکام سے "بے جا تشدد” کو جاری نہ رکھنے کو کہا تھا۔

ہندوستان نے متعدد بین الاقوامی اداروں اور ممالک کے سربراہوں کی طرف سے اس پر کی جانے والی تنقید کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انھیں حساس وقت پر "غیر ذمہ دارانہ تبصرے” نہیں کرنے چاہیے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان رویش کمار نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا ’’ہم نے دہلی میں حالیہ تشدد کے واقعات پر کچھ بیانات دیکھے ہیں۔ اس مرحلے پر ہم اس بات کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ صورت حال تیزی سے معمول کی طرف آرہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اعتماد کی بحالی کے لیے زمینی اقدامات کر رہے ہیں اور یہ بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ امن و امان برقرار رہے۔‘‘

ہندوستان نے دہلی تشدد سے متعلق ترک صدر رجب طیب اردوغان کے تبصروں پر بھی ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ کسی بھی سربراہ مملکت سے اس طرح کے "غیر ذمہ دارانہ بیان” کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ کمار نے کہا کہ نئی دہلی نے 3 مارچ کو "مضبوط حدود” یا باضابطہ سفارتی نمائندگی کی ہے۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے بھی یہ دعوی کیا ہے کہ یہ تبصرہ "حقیقت میں غلط تھا اور ان [اردوغان] کے سیاسی ایجنڈے سے متعلق تھا۔”

27 فروری کو اردوغان نے شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کو ایک "قتل عام” کے طور پر بیان کیا تھا۔ انھوں نے انقرہ میں ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ ’’ہندوستان ابھی ایک ایسا ملک بن گیا ہے جہاں قتل عام بڑے پیمانے پر پھیل رہے ہیں۔ کس کا قتل عام؟ مسلمانوں کا قتل عام۔ کس کے ذریعہ؟ ہندوؤں کے ذریعے۔‘‘

اس سے قبل دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد پر پاکستان اور انڈونیشیا نے بھی بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔